Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

10 - 12
آئینی بحران اور اس کا دانشمندانہ حل !
آئینی بحران اور اس کا دانشمندانہ حل

الحمد للہ! کہ آئین کے مسئلہ پر جو بحران ایک عرصہ سے چلا آرہا تھا اور جس نے بڑھتے بڑھتے سنگین صورتِ حال اختیار کرلی تھی‘ بالآخر حسنِ تدبر سے اس پر قابو پالیا گیا‘ پاکستان کے افق پر جو سیاہ گھٹائیں چھائی ہوئی تھیں وہ چھٹ گئیں‘ قوم جس خطرناک موڑ پر آکھڑی ہوئی تھی وہ خطرہ ٹل گیا اور حزب اقتدار وحزب اختلاف نے متفقہ طور پر آئین منظور کرلیا‘ گویا مایوس کن حالات میں اللہ تعالیٰ کی رحمت شامل حال ہوئی‘ ناامیدی کے دھند لکے سے امید کی کرن پھوٹ نکلی‘اور ماحول میں خوشگوار فضا پیدا ہوگئی‘ فالحمد للہ حمداً کثیراً۔
یہ بحران دوسرے بہت سے مسائل کی طرح حزب اقتدار اور حزب اختلاف کی رسہ کشی کی پیداوار تھا‘ حزب اقتدار کو اپنی اکثریت پر ناز اور اپنی طاقت پر اعتماد تھا‘ وہ دستوری مسائل میں اپنی رائے پر بضد اور اپنے مجوزہ دستور کو بہر صورت منوانے پر مصر تھی۔ ادھر حزب اختلاف کی طرف سے دستور کے خلاف عوامی تحریک چلانے کا اعلان کیا جارہا تھا‘ ان کا خیال تھا کہ مجوزہ دستور چونکہ عوام کی نمائندگی نہیں کرتا‘ اس لئے عوام کی طاقت ان کے ساتھ ہوگی‘ خدانخواستہ شقاق ونفاق اور فساد باہمی کی یہ کیفیت باقی رہتی تو حالات کا جو بھیانک اور مکروہ نقشہ مرتب ہوتا‘ اس کے تصور سے بھی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ فریقین کو بروقت صحیح سمجھ آگئی‘ جانبین نے موقع کی نزاکت کو اچھی طرح محسوس کرلیا‘ غلط فہمیاں دور ہوئیں اور بڑی حد تک خیر سگالی کی فضا پیدا ہوگئی‘ حزب اختلاف کی کچھ ترمیمات قبول کرلی گئیں اور بعض ترمیمات کے بارے میں انہوں نے تسامح سے کام لیا کہ چلئے جتنا کام ہوا ہوگیا بقیہ کی تکمیل پھر ہوتی رہے گی‘ ان مایوس کن حالات میں جو کچھ ہوا وہی صد غنیمت ہے‘ بہرحال ابلیس لعین کی امیدیں خاک میں مل گئیں اور قوم تصادم اور ٹکراؤ سے بال بال بچ گئی‘ ورنہ خاکم بدہن خطرہ تھا کہ قوم کی کشتی آئین کے ساحل سے ٹکراکر ایک بار پھر ٹوٹ جائے گی‘ اللہ تعالیٰ کا بے حد شکر ہے کہ :
رسیدہ بود بلائے ولے بخیر گذشت
آئینی بحران اور اس کا دانشمندانہ حل ہمارے قومی راہنماؤں کے لئے ایک سبق آموز واقعہ کی حیثیت رکھتا ہے کہ تمام متنازع فیہ مسائل کو اسی نہج پر سلجھایا جاسکتا ہے‘ ضد‘ تعصب اور کبر وغرور سے مسائل جنم لیتے ہیں‘ کشاکشی پیدا ہوتی ہے اور انتشار پھیلتا ہے اور کشادہ ذہنی‘ روا داری اور تواضع سے افہام وتفہیم کا راستہ کھلتا ہے اور مسائل کے سلجھانے میں مدد ملتی ہے‘ ہمارے یہاں یہ بڑی بُری رسم چل نکلی ہے کہ جو شخص اپنی رائے سے موافقت کرتا ہو اس کی ہر خطا صواب ہے اور ہرگناہ ثواب اور جو شخص اختلاف رائے کا مرتکب ہو‘ اس کے لئے بد سے بدتر لفظ کا لغت سے انتخاب کرنا ضروری ہے‘ جب ہر فریق اپنے تئیں عقل کل سمجھے‘ جب مخالف کی آواز کو ہر جائز وناجائز طریقہ سے دبانے کی کوشش کی جائے اور جب متانت وسنجیدگی‘ عدل وانصاف اور باہمی عزت واحترام کے بجائے شور وشغب‘ ظلم وتعدی اور دوسروں کی تجہیل وتحمیق کو کامیابی کا راستہ فرض کرلیا جائے تو معمولی سے معمولی مسئلہ بھی عقدہٴ لاینحل ہوکر رہ جاتا ہے اور اس کے برعکس جب ہر شخص تواضع اور فروتنی کا پیکرہو‘ جب جہد للبقاء کے سفر میں ہرشخص کو دوسروں کی مدد کی ضرورت کا بھر پور احساس ہو‘ اور جب آپس میں اتحاد واعتماد اور ایثار وقربانی کی فضا قائم ہو تو دنیا کا کوئی مشکل سے مشکل مسئلہ ایسا نہیں جسے حل نہ کیا جاسکے۔
خطأ ونسیان بشریت کا خاصہ ہے اور انبیاء علیہم السلام کے ماسوا کوئی شخص نہ معصوم محض ہے اور نہ مطاع مطلق ‘ کوئی شخص کمزوریوں سے مستثنیٰ نہیں ہوسکتا‘ اسلام کی تعلیم یہ ہے کہ دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرو اور اپنی کمزوریوں پر نظر ڈالو‘ اس سے باہمی رواداری اور حق شناسی کے جذبات ابھریں گے اور باہمی محبت واعتماد کی فضا پیدا ہوگی‘ برخلاف اس کے کبر وغرور سے نفرت وبیزاری پیدا ہوگی اور عداوت وبداعتمادی کا ماحول جنم لے گا۔ شیطان یہ سمجھاتا ہے کہ اگر تم نے دوسرے کی بات مان لی تو تمہاری سبکی ہوجائے گی‘ ناک کٹ جائے گی اور دنیا تمہیں بنظر حقارت دیکھے گی‘ اس کے برعکس نبوت کی تعلیم یہ ہے کہ: ”من تواضع لله رفعہ الله ومن تکبر وضعہ الله“۔ ․․․جو اللہ کی خاطر جھک جائے اللہ تعالیٰ اسے اونچا کردیتے ہیں اور جو تکبر کرے اللہ تعالیٰ اسے نیچا کردیتے ہیں․․․ کبر سے ایک تو معاملات الجھتے ہیں‘ دوسرے خود متکبر لوگوں کی نظر میں ذلیل ہوجاتا ہے اور فروتنی سے نہ صرف معاملات سلجھتے ہیں‘ بلکہ ایسے شخص کو عزت ووقار اور قدر ومنزلت کی نظر سے دیکھا جاتا ہے۔
الغرض آئینی مصالحت سے جو خیر سگالی کی فضا پیدا ہوئی ہے‘ اسے مزید بڑھانے کی ضرورت ہے‘ باہمی توتکار سے تلخی بڑھتی ہے‘ کشیدگی میں اضافہ ہوتا ہے‘ قلوب میں نفرت وبیزاری کے کانٹے چبھتے ہیں‘ فضا مکدر اور حقائق مشتبہ ہوجاتے ہیں‘ باہر کی دنیامیں ہوا اکھڑ جاتی ہے‘ وزن گھٹ جاتا ہے اور زندگی اجیرن ہوجاتی ہے۔
قوموں کا آئین اور دستور
دستور ساز اسمبلی کے آخری اجلاس میں صدرِ مملکت کی تقریر کا یہ جملہ قابلِ قدر ہے کہ ”آئین کوئی مقدس صحیفہ نہیں کہ اس میں مناسب ترمیم نہ کی جاسکے“۔اس سے واضح ہوتا ہے کہ آئین میں بعض چیزیں اصلاح طلب ہوسکتی ہیں‘ اس ضمن میں ہماری گذارش یہ ہے کہ یہ اصلاح کا کام جتنی جلدی ہوجائے اچھا ہے‘ اس کو محض اس انتظار پر ملتوی نہیں رکھنا چاہئے کہ جب حکومت کو کسی قانون کے نفاذ میں دقت پیش آئے گی تو آئینی سقم کی اصلاح کر لی جائے گی‘ سب جانتے ہیں کہ دستور کسی قوم کا وہ بنیادی قانون ہے جو اس کے قومی وجود کے لئے خشتِ اول کی حیثیت رکھتا ہے‘ اگر اس میں ذرا بھی کجی رہ جائے تو” تاثریا می رود دیوارِ کج“ والا قصہ ہوتا ہے‘ دستور ملت کے قومی سفر کا سنگِ میل ہے جو اسے نشانِ منزل سے آگاہ کرتا ہے‘ سابقہ دساتیر کی غلطیوں نے قوم کو آج تک ”وادئ تیہ“ کا مسافر بنائے رکھا جو پچیس سال گھومی پھری‘ سفر کے تکان سے اس کے قویٰ مضمحل اور اعضاء شل ہوگئے‘ مگر اسے منزل تک رسائی نصیب نہ ہوئی‘ اگر اس متفقہ دستور میں خدانخواستہ کوئی نادانستہ غلطی بھی باقی رہی تو اندیشہ ہے نجات مشکل ہے کہ قوم آج نہیں توکل پھر اپنی منزل سے بھٹکنے لگے‘ آئین آئے دن نہیں بناکرتے‘ نہ عقلاء وجہلاء کے جمِ غفیر کا کسی چیز پر متفق ہونا آسان ہے۔
سربراہِ مملکت کی ذمہ داریاں
آئین کی متفقہ منظوری کے بعد صدرِ محترم کی شخصیت باہر کی دنیا میں بڑی قدآور ہوگئی ہے اور ان کا وزن کئی گنا بڑھ گیا ہے‘ اب ان کا تعارف صرف اکثریتی پارٹی کے لیڈر کی حیثیت سے نہیں ہوگا بلکہ پوری قوم کی نمائندگی کا تاج ان کے سر پر ہوگا اور وہ بیرونی حریفوں سے پورے عزم واعتماد کے ساتھ نمٹ سکیں گے‘ لیکن اگر ایک طرف ان کے وقار میں اضافہ ہوا ہے تو دوسری طرف پوری قوم کی عظیم مسئولیت بھی انہی پر آن پڑی ہے‘ کل فردائے قیامت میں اللہ ذو الجلال کی عدالت میں جب ان کی پیشی ہوگی تو پوری قوم کا بارِ امانت ان کے کندھوں پر ہوگا اور انہیں پوری قوم کے اعمال اور کارناموں کے بارے میں جوابدہی کرنا ہوگی‘ اگر ملک میں صحیح آئین نافذ ہوا‘ اس کی روشنی میں خدا تعالیٰ کا پسندیدہ قانون رائج ہوا اور عدالتوں میں اسلامی عدل کے مطابق فیصلے ہوئے تو ان سب کا اجر وثواب ان کے نامہ عمل کی زینت ہوگا اور اگر ان کے مرتب کردہ آئین میں ایک بھی غلطی ہوئی اور اس کے مطابق ایسے قوانین وضع کئے گئے جن پر رضائے خداوندی کی مہر ثبت نہیں تھی اور عدالتوں میں غیر اسلامی قانون کے مطابق فیصلے ہوئے تو اس کا بارگناہ بھی سربراہ مملکت کی گردن پر ہوگا‘ رعایا کے جو حقوق اللہ تعالیٰ کی جانب سے حکومت پر عائد کئے گئے ہیں اگر ان کے ادا کرنے میں کسی امیر‘ وزیر یا ماتحت افسر نے کوتاہی کی تو اس کی باز پرس صرف اسی سے نہیں بلکہ صدر مملکت سے بھی ہوگی‘ ارشاد نبوی ہے: ”الا کلکم راع وکلکم مسئول عن رعیتہ“․․․کان کھول کر سن لو! تم میں سے ہرشخص (اپنے اپنے دائرے میں) نگہبان ہے اور ہرشخص اپنی رعیت کے بارے میں مسئول ہوگا․․․۔ صدرِ مملکت کی اس اہم مگر نازک حیثیت کے پیش نظر ان کا اولین فرض یہ ہے کہ وہ آئینی اصلاحات کو فردائے انتظار پر معلق نہ رکھیں‘ بلکہ جہاں ممکن ہو جلد از جلد چوٹی کے ماہرین دساتیر اور ماہرین قانون اسلام سے مشورہ لے کرآئین کو ہرخامی سے ممکن حد تک پاک کرائیں اور پھر اس کے مطابق صحیح قوانین وضع کرائیں‘ تاکہ یہ امت رب العالمین کی رحمت اور جود وکرم کے نفحاتِ طاہرہ سے بیش از بیش متمتع ہو‘ ایسا نہ ہو آئین کچھ کہے اور قانون اسلام کچھ اور ،ایسا نہ ہو کہ ہماے دین اور ہمارے آئین کے مابین ہم آ ہنگی نہ ہونے کی وجہ سے ”اسلام درکتاب ومسلمانان در گور“ کا مضمون صادق آئے اور قرآن کریم ایسی پاکیزہ کتاب کے ہوتے ہوئے اور اس پر دعوائے ایمان کے باوجود ہمارے اعمال ایسے ہوں کہ:
جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
تمام رائج الوقت قوانین جو آئین اسلام کے خلاف ہیں‘ بیک جنبش قلم انہیں موقوف کردیا جاناچاہئے اور جدید قوانین اسلامی اصولوں کے مطابق نافذ اور رائج کئے جانے چاہئیں‘ یہی ایک صورت ہے جس کے ذریعہ ہم رحمت الٰہی کے مستحق ہوسکتے ہیں‘ قہر خداوندی سے بچ سکتے ہیں اور ایک اور مہلت جو ہمیں عطا کی گئی ہے اس سے دانشمندی کے ساتھ فائدہ اٹھا سکتے ہیں۔
آئین میں اصلاح طلب چند امور
اسلامی نقطہٴ نظر سے آئین میں کن اصلاحات کی ضرورت ہے؟ اس کے بارے میں تو اپنی ناقص رائے کا اظہار ہم اسی وقت کریں گے جب پورا آئین ہمارے سامنے آئے گا‘ البتہ اخبارات کے ذریعہ جتنا کچھ سامنے آسکا ہے‘ اس کے پیشِ نظر اپنی کم مائیگی اور بے بضاعتی کا پورا پورا اعتراف کرتے ہوئے یہاں چند امور کی طرف توجہ دلانا ضروری معلوم ہوتا ہے۔
اسلامی آئین کسے کہتے ہیں؟
آئین کے واضعین کی جانب سے بڑی شدت واصرار کے ساتھ یہ فرمایا گیا ہے کہ آئین اسلامی جمہوری اور وفاقی ہے‘ یہ امر کسی تشریح کا محتاج نہیں کہ وہی آئین ”اسلامی آئین“ کہلانے کا مستحق ہوگا جس میں اعلان کیا گیا ہو کہ:
۱:۔حکومت کا کوئی اقدام اسلام کے خلاف نہیں ہوگا۔
۲:۔مملکت کے تمام مسلم شہریوں پر اسلامی فرائض کی پابندی قانوناً لازمی ہوگی۔
۳:۔ہر شہری اسلام کے عدلِ عمرانی سے مستفید ہوگا اور اسلامی معاشیات کا نفاذ ہوگا۔
۴:۔ ممنوعاتِ شرعیہ پر اسلامی تعزیرات جاری ہوں گی۔
۵:۔ملک کی تمام عدالتیں صرف اسلامی قانون کی پابند ہوں گی اور اس آئین کے نفاذ کے دن سے تمام رائج الوقت غیر اسلامی قوانین منسوخ تصور کئے جائیں گے۔
۶:۔ خدا اور رسول اکے صریح احکام بغیر کسی مسخ وتحریف کے نافذ کئے جائیں گے اور ان پر کسی اتھارٹی کو رائے زنی کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
۷:۔ مجلس قانون ساز کا کوئی فیصلہ اگر اسلامی اصول کے منافی ہوا تو عدالتِ عالیہ میں اسے چیلنج کرنے کا ہر مسلمان کو حق ہوگا۔
۸:۔ اسلامی شعائر کا تحفظ کیا جائے گا اور ان کی بے حرمتی مستوجبِ سزا ہوگی۔
۹:۔ منافئ اسلام سرگرمیاں ممنوع ہوں گی۔
۱۰:۔ مسلمانوں کو گمراہ کرنے کی کسی کو اجازت نہیں ہوگی ۔
۱۱:۔ارتداد کو اسلام کے خلاف بغاوت تصور کیا جائے گا اور اس کی وہی سزا ہوگی جو بغاوت کی ہوسکتی ہے۔
اس میں شک نہیں کہ اسلامی نقطہٴ نظر سے نیا دستور سابقہ دساتیر سے فی الجملہ بہتر ہے‘ اس کا دیباچہ اسلام کے حق میں خاصا پُرجوش ہے‘ دیباچہٴ دستور میں اللہ کی حاکمیت کا اعلان بھی خوب ہے (اگرچہ وزیر قانون کی وضاحت کے مطابق اسے کسی قسم کا آئینی تحفظ حاصل نہیں نہ اس کی کوئی آئینی حیثیت ہے)دستور میں یہ بھی تسلیم کیا گیا ہے‘ اگرچہ بڑی ردوکد اور گریزپائی کے بعد ہی سہی) کہ ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہوگا۔ صدارتی عہدہ کے لئے اسلام کی شرط بھی رکھی گئی ہے‘ حزب اختلاف کی درخواست پر سوشلزم کا لفظ حذف کردیا گیا ہے اور یہ ضمانت بھی دی گئی ہے کہ کوئی قانون کتاب وسنت کے منافی نہیں بنایاجائے گا (اگرچہ اس کو برسوں پر معلق کردیا گیا ہے اور اس کے ساتھ مشاورتی کونسل ”ایوبی بدمست“ کالاحقہ بھی چسپاں کردیا گیا ہے) ہم ان تمام امور کے لئے واضعینِ دستور کے شکر گذار ہیں مگر یہ ساری چیزیں تو کم وبیش سابقہ دساتیر میں بھی موجود تھیں‘ سوال یہ ہے کہ کیا نئے آئین میں یہ بات کہی گئی ہے کہ ہر معاملہ میں اسلام کو بالادستی حاصل ہوگی؟ کیا کسی اسلامی عقیدے‘ اسلامی شعائر یا اسلام کے کسی اصول اور قانون کو آئینی تحفظ دیا گیا ہے؟ کیا ”اسلامی عدالت“ پر اسلامی قانون کے مطابق فیصلہ کرنے کی پابندی عائد کی گئی ہے؟ کیا اسلامی تعزیرات کے نفاذ کا اعلان کیا گیا ہے؟ کیا مسلمانوں پر اسلامی فرائض کی پابندی کو لازم کیا گیا ہے؟کیا انسدادِ ارتداد کے لئے کچھ کیا گیا ہے؟ کیا اسلام کش سرگرمیوں پر قدغن لگائی گئی ہے؟ کیا یہ اعلان کیا گیا ہے کہ اسلامی مملکت خدا ورسول کے احکام کو جوں کا توں نافذ کرنے کی پابند ہے؟ کیا یہ ضمانت دی گئی ہے کہ اگر پارلیمنٹ یا کوئی ماتحت ادارہ اسلام کے خلاف کوئی فیصلہ کرے تو اسے چیلنج کیا جاسکتا ہے؟
اگر ان تمام سوالات کا جواب نفی میں ہے تو خود اپنے ضمیر سے دریافت فرمایئے کہ یہ دستور کہاں تک ”اسلامی دستور“ کہلانے کا مستحق ہے؟ اور اللہ تعالیٰ کی نظر میں اس کی کیا قیمت ہوگی؟ اگر اسلام کے کسی اصول کو آئینی تحفظ حاصل نہیں اور صرف وعظ کے درجہ میں عوام کی نمائش کے لئے اسلام کا نام لیا گیا ہے تو کیا یہ ایسی چیز ہے جس پر مسرت وشادمانی کے شادیانے بجائے جائیں؟ کیا اسے اسلام سے وفاداری کہا جائے گا؟ اور کیا ہمارا یہ طرز عمل حق تعالیٰ کی رضا ورحمت کا موجب ہوگا؟
رحمتِ الٰہی اور رضاء خداوندی حاصل کرنے کا طریقہ
بالکل ظاہر ہے کہ جب تک نفاق کو ترک کرکے اسلامی قانون کو اپنانے کا عہد نہیں کیا جائے گا جب تک زندگی اسلامی ڈھانچے میں نہیں ڈھالی جائے گی اور جب تک قول اور فعل کا تضاد ختم نہیں کیا جائے گا جو آج تک ہماری زندگی کا مستقل وطیرہ رہا ہے تب تک حق تعالیٰ کی رحمت کی کیا امید ہوسکتی ہے؟ قول وفعل اور عقیدہ وعمل کا تضاد حق تعالیٰ کے نزدیک نہایت مکروہ اور ناپسندیدہ چیز ہے‘ ارشاد خداوندی ہے:
”یا ایہا الذین آمنوا لم تقولون مالاتفعلون‘ کبر مقتاً عند الله ان تقولوا مالا تفعلون“۔ (الصف:۲و۳)
ترجمہ:․․․”اے ایمان والو! ایسی بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو‘ خدا کے نزدیک یہ بات بہت ناراضگی کی ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں“۔
پاکستان کی ابتدائی نشأة سے آج تک قوم کو طفل تسلیوں سے بہلایا گیا کہ یہاں اسلامی قوانین مرتب اور نافذ ہوں گے‘ کبھی نمائش کے لئے تعلیماتِ اسلام کا بورڈ قائم کیا گیا‘ کبھی مشاورتی کونسل تشکیل کی گئی‘ کبھی تحقیقاتی ادارے بنائے گئے مگر اسلامی قانون کا خواب آج تک شرمندہٴ تعبیر نہ ہوسکا۔ ان بورڈوں کے سامنے شعائر اللہ کی تخفیف ہوئی‘ ان مشاورتی کونسلوں کے علی الرغم محرمات کو فروغ دیا گیا اور ان تحقیقاتی اداروں کے جلو میں کفر والحاد کو رائج کیا گیا‘ اسلامی عقائد کو پامال کیا گیا اور اسلامی شعائر کو مسخ کیا گیا‘ آخر اس نفاق اور دوعملی کا نتیجہ کیا نکلا؟ نہ صرف یہ کہ آمروں کا یہ ٹولہ اپنے ساختہ پر داختہ دستوروں سمیت ”فخسفنا بہ وبدارہ الارض“ کی یاد تازہ کرگیا بلکہ اپنے نفاق وبدعملی کی بدولت قوم کو بھی آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا کر گیا‘ نصف ملک ٹوٹ چکاہے اور باقی کا خدا حافظ‘ انا للہ وانا الیہ راجعون‘ عوام کو چند دن غلط فہمی میں مبتلا رکھا جاسکتا ہے‘ خوش آئند وعدوں اور خواب آور تھپکیوں کے سہارے انہیں کچھ عرصہ کے لئے سلادیا جاسکتا ہے لیکن بالآخر اس تزویر وفریب کی قلعی کھل جاتی ہے اور حق تعالیٰ کو تو ایک لمحہ کے لئے بھی دھوکا نہیں دیا جاسکتا:
باخدا تزویر وحیلہ کے رواست
البتہ وہ ظالموں اور سرکشوں کو ڈھیل دیتا ْہے‘ غافلوں اور مجرموں کو مہلت دیتا ہے‘ اور نافرمانوں اور بدکاروں سے در گذر کرتا رہتا ہے‘ اس کے اسی حلم وعفو سے کچھ لوگ غلط فہمی میں مبتلا ہوجاتے ہیں جو شقاوت وبدبختی کی علامت ہے‘ حق تعالیٰ کا ارشاد ہے:
”أفأمنوا مکر الله فلایأمن مکر الله الا القوم الخاسرون“۔ (الاعراف:۹۹)
ترجمہ:۔”ہاں! تو یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی ناگہانی پکڑسے نڈر ہوگئے تو (خوب سمجھ رکھو)کہ اللہ تعالیٰ کی ناگہانی گرفت سے کوئی نڈر نہیں ہوتا ماسوا ان کے جن کی شامت ہی آگئی ہو“۔
اور آنحضرت رسالتمآب ا کا ارشاد ہے:
”ان الله لیملئ الظالم حتی اذا اخذہ لم یفلتہ‘ ثم قرأ: وکذلک اخذ ربک اذا اخذ القریٰ وہی ظالمة‘ ان اخذہ الیم شدید“۔ (صحیح بخاری)
ترجمہ․․․”بلاشبہ اللہ تعالیٰ ظالم کو مہلت ضرور دیتے ہیں تاآنکہ جب اسے پکڑتے ہیں تو پھر اسے چھوڑتے نہیں‘ یہ فرماتے ہوئے آپ نے یہ آیت تلاوت فرمائی: ”اور آپ کے رب کی دارو گیر ایسی ہی (سخت ہوتی) ہے جب وہ کسی بستی والوں پر دار وگیری کرتا ہے جبکہ وہ ظلم کیا کرتے ہوں بلاشبہ اس کی پکڑ بڑی دردناک اور سخت ہے“۔
کس کو کب تک ڈھیل دی جائے؟ اور اسے کب اور کس طرح پکڑاجائے؟ یہ حق تعالیٰ کے تکوینی مصالح ہیں، جن کو وہی جانتا ہے۔ نعوذ باللّٰہ من غضب الله وغضب رسولہ۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: چند اہم اسلامی آداب !
Flag Counter