Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1437ھ

ہ رسالہ

10 - 18
دنیا وآخرت کی کامیابی کی 7 صفات

مولانا محمد نجیب قاسمی( ریاض)
	
سورہٴ المؤمنون کی ابتدائی11 آیات میں مؤمنین کی بعض صفات کا ذکر کیا گیا ، جن کے بغیر کام یابی ممکن نہیں ہے، الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:﴿قَدْ أَفْلَحَ الْمُؤْمِنُون، الَّذِیْنَ ہُمْ فِیْ صَلَاتِہِمْ خَاشِعُونَ، وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُونَ ، وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِلزَّکَاةِ فَاعِلُونَ، وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِفُرُوجِہِمْ حَافِظُون، إِلَّا عَلَی أَزْوَاجِہِمْ أوْ مَا مَلَکَتْ أَیْْمَانُہُمْ فَإِنَّہُمْ غَیْْرُ مَلُومِیْنَ ، فَمَنِ ابْتَغَی وَرَاء ذَلِکَ فَأُوْلَئِکَ ہُمُ الْعَادُونَ، وَالَّذِیْنَ ہُمْ لِأَمَانَاتِہِمْ وَعَہْدِہِمْ رَاعُونَ، وَالَّذِیْنَ ہُمْ عَلَی صَلَوَاتِہِمْ یُحَافِظُونَ،أُوْلَئِکَ ہُمُ الْوَارِثُونَ ، الَّذِیْنَ یَرِثُونَ الْفِرْدَوْسَ ہُمْ فِیْہَا خَالِدُونَ﴾․ (سورة المؤمنون:11-1)
ان ایمان والوں نے یقینا کام یابی حاصل کر لی جن کی نمازوں میں خشوع وخضوع ہے… جو لغو کاموں سے دور رہتے ہیں… جو زکوٰة کی ادائیگی کرتے ہیں … جو اپنی شرم گاہوں کی ( اور سب سے ) حفاظت کرتے ہیں سوائے اپنی بیویوں اور اُن کنیزوں کے جو اُن کی ملکیت میں آچکی ہوں، کیوں کہ ایسے لوگ قابل ملامت نہیں۔ ہاں! جو لوگ اس کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیارکرنا چاہیں تو ایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں… اور وہ جو اپنی امانتوں اور اپنے عہد کا پاس رکھنے والے ہیں… او رجو اپنی نمازوں کی پوری نگرانی رکھتے ہیں… یہ ہیں وہ وارث جنہیں جنت الفردوس کی میراث ملے گی۔ یہ اس میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے۔

الله تعالیٰ ( جو انس وجن وتمام مخلوقات کا پیدا کرنے والا ہے، جو خالق مالک رازق کائنات ہے، جس کا کوئی شریک نہیں ہے، جو انسان کی رگ رگ سے ہی نہیں، بلکہ کائنات کے ذرہ ذرہ سے اچھی طرح واقف ہے) نے انسان کی کام یابی کے لیے ان آیات میں الله اور اس کے رسول پر ایمان کے علاوہ سات صفات ذکر فرمائی ہیں کہ اگر کوئی شخص واقعی کام یاب ہونا چاہتا ہے تو وہ دنیاوی فانی زندگی میں موت سے قبل ان سات اوصاف کو اپنے اند رپیدا کر لے۔ ان سات اوصاف کے حامل ایمان والے جنت کے اُس حصہ کے وارث بنیں گے جو جنت کا اعلیٰ بلند حصہ ہے، جہاں ہر قسم کا سکون واطمینان وآرام وسہولت ہے، جہاں ہر قسم کے باغات ، چمن ، گلشن اور نہریں پائی جاتی ہیں، جہاں خواہشوں کی تکمیل ہے، جس کو قرآن وسنت میں جنت الفردوس کے نام سے موسوم کیا گیا ہے … یہی اصل کام یابی ہے کہ جس کے بعد کبھی ناکامی، پریشانی، دشواری، مصیبت او رتکلیف نہیں ہے، لہٰذا ہم دنیاوی، عارضی ومحدود خوش حالی کو فلاح نہ سمجھیں، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کی کام یابی کے لیے کوشاں رہیں۔

ایمان والوں سے مراد وہ لوگ ہیں جنہوں نے الله تعالیٰ کی وحدانیت کا اقرار کیا، حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کو پیغمبر تسلیم کیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی تعلیمات پر عمل پیرا ہوئے۔ انسان کی کام یابی کے لیے سب سے پہلی اور بنیادی شرط الله تعالیٰ اور اس کے رسول پر ایمان لانا ہے، اس کے علاوہ انسان کی کام یابی کے لیے جو سات اوصاف الله تعالیٰ نے ان آیات میں ذکر فرمائے ہیں وہ یہ ہیں:

خشوع وخضوع کے ساتھ نماز کی ادائیگی
خضوع کے معنی ظاہری اعضا کو جھکانے ( یعنی جسمانی سکون) اور خشوع کے معنی دل کو عاجزی کے ساتھ نماز کی طرف متوجہ رکھنے کے ہیں۔ خشوع وخضوع کے ساتھ نماز پڑھنے کا آسان طریقہ یہ ہے کہ ہم نماز میں جو کچھ پڑھ رہے ہیں اس کی طرف دھیان رکھیں اور اگر غیراختیاری طور پر کوئی خیال آجائے تو وہ معاف ہے، لیکن جونہی یاد آجائے دوبارہ نماز کے الفاظ کی طرف متوجہ ہو جائیں ۔ غرض کہ ہماری پوری کوشش ہونی چاہیے کہ نماز کے وقت ہمارا دل الله تعالیٰ کی طرف متوجہ رہے او رہمیں یہ معلوم ہو کہ ہم نماز کے کس رکن میں ہیں او رکیا پڑھ رہے ہیں۔ اسی طرح ہمیں اطمینان وسکون کے ساتھ نماز پڑھنی چاہیے، جیسا کہ حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم مسجد میں تشریف لائے۔ ایک اور صاحب بھی مسجد میں آئے اور نماز پڑھی، پھر ( رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے پاس آئے اور) رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو سلام کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے سلام کا جواب دیا اور فرمایا: جاؤ، نماز پڑھو، کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ وہ گئے اور جیسے نماز پہلے پڑھی تھی ویسے ہی نماز پڑھ کر آئے، پھر رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو آکر سلام کیا۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جاؤ، نماز پڑھو ،کیوں کہ تم نے نماز نہیں پڑھی۔ اس طرح تین مرتبہ ہوا۔ اُن صاحب نے عرض کیا: اُس ذات کی قسم جس نے آپ صلی الله علیہ و سلم کو حق کے ساتھ بھیجا ہے! میں اس سے اچھی نماز نہیں پڑھ سکتا، آپ مجھے نماز سکھائیے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جب تم نماز کے لیے کھڑے ہو تو تکبیر کہو، پھر قرآن مجید میں سے جو کچھ پڑھ سکتے ہو پڑھو۔ پھر رکوع میں جاؤ تو اطمینان سے رکوع کرو، پھر رکوع سے کھڑے ہو تو اطمینان سے کھڑے ہو، پھر سجدہ میں جاؤ تو اطمینان سے سجدہ کرو، پھر سجدہ سے اٹھو تو اطمینان سے بیٹھو، یہ سب کام اپنی پوری نماز میں کرو۔ (صحیح بخاری)

لغو کاموں سے دوری
لغو اس بات او رکام کو کہتے ہیں جو فضول، لا یعنی اور لاحاصل ہو، یعنی جن باتوں یا کاموں کا کوئی فائدہ نہ ہو، مولائے حقیقی نے اس آیت میں ارشاد فرمایا کہ لغو کاموں کو کرنا تو درکنار اُن سے بالکل دور رہنا چاہیے … ہمیں ہر فضول بات اور کام سے بچنا چاہیے، قطع نظر اس کے کہ وہ مباح ہو یا غیر مباح، کیوں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”من حسن اسلام المرء ترکہ مالا یعنیہ“․ (ترمذی) انسان کا اسلام اسی وقت اچھا ہو سکتا ہے جب کہ وہ بے فائدہ اور فضول چیزوں کوچھوڑ دے۔

زکوٰة کی ادائیگی
انسان کی کام یابی کے لیے تیسری اہم شرط زکوٰة کے فرض ہونے پر اس کی ادائیگی ہے، زکوٰة اسلام کے بنیادی پانچ ارکان میں سے ایک ہے، الله تعالیٰ نے قرآن کریم میں نماز کے بعد سب سے زیادہ حکم زکوٰة کی ادائیگی کا ہی دیا ہے ۔ (سورہٴ التوبہ آیت:35-34) میں الله تعالیٰ نے اُن لوگوں کے لیے بڑی سخت وعید بیان فرمائی ہیجو اپنے مال کی کماحقہ زکوٰة نہیں نکالتے۔ اُن کے لیے بڑے سخت الفاظ میں خبر دی ہے، چناں چہ فرمایا کہ جو لوگ اپنے پاس سونا چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو الله کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، تو ( اے نبی!) آپ اُن کو ایک درد ناک عذاب کی خبر دے دیجیے، یعنی جو لوگ اپنا پیسہ، اپنا روپیہ، اپنا سونا چاندی جمع کرتے جارہے ہیں او راُن کو الله کے راستے میں خرچ نہیں کرتے، اُن پرالله نے جو فریضہ عائد کیا ہے اُس کو ادا نہیں کرتے، اُن کو یہ بتا دیجیے کہ ایک درد ناک عذاب اُن کا انتظار کررہاہے۔ پھر دوسری آیت میں اُس درد ناک عذاب کی تفصیل ذکر فرمائی کہ یہ درد ناک عذاب اُس دن ہو گا جس دن سونے اور چاندی کو آگ میں تپایا جائے گا اورپھر اُس آدمی کی پیشانی ، اس کے پہلو اور اس کی پشت کو داغا جائے گا او راس سے یہ کہا جائے گا کہ یہ ہے وہ خزانہ …جو تم نے اپنے لیے جمع کیا تھا، آج تم اس خزانے کا مزہ چکھو جو تم اپنے لیے جمع کر رہے تھے۔

شرم گاہوں کی حفاظت
الله تعالیٰ نے جنسی خواہش کی تکمیل کا ایک جائز طریقہ یعنی نکاح مشروع کیا ہے۔ انسان کی کام یابی کے لیے الله تعالیٰ نے ایک شرط یہ بھی رکھی ہے کہ ہم جائز طریقہ کے علاوہ اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں۔ اس آیت کے اختتام پر الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا﴿فانھم غیر ملومین﴾ یعنی میاں بیوی کا ایک دوسرے سے شہوت نفس کو تسکین دینا قابل ملامت نہیں، بلکہ انسان کی ضرورت ہے۔ لیکن جائز طریقہ کے علاوہ کوئی بھی صورت شہوت پوری کرنے کی جائز نہیں ہے، جیسا کہ الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا﴿ فمن ابتغی وراء ذلک فأولئک ھم العدون﴾ یعنی جائز طریقہ کے علاوہ کوئی اور طریقہ اختیا رکرنا چاہیں توایسے لوگ حد سے گزرے ہوئے ہیں۔ الله تعالیٰ نے زنا کے قریب بھی جانے کو منع فرمایا ہے ﴿ وَلاَ تَقْرَبُواْ الزِّنَی إِنَّہُ کَانَ فَاحِشَةً وَسَاء سَبِیْلا﴾(سورہٴ الاسراء:32) نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” العین تزنی، وزناھا النظر“ یعنی آنکھ بھی زنا کرتی ہے اور اس کا زنا نظر ہے … آج روزہ مرہ کی زندگی میں مرد وعورت کا کثرت سے اختلاط ، مخلوط تعلیم، بے پردگی، ٹی وی اور انٹرنیٹ پر فحاشی اور عریانی کی وجہ سے ہماری ذمہ داری بڑھ جاتی ہے کہ ہم خود بھی زنا اور زنا کے لوازمات سے بچیں اور اپنے بچوں، بچیوں اور گھر والوں کی ہر وقت نگرانی رکھیں، کیوں کہ اسلام نے انسان کو زنا کے اسباب سے بھی دور رہنے کی تعلیم دی ہے۔ زنا کے وقوع ہونے کے بعد اس پر ہنگامہ، جلسہ وجلوس ومظاہروں کے بجائے ضرورت اس بات کی ہے کہ اسلامی تعلیمات کے مطابق حتی الامکان غیر محرم مرد وعورت کے اختلاط سے ہی بچا جائے۔

امانت کی ادائیگی
امانت کا لفظ ہر اس چیز کو شامل ہے جس کی ذمے داری کسی شخص نے اٹھائی ہو اور اس پراعتماد وبھروسہ کیا گیا ہو، خواہ اس کا تعلق حقوق العباد سے ہو یا حقوق الله سے۔ حقوق الله سے متعلق امانت فرائض وواجبات کی ادائیگی اور محرمات ومکروہات سے پرہیز کرنا ہے اور حقوق العباد سے متعلق امانت میں مالی امانت کا دخل ہونا تو مشہور ومعروف ہے، اس کے علاہ کسی نے کوئی راز کی بات کسی کو بتلائی تو وہ بھی اس کی امانت ہے، اذن شرعی کے بغیر کسی کا راز ظاہر کرنا امانت میں خیانت ہے۔ اسی طرح کام کی چوری یا وقت کی چوری بھی امانت میں خیانت ہے ۔ لہٰذا ہمیں امانت میں خیانت سے بچنا چاہیے۔

عہد وپیمان پورا کرنا
عہد ایک تو وہ معاہدہ ہے جو دو طرف سے کسی معاملہ میں لازم قرار دیا جائے، اس کا پورا کرنا ضروری ہے، دوسرا وہ جس کو وعدہ کہتے ہیں، یعنی کوئی شخص کسی شخص سے کوئی چیز دینے کا یا کسی کام کے کرنے کا وعدہ کر لے، اس کا پورا کرنا بھی شرعاً ضروری ہو جاتا ہے، غرض کہ اگر ہم کسی شخص سے کوئی عہد وپیمان کر لیں تو اس کو پورا کریں۔

نماز کی پابندی
کام یاب ہونے والے وہ ہیں جو اپنی نمازوں کی بھی پوری نگرانی رکھتے ہیں، یعنی پانچوں نمازوں کو ان کے اوقات پر اہتمام کے ساتھ پڑھتے ہیں۔ نماز میں الله تعالیٰ نے یہ خاصیت وتاثیر رکھی ہے کہ وہ نمازی کوگناہوں اور برائیوں سے روک دیتی ہے، مگر ضروری ہے کہ اس پر پابندی سے عمل کیا جائے اور نماز کو ان شرائط وآداب کے ساتھ پڑھا جائے جو نماز کی قبولیت کے لیے ضروری ہیں، جیسا کہ الله تبارک وتعالیٰ نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا:﴿وَأَقِمِ الصَّلَاةَ إِنَّ الصَّلَاةَ تَنْہَی عَنِ الْفَحْشَاء وَالْمُنکَر﴾․ (سورہٴ العنکبوت:45) نماز قائم کیجیے، یقینا نماز بے حیائی اوربرائی سے روکتی ہے۔ اسی طرح حدیث میں ہے کہ ایک شخص نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آیا او رکہا کہ فلاں شخص راتوں کو نماز پڑھتا ہے، مگر دن میں چوری کرتا ہے تو نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس کی نماز عنقریب اُس کو اس برے کام سے روک دے گی۔ ( مسند احمد، صحیح ابن حبان، بزار)

یہ بات قابل ذکر ہے کہ الله تعالیٰ نے انسان کی کام یابی کے لیے ضروری سات اوصاف کو نماز سے شروع کیا اور نماز پر ہی ختم کیا، اس میں اشارہ ہے کہ نماز کی پابندی اور صحیح طریقہ سے اس کی ادائیگی انسان کو پورے دین پر چلنے کا اہم ذریعہ بنتی ہے۔ اسی لیے قرآن کریم میں سب سے زیادہ نماز کی ہی تاکید فرمائی گئی ہے۔ کل قیامت کے دن سب سے پہلے نماز ہی کے متعلق سوال کیا جائے گا۔ نماز کے علاوہ تمام احکام الله تعالیٰ نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کے واسطہ دنیا میں اتارے ،مگر نماز ایسا مہتم بالشان عمل ہے کہ الله تبارک وتعالیٰ نے ساتوں آسمانوں کے اوپر حضرت جبرائیل کے واسطہ کے بغیر نماز کی فرضیت کا تحفہ اپنے حبیب صلی الله علیہ وسلم کو عطا فرمایا۔ الله تعالیٰ ہم سب کو نمازوں کا اہتمام کرنے والا بنائے۔ آمین ثم آمین

الله تعالیٰ نے ہر انسان کی طبیعت میں کام یابی کی چاہت رکھی ہے، چناں چہ ہر انسان کام یاب ہونا چاہتا ہے۔ ان آیات میں الله تعالیٰ نے بیان کیا کہ انسان کی کام یابی ایمان کے بعد سات صفات میں مضمر ہے، یعنی اگر ہم کام یاب ہونا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے اندر یہ صفات پیدا کریں۔ ان سات اوصاف سے متصف ایمان والوں کو الله تعالیٰ نے 10 اور11 آیات میں جنت الفردوس کا وارث بتلایا ہے۔ لفظ وارث میں اس طرف اشارہ ہے کہ جس طرح مورث کا مال اس کے وارث کو پہنچنا قطعی اور یقینی ہے، اسی طرح ان سات اوصاف والوں کا جنت الفردوس میں داخلہ یقینی ہے۔

الله تبارک وتعالیٰ ہم سب کو ان سات اوصاف کے ساتھ زندگی گزارنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں جنت الفردوس کا وارث بنائے، آمین۔


Flag Counter