Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1437ھ

ہ رسالہ

3 - 18
والدین کے ساتھ حسن ِسلوک

مولانا اسرار الحق قاسمی
	
دنیامیں انسان کے پاس بہت سی نعمتیں ہوسکتی ہیں اور زندگی میں عیش و خوش حالی کے ہزار وسائل ہوسکتے ہیں،مگر والدین ایک ایسی نعمت اور قدرت کی طرف سے عطاکردہ ایک ایسی دولت ہے،جس کا کوئی بدل نہیں،والدین نہ صرف یہ کہ اپنی اولاد کی پیدائش کا سبب ہوتے ہیں اور اس کی پرورش و پرداخت میں اپناخون پسینہ ایک کرتے ہیں، بلکہ والدین اپنی اولاد کی ہر قسم کی کام یابی و کامرانی کے لیے ہمہ وقت دعا گو رہتے اور جب تک جان میں جان رہے،خودان کے لیے ہر ممکن جتن کرتے ہیں۔دنیامیں اگر کسی کی محبت بے لوث اور بے غرض ہوتی ہے،تووہ ماں باپ ہی ہیں۔جب انسان ذی ہوش اور باشعورہوجاتا ہے،پڑھ لکھ کر کام یاب ہوجاتا اوراس کا شمارمعاشرے کے باعزت اور باوقار افراد میں ہونے لگتاہے،تومختلف انسانی طبقوں میں اس کے ہزار چاہنے والے پیدا ہوجاتے ہیں اور اس کو عزت کی نگاہ سے دیکھتے،اس سے خندہ پیشانی کے ساتھ ملتے اور اس سے اپنے تعلق اور محبت کا اظہار کرتے ہیں،مگر ان میں سے ہر ایک کی اس انسان سے کوئی نہ کوئی غرض وابستہ ہوتی ہے۔کوئی آپ سے اس لیے تعلق بنانا چاہتاہے کہ آپ کسی بڑی سرکاری یا غیر سرکاری پوسٹ پر ہیں اور اسے توقع ہے کہ آپ کے ذریعے فائدہ ہوگا،آپ بڑے بزنس مین ہیں تو لوگ اس لیے آپ سے ملتے اورمحبت کرتے ہیں کہ آپ اپنی صنعت اور بزنس میں انھیں بھی شریک کریں گے یاانھیں مالی منفعت پہنچائیں گے۔آپ بڑے قابل صاحبِ قلم اور مصنف ہیں،تولوگ اس لیے آپ کو چاہتے ہیں کہ وہ آپ کی تحریروں سے فائدہ اٹھاتے اورآپ کی فکرسے استفادہ کرتے ہیں۔آپ بڑے دولت منداور ثروت مند انسان ہیں تو لوگ اس لیے آپ کے اردگردمجمع لگائے رکھتے ہیں کہ انھیں کچھ نہ کچھ ملنے کی امید ہوتی ہے،حتی کہ انسان کی بیوی اور بچے بھی اس سے اس لیے محبت کرتے ہیں کہ اس سے ان کی زندگیاں وابستہ ہوتی ہیں اور حال و مستقبل میں اس کے سہارے کی ضرورت ہوتی ہے۔سہارے کی ضرورت تواخیرعمرمیں والدین کوبھی ہوتی ہے،لیکن ان کی محبت اپنے بچوں سے بے غرض ہوتی ہے۔چناں چہ ایسا بہت دیکھاگیا ہے کہ بعض بچے بڑے ہوکر اورکام یابی کی بلند سیڑھیوں پر پہنچنے کے بعد اپنے ماں باپ سے منھ موڑ لیتے ہیں اور ان کے ساتھ حسنِ سلوک نہیں کرتے،ان کا خیال نہیں رکھتے اور ان کے حقوق کو ادا نہیں کرتے،مگر اس سب کے باوجود ان کے ماں باپ شکایت نہیں کرتے اور ہمیشہ ان کی مزید کام یابی و سرخ روئی کے لیے دعاگورہتے ہیں۔

والدین کو بچے کی پیدائش سے لے کراس کی پرورش اور تعلیم و تربیت اور اسے بنانے سنوارنے اور ایک کام یاب و باکمال انسان بنانے میں بڑی مشقتوں سے گزرنا پڑتاہے اور پریشانیوں کو برداشت کرنا پڑتاہے۔بعض دفعہ ایسابھی ہوتاہے کہ انسان کی آمدنی قلیل ہوتی اور اس کے گھر میں کھانے کوزیادہ سامان نہیں ہوتا،توایسے میں ماں باپ دونوں خودبھوکے رہتے اور اپنے بچے کوپیٹ بھرکے کھلاتے ہیں۔ایسا بھی ہوتا ہے کہ ماں اور باپ میں سے کوئی ایک سخت بیمار ہے،لیکن اگر اسی دوران ان کے بچے کوادنیٰ سی بھی تکلیف ہو اوربیماری کا احساس ہوتووہ اپنی ساری تکلیف بھول جاتے اوراپنے بچے کوراحت و سکون پہنچانے میں لگ جاتے ہیں اوراس کے لیے کسی بھی حد تک جانے کو تیار رہتے ہیں۔الغرض اپنی اولاد کی پرورش میں والدین بڑی قربانیاں دیتے اوربے شمار مشقتوں کو برداشت کرتے ہیں،اسی وجہ سے اسلام نے اولاد پر والدین کی اطاعت کوواجب قراردیاہے اور ان کے ساتھ ہروقت اور تادمِ حیات حسنِ سلوک کی تلقین کی ہے اور مرنے کے بعد بھی ان کے لیے دعاوٴں کا اہتمام کرنے اورایصالِ ثواب کی ہدایت کی ہے۔قرآن کریم میں مختلف موقعوں پراللہ تعالیٰ نے انسانوں کوصرف اپنی بندگی اور عبادت کا حکم دیاہے،مگرایسے بیشترمقامات پرساتھ ہی والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور اطاعت و فرماں برداری کابھی اس لیے ذکر کیاہے کہ ہمیں یہ احساس رہے کہ جس طرح ہمارے لیے یہ ضروری ہے کہ ہم صرف ایک خداکومانیں،اسی کی عبادت کریں اور اس کے احکام و فرامین پر عمل کریں ،اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ ہم اپنے ماں باپ کی اطاعت کریں اوران کے ساتھ حسنِ سلوک کریں۔اللہ تبارک و تعالیٰ نے ایسا اس لیے کیا ہے کہ کئی معنوں میں انسان کے اس دنیامیں وجود پذیرہونے سے لے کرنشوونماحاصل کرنے تک میں ماں باپ خالق عزوجل کی براہِ راست نیابت کا فریضہ انجام دیتے ہیں،چناں چہ اصل خالق تواللہ تبارک و تعالیٰ کی ذات ہے،مگر ماں اس سلسلے میں ذریعہ اور وسیلہ کا رول اداکرتی ہے اور بے پناہ جسمانی و نفسیاتی مشقتوں اور رتکلیفوں کو سہہ کر بچے کو جنم دیتی ہے،اسی طرح رازق اور روزی دینے والی تو اصل میں صرف اللہ کی ذات ہے،مگرباپ اس سلسلے میں وسیلے کا کردار اداکرتاہے اوروہ دن رات محنت و مشقت کرکے اور ملازمت و مزدوری کرکے اپنے اور اپنے بچے کے لیے اس روزی کو حاصل کرتاہے۔اسی وجہ سے اللہ نے زندگی کے ہر مرحلے اور موڑ پرماں باپ کی اطاعت و فرماں برداری کولازم اور واجب قراردیاہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:” آپ کے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو، اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ اُنہیں جھڑکنا اور ان سے بات ادب سے کرنا ۔ اور عجز و نیاز سے اُن کے آگے جھکے رہنا اور اُن کے حق میں دعا کرناکہ اے اللہ! جیسی انہوں نے بچپن میں (شفقت سے ) میری پرورش کی ہے تو بھی اُن ( کے حال )پر رحم فرما ۔ جو کچھ تمہارے دلوں میں ہے تمہارا رب اس سے بخوبی واقف ہے، اگر تم نیک ہو گے تو وہ رجوع کرنے والوں کو بخش دینے والا ہے“۔ ( سورہٴ بنی اسرائیل:23 - 25) دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے : ”کہہ دو کہ جو مال بھی تم خرچ کرو اپنے والدین پر، رشتہ داروں پر، یتیموں پر اور مسکینوں اور مسافروں پر اور جو بھلائی بھی تم کرو گے اللہ اس سے باخبر ہے“۔( سورہٴ بقرہ: 215) مزید ارشاد فرمایا: ” ہم نے انسان کو ہدایت کی کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ نیک سلوک کرے، لیکن اگر وہ تجھ پر زور ڈالیں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسے (معبود) کو شریک ٹھہرائے جسے تو ( میرے شریک کی حیثیت سے ) نہیں جانتا تو ان کی اطاعت نہ کر، میری طرف ہی تم سب کو پلٹ کر آنا ہے، پھر میں تم کو بتادوں گا کہ تم کیا کرتے تھے“۔ ( سورہٴ عنکبوت :8)اس آیت میں یہ بتایاگیاہے کہ اگر کسی کے ماں باپ مشرک ہوں،مگراولاد مسلمان ہو،تواس صورت میں بھی اولاد پر اپنے ماں باپ کی خدمت و اطاعت ضروری ہے،البتہ اگر وہ اس بات پر مجبور کریں کہ وہ پھر سے شرک اور کفرکواختیار کرلے،توان کی یہ بات نہیں مانی جائے گی؛کیوں کہ شرک توسب سے بڑاظلم اور اللہ تعالیٰ کوناپسندیدہ ہے۔

والدین کے ساتھ حسنِ سلوک اور ان کی خدمت کے سلسلے میں بے شمار احادیث بھی وارد ہوئی ہیں،حضرت عبد اللہ بن عمرو سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”اللہ کی رضامندی والدین کی رضامندی میں ہے اور اللہ کی ناراضگی والدین کی ناراضگی میں ہے“۔(صحیح ابن حبان: 429)حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے، فرماتے ہیں کہ ایک شخص رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا: میرے حسنِ سلوک کا سب سے زیادہ مستحق کون ہے؟تو آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا : تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا :اس کے بعد کون؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:تمہاری ماں۔اس نے پوچھا: اس کے بعد کون؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: تمہاری ماں۔ اس نے پوچھا: اس کے بعد کون ؟آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اس کے بعد تمہارے والد“۔( متفق علیہ)

حضرت عائشہ سے روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”میں جنت میں داخل ہوا تو وہاں قراء ت کی آواز سنی، میں نے پوچھا :یہ کون ہے؟ جواب ملا :یہ حارثہ بن نعمان ہیں۔ اس کے بعد رسول صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: حسنِ سلوک کا پھل ایسا ہی ہوتا ہے، حسنِ سلوک کا پھل ایساہی ہوتا ہے“۔(مستدرک حاکم،ح:4929)حضرت حارثہ اپنی والدہ کے ساتھ بہت زیادہ حسنِ سلوک کرنے والے اور فرماں بردار تھے۔ حضرت أبواسید سے روایت ہے ،فرماتے ہیں: ایک مرتبہ ہم رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے پاس تھے، اسی دوران قبیلہٴ بنو سلمہ کا ایک شخص آپ صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور عرض کیا : اے اللہ کے رسول ! کیا والدین کی وفات کے بعد کوئی ایسی چیز ہے جس کے ذریعہ میں ان کے ساتھ حسنِ سلوک کر سکوں؟ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں، ان کے لیے دعا کرنا، ان کے لیے استغفار کرنا، ان کے کیے ہوئے عہد و پیمان اور وعدوں کو پورا کرنا، ان کے دوستوں کا اکرام کرنا اور ان لوگوں کے ساتھ صلہ رحمی کرنا جن کے ساتھ تمہاری رشتہ داری اور قرابت انہی کی وجہ سے ہو“۔ ( سنن ابوداوٴد،ح:5142)

بلا شبہ اولاد پر والدین کا حق اللہ اور اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم کے بعد سب سے بڑا اور اہم حق ہے، اس لیے کہ وہ اپنی اولاد کی تربیت کے لیے اور کار گاہِ حیات کے لیے ان کو تیار کرنے میں بے انتہا محنت اور قربانیاں پیش کرتے ہیں، جن کی وجہ سے وہ حسنِ سلوک، فرماں برداری اور بدلے کے مستحق قرار پاتے ہیں، یہی وہ حقوق ہیں جن کی ادائیگی کا اسلام نے حکم دیا ہے، ان کا خلاصہ مندرجہ ذیل نکات میں پیش کیاجاسکتا ہے:
1...اللہ کی معصیت کے علاوہ ان کے تمام اوامرا ور خواہشات میں ان کی اطاعت کی جائے۔
2...گفتگوکرنے اور ان کو مخاطب کرنے میں ادب اور نرمی کا خیال کیا جائے اور ان کے حق میں دعا کی جائے۔
3...مال اور دیگر ضروریاتِ زندگی میں سے جس کی بھی ان کو ضرورت ہو ،ان پر خرچ کیا جائے، خاص طور پر اس وقت جب وہ کام کرنے پر قادر نہ ہوں ۔
4...ان کی خدمت کی جائے، بڑھا پے کے وقت یا مرض اور کمزوری کے وقت ان کی وجہ سے تنگی نہ محسوس کی جائے۔
5...ان کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے اور ان کے دوستوں کا اکرام کیا جائے،ان کے انتقال کے بعدان کے لیے دعاوٴں کا اہتمام کیاجائے اوران کی وجہ سے قائم ہونے والی رشتہ داریوں کونبھایاجائے۔
6...ماں چوں کہ بچے کی پیدائش اور پھر اس کی پرورش میں باپ سے نسبتاً زیادہ پریشانی اور تکلیف برداشت کرتی ہے؛اس لیے جیساکہ حدیث میں فرمایاگیاماں کاحق اولاد پرباپ کے مقابلے میں تین گنازیادہ ہے۔

Flag Counter