Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء

ہ رسالہ

2 - 12
یکطرفہ خلع خلاف شرع (۲) !
یکطرفہ خلع خلاف شرع (آخری قسط)
ملاحظہ کیجئے ! مذکورہ نکات سے واضح ہو تا ہے کہ شروع سے لے کر آخر تک قرآن کریم نے میاں بیوی کو خلع کے معاملے میں شریک رکھا ہے اور ساری گفتگو ایسی صورت میں فرمائی ہے کہ جب میاں بیوی دونوں خلع کی ضرورت محسوس کریں یا اس پر رضامند ہوں ،چنانچہ درج ذیل چار الفاظ سے اس دعوی کی صداقت واضح ہو جاتی ہے ۔مثلا :
۱:۔”الا ان یخافا“ ”مگر یہ کہ دونوں کو اندیشہ ہو“
۲:۔”ان یقیما“ ” کہ وہ دونوں قائم نہ رکھ سکیں گے “
۳:”فان خفتم ان لا یقیما“ ”اگر تم کو خوف ہو کہ وہ دونوں اللہ کے ضوابط کو قائم نہ رکھ سکیں گے “
۴:۔”فلا جناح علیھما“ ” ان دونوں پر خلع کرنے کا معاملہ کرنے میں کوئی گناہ نہیں“
۲: ۔قرآن کریم نے بدلِ خلع کے لئے فدیہ کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ”فیما افتدت بہ“ ( اس فدیے کی دینے میں جس کو دے کر عورت نکاح کی قید سے آزادی حاصل کرلے ) فدیہ جنگی قیدیوں کی رہائی کے لئے دی جانے والی رقم کو کہتے ہیں جس میں جانبین کی رضامندی ضروری ہوتی ہے ۔
علامہ ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ فدیہ کے لفظ میں معاوضہ کا معنی ہے اور معاوضہ میں باہمی رضامندی ضروری ہے ۔
”وفی تسمیتہ صلی اللّٰہ علیہ وسلم الخلع فدیہ دلیل علی ان فیہ معنی المعاوضة ولھذا اعتبر فیہ رضا الزوجین “ (زاد المعاد:۳/ ۳۰۴۔)
ترجمہ: اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خلع کا نام فدیہ رکھا یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اس میں معاوضہ کے معنی پائے جاتے ہیں اور اس لئے اس میں زوجین کی رضامندی کو لازمی قرار دیا ۔
۳:۔”فان خفتم “سے جملہ شرطیہ شروع ہوتا ہے اور ”فلاجناح علیھما فیماافتدت بہ“ جملہ جزائیہ ہے ، جزا سے کہیں یہ ثابت نہیں ہورہا کہ اگر زوجین اندیشہ محسوس کریں کہ وہ اللہ کی حدیں قائم نہیں رکھ سکیں گے توحکام ان کے درمیان تفریق کردیں ۔ ۴:۔خلع کی صورت میں شوہر کچھ مالی مفاد حاصل کرلیتا ہے جبکہ طلاق دینے کی صورت میں مالی فوائد سے یکسر محروم رہتا ہے ، اس لئے بجائے طلاق کے شوہر کیلئے خلع باعث کشش ہے ، بسا اوقات شوہر خلع دینے پر رضامند ہوتا ہے مگر بیوی یاتو جدائی ہی نہیں چاہتی یا چاہتی ہے مگر جدائی کے بدلے مہر وغیرہ سے دستبردار ہونے پر تیار نہیں ہوتی۔ سوال یہ ہے کہ کیا عدالت شوہر کی خواہش پر بیوی کو زبردستی خلع لینے پر مجبور کرسکتی ہے ؟ ظاہر ہے عدالت ایسا اختیار نہیں رکھتی پس آیت شریفہ کی رو سے جس طرح بیوی کی رضامندی ضروری ہے اسی طرح شوہر کی رضامندی بھی ضروری ہے ۔
۵:۔ایک مقدمہ فرض کیجئے کہ شوہر طلاق نہیں دینا چاہتا اور عورت طلاق چاہتی ہے مگر مہر نہیں چھوڑنا چاہتی ، علیحدگی کی کوئی اور معقول وجہ بھی موجود نہیں اور حکام کو صرف اندیشہ نہیں بلکہ یقین ہے کہ دونوں حدود اللہ قائم نہیں رکھ سکیں گے ، کیا ”فان خفتم “کے خطاب کی وجہ سے حکام زبردستی ان کا نکاح منسوخ اور کالعدم کرسکتے ہیں ؟
۶:۔آیت شریفہ اپنی گفتگو میں میاں بیوی دونوں کو شریک رکھتی ہے ”ولا یحل لکم “سے شوہر کو مال واپس لینے سے منع کردیا گیا ہے ، ”الا ان یخافا “سے ایک صورت میں اجازت دی گئی ، ”ان لا یقیما حدود اللہ “کے الفاظ سے بدل خلع کے جواز کو بیان کیا گیا ہے ، مگر مال کے بدلے علیحدگی کی صورت میں زوجین کو مال کی ادائیگی ووصولی میں گناہ کا شک ہوسکتا تھا ، ”فلا جناح علیھما “کے الفاظ سے اس تردد کو زائل کردیا گیا ۔
ہر وہ شخص جسے سخن فہمی کا سلیقہ ہو وہ ان علیحدہ علیحدہ جملوں اور آیت شریفہ کے مجموعی تأثر سے یہی مفہوم اخذ کرے گا کہ خلع میں میاں بیوی دونوں کی رضامندی ضروری ہے جب تک زبان وبیان کے قاعدوں کا خون نہ کیا جائے، اور خواہشات کا رندہ قرآن کریم پر نہ چلایا جائے ، اس وقت تک شوہر کی رضامندی کے بغیر خلع کا جواز آیت شریفہ سے ثابت نہیں ہوتا ۔
۷:۔میاں بیوی مل کرنکاح کی صورت میں ایک” گرہ“ لگاتے ہیں مگر قرآن کریم کے بیان کے مطابق یہ گرہ لگنے کے بعد صرف شوہرہی اسے کھول سکتا ہے ، یعنی طلاق کا اختیار صرف مردکے ہاتھ میں ہے ۔”الذی بیدہ عقدة النکاح “․․․․جس کے ہاتھ میں نکاح کی گرہ ہے ۔
عمرو بن شعیب کی مرفوع روایت میں ہے جو سند کے لحاظ سے حسن درجے سے کم نہیں کہ” اس سے مراد شوہرہے ، حضرت علی  اور ابن عباس  سمیت صحابہ کی اکثریت سے یہی تفسیر منقول ہے ، حافظ ابن جریر طبری نے بھی ناقابل انکار دلائل سے یہی ثابت کیا ہے ۔ خلع کی شرطیں بھی وہی ہیں جو طلاق کی ہیں ، اور طلاق میں شوہر کی مرضی واجازت شرط ہے اس لئے خلع میں بھی شوہر کی رضامندی شرط ہے ، وشرطہ شرط الطلاق (فتاوی ھندیہ: ۱/۵۱۵)․․․ خلع کی شرائط وہی ہیں جو طلاق کی ہیں۔
۸:۔حنفی ،شافعی ، مالکی ، حنبلی اور ظاہری سمیت تمام ائمہ مجتہدین اس نظریئے میں ہم خیال وہم زبان ہیں کہ خلع میں میاں بیوی دونوں کی رضامندی شرط ہے ۔
حنفی مسلک :
”والخلع جائز عند السلطان وغیرہ لانہ عقد یعتمد التراضی “( المبسوط :۶/ ۱۷۳۔ط: )
شافعی مسلک :
”لان الخلع طلاق فلا یکون لأحد ان یکلف عن احد اب ولا سید ولا ولی ولا سلطان “ (الامام الشافعی : الام :۵/ ۳۰۰ مکتبہ الازہریہ )
مالکی مسلک :
”وتجبر علی الرجوع الیہ ان لم یرفراقھما بخلع او بغیرہ “ ( المنتقی:۷/ ۶۱ )
حنبلی مسلک
”لانہ قطع عقد بالتراضی فاشبہ الاقالة “ابن قدامة ، المغنی :۷/ ۵۲ دار المنار
ظاہری مسلک :
”الخلع ھو الاقتداء …وانما یجوز بتراضیھما۔“
(ابن حزم ، المحلی : ۱۰/۲۳۵ ادارہ الطباعة المنیریة )
حضرت جمیلہ  کا واقعہ
بخاری شریف میں حضرت ابن عباس سے روایت ہے کہ حضرت ثابت بن قیس کی بیوی (جمیلہ) حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور عرض کیا کہ یارسول اللہ میں ثابت بن قیس کے اخلاق اور دین داری سے ناراض نہیں ہو ں ، لیکن میں اسلام لانے کے بعد کفر کی باتو ں سے ڈرتی ہوں ، حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم ان کو ان کا باغ (جو انہوں نے بطور مہر دیا تھا ) لوٹادوگی ؟ انہوں نے کہا ہاں، تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت سے کہا کہ تم باغ قبول کر لو اور انہیں ایک طلاق دے دو ۔
بعض حضرات اس واقعے سے استدلال کرتے ہیں کہ مذکورہ خلع کا واقعہ شوہر کی مرضی کے خلاف ہوا تھا۔مگر سنن نسائی کی روایت سے معلوم ہو تا ہے کہ مذکورہ معاملہ شوہر کی رضامندی سے ہواتھا۔نسائی کے الفاظ یہ ہیں:
”فارسل الی ثابت فقال لہ خذ الذی لہا علیک،وخل سبیلہا، قال نعم“۔ (۹/۳۲۹،؛ المطبعہ البہیہ)
یعنی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ثابت  کے پاس پیغام بھیجا،کہ جو مال ان کا تم پر واجب ہے وہ لے لو،اور ان کو چھوڑ دو ،حضرت ثابت نے کہا ٹھیک ہے:
”قال نعم“ کے الفاظ اس مفہوم و مدعا میں بالکل واضح ہیں کہ حضرت ثابت نے خلع قبول کی تھی،اور جب شوہر خلع قبول کرلے تو بحث کی ضرورت ہی نہیں رہتی ،علاوہ ازیں اگر صرف حاکم کا اطمینان کافی ہوتا جیسا کہ ہماری عدالتوں کا دستور ہے تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ استفسار کرنے کی ضرورت ہی نہ تھی کہ کیا تم ان کا باغ لوٹا دو گی؟ بلکہ جوں ہی آپ خلع کی ضرورت محسوس فرماتے بحیثیت حاکم ہو نے کے فیصلہ صادر فرمادیتے۔
رہا یہ امر کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے شوہر کو حکم دیا تھا کہ باغ لے لو اوراسے طلاق دے دو،تو اس حکم کی حیثیت محض مشورے کی تھی جیسا کہ بخاری کے مستند شارحین حافظ ابن حجر، علامہ عینی اور قسطلانی نے لکھا ہے :
”ھو امر ارشاد واصلاح لا ایجاب “ ( فتح الباری:۹/۳۲۹)
نیز اگر حاکم زوجین کی رضامندی کے بغیر خلع کی ڈگری جاری کرنے کا مجاز ہو تا تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت ثابت کو طلاق کا حکم دینے کی ضرورت ہی نہ تھی ،امام ابو بکر جصاص رازی نے حضرت جمیلہ کے واقعے سے یہی نکتہ کشید کیا ہے۔چنانچہ وہ فرماتے ہیں:
”اگر یہ اختیار سلطان کو ہو تا کہ وہ یہ دیکھیں کہ زوجین حدو د اللہ کو قائم نہیں کریں گے،تو ان کے درمیان خلع کا فیصلہ کردے خواہ زوجین خلع چاہیں یا نہ چاہیں تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم ان دونوں سے سوال ہی نہ فرماتے اور نہ شوہر سے یہ فرماتے کہ تم ان سے خلع کرلو،بلکہ خود خلع کا فیصلہ فرماکر عورت کو مرد سے چھڑادیتے اور شوہرکو اس کا باغ واپس لوٹا دیتے،خواہ وہ دونوں اس سے انکار کرتے یا ان میں سے کوئی ایک انکار کرتے،چنانچہ لعان میں زوجین کے درمیان تفریق کا اختیار چونکہ حاکم کو ہوتا ہے اس لئے وہ لعان کرنے والے شوہر سے یہ نہیں کہتا کہ تم اپنے بیوی کو چھوڑ دو بلکہ خود ان دونوں کے درمیان تفریق کر دیتا ہے۔“ (احکام القرآن:۱/۳۹۵،ط: سہیل اکیڈمی لاہور)
حکمین کا اختیار تفریق:
زوجین کے پاس مفاہمت کے لئے جو حکمین بھیجے جاتے ہیں ۔امام مالک کے نزدیک اگروہ مناسب سمجھیں تو زوجین میں تفریق بھی کرسکتے ہیں۔بعض دیگر ائمہ بھی اس سلسلے میں امام مالک کے ہم خیال ہیں،جب کہ امام ابو حنیفہ ، امام شافعی، امام احمد بن حنبل اور دوسرے تمام فقہاء رحمہم اللہ کا مسلک یہ ہے کہ جب تک شوہر حکمین کو تفریق کے سلسلے میں اپنا نمائندہ و مختار نہ بنائیں اس وقت تک ان کو شوہر کی مرضی کے بغیر تفریق کرنے کا حق حاصل نہیں ،دونوں جانب کے فقہاء نے ” سورہ نساء “ کی آیت نمبر۳۵ اور چند آثار سے استدلال کیا ہے۔ ”سورہ نساء“ میں ہے:اگر وہ دونوں (حکمین) اصلاح کا ارادہ کریں گے تو اللہ تعالیٰ زوجین کے درمیان موافقت پیدا فرمادے گا۔
آیت شریفہ کے اس ٹکڑے سے معلوم ہو تا ہے کہ حکمین تفریق و علیحدگی کے لئے نہیں بلکہ پھوٹ سے بچانے کے لئے جارہے ہیں۔ امام شافعی نے کتاب الام میں ذکر کیا ہے:
حاکم کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ حکمین کو اپنی رائے سے شوہر کے حکم کے بغیر تفریق کا حکم دے۔
”لیس لہ ان یامرہما یفرقان ان رایا الا بامر الزوج“(کتاب الام:۵/۱۹۴)
امام ابن حزم الظاہر ی بہت سختی کے ساتھ لکھتے ہیں:
”لیس فی الآیةولا شئی من السنن ان للحکمین ان یفرقا ولا ان ذالک للحاکم۔المحلیٰ “ ( ۱/۸۸ط: ادارہ طباعہ منیریہ)
یعنی کسی آیت یا کسی حدیث سے یہ ثابت نہیں ہوتا ، کہ حکمین کو میاں بیوی کے درمیاں علیٰحدگی کرنے کا اختیار ہے اور نہ یہ اختیار حاکم کو ثابت ہو تا ہے۔
معقول اسباب کی بناء پر تفریق:
جو حقوق بیوی کے شوہر پر واجب ہیں وہ دو قسم پر ہیں: ایک وہ ہیں جو قانونی حیثیت رکھتے ہیں جن کے بغیر نکاح کے مقاصد اور مصالح حاصل نہیں کئے جاسکتے ،مثلاً نان و نفقہ کی ادائیگی ،وظائف زوجیت وغیرہ۔یہ حقوق بزور عدالت حاصل کئے جاسکتے ہیں ،بعض اوقات عورت بہت مشکل سے دو چا ر ہوجا تی ہے۔ ظالم شوہر نہ ٓاباد کرتاہے اور نہ خوش اسلوبی سے رہائی دیتاہے۔کبھی لا پتہ ہو جاتا ہے، کبھی پاگل ہو تا ہے،کبھی نامرد ہو تا ہے اورکبھی جان بوجھ کر نان نفقہ ادا نہیں کرتا۔ ایسی صورتوں میں شوہر پر واجب ہو جاتا ہے، کہ وہ طلاق دے دے اگر وہ طلاق سے انکار کرے تو عدالت اس کی مرضی کے بغیر تنسیخ نکاح کر سکتی ہے۔
اس کے برخلاف بعض حقوق ایسے ہیں جن کی ادائیگی شوہر پر دیانتا ً ضروری ہے،لیکن وہ قانونی حیثیت نہیں رکھتے اور انہیں بزور عدالت حاصل نہیں کیا جاسکتا ، مثلاً شوہر بیوی کے ساتھ حسن سلوک یا خوش اخلاقی کے ساتھ پیش نہ آتا ہو ایسے حقوق کو بذریعہ عدالت نہیں منوایا جاسکتا۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ شوہر کی رضامندی کے بغیر یک طرفہ طور پر خلع کی ڈگری صادر کرنا از روئے شرع درست نہیں ۔
اشاعت ۲۰۰۹ ماہنامہ بینات , جمادی الاخریٰ ۱۴۳۰ھ بمطابق جون ۲۰۰۹ء, جلد 72, شمارہ 6

    پچھلا مضمون: قلم درکفِ دشمن است
Flag Counter