Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

3 - 12
اسلامی تاریخ کے کچھ نمایاں گوشے !
اسلامی تاریخ کے کچھ نمایاں گوشے
پیکر علم وعمل امام اعظم ابوحنیفہ
امام اعظم ابو حنیفہ جس طرح علم وفضل اور فقہ میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے اسی طرح اخلاق وکردار کے لحاظ سے بھی آپ یکتائے روزگار تھے‘ آپ کی فکر اور علمی وسعت نے قیامت تک کے لوگوں کے لئے بہترین لائحہ عمل اور بے مثال اخلاق عطاء کیا ہے‘ یوں تو امام اعظم ابوحنیفہ کے عظیم اخلاق وکردار کو بیان کرنے کے لئے تاریخ وتذکرہ کی کتابوں سے متعدد واقعات کو بطور استشہاد اور مثال پیش کیا جاسکتا ہے لیکن ان کے اخلاق وکردار کی جو تصویر خلیفہ ہارون الرشیدکے دربار میں قاضی القضاة امام ابو یوسف نے پیش کی ہے‘ اس کی جامعیت اور افادیت اندازے سے باہر ہے۔
امام غزالی لکھتے ہیں: ایک مرتبہ خلیفہ ہارون الرشید نے امام ابویوسف سے کہا کہ امام اعظم ابوحنیفہ کی سیرت کے اوصاف بیان کیجئے! آپ نے فرمایا: امام اعظم ابو حنیفہ محارم (حرام چیزوں) سے شدید اجتناب کرتے تھے‘ بلاعلم ‘ دین میں کوئی بات کہنے سے سخت ڈرتے تھے‘ اہل دنیا کے منہ پر کبھی ان کی تعریف وتوصیف نہیں کرتے تھے‘ اتنے علم وفضل کے باوجود انتہائی سادہ اور منکسر المزاج تھے‘ جب آپ سے کوئی سوال کیا جاتا تو کتاب وسنت کی طرف رجوع کرتے اور اگر اس کی نظیر ومثال قرآن وحدیث میں نہ ملتی تو پھر قیاس واجتہاد کی طرف توجہ کرتے‘ نہ کسی شخص سے طمع کرتے اور نہ بھلائی کے سوا کسی کا تذکرہ کرتے ۔ خلیفہ ہارون الرشید یہ سن کر کہنے لگا: صالحین کے اخلاق ایسے ہی ہوتے ہیں‘ پھر اس نے کاتب کو یہ اوصاف لکھنے کا حکم دیا اور اپنے بیٹے سے کہا کہ ان اوصاف کو یاد کرلو۔
(تذکرة المحدثین)
امام فخر الدین رازی ‘ امام اعظم ابوحنیفہ کی سیرت بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
ایک مرتبہ امام اعظم کہیں جا رہے تھے‘ راستے میں زبردست کیچڑ تھا‘ ایک جگہ آپ کے پاؤں کی ٹھوکر سے کیچڑ اڑکر ایک شخص کے مکان کی دیوار پر جالگا‘ یہ دیکھ کر آپ بہت پریشان ہوگئے کہ کیچڑ اکھاڑ کر دیوار صاف کی جائے تو خدشہ ہے کہ دیوار کی کچھ مٹی اتر جائے گی اور اگر یوں ہی چھوڑ دیا تو دیوار خراب رہتی ہے۔ آپ اسی پریشانی میں تھے کہ صاحب خانہ کو بلایا گیا‘ اتفاق سے وہ شخص مجوسی تھا اور آپ کا مقروض بھی‘ آپ کو دیکھ کر سمجھا کہ شاید قرض مانگنے آئے ہیں‘ پریشان ہوکر عذر اور معذرت پیش کرنے لگا‘ آپ نے فرمایا: قرض کی بات چھوڑو‘میں اس فکر وپریشانی میں ہوں کہ تمہاری دیوار کو کیسے صاف کروں‘اگر کیچڑ کھرچوں تو خطرہ ہے کہ دیوار سے کچھ مٹی بھی اتر آئے گی اور اگر یوں ہی رہنے دوں تو تمہاری دیوار گندی ہوتی ہے‘ یہ بات سن کر وہ مجوسی بے ساختہ کہنے لگا حضور! دیوار کو بعد میں صاف کیجئے گا پہلے مجھے کلمہ طیبہ پڑھا کر میرا دل صاف کردیں‘ چنانچہ وہ مجوسی آپ کے عظیم اخلاق وکردار کی بدولت مشرف بہ اسلام ہوگیا۔
حضرت اویس قرنی:
حضرت اسیر ابن جابر فرماتے ہیں کہ سیدنا عمر بن خطاب کے پاس جب اہل یمن میں سے کوئی کمک آتی تو وہ ان سے پوچھتے کہ تم میں اویس بن عامر ہیں؟ تو انہوں نے کہا : ہاں فرمایا: آپ قبیلہ مراد سے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں! کیا آپ کو برص کی بیماری تھی اور اب اس کا نشان ایک درہم کے برابر رہ گیا ہے اور باقی داغ ختم ہوگئے ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں! حضرت عمر نے فرمایا: میں نے رسول اللہ ا سے سنا ہے کہ اہل یمن کی امداد کے ساتھ تمہارے پاس قبیلہ مراد سے قرن کے ایک شخص آئیں گے جن کا نام اویس بن عامر ہوگا‘ ان کو برص کی بیماری تھی اور اب ایک درہم کی مقدار کے علاوہ باقی ٹھیک ہوچکی ہوگی‘ قرن میں ان کی والدہ ہیں جن کے ساتھ وہ بہت نیکی کرتے ہیں‘ اگر وہ کسی چیز پر اللہ کی قسم اٹھالیں تو اللہ تعالیٰ اسے ضرور پورا کرے گا‘ اگر تم سے ہوسکے تو ان سے مغفرت کی دعا کرانا سو اب آپ میرے لئے مغفرت کی دعا کیجئے تو حضرت اویس قرنی نے ان کے لئے دعا فرمائی ۔ (صحیح مسلم)
خلیفہ ہارون الرشید کی نظر میں علماء کا مقام:
مشہور عالم دین ابو معاویہ ضریر بیان کرتے ہیں کہ ایک دن میں نے مشہور عباسی خلیفہ ہارون الرشید کے ساتھ کھانا کھایا‘ ایک آدمی نے میرے ہاتھ دھلوائے مگر میں اسے نہ پہچان سکا (کیونکہ ابو معاویہ نابینا تھے) ہارون الرشید نے مجھ سے پوچھا: کیا آپ جانتے ہیں کہ آپ کے ہاتھ کس نے دھلوائے ہیں؟میں نے کہا: نہیں‘ میں نہیں جان سکا۔ تب ہارون الرشیدنے بتایا کہ آپ کی علمی وفقہی عظمت کے پیش نظر میں نے ہی آپ کے ہاتھ دھلوائے ہیں۔ (تاریخ الخلفاء)
حضرت ابوبکرصدیق  کے لئے ہے خدا کا رسول ا بس! ایک مرتبہ حضور علیہ السلام نے صحابہ کرام سے اللہ تعالیٰ کی راہ میں مال طلب کیا تو شاہراہ عشق ومحبت کے سالکین دوڑ پڑے‘ کوئی اپنا چوتھائی مال لے کر آیا تو کوئی اپنی آدھی متاع لے کر آیا اور آسمان محبت کے نیر اعظم حضرت ابوبکر صدیق اپنے گھر کا سارا کا سارا گھر اٹھالائے‘ حضور اکرم ا نے پوچھا اے ابوبکر! اپنے اہل وعیال کے لئے کیا چھوڑ کر آئے ہو؟ کاروان عشق کے سالار اعلیٰ حضرت صدیق اکبر نے بڑا ہی پیار اور دلربا جواب دیا جو آج بھی تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے مرقوم ہے‘ عرض کیا: یا رسول اللہ ! اپنے گھر والوں کے لئے اللہ اور رسول (کی رضا) چھوڑ کر آیاہوں‘ اس جذبہ مقدس کو شاعر مشرق علامہ محمد اقبال یوں بیان کرتے ہیں:
پروانے کو چراغ بلبل کو پھول بس
صدیق کے لئے ہے خدا کا رسول بس
نماز کی عظمت واہمیت:
صحابی رسول حضرت ابو طلحہ انصاری ایک مرتبہ اپنے باغ میں نماز پڑھ رہے تھے کہ اچانک ایک پرندہ اڑا اور باغ کے گنجان ہونے کے باعث اسے باہر جانے کا راستہ نہ ملا جس کی وجہ سے وہ پھڑ پھڑاتا ہوا درختوں کے درمیان سے باہر جانے کا راستہ ڈھونڈتارہا‘ اس کی پھڑ پھڑاہٹ سن کر حضرت ابوطلحہ کی نظر اس پرندے پر جاپڑی اور نظر وخیال دونوں پرندے کی جانب مبذول ہوگئے‘ جس کی وجہ سے وہ یہ بھی بھول گئے کہ میں کون سی رکعت پڑھ رہا ہوں‘ نماز میں سہو ہوجانے اور نماز سے غافل ہونے اور نماز میں دوسری طرف متوجہ ہوجانے پر انہیں بہت زیادہ افسوس اور دکھ ہوا‘ چنانچہ آپ نے فوراً حضور اقدس ا کی بار گاہ میں حاضر ہوکر پورا قصہ سنایا اور عرض کیا: یا رسول اللہ! چونکہ یہ مصیبت میرے باغ کی وجہ سے پیش آئی ہے‘ اس لئے میں اس باغ کو اللہ تعالیٰ کی راہ میں وقف کرتا ہوں‘ آپ ا جہاں چاہیں اس باغ کو صرف فرمادیں۔
اللہ تعالیٰ ہم کو اسلامی تاریخ سے واقفیت نصیب فرمائے تاکہ ہم بہتر مستقبل کے خطوط متعین کر سکیں۔ آمین․
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: یکطرفہ خلع خلاف شرع (۲) !
Flag Counter