Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1437ھ

ہ رسالہ

6 - 18
تبلیغِ دین ودعوت الی اللہ!

حضرت مولانا سید محمد یوسف بنوریؒ
	
عرصہٴ دراز سے اُمت ِمحمدیہ سے ایک اہم تقصیر ہورہی ہے اور خیر القرون کے بعد سے ہی اِس تقصیر کی بنیاد پڑ گئی تھی، یعنی ”تبلیغ ِ دین“ اور ”دعوت الی اللہ“ میں قابل ِحسرت کوتاہی ہورہی ہے۔ دعوت وہدایت دین ِاسلام کا اساسی اُصول ہے، جب دعوت ناکام ہو اور اُس کی اِشاعت کے راستے میں روڑے اٹکائے جائیں تو ”جہاد وقتال“ کی نوبت آتی ہے۔ قرونِ اُولیٰ کے سلف ِ صالحین گفتار سے زیادہ اپنے کردار سے یہ دعوت پیش کرتے رہے، قوتِ بیانی سے پہلے اخلاقی وایمانی قوت سے دعوت دیتے رہے۔ ہرایک صحابی سر سے پیر تک اِسلامی اخوت، اِسلامی مواسات اور اِسلامی اخلاق کا اعلیٰ نمونہ تھا، دنیا میں اِسلام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے دِینی حسن وجمال اور حسنِ اخلاق کے کمال سے پھیلا، تلوار کے زور سے نہیں پھیلا، صاحبِ انصاف وصاحبِ عقل و بصیرت موٴ رخ اس سے بے خبر نہیں۔ اگر مسلمان اس اہم فریضہ میں کوتاہی نہ کرتے تو شاید تمام عالم مسلمان ہوتا۔ تکوینی مصالح تو حق تعالیٰ ہی جانتا ہے، تاہم دنیا کے مزاج میں کفر و اِسلام کے اِمتزاج سے اِنکار نہیں کیا جاسکتا، لیکن جہاں تک عقل اور اِسلامی اُصولوں کا تقاضا ہے، وہ یہی ہے جو کچھ عرض کیا جارہاہے، چناں چہ اپنے اثرات کے اعتبار سے دیر پا اِسلام وہی رہا، جو دعوت و اِرشاد کے راستوں سے پھیلا ہے۔ اِسلامی فتوحات کے ادوار میں یہ بات بھی بالکل واضح ہے کہ حضراتِ صحابہ رضی اللہ عنہم کے عہد ِ میمون میں جو ممالک اِسلام کے زیر نگین آئے، وہ آج تک اِسلام پر قائم ہیں اور بعد میں سلاطین ِ اسلام کی تلوار سے جو مسلمان ہوئے، وہ یکے بعد دیگرے اِسلام سے نکلتے جارہے ہیں۔ نیز یہ فرق بھی واضح ہے کہ قرونِ اُولیٰ کے مفتوحہ ممالک میں عقائد کی پختگی آج بھی باقی ہے، اگرچہ اعمال و اخلاق میں یورپ کی نقالی کا رنگ غالب ہے، اس کے برخلاف جو ممالک بعد میں سلاطینِ اسلام اور ملوکِ اسلام کے زورِ تلوار سے فتح ہوئے ہیں، اُن میں عقائد کی خامی واضح ہے، اگر کہیں اعمالِ ظاہری میں بظاہر پختگی بھی نظر آئے تو کریدنے کے بعد معلوم ہوگا کہ قلبی عقیدہ اِتنا کھو کھلا ہوچکاہے کہ ایک دھکّے سے ختم ہوجاتا ہے۔ دراصل اِبتدائی دور کی فتوحات میں اِخلاص نمایاں تھا، اُنہوں نے اگر جہاد بھی کیا تو وہ بھی صرف اِس غرض سے تھا، ”لِتَکُوْنَ کَلِمَةُ اللّٰہِ ہِیَ الْعُلْیاَ“ (تاکہ صرف حق تعالیٰ کا دِین غالب ہو) اِس لیے اُن فتوحات کی برکات سے مسلمانوں کے عقائد میں پختگی پائی جاتی ہے اور جو ملک بعد میں فتح ہوئے، اُن میں اِخلاص کا وہ درجہ نہ تھا، بلکہ ملوکیت اور شان وشوکت کی آمیزش تھی، اِس لیے وہ دینی تصلّب حاصل نہ ہوسکا۔ کہنا یہ تھا کہ دعوت و اِرشاد میں اُمت مقصّر رہی ہے اور آج جو نقشہ اِسلام اور مسلمانوں کا ہے، اسی تقصیر کے نتیجے میں ہے۔

تبلیغی جماعت اور اُس کے شان دار اثرات
حق تعالیٰ کی ہزاروں ہزار رحمتیں ہوں حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی کی روح پر، جنہوں نے مسلمانوں کو بھولاہوا سبق یاددِلایا اور اُس سبق یاددِلانے میں ہی فنا ہوگئے، اگر کوئی فنافی اللہ، فنا فی الرسول اور فنافی الشیخ کے مظاہر کو سمجھنا چاہتا ہو تو حضرتِ مرحوم کو دیکھ لے کہ کس طرح ”فنا فی التبلیغ“ ہوگئے تھے، اُٹھتے بیٹھتے، سوتے جاگتے بس یہی فکر ہی دامن گیر تھی، تمام زندگی اور تمام افکار وانفاس بس اِسی مقصد کے لیے وقف تھے۔ حق تعالیٰ نے اُن کی جانفشانی وقربانی، اِیثار و اِخلاص اور جد وجہد کو قبول فرمایا اور چار دانگ ِعالم میں اُس کے ثمرات وبرکات پھیل گئے، شاید روئے زمین کا کوئی خطہ ایسا باقی نہ رہا ہو گا، جہاں اُن کی جماعت کے قدم نہ پہنچے ہوں، ماسکو، فن لینڈو اِسپین سے لے کر چین و جاپان تک، اُن قافلوں کی دعوت انبیاء علیہم السلام کے طریقِ دعوت سے بہت مشابہت رکھتی ہے، اس کا اِنتظار نہیں کہ لوگ خود آئیں گے اور دِین سیکھیں گے، بازاروں میں چل پھر کر اور گھر گھر لوگوں کے پاس پہنچ کر دعوت دِی جاتی ہے۔ اور زبان سے، حسنِ اخلاق سے اور اپنے طرزِ عمل سے دعوت دِی جاتی ہے، سر سے پیر تک اِسلامی مجسمہ بن کر اِسلام کا عملی نمونہ پیش کیا جاتا ہے، اِس لیے اس کا اثر یقینی ہوتا ہے۔

آج اُمت تقریر وتحریر کی محتاج نہیں، یہ بہت کچھ ہوچکا ہے، ضرورت عملی نمونہ پیش کرنے کی ہے، فصاحت و بلاغت کا دریا اُمت بہا چکی ہے، لیکن آج صرف سادہ عملی دعوت کی ضرورت ہے، الحمد للہ آج تبلیغی جماعت اس پر عمل پیرا ہے۔ بہرحال طبیب خود مریض کے پاس جاتا ہے، اُس کا اِنتظار نہیں کرتا کہ مریض طبیب کے پاس پہنچے تو علاج ہو، اگر یہ طریقہ عام ہوجائے اور اُمت کی اکثریت یا کم از کم بڑی کثرت اس مقصد کو شروع کردے تو توقع ہوسکتی ہے کہ اُمت کو نجات مل جائے اور بیڑہ پار ہوجائے، اگر اُمت پوری طاقت اِسی طرح اِصلاح ودعوت پر لگائے اور معاشرے کی اِصلاح ہوجائے تو ہوسکتا ہے کہ آئندہ اِقتدار بھی انہی صالح ہاتھوں میں آجائے اور پھر جو کام سالوں میں ہوتے ہیں، وہ منٹوں میں ہوجایا کریں۔ بنیادی اُصول بھی یہی ہے کہ پہلے معاشرے کی اِصلاح کی جائے، اگر اِصلاح شدہ معاشرے کے افرادکے ہاتھوں میں حکومت کی باگ ڈور ہو تو کام یابی یقینی ہے، ورنہ اُمت کا وہی حشر ہوگا جو آج ہورہا ہے اور اکثریت کے جو نمائندے مسند ِ حکومت پر براجمان ہیں، اُن کا ”صورت ببین حالش مپرس“ والا قصہ ہے، اس طرح بلاشبہ کچھ دیر تو لگے گی، لیکن قوموں کے عروج وزوال کی تاریخ میں دس پندرہ سال کا عرصہ کچھ زیادہ نہیں ہوتا۔ آج قوم کی کشتی جس خطرناک بھنور میں پھنس گئی ہے، روزانہ اخبارات کے صفحات میں اس کو دیکھیے اور پڑھیے، حیرت واِضطراب کی کوئی اِنتہا باقی نہیں رہتی، لے دے کر ایک عالمِ دین (مفتی محمود صاحب رحمة الله علیہ) مسند ِ حکومت پر متمکن ہوا، مگر شیطانوں کے لیے اس کا وجود بھی ناقابلِ برداشت ہے، خدا جانے کتنی مشکلات اُن کے لیے پیدا کی جارہی ہیں، کتنے روڑے اُن کے راستے میں اٹکائے جارہے ہیں، تمام ”شیاطین الانس والجن،، مقابلے پر سینہ تان کر کھڑے ہوگئے ہیں، الغرض جب تک معاشرے کی اِصلاح نہ ہو جائے، نقار خانے میں طوطی کی آواز کون سنتا ہے؟ اللہ تعالیٰ رحم فرمائیں۔

لندن میں بین الاقوامی تبلیغی اجتماع
لندن سے برادرم محترم مولانا مفتی عبد الباقی کا ایک مکتوبِ گرامی آیا تھا، جس میں بین الاقوامی تبلیغی اجتماع (لندن) کا ایک منظر پیش کیا گیا ہے۔ اُوپر جو کچھ عرض کیا گیا، اس سے اس کی تائید ہوتی ہے، نامناسب نہ ہوگا، اگر اس کا اقتباس پیش کروں، وہ لکھتے ہیں:

”بین الاقوامی تبلیغی اجتماع ختم ہوچکا، تثلیث کے اس ملک میں توحید کی آواز عجیب منظر پیش کررہی تھی، ایسا معلوم ہورہا تھا گویا قرونِ اُولیٰ کے بچے بچائے لوگ (جن کی زندگی میں اِسلام کی جھلک نظر آرہی تھی) جمع ہوئے ہیں، اُن میں لمبی لمبی ڈاڑھیوں والے، لمبے لمبے کرتوں والے، پاجاموں والے، شلواروں والے، بڑی بڑی پگڑیوں والے تھے، جنہیں دیکھ کر ”گورے لوگ“ محو ِ حیرت بھی تھے اور محو ِ تماشابھی۔

جب ہندوستان کا وفد لندن کے ہوائی اڈہ ”ہیتھرو“ بلڈنگ نمبر 3/پرتشریف لایا تو قانونی کارروائی سے فراغت کے بعد سب سے پہلے امیر التبلیغ حضرت جی مولانا محمد انعام الحسن کاندھلوی صاحب دامت برکاتہم باہر تشریف لائے، نہ زندہ باد یا مردہ باد کے نعرے، نہ ہنگامہ، نہ شور وشر، کچھ بھی نہیں تھا، بلکہ اِنتہائی وقار اور خاموشی کے ساتھ، لبوں پر تبسم، چہروں پر طلاقت، اِطمینان اور سکون کی فضا میں معانقے ہوئے، مصافحے ہوئے اور پھر دعا شروع ہوئی، جس میں آہیں، سسکیاں اور پھر آخر میں دھاڑیں مارکر رونے کی آوازیں بلند ہوئیں۔ تثلیث کے پرستار نیم عریاں لباس میں کیمرے تان کر کھڑے تماشہ کررہے تھے اور تماشہ دِکھا رہے تھے، اُن کو فوٹو اُتارنے سے منع کیا گیا، تاہم چپکے چپکے سے وہ کیمروں کو ہلاتے رہے، سرتاپا حیرت کے مجسمے بنے ہوئے تھے۔ چوں کہ لندن ایئرپورٹ (ہیتھرو) پر ایک منٹ میں جہاز اُترتا ہے اور قریباً دوسرے میں اُڑتا ہے، ا ِس لیے مسافروں کا تانتابندھا رہتا ہے ، مسافر آتے جاتے تھوڑی دیر کے لیے ضرور رُکتے، اِس لیے کہ منظر ہی ایسا تھا کہ ہرایک کو دعوتِ نظارہ دے رہا تھا۔

مجمع مرکز ِ تبلیغ لندن گیا اور پھر دوسرے دن اجتماع گاہ شیفیلڈ میں پہنچا، تین دن شیفیلڈ میں بڑی رونق رہی، خاص طور پر جب خیموں میں اور خیموں سے باہر میدان میں نمازوں کے لیے صفیں درست ہوجاتی تھیں تو اس منظر کو دیکھنے کے لیے محل ِ اجتماع سے باہر فٹ پاتھوں پر انگریز مرد اور انگریز عورتیں کافی تعداد میں کھڑے ہوکر تماشہ کرنے لگتے، یہ روح پرور منظر اُن پر بڑا اثر انداز ہورہا تھا، اجتماع میں قریباً اڑتیس ملکوں کے وفود شامل ہوئے، جو آسٹریلیا کے علاوہ باقی چاروں براعظموں کے مختلف بولی بولنے والے، مختلف نسل ورنگ کے لوگ تھے، کینیڈا، امریکہ، افریقہ اور ایشیا اور یورپ، عرب وعجم۔ اِسلام کے عالمگیر دِین ہونے کا عملی نقشہ نظر آرہا تھا۔ قریباً بارہ سو آدمیوں نے چار مہینوں، چلوں اور کم وبیش وقت لگانے، دور اور دیر کے لیے نکلنے کو اپنے نام پیش کیے، بائیس جماعتیں بیرونی ممالک کے لیے تیار ہو گئیں اور پینتالیس اندرونِ ملک کے لیے۔

کینیڈا اور امریکہ سے آئی ہوئی جماعتوں میں قریباً پندرہ آدمی حاجی حسین احمد جاجبھائی کی مسجد میں (جہاں میرا قیام ہے) جہاز کی روانگی میں تاخیر ہونے کی وجہ سے بارہ دِن تک ٹھہرے۔ رات کو عشاء کی نماز کے بعد یہ لوگ ٹرانسلیٹر (ترجمان) کے ذریعہ مجھ سے سوالات کرتے رہتے اور میں اُن کو جوابات دیتا رہتا، کبھی کبھی چار چار ترجمان ہوتے تھے، یہ سلسلہ رات کے ڈیڑھ بجے اور کبھی دو دو بجے تک چلتا تھا۔ اُنہوں نے مختلف موضوعات پر سوالات کیے، علمِ رمل، علمِ جفر، علمِ نجوم، قیافہ، پامسٹری، کہانت، اِلہام، وحی، عذابِ قبر، برزخ، دوزخ، جنت، علاماتِ قیامت، دجال، امام مہدی علیہ السلام، حضرت عیسیٰ علیہ السلام، یا جوج ماجوج ، دیدارِ الٰہی سے لے کر خوابوں کی تعبیرات تک سوالات کیے،چوں کہ اُن میں اکثر نومسلم تھے، اِس لیے علم کے بہت پیاسے تھے، آخر میں اُنہوں نے کہا کہ نیویارک میں ہمارے اور بہت سے بھائی ہیں، جو اپنے سوالات کے تسلی بخش جوابات چاہتے ہیں، آپ ہمارے ساتھ نیویارک اور کینیڈا چلیں، بہت عذر پیش کیا کہ مجھے انگریزی نہیں آتی وغیرہ، ہاں! اگر یہ میرے ترجمان میرے ساتھ جائیں تو کسی وقت آپ کے ہاں آنا ہوسکتا ہے، لیکن یہ لوگ بضد رہے، پھر یہ لوگ واپس چلے گئے، یہ اکثر کالے رنگ اور نسل سے تعلق رکھتے تھے۔

ہم نے محمد علی کلے سے متعلق اُن سے پوچھا تو اُنہوں نے محمد علی کلے کے بارے میں کسی اچھی رائے کا اِظہار نہیں کیا، کہنے لگے اُس نے آج تک پورا کلمہ نہیں پڑھا، ”لا الہ الا اللہ“ پڑھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے،” محمد رسول اللہ“ آج تک نہیں پڑھا اور اس نے آج تک نماز نہیں پڑھی اور بہت مال دار ہے، کبھی زکوٰة نہیں نکالی اور حج ابھی تک نہیں کیا، روزہ کا حال خدا کو معلوم ہے“۔

․․․․․․ کہنا یہ ہے کہ تبلیغی خدمات اور موجودہ طرز پر دِین کا جو کام ہورہا ہے، بلاشبہ دِین ہے اور اہم جزوِ دین ہے․․․․․․۔

(الحمد للہ! تبلیغی جماعت کے اکابر کو ہمیشہ اس کا اہتمام رہا کہ اس کام میں عوام کا علماء سے جوڑ ہو، وہ اُن کی قدروقیمت کو سمجھیں اور اُن سے اِستفادہ کریں، حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی مختلف عنوانات سے بار بار اس کی تاکید فرمایا کرتے تھے۔ ایک بار فرمایا: ”ایک عامی مسلمان کی طرف سے بدگمانی بھی ہلاکت میں ڈالنے والی ہے اور علماء پر اعتراض تو بہت سخت چیز ہے“۔

پھر فرمایا:”ہمارے طریقہٴ تبلیغ میں عزتِ مسلم اور احترامِ علماء بنیادی چیز ہیں، ہر مسلمان کی بوجہ اِسلام کے، عزت کرنی چاہیے اور علماء کا بوجہ علم کے بہت احترام کرنا چاہیے“۔

ایک موقع پر فرمایا:
”ہمارے ساتھی جہاں بھی جاویں، وہاں کے حقانی علماء وصلحاء کی خدمت میں حاضری کی کوشش کریں․․․ الخ“۔

ایک صاحب کوتحریر فرمایا:
”علم کے فروغ اور ترقی کے بقدر اور علم ہی کے فروغ اور ترقی کے ماتحت دینِ پاک فروغ اور ترقی پاسکتا ہے۔ میری تحریک سے علم کو ذرا بھی ٹھیس پہنچے، یہ میرے لیے خسرانِ عظیم ہے“۔

حضرت مولانا محمد الیاس کاندھلوی اور حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلوی نو ّر اللہ مراقدہما کی اس قسم کی بے شمار تصریحات ہیں۔ (تفصیل کے لیے حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا صاحب کاندھلوی کی تازہ تالیف ”دہلی کی تبلیغی جماعت پر عمومی اعتراضات اور اُن کے مفصل جوابات “ ملاحظہ فرمایئے)

اس سے معلوم ہوا وہ تبلیغی ساتھی جو علماء کرام کی مساعی کو (بعض اس وجہ سے کہ وہ تبلیغی کام میں لگے ہوئے نہیں) قدر ومنزلت کی نظر سے نہیں دیکھتے، وہ ناپختہ کاری کی وجہ سے دعوت کے مزاج سے ناآشنا ہیں یا بقول حضرت شیخ الحدیث دراصل وہ دعوت کے کام میں لگنے سے پہلے علمائے کرام سے بیزار تھے اور اس کام میں لگنے کے بعد بھی ان کی خونہ بدلی، گویا طالبِ علم چور نہیں ہوتے، بلکہ بعض اوقات چور طالب علمی کرنے لگتے ہیں“۔) (مدیر)

آج کل ایک سب سے بڑا فتنہ یہ ہے کہ جو اربابِ علم ہیں، وہ صرف علم اور تعلیم پر قناعت کرکے بیٹھ گئے ہیں اور جو اربابِ عمل اور اربابِ دعوت ہیں، وہ اپنے آپ کو علم اور علماء سے مستغنی سمجھتے ہیں، علماء کو میدانِ عمل میں آنے کی ضرورت ہے اور اربابِ عمل کو علم حاصل کرنے کی ضرورت ہے اور ساتھ ہی ساتھ قدم قدم پر اِخلاص کی ضرورت ہے۔ جب علم وعمل واِخلاص تینوں باتیں جمع ہوجائیں گی تو اس کے بہترین نتائج وبرکات ظاہر ہوں گے، مزید برآں سراپا اِخلاص بن کر بھی حق تعالیٰ کی توفیق وفضل کی ضرورت ہے، افسوس کہ مادیت کے اِس دردناک دور میں تمام دِینی اقدار ختم ہوگئے اور یہ سارے دِینی کلمات صرف بے معنیٰ الفاظ رہ گئے، مسلمانوں کے معاشرے میں اِتنا شدید اِنقلاب آگیا کہ تمام دِینی اِصطلاحیں مسلمانوں کی زندگی میں بے حقیقت الفاظ بن کر رہ گئے۔ اگر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور دورِ اوّل کے مسلمان زندہ ہوکر ہمارے دورِ حاضر کے نام لیوا مسلمانوں کی زندگیاں دیکھ لیں تو کیا فرمائیں؟ اللہ تعالیٰ اپنے فضل وکرم سے صحیح اِسلام پر قائم رکھے اور صحیح مسلمانوں کے خدوخال کی حفاظت فرمائے اور تقویٰ وطہارت کی حیاتِ طیبہ نصیب فرماکر فوز و فلاح کے مدارجِ عالیہ سے نوازے۔ آمین بحرمة النبی الامین، علیہ صلوٰت اللّٰہ وسلامہ الی یوم الدین۔“

عالمگیر فتنوں کے مقابلے کے لیے تبلیغی جماعت کا وجود
ایک دفعہ مکی مسجد (تبلیغی مرکز،کراچی) جانا ہوا، میں کبھی کبھی وہاں چلا جاتا ہوں، وہاں تبلیغی حضرات نے مجھے پکڑ لیا اور کچھ بیان کرنے کی دعوت دِی، میں نے سوچا کیا بیان کروں، بولنا مجھے آتا نہیں، خیر میں ان حضرات کے اِصرار پر بیٹھ گیا، ”الحمد للہ رب العالمین“ کی آیت پڑھی، بس پھر کیا تھا، قرآن کی برکت سے سینہ کھل گیا، عجیب و غریب مضامین ذہن میں آئے، کوئی ڈیڑھ، دو گھنٹہ بیان ہوا،تفصیل تو مجھے اب یاد نہیں آرہی، کچھ مضمون یاد ہے، وہی اس موقع پر عرض کرنا چاہتا ہوں، میں نے کہا اللہ جل ذکرہ، عالمین کا رب ہے، اس کی ربوبیت کے کرشمے ظاہر ہیں، لیکن اتنے عجیب و غریب کہ عقل حیران ہے، جسمانی ربوبیت کی تفصیل کو چھوڑتا ہوں، صرف روحانی ربوبیت کو دیکھیے کہ نبوّت ختم ہو چکی ہے، علماءِ اُمت کی مساعی، اوّل تو ناکافی ہیں، پھر جتنی کچھ ہیں وہ بھی کام یاب نہیں اور نئی نسل کی تباہی اور گم راہی کے لیے بیسیوں فتنے موجود ہیں، تھیٹر، سینما وغیرہ وغیرہ اخلاق کی قربان گاہ تھے ہی، اب تو بے دِینی کے اِنتہائی غلبہ اور تسلّط کی وجہ سے اسکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں کا بھی جو حال ہے وہ آپ کو معلوم ہے، اخبارات میں روزانہ اس کی خبریں آپ پڑھتے ہیں، اس کے علاوہ وہ ممالک جو فحاشی اور بے حیائی کے مرکز ہیں، امریکہ، برطانیہ وغیرہ ان ممالک سے مواصلات اور رسل و رسائل کی آسانی کی وجہ سے فتنوں کا ایک تانتا بندھا ہوا ہے۔

اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا مظہر،تبلیغی جماعت
الغرض! ان حضرات کی برکت سے پوری بات ذہن میں آگئی، میں ان تبلیغی حضرات کے اِخلاص کا بڑا معتقد ہوں، اب بھی بعض مخلصین کی وجہ سے بول رہا ہوں، ورنہ مجھے بیان کرنا نہیں آتا، تودِل میں یہ بات آئی کہ اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا کرشمہ یوں ظاہر ہوا ہے کہ ان عالمگیر فتنوں کے مقابلہ میں اللہ تعالیٰ نے تبلیغی جماعت کا یہ نظام جاری فرما دِیا، یہ وہ نظام ہے جو عالمگیریت چاہتا ہے۔ اس میں عالِم بھی کھپ جاتا ہے اور اَن پڑھ بھی، امیر بھی اور غریب بھی، تاجر بھی اور صنّاع بھی، کالا بھی گورا بھی، مشرقی بھی اور مغربی بھی، اگر اس زمانے میں یہ تبلیغی نظام جاری نہ ہوتا تو گویا اللہ تعالیٰ کی شانِ ربوبیت کا کمال ظاہر نہ ہوتا۔

کیا ہمارے دینی مراکز کافی ہیں؟
ورنہ ہمارے مدارس، تعلیمی اِدارے، اسکول اور کالج جتنے آدمی تیار کرتے ہیں وہ تو اس عالمگیر سیلاب کے لیے کافی نہیں تھے، یہ تبلیغ والے ایک گشت کرتے ہیں، سیلاب کے طریقے سے آتے ہیں اور دو، چار، پانچ، دس آدمیوں کی ہدایت کا سامان بن جاتے ہیں،کہیں کسی کو امریکہ سے پکڑ لاتے ہیں، کہیں لندن سے، مصر کے صدر ناصرنے پانچ ہزار مبلِّغ (تبلیغ کرنے والے افراد) بھیجے اور سالانہ کروڑوں روپیہ ان پر صَرف ہوتا ہے، لیکن ان سے پوچھیے کہ کتنے لوگوں کو صحیح مسلمان بنایا؟ ادھر تبلیغی نظام کی برکات آپ کے سامنے ہیں کہ ہزاروں، لاکھوں بندگانِ خدا کی ہدایت کے لیے یہ نظام ذریعہ بن گیا تو اللہ تعالیٰ نے تبلیغی جماعت کا جو نظام جاری فرمایا ہے، یہ درحقیقت اللہ تعالیٰ کی روحانی ربوبیت کا ایک کرشمہ ہے، جو اللہ پاک نے اس اُمت کے اندر ظاہر فرمایا ہے، تاکہ اللہ کی حجت پوری ہو جائے اور کسی کو یہ کہنے کا موقع نہ رہے کہ میرے پاس فرصت نہ تھی، اللہ نے یہ نظام ہی ایسا جاری فرمایا ہے کہ مشغول سے مشغول آدمی بھی اس میں کھپ سکتاہے، اس نظام کے ذریعے اللہ تعالیٰ نے یہ سبق دیا کہ تمہارے ذمے اس پیغام کا پہنچا دینا ہے، اگر کسی کو ”لاالٰہ الا اللہ محمد رسول اللہ“ یاد ہے، وہ یہی دوسرے بھائی کو سکھا دے، کسی کو ”سبحانک اللہم“ یاد ہے وہ سکھا دے، کیوں کہ ایسے لوگ بھی موجود ہیں جن کو یہ بھی یاد نہیں۔

روح کی غذا،تبلیغی جماعت
تو اللہ رب العالمین کی ربوبیت کا جیسا مادی نظام ہے، ایسا ہی تبلیغی جماعت کا وجود میرے نزدیک روح کی غذا اور آخرت کی تیاری کے لیے اللہ تعالیٰ کا روحانی نظامِ ربوبیت ہے۔ یہ ایک ”مختصر متن “ ہے،جس کی شرح پر کتابیں لکھی جاسکتی ہیں، اس لیے میں آپ حضرات سے یہی عرض کروں گا کہ آپ اس جماعت سے تعلق رکھیں، خدا تعالیٰ آپ کو توفیق دے، آپ دنیا کے اندر اِنقلاب پیدا کر دیں گے، فرض شناسی اور دِین پر چلنے کی ہمت آپ میں پیدا ہو گی اور اس کی وہ لذت، فرحت اور مسرت آپ کو حاصل ہو گی کہ #
        لذتِ ایں بادہ بخدا نشناسی تا نہ چشی

بوریا نشین فقیروں کا خزانہ
اور سچ پوچھیے تو اللہ تعالیٰ کے ذکر میں وہ لذت، وہ سرور اور وہ اطمینانِ قلب رکھا ہوا ہے کہ بے چارے بادشاہوں کو اس کی ہوا بھی نہیں لگی کہ ان بوریا نشین فقیروں کے پاس سکونِ قلب کی کتنی بڑی دولت ہے، ان کا حال تو وہی ہے جوقرآن مجید میں بیان فرمایا گیا ہے: ﴿وان جھنم لمحیطة بالکافرین﴾(التوبة:49) ترجمہ:”اور بے شک جہنم محیط ہے کافروں کو“۔

آخرت میں تو جہنم ان کو گھیرے ہوئے ہو گی ہی، یہ دنیا بھی ان کے لیے سراپا جہنم بن کر رہ جائے گی۔

آخرت کی جادوانی زندگی کا حصول
تو اللہ جل ذکرہ نے تبلیغی جماعت کے ذریعے ہدایت کا سامان پیدا کر دیا ہے اور آپ کے لیے اپنی اور اپنے بھائیوں کی اصلاح کی صورت پیدا کر دی ہے، اللہ تعالیٰ ہم سب کو توفیق عطا فرمائیں کہ ہم اس پر گام ز ن ہو جائیں، تاکہ ہماری زندگی درست ہو جائے،ہماری ساری زندگی آخرت کے لیے بن جائے اور ہمیںآ خرت کی جادوانی زندگی نصیب ہو جائے“۔ (بصائر و عبر)

Flag Counter