Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1437ھ

ہ رسالہ

8 - 18
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟

دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
	
جب جاندار کا چہرہ مٹا ہوا ہو تو تصویر کے حکم میں ہے یا نہیں؟
سوال… ہمارا ادارہ ایک تدریسی ، تصنیفی او راشاعتی ادارہ ہے، ادارے کی مطبوعات میں اسکولوں کی نصابی کتب اور بچوں کا ایک ماہ نامہ شامل ہے، ان کتب اور رسالوں میں اصلاحی، تفریحی او رمعلوماتی تحریری مواد کے ساتھ ساتھ بچوں کی نفسیات اور دل چسپی کو مدِنظر رکھتے ہوئے کچھ خاکے بھی شائع کیے جاتے ہیں، جو کہ استفتاء کے ساتھ منسلک ہیں۔

مدعا یہ ہے کہ آیا یہ منسلکہ خاکے، ان تصاویر کے حکم میں آتے ہیں جن کے بارے میں احادیث میں ممانعت آئی ہے، یا یہ حضرت عائشہ رضی الله عنہا کی ان گڑیوں کے زمرے میں آتے ہیں، جن کو علمائے کرام جائز بتلاتے ہیں؟ (کما فی معارف الحدیث، حصہ ششم، کتاب المعاملات والمعاشرت،ص:303، مطبوعہ دارالاشاعت، سنِ اشاعت:2007ء)

چوں کہ مطلقاً تصاویر کی حرمت کے ہم بھی قائل ہیں، لہٰذا اگر تصویر کی حرمت کے بارے میں مطلقاً احادیث ذکر کرنے کے بجائے اس بات کی وضاحت کر دی جائے کہ منسلکہ خاکے، تصاویر کے حکم میں اور شرعاً حرام ہیں یا نہیں؟ تو باعث اطمینان رہے گا۔واضح رہے کہ بنانے والے نے ان خاکوں کو ابتداءً ہی سے ایسا بنایا ہے، یہ نہیں کہ اصل کو پلٹا گیا ہے یا بعد میں چھپایا گیا ہے۔ اگر احتیاطاً یامصلحتاً ممانعت کا حکم لگایا جائے تو براہ کرم اس کی وجوہات اور نظائر بھی ذکر کر دی جائیں تو ایک ذہن مشوش نہ ہو گا اور اور دوسرے کسی طرح کی تشنگی بھی باقی نہ رہے گی۔

قرآن وسنت کی روشنی میں مدلل ومکمل تفصیلی جواب عنایت فرماکر ممنون فرمائیں۔

جواب… اگر جاندار کی شکل واضح نہ ہو یعنی اس کے ناک، کان، آنکھیں منھ وغیرہ( یعنی چہرہ) واضح نہ ہوں تو وہ اگرچہ حرام تصویر کے حکم میں داخل نہیں، مگر تصویر کے مشابہ ضرور ہے، اس لیے کہ کچھ فاصلے سے وہ تصویر ہی معلوم ہوتی ہے اور بچوں کے لیے اس طرح کے خاکے شائع کرنے میں ایک بڑامفسدہ یہ بھی ہے کہ ان کے دلوں سے تصویر کی حرمت وقباحت نکل جانے کا قوی اندیشہ ہے، لہٰذا اس طرح کے خاکے شائع کرنے سے اجتناب کرنا چاہیے۔

کیاامام کے لے پگڑی باندھنا ضروری ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہشریعت میں پگڑی باندھنے کی کیا حیثیت ہے، بعض علاقوں میں امام کے پگڑی نہ باندھنے پر مقتدی اس کی امامت پر اعتراض کرتے ہیں اور بعض مقتدی تو اس کے پیچھے نماز بھی نہیں پڑھتے، تو سوال یہ ہے کہ ان کا یہ طریقہ درست ہے یا نہیں؟ اورکیا امام کو لازمی طور پر پگڑی باندھنا چاہیے؟

جواب… واضح رہے کہ پگڑی پہننا رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی سنتوں میں سے ایک سنت ہے، لیکن اس سنت سے مراد سنتِ عادیہ ( سنن زوائد) ہے، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ پگڑی باندھنے یا پگڑی میں نماز پڑھنے پڑھانے کے احادیث میں بہت سے فضائل منقول ہیں، لیکن پگڑی کو امام کے لیے ضروری سمجھنا، نہ پہننے کی صورت میں امام پر اعتراضات کرنا یا اس کے پیچھے نماز نہ پڑھنا بالکل غلط ہے، اس لیے کہ فقہائے کرام کی عبارات اس بارے میں بالکل واضح ہیں کہ پگڑی کے ساتھ نماز پڑھنا یا پڑھانا ایک امر مستحب ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ کسی مستحب عمل کو ضروری اور واجب ٹھہرانا بدعت کے زمرے میں آتا ہے ، سوال میں جیسا کہ ذکر کیا گیا ہے کہ لوگ اس کے پیچھے نماز نہیں پڑھتے، بالکل بے جا ہے، علماء کو چاہیے کہ اس مسئلے میں عوام کی ذہن سازی کریں۔

دوا استعمال کرنا توکل کے خلاف ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے سلسلے میں کہ علاج کے لیے ہسپتال جانا اور دوا استعمال کرنا خلاف توکل ہے؟ اور اگر کوئی عورت حاملہ ہو اور وہ کمزوری کی وجہ سے گھر پر بچہ کو جنم نہ دے سکتی ہو تو اسے ہسپتال پہچانا کیسا ہے؟ اور اگر کوئی شخص جان بوجھ کر اپنی حاملہ بیوی کو ہسپتال نہ لے جائے اور اسے توکل کے خلاف سمجھے تو ایسا سمجھنا شریعت کی رو سے کیسا ہے؟ جب کہ شریعت نے اسباب کے استعمال کا حکم دیا ہے، اگر کوئی عورت کمزوری کی وجہ سے گھر پر بچہ کو جنم نہ دے سکتی ہو اور گھر پر سہولیات میسر نہ ہوں اور اسے جان بوجھ کر ہسپتال نہ لے جایا جائے او رگھر میں بچہ کو جنم دینے کے دوران بچہ کا یا ماں کا انتقال ہو جائے تو کیا اسے ”قتل عمد“ تصور کیا جائے گا؟ برائے مہربانی شریعت کی رو سے قرآن وحدیث کے حوالوں کے ساتھ جواب دیں۔

جواب… واضح رہے کہ بیماری کا علاج اور دوا استعمال کرنا توکل کے خلاف نہیں، جس طرح بھوک دور کرنے کے لیے غذا او پیاس بجھانے کے لیے پانی استعما ل کرنا توکل کے خلاف نہیں، اسی طرح بیماری کو دور کرنے کے لیے علاج کرنا بھی توکل کے خلاف نہیں اور اسے توکل کے خلاف سمجھنا درست نہیں ، علاج معالجے کے لیے عورت کو ہسپتال لے جانا جائز ہے، ضرورت کے باوجود ہسپتال نہ لے جانا نہایت نامناسب عمل ہے اور ظلم ہے۔

لاٹری کا حکم
سوال…کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں کہ لاٹری کا کاروبار کرنا کیسا ہے؟

مثلاً ایک شخص بہت نیک ،پرہیز گار اور تبلیغی جماعت کے ساتھ روزانہ میں چلنے والا ہے اور چند چھوٹے علاقوں کے اجتماعات میں بیان بھی کرتا ہے۔لیکن کاروبار لاٹری کا کرتا ہے وہ اس طرح کہ ایک روپے کی لاٹری کے ساتھ ایک ٹافی بھی دیتا ہے، ٹافی کے ساتھ اندر سے ایک پرچی نکلتی ہے جس میں سے کسی پر پانچ اور کسی پر دس روپے کا انعام ہے،آیا یہ لاٹری کا کاروبارکرنا کیسا ہے؟

بچے دوکاندار کے پاس آکر کہتے ہیں کہ لاٹری دے دو، دوکان دار بڑے کاغذ میں سے ایک ٹکڑا کاغذ کا پھاڑ کر بچے کو دے دیتا ہے جس کو کھرچنے سے نمبر نظر آجاتا ہے، اب اگر اس کاغذ کے ٹکڑے پر کچھ پیسے بھی لکھے ہیں تو دوکاندار اتنے پیسے بھی بچے کو دے دیتا ہے او راگر اس پر پیسے نہیں لکھے تو دوکاندار پیسے نہیں دے گا، البتہ ہر بچے کو دوکاندار کاغذ کے ٹکڑے ساتھ ایک ٹافی بھی دے دیتا ہے۔

لاٹری کا مذکورہ کاروبار کرنے والے بقیہ دوکان دار بچوں کو ٹافی ساتھ نہیں دیتے، پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ ٹافی دے کر اس کاروبار کے جواز کی تاویل میں نے خود کی ہے کسی مفتی یا دارالافتاء سے نہیں پوچھا گیا۔

جواب…واضح رہے کہ یہاں دو معاملے ہیں: ایک لاٹری کی خرید وفروخت ، دوسرا انعامی اسکیم والی ٹافی کی خریدوفروخت، پہلے معاملے کا حکم یہ ہے کہ اس میں مقصود چوں کہ لاٹری کا لین دین ہے جو کہ جُوا ہے اس لیے ناجائز ہے خواہ عام ٹافی ساتھ دی جائے یا انعامی اسکیم والی ٹافی۔

دوسرے معاملہ کا حکم یہ ہے کہ اگر دوکاندار خریداروں سے ٹافی کی وہی قیمت طلب کرے جو عام بازار میں انعامی اسکیم کے بغیر ہو اور مقصد صرف لاٹری کا لین دین نہ ہو تو مذکورہ معاملہ جائز ہے۔

لیکن اگر خریداروں سے ٹافی کی عام قیمت (جو انعامی اسکیم کے بغیر ہو) سے زیادہ وصول کی جائے یا مقصد صرف لاٹری کا لین دین ہو اور ٹافی ضمناً ہو تو مذکورہ معاملہ جوئے میں شامل ہو کر ناجائز ہو گا۔

طلبہ کے چھوڑے ہوئے قلم، دوات، گتہ  اور کتاب وغیر کو استعمال میں لانا کیسا ہے؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان عظام اس مسئلے کے بارے میں کہ امتحان کے بعد طلباء اپنے قلم، دوات اور گتے پھینک دیتے ہیں مسجد او رکمروں میں، کیا ان اشیاء کو اپنے استعمال میں لانا جائز ہے؟ کیوں کہ نہ تو ان کا مالک معلوم ہوتا ہے کہ اس سے اجازت لی جائے اور نہ اس کو پھینکا جاسکتا ہے لیکن اگر اس کو نہ لیا جائے تو وہ ضائع ہوتے ہیں۔

جواب…صورت مسئولہ میں اگر قلم، دوات، گتّہ، کاپی اور کتاب وغیرہ کا مالک معلوم ہو سکتا ہو تو اس سے رابطہ کرکے پوچھ لیا جائے کہ ان چیزوں کے ساتھ کیا کریں، عام طور پر ان اشیاء پر نام لکھے ہوئے ہوتے ہیں ،او راگر نام لکھا ہوا نہ ہو اور نہ ہی مالک معلوم ہو تو یہ اشیاء لقطہ کے حکم میں ہیں، لقطہ کا حکم یہ ہے کہ مالک کی تحقیق کی جائے، اگر غالب گمان یہی ہو کہ مالک نہیں ملے گا تو یہ چیزیں مالکان کی طرف سے فقیر طلبہ کو دیے دی جائیں کہ اس کا ثواب اصل مالکان کو پہنچ جائے ،اور اگر یہ اٹھانے والا شخص خود مستحق ہو تو خود اٹھا کر اس سے نفع حاصل کر سکتا ہے۔

Flag Counter