Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1437ھ

ہ رسالہ

7 - 18
میلا دالنبی صلی الله علیہ وسلم اور موسیقی

مولانا عبدالحمید تونسوی
	
عید میلاد النبی یا جشن میلا دالنبی کے نام سے منعقد ہو نے والے پرو گراموں میں لوگ اس حد تک آگے بڑھ گئے ہیں کہ انہوں نے ساز،باجے اور موسیقی کے ناپاک اور شیطانی عمل کو بھی اس میں شامل کر لیا ہے ،فحش گانوں کے لہجہ اور انداز میں نعت خوانی کے ساتھ قوالی وغیرہ کے عنوان سے موسیقی کے آلات بھی استعمال ہو ناشروع ہو گئے ہیں، ان نادانوں کو یہ بھی معلوم نہیں کہ آقا ئے نام دار، حضور صلی الله علیہ وسلم تو گانا اور موسیقی سے سختی کے ساتھ منع فرمائیں اور خود نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے نام پر منعقد ہو نے والی مجلسوں میں موسیقی کو جگہ دے کر آپ کے حکم کی کھلی مخالفت کی جائے ،بلکہ موسیقی کو روح کی غذا قرار دیا جائے۔( نعوذ بالله تعالیٰ )

الله تعالیٰ کا قرآن مجید میں ارشاد ہے :﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَن سَبِیْلِ اللَّہِ بِغَیْْرِ عِلْمٍ وَیَتَّخِذَ ہَا ہُزُواً أُولَئِکَ لَہُمْ عَذَابٌ مُّہِیْنٌ﴾ ( لقمان:6)
” بعض ایسے آدمی بھی ہیں جو کھیل کی باتوں کے خریدار ہیں تاکہ بغیر سمجھے الله کے راستے سے گمراہ کریں اور اس کا مذاق بنائیں ، ایسے لوگوں کیلیے ذلت کا عذاب ہے۔“

اس آیت میں ” لہوالحدیث “ (کھیل کی باتوں ) سے مراد گانے بجانے کے آلات ہیں ، کئی صحابہ کرام  ، تابعین عظام اور مفسرین کرام سے اس آیت کی یہی تفسیر منقول ہے ۔

اور حضرت عائشہ  سے مروی ہے: ” قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم:ان الله عز وجل حرم القینة وبیعھا وثمنھا وتعلیمھا والاستماع الیھا، ثم قرأ ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ﴾․

” رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ الله تعالیٰ نے گانے والی ( عورت اور آلات ) کو حرام کیا ہے ، اس کے بیچنے کو بھی اور اس کی قیمت کو بھی اور اسے گانا سکھانے کو بھی اور اس کا گانا سننے کو بھی ۔ پھر رسول اکرم صلی الله علیہ وسلم نے یہ آیت تلاوت فرمائی۔ ﴿وَمِنَ النَّاسِ مَن یَشْتَرِیْ لَہْوَ الْحَدِیْثِ․“

پہلے زمانے میں گانا صرف انسان کی زبان سے ہو تا تھا اور آج گانے کو مختلف چیزوں ( مثلا کیسٹ ،سی ڈی ،موبائل وغیرہ تمام الیکٹرونک آلات ) میں ریکارڈ کر لیا جاتا ہے، جن چیزوں میں گانا ریکارڈ کر لیا جائے ، وہ بھی اس حکم میں داخل ہیں اور ان کی خریدوفروخت اور ان سے گانا سننا گناہ ہے ۔

اور حضرت عبدالله بن مسعود  سورہ لقمان کی مذکورہ آیت کے بارے میں فرماتے ہیں ” ہو والله،الغناء “ ( مستدرک حاکم :رقم الحدیث3542 )

” قسم الله کی وہ ( یعنی لہو الحدیث ) گانا ہے ۔“

اور حضرت ابن عباس اور حضرت مجاہد اور حضرت عکرمہ وغیرہ سے بھی مذکورہ آیت کی یہی تفسیر منقول ہے ۔

احادیث مبارکہ:
حضرت عبدالرحمن بن غنم سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”لیکونن من امتی اقوام یستحلون الحر والحریر والخمروالمعازف․ “( بخاری : رقم الحدیث 5590)

”یقینا میری امت میں سے کچھ لوگ ایسے ہوں گے جو زنا ، ریشم اور شراب اور آلات موسیقی کو ( خوش نما تعبیروں سے ، جیسے آرٹ کلچر ، ثقافت وغیرہ ) حلال کر لیں گے۔“

جو لوگ نعوذ بالله موسیقی کو روح کی غذا قرار دے رہے ہیں اور نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ولادت کے نام پر اس کو کار خیر سمجھ کر اختیا ر کر ر ہے ہیں وہ بھی اس حدیث کی مذکورہ وعید میں داخل ہیں ۔

حضرت ابو ہریرہ  سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا!

” یمسخ قوم من امتی فی آخر الزمان قردة وخنازیر، قیل یا رسول الله ویشھد ون ان لا الہ الا الله وانک رسول الله صلی الله علیہ وسلم ویصومون؟ قال نعم، قیل: فما بالھم یا رسول الله،؟ قال یتخذ ون المعازف والقینات والدفوف ویشربون الاشربة، فباتوا علی شربھم ولھوھم، فاصبحوا قد مسخوا قردة وخنازیر․ “ ( حلیة الاولیاء لابی نعیم الاصبھانی،رقم الحدیث 8)

”آخری زمانے میں میری امت کے کچھ لوگوں کو بندراور خنزیر کی شکل سے مسخ کردیا جائے گا ، کہا گیا کہ اے الله کے رسول ! وہ لوگ الله کی توحید اور آپ کے رسول ہو نے کی گواہی دیں گے اور روزے رکھیں گے ؟ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایاکہ جی ہا ں ۔ عرض کیاگیاکہ الله کے رسول ! ان کے کیا اعمال ہو ں گے ؟

رسو ل الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ گانے بجانے کے آلات اختیار کریں گے اور گانے والی ( عورتیں اور چیزیں ) رکھیں گے اور ڈھول اور دف رکھیں گے اور شرابیں پییں گے تو وہ شراب پی کر اور لہو ولعب کی حالت میں رات گزاریں گے ، پھر اس حال میں صبح کریں گے کہ ان کو بندر اور خنزیر کی شکلوں میں مسخ کردیا گیا ہو گا۔“

موسیقی کو جائز ،بلکہ ثواب سمجھنے والے نادان سوچ لیں کہ وہ کہیں الله کی پکڑ میں نہ آجائیں اور بندر اور خنزیر کی شکل میں مسخ نہ کردیے جائیں ۔

اس حدیث سے تمام آلات موسیقی کا حرام ہونا ظاہر ہو ا ۔

حضرت جابر  کی ایک لمبی حدیث میں ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ:
” نھیت عن صوتین احمقین فاجرین، صوت عند نغمة لھو ولعب ومزامیر الشیطان، وصوت عند مصیبة لطم وجوہ وشق جیوب․“ ( مستدرک حاکم : رقم الحدیث 6825)

میں نے دو احمق اور فاجر ( گناہ والی ) آوازوں سے منع کیا ہے ، ایک نغمہ کے وقت لہوو لعب کی اور شیطانی بانسریوں سے اور مصیبت کے وقت کی آوازسے اپنے چہرے کو پیٹنے سے اور اپنے کپڑے پھاڑ نے سے۔

حضرت نافع کی روایت میں ہے !

” ان ابن عمر سمع صوت زمارة راع، فوضع اصبعیہ فی اذنیہ، وعدل راحلتہ عن الطریق، وہو یقول یانافع اتسمع؟ فاقول نعم، فیمضی حتیٰ قلت: لافوضع یدیہ واعاد راحلتہ الی الطریق، وقال رأیت رسول الله صلی الله علیہ وسلم، وسمع صوت زمارة راع فصنع مثل ہذا․“ ( مسند احمد : رقم الحدیث 4535)

”حضرت ابن عمر  نے ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سنی تو اپنی انگلیوں کو اپنے کانوں میں رکھ لیا اور اپنی سواری کو راستے سے ہٹالیا ( آواز سے دور ہونے کی غرض سے راستے سے ہٹ کر چلتے رہے ) اور یہ کہتے رہے کہ اے نافع کیا آپ کو آواز آرہی ہے ؟ میں نے کہا کہ جی ہا ں ، آپ نے یہ عمل برابر جاری رکھا ، یہاں تک کہ میں نے کہا کہ اب آواز نہیں آرہی تو آپ نے اپنے ہاتھ ہٹائے اور اپنی سواری کو راستے پر واپس لے آئے اور فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو ایک چرواہے کی بانسری کی آواز سننے کے وقت اسی طرح کر تے ہو ئے دیکھا تھا ۔“

غور فرمائیے کہ حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم اورآپ کی اتباع میں صحابہ کرام  تو ایک بانسری کی آواز آنے پر بھی کان بند فرمالیا کرتے تھے ۔اور آج آپ کے نام لیوا نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے میلاد کے نام پر ہی کتنے موسیقی کے آلات استعمال کر تے ہیں ؟!

حضرت عبدالله بن عمر و بن عاص  سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا !

”ان ربی حرم علي الخمر والمیسر والکوبة والقنین․ والکوبة الطبل “ ( السنن الکبریٰ للبیھقی : رقم الحدیث 20994)

”بے شک میرے رب نے میرے اوپر شراب کو اور جوئے کو اور کوبہ کو حرام کیا ہے اور کو بہ سے مراد طبلہ ہے ۔“

حضرت عائشہ  کے بارے میں یہ واقعہ مروی ہے!

”اذ دخل علیہا بجاریة وعلیہا جلاجل یصوتن فقالت لا تد خلنھا علي الا ان تقطعواجلاجلھا وقالت سمعت رسول الله صلی الله علیہ وسلم:یقول لا تدخل الملائکة بیتا فیہ جرس․“ (سنن ابی داوٴد: رقم الحدیث 4231)

” حضرت عائشہ  کے پاس ایک بچی لا ئی گئی ، جس نے آواز والے گھنگھرو پہنے ہو ئے تھے تو انہوں نے فرمایا کہ اسے میرے پاس نہ لاوٴ ، جب تک کہ اس کے گھنگھرونہ کا ٹ دو ۔اور فرمایا کہ میں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے سنا ہے کہ فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہو تے ،جس میں گھنٹی ہو ۔“

حضرت ابن عباس  فرماتے ہیں کہ!

” الدف حرام والمعازف حرام، والکوبة حرام، والمزمار حرام “․ ( السنن الکبری للبیھقی: رقم الحدیث 21000)

” دَف حرام ہے اور گانے بجانے کے آلات ( موسیقی ) حرام ہیں اور طبلہ حرام ہے اور بانسری حرام ہے۔“

حضرت عائشہ  کے بارے میں ایک تقریب کے حوالے سے یہ قصہ مذکور ہے کہ !

” فمرت عائشة فی البیت، فرأتہ یتغنی، ویحرک رأسہ طربا، وکان ذاشعر کثیر، فقالت: اُف، شیطان اخرجوہ، اخرجوہ“
( الادب المفرد للبخاری : رقم الحدیث 1247)

”پس حضرت عائشہ  اس گھر میں سے گزریں تو ا س آدمی کو دیکھا کہ وہ گانا گا رہا ہے اور اپنے سر کو مستی کے ساتھ حرکت دے رہا ہے اور اس کے بڑے بڑے بال تھے، تو سیدہ عائشہ  نے فرمایا کہ! اُ ف یہ شیطان ہے، اسے باہر نکالو ، باہر نکالو۔“

آج بھی قوال اور گوئیے بڑے بڑے بال رکھتے ہیں ،ڈاڑھیاں منڈاتے ہیں ،نشہ کے عادی ہو تے ہیں اور دوران قوالی اپنے سر مستی سے ہلاتے ہیں ،جو کہ سیدہ عائشہ  کے فرمان کے مطابق شیطان ہیں ۔

حضرت شریح فرماتے ہیں کہ ” ان الملائکة لاید خلون بیتاً فیہ دف “ ( مصنف ابن ابی شیبہ : رقم الحدیث 26993)

” فرشتے اس گھر میں داخل نہیں ہو تے جس میں دف ہو۔“

ٍ حضرت ابراہیم نجعی فرماتے ہیں کہ
” کان اصحاب عبدالله یستقبلون الجواری فی الازفة، معھن الدفوف، فیشقونھا․“( مصنف ابن ابی شیبہ : رقم الحدیث 26995)

”حضرت عبدالله بن مسعود  کے شاگرد وں کو ( آتے جاتے ہوئے) راستوں میں ( چھوٹی ) بچیوں کا سامنا ہو تا تھا ، جن کے ساتھ دفیں (طبلے وڈھولکیاں ) ہوا کرتی تھیں ، تو وہ ان کو پھاڑ دیا کرتے تھے۔“ ( تلک عشرة کاملة)

فائدہ :”معازف “عربی زبان میں گانے بجانے کے تمام آلات کو کہا جاتا ہے ، جس میں ڈھول ، بانسری وغیرہ سب داخل ہے ۔اور” دف“اسے کہا جاتاہے کہ جس کے صرف ایک طرف بجانے کی جگہ ہو تی ہے ۔اور ڈھول اسے کہا جاتا ہے جو دونوں طرف سے بجا یا جاتا ہے ۔اور ”کوبہ“ طبلے کو کہتے ہیں۔

ملحوظ رہنا چاہیے کہ مندرجہ بالا احادیث میں واضح طور پر گانے بجانے کے آلات کا ذکر ہے، جس سے واضح ہو تا ہے کہ اگر خالی گانے بجانے کے آلات کو بھی استعمال کیا جائے اور اس کے ساتھ گانے والے کسی انسان کی آواز شامل نہ ہو تب بھی یہ ناجائز وحرام ہے ۔نیز گانے بجانے کے ناجائز ہونے پر ائمہ اربعہ ( امام ابو حنیفہ  ، امام شافعی  ، امام مالک  ، امام احمد بن حنبل ) کا اجماع ہے ۔

دف سے متعلق ایک اشکال اور اس کا حل
بعض روایات میں نکاح کے موقع پر دف کے ذریعے سے اعلان کی اجازت ملتی ہے ۔تو بعض لوگو ں کو اس سے شبہ پیدا ہوتا ہے، مگر یاد رہے کہ…

اول  تو گانے بجانے کے آلات کے ناجائز اور ڈھول اور دَف کے گانے بجانے کے آلات میں داخل ہو نے اور خود دَ ف کے ناجائز ہو نے پر احادیث وروایات موجود ہیں، جو ہم نے نقل کر دی ہیں۔ اور پھر جائز وناجائز میں تعارض ہو نے کی صورت میں ناجائز کو ترجیح حاصل ہو اکر تی ہے ۔

دوسرے   دَ ف کے جائز ہو نے کے سلسلہ میں بعض روایات ضعیف بھی ہیں ۔

اور آخری درجے میں اگر دف کا جائز ہونا بھی تسلیم کر لیا جائے تو وہ بھی کئی شرائط کے ساتھ مقید تھا ۔

مثلاً : ایک شرط یہ تھی کہ کہ دف سادی ہو ، اس کے ساتھ گھنگھرو اور گانے بجانے کا کوئی دوسرا آلہ استعمال نہ ہو ( جیساکہ پہلے زمانے میں سادہ دفیں ہو اکر تی تھیں اور آج کل معاملہ اس کے برعکس ہے ۔)

اور دوسری شرط یہ تھی کہ دف بجانے کا انداز سادہ ہو، یعنی اس میں کوئی خاص طرز اور دھن نہ لگائی جا ئے، ( جیساکہ مشاق لوگ خاص طرز اور دھن کے ساتھ بجاتے ہیں ) ،بلکہ بغیر کسی طرزاور لَے کے اس کو چند مرتبہ بجالیا جائے ، جس کو پیٹنا اور مارنا کہا جاتا ہے ۔

اور تیسری یہ کہ اس کا نکاح وغیرہ کے موقع پر جائز ہو نا بھی خواتین کے ساتھ مخصوص تھا اور اس سے مقصود بھی ( نکاح وغیرہ کا ) اعلان تھا ، نہ کہ بذات خود اس کی آواز کا سننا، سنانا یا لطف انداز ہو نا ۔ اور آج کل پہلے زمانے کے مقابلے میں اعلان وشہرت کے دوسرے بے شمار جائز ذرائع موجود ہیں ۔ اس لیے اس دف کی بھی چنداں ضرورت نہیں ۔

اور جب اس سے مقصود اعلان تھا تو یہ بھی ضروری تھا کہ جتنی مقدار سے اعلان ہو جائے ، اس پر اکتفا کیا جائے ، نہ یہ کہ نکاح وغیرہ کے اعلان وعنوان سے گھنٹو ں تک دف اور ڈھول بجایا جائے ۔

اور چوتھی شرط یہ تھی کہ اس کے ساتھ قرآن مجید کی تلاوت اور ذکر (حمدونعت وغیرہ ) شامل نہ ہو ۔

اور ایک اہم شرط یہ بھی تھی کہ یہ کسی ناجائز چیز کا ذریعہ نہ نبے ۔

اور آج کل چوں کہ گانے بجانے کا استعمال اور جہالت عام ہے، مذکورہ بالا شرائط کی رعایت بھی عام طور پر نہیں ہے ، اس لیے موجودہ حالا ت میں محققین نے اس کو مطلقاً ممنوع قرار دے دیا ہے ، چوں کہ جب کسی مباح وجائز، بلکہ مستحب عمل میں بھی مفاسد پیدا ہو جائیں ، تو وہ عمل جائز ومستحب سے نکل کر، ناجائز کے زمرے میں داخل ہو جاتا ہے۔ ( امدادالفتاویٰ: 279/2۔ اسلام اور موسیقی :215)

بہر حال موسیقی اور گانے بجانے کے آلات کا استعال ویسے ہی گناہ ہے اور میلا النبی کے نام سے ذکر ونعت کے وقت اس طرح کے آلات کو استعمال کر نا اور بھی سنگین گناہ ہے ۔

Flag Counter