Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1437ھ

ہ رسالہ

2 - 18
ماہ ربیع الاول اور بدعات و رسوم

محمدشعیب خلیل، متعلم جامعہ فاروقیہ ، کراچی
	
انسان پر اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا شمار اسی طرح محال ہے جیسے سورج کی روشنی میں ستارے گننا،مگر سب سے بڑھ کر جو احسان اللہ نے بالخصوص انسان پر اور بالعموم پوری کائنات پر فرمایا وہ اپنے محبوب ، رحمة للعالمین ،خیر الخلق اور اشرف الناس کو عالم دنیا میں مبعوث فرما کر کیا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو رب العزت نے ربیع الاول (موسم بہار)میں لوگوں کی فلاح کے واسطے دنیا میں بھیجا ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ”بہار در بہار“کی مصداق ہے،ایک تو زمانہ بہار کا ،پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد بھی حسین بہار۔

تقریباً سوا چودہ سو برس پہلے عرب کے ریگستانوں میں ایسی بہار آئی کہ جس سے چہار سو پھیلی ظلمت چھٹ گئی ،ہر سمت چھائی گھٹائیں مٹ گئیں، ہر ذرے پر نور برسنے لگا اشجار سر سبز ہوئے اور زمین بھی شاداب ہوئی ،فضائیں مہکنے لگیں اور ہوائیں جھومنے لگیں ،کیوں کہ اس بہار میں شہنشاہِ اعظم، وجہ تخلیق آدم ،کائنات کے سردار ،زمینوں و آسماں کے سرتاج اور وہ ہستی تشریف لارہی تھی جس کے ثنا خواں زمین پر پتھر اور آسمان پر تارے تھے،جس کا فلک کو روز اول سے انتظار رہا تھا۔

زمانے کی گردش جب بھی ربیع الاول کا ہلال دکھاتی ہے دلوں میں عشق رسول کی لہریں موج زن ہو جاتی ہیں اور ایمان یک دم تازہ ہو جاتا ہے۔ ربیع الاول کی آمد ہر سال تجدید عہد و فا و سنت کا پیام دیتی ہے ،اس ماہ کا حق تو یہ ہے کہ اس میں کوئی خلافِ سنت کام نہ ہو،جودین ھادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم لائے اس کے خلاف کوئی عمل نہ ہو۔مگر افسوس ہے ان احسان فراموش انسانوں پر، جنہوں نے سب کچھ بھلادیا،جہالت کے جس گھٹا ٹوپ اندھیرے سے اس کریم ذات مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے نکالا تھا آج اسی گڑھے میں کودنے کو دوڑ رہے ہیں ،ظلم در ظلم یہ مسلمان حبیبِ خدا کو ناراض کر کے بھی ان کی شفاعت کا امیدوار ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم روشن ہدایت اور عمدہ شریعت لے کر آئے ،وہ ایک ایسی مبارک ملت لائے جس کی راتیں پر امن اور دن پر نور ہوتے ہیں ۔ہادی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں وہ راہ دکھلائی جس پر چل کر انسان دونوں جہاں میں کامیاب ہوتا ہے اور جس سے دلوں کا بگاڑ ختم ہو جاتا ہے ،انسان رحمن کو پہچان لیتا ہے ۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دنیا و آخرت کی بھلائی کی طرف راہ نمائی کی اور غیب کی باتیں بتانے میں کبھی بخل سے کام نہ لیا۔﴿وَمَا ہُوَ عَلَی الْغَیْْبِ بِضَنِیْن﴾․(التکویر)

سو جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں اپنی آمد کے مقصد کو ادا کر چکے اور اللہ کی امانت (اسلام )کو لوگوں تک پورا پہنچا دیا تو راضیاً مرضیاً اپنے خالقِ حقیقی سے جا ملے اور اس دین کو قیامت تک کے لیے کامل و مکمل لوگوں کے درمیاں چھوڑا﴿الْیَوْمَ أَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُم﴾(المائدہ)اب اس دین میں نہ تو کسی زیادتی کی گنجائش ہے اور نہ کسی نقص کا تصور۔

میرے عزیز بھائیو!کچھ تو ہوش کے ناخن لیں اور غور کریں کہ اس مبارک مہینے میں کرنے کے کام کیا ہیں اور ہم کن کاموں میں پڑے ہوئے ہیں؟ جو عمل ہمارے حق میں مفید ہو اس کو اختیار کریں اور جو مضر ہو اس سے کنارہ کریں۔

ربیع الاول اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت باسعادت و وفات
اس بات پر امت کے علماء کا اجماع اور اتفاق ہے کہ آپ کی پیدائش بروزپیر ماہ ربیع الاول ،عام الفیل میں ہوئی ،مگر تاریخ میں اختلاف ہے، بعض مو رخین کہتے ہیں کہ آپ کی پیدائش 2 /ربیع الاول کو ہوئی اور بعض کا کہنا ہے کہ آپ 8 /ربیع الاول کو پیدا ہوئے ۔

ماہر فلکیات علامہ ابن پاشا کی تحقیق کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت 9 /ربیع الاول کو ہوئی،دن پیر کا تھا اور عیسوی تاریخ 20اپریل 571ء تھی ۔(نورالیقین ص14،15)اور یہی قول راحج معلوم ہوتا ہے ۔

اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے متعلق شیخ خضری  بک فرماتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دنیا سے تشریف لے گئے اور اپنے مالکِ حقیقی سے جا ملے وہ دن پیر اور تاریخ 13 /ربیع الاول سن ۱۱ھ بمطابق 8/جون 633ء تھی ،آپ کی عمر مبارک قمری سال کے اعتبار سے 63 سال3 دن اور شمسی سال کے اعتبار سے61 برس 84 ایام ہوئی ۔(نور الیقین :ص264)اور سائنسی تحقیق سے بھی یہ بات ثابت ہے۔

ہمارے یہاں لوگوں کی زبانوں پر یہ بات چڑھی ہوئی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت اور تاریخ وفات 12 ربیع الاول ہے اور بعض نے اس کو جمہور کا قول کہا ہے ،لیکن یہ بات محل نظر ہے، کیوں کہ دو باتوں پر تمام حضرات کا اتفاق ہے، ایک یہ کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات پیر کے دن ہوئی ،دوسری بات یہ کہ وفات سے تقریباً تین ماہ قبل (حجة الوداع کے موقع پر)9 /ذوالحجہ کو جمعہ المبارک کا دن تھا ۔اب اگر اسی حساب کو لے کر چلیں تو یہ بات ثابت نہیں ہوتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی دلادت اور وفات پیر کے دن ہو اور تاریخ بھی 12/ربیع الاول ہو۔جہاں تک ولادت کی بات ہے تو عام آدمی پر اس کا حساب لگانا قدرے مشکل ہے، البتہ وفات کی تاریخ کا حساب نہایت آسان ہے، وہ اس طرح کہ پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اورحجةالوداع کے درمیان تین ماہ کا فاصلہ ہے اگر دومہینوں کو30دن اور ایک کو29 اور ایک کو30دن کو شمار کریں تو 9/ذوالحجہ جمعہ کو اور 12/ربیع الاول پیر کو نہیں ہوگی۔آپ صلی علیہ وسلم کی تاریخ ولادت ووفات میں اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ لوگوں نے”ثانی شھر ربیع الاول “(یعنی:ربیع الاول کی دوسری تاریخ)کو”ثانی عشر ربیع الاول“(یعنی:بارہ ربیع الاول)کہنا شروع کردیا ہو۔(دیکھیے:احسن الفتاویٰ:2/368)دراصل جتنے اقوال حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی تاریخ ولادت ووفات کے بارے میں ہم تک پہنچے ہیں ان میں کوئی بھی قطعی ااور یقینی نہیں،بلکہ زعم اور تتبع پر مبنی ہے،جس کو جس احتمال کا وہم ہوا اس نے اسی بات پر حتی المقدور تحقیق کی اور اسے نقل کردیا،مزید غوروفکر کی زحمت نہیں کی ،جبکہ حقیقت اور نفس الامر میں اللہ رب العزت نے اس معاملے کو مخفی رکھا ہے اور اس میں اللہ کی غالب حکمت درپردہ ہے۔

ماہ ربیع الاول کی فضیلت
اس پاک مہینے کی عظمت اسی بات سے عیاں ہے کہ اللہ نے سیدالکونین خاتم النبیین صلی الله علیہ وسلم کا ظہور اسی میں فرمایا،اس لحاظ سے اس کو دیگرمہینوں پر فوقیت حاصل ہے، اسلام میں اس ماہ کی بڑی فضیلت ہے، ایک تو مو سم بہار، پھر آمدِ حضور بہاراں ،یہ بالکل نور علی نور کا مصداق ہے۔ربیع الاول اور آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات گرامی کے درمیان بہار کی مناسبت ہے،بہار لوگوں کے لیے خوشیاں لاتی ہے ،رحمت والی بارشیں لاتی ہے ،اس موسم میں کھیت کھلیان،بیل بوٹے ،غنچے پودے ،پھل و پھول اور اشجار سب اپنے شباب پر ہوتے ہیں ،نشاط اپنے عروج پر ہوتی ہے ،خزاں کا اثر زائل ہوجاتا ہے اور یہ تمام صفات ہمارے پیارے مدنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی ہیں کہ آپ خو ش خبریاں لے کر آئے،جہالت کی خزاں کے مارے ہوئے لوگوں کے لیے بصورت بہار بن کر آئے ،رحمتیں اور برکتیں بن کر برسیں ،ہر اِک چہرہ اور ہر ایک دل اطمینان کے ساتھ گلاب کے پھول کی مانند کھلنے لگا،لوگ اپنی زندگی کے مقصد کو سمجھ کر پر عزم ہوئے ،اعلائے کلمة اللہ کے لیے خوب جان توڑ محنت کی ،دنیا وآخرت میں سر سبز و سرخ رو ہوئے ،آقائے نام دار صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد ہزار ہا بہاروں سے افضل ہے ۔پس نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ جس کی نسبت ہوجائے وہ اپنے تمام ہم مثلوں سے افضل ہوجاتا ہے ،یہی حال ربیع الاول کا ہے ۔

ماہ بہار(ربیع الاول)کا مقتضا یہی ہے کہ حبیب خدا کی محبت اور اس کی یاد میں اس ماہ کو کثرت ِ عبادات و اعمال صالحہ سے مزین کیا جائے اور جو عظیم نعمتیں اللہ نے ہم پر اتاری ہیں اس کا بہت شکر ادا کیا جائے ،کم از کم حقِ واجب اس ماہ کا یہ ہے کہ اس میں خلاف سنت کوئی فعل نہ کیا جائے ،مکروہات وبدعات سے بچا جائے ،ہر وہ کام جس سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچ سکتی ہو اس سے بہت دور رہا جائے، ان کی لائی ہوئی مبارک شریعت کے متضاد کسی ادنیٰ عمل سے بھی گریز کیا جائے ۔ مگر ہائے افسوس حد سے تجاوز کرنے والوں پر! کس طرح سے یہ اللہ قہارو جبار کے دین پر جرات کرتے ہیں ،دین کے خلاف کسی کام کو دین کا اعلی حصہ سمجھتے ہیں ،اے عقل کے اندھو!تم معاصی اور بدعت کا ارتکاب کر کے عشق مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کا دعویٰ کرتے ہو ،سنتِ حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کے مخالف ہو کر اس کو خوش کیسے کرو گے؟ ارے نام نہاد عاشقو! عشق کے نا م کو تو بدنام نہ کرو عشق کے ضابطوں کو پامال نہ کرو #
        لو کان حبّک صادقا لأطعتہ
        ان المحب لمن یحب مطیع
(ترجمہ: اگر تیری محبت سچی ہوتی تو محبوب کی اطاعت کرتا ،بے شک محبت کرنے والا اپنے محبوب کا اطاعت گزار ہوتا ہے۔)

ربیع الاول اور بدعات
بلا شبہ شیطان مردود نے لوگوں کے لیے بدعات و منکرات اور نفسانی خواہشات کو مزین کر رکھا ہے اور چند ناسمجھ افراد اس کی عکاسی کرتے ہیں، حتی کہ رحمن جل جلا لہ کی عطا کردہ نعمتیں اور برکتیں خود سے دور کر لیتے ہیں، ہدایت پرگم راہی کو ترجیح دیتے ہیں ،بھلائی کو بدی سے تبدیل کرتے ہیں ،ان حضرات کی بعض بدعات سپرد قرطاس ہیں ،جنہیں یہ لوگ مستحسن قرار دیتے ہیں ،بلکہ اگر کوئی انہیں اختیار کرنے سے اجتناب کرے یا منع کرے تو اس پر گستاخ رسول کا فتویٰ داغنے سے بھی دریغ نہیں کرتے، بدعات ملاحظہ ہوں:

اس دن (یعنی بارہ ربیع الاول کو)بعض لوگ ختم قرآن اور سورة یٰسین پڑھنے کے واسطے جمع ہوتے ہیں، پھر اس کا ثواب جنابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدیہ کرتے ہیں ،یہ اس لیے بدعت ہے کہ جو چیز شریعت نے لازم نہیں کی اس کو یہ لوگ لازم سمجھتے ہیں ۔(الاعتصام:ص24)

اور اگر اس پردعوت طعا م بھی ہو تو کراہت میں مزید اضافہ ہوجاتا ہے ،اس لیے کہ قرآن پاک کی تلاوت کھانے کی غرض سے کرنا فقہاء کی تصریحات کے موافق مکروہ ہے۔ (ردالمختار:2/240)۔

ان منکرات میں سے ایک بات یہ بھی ہے کہ اس دن کھانے اور حلوے وغیرہ میں تکلفات سے کام لیا جاتا ہے اور باطل ترغیبات سے من گھڑت رسوم کے نام پر مال خرچ کرنے کے لیے لوگوں کو ابھارا جاتا ہے ،حتی کہ جمعہ کے دن خطبہ میں بعض مساجد میں انہیں ترغیبات پر زور دیا جاتا ہے (تعجب تو اس بات پر ہے کہ)جو ایسا نہ کرے اسے یہ لوگ ربیع الاول کی حق تلفی کرنے والا شمار کرتے ہیں ۔جب کہ سلف صالحین میں سے کسی نے ایسا کچھ نہیں کیا۔پس اگر یہ لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بابرکت روح کی نذر مانتے ہیں تو یہ گم راہی ہے ،اس لیے کہ یہ مخلوق کی نذر ہے اور مخلوق کی نذر جائز نہیں ۔(البحر الرائق :2/520) اور اگر ان کا عقید ہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی روح ہر جگہ حاضر و ناظر ہے اور وہ ہمارے اعمال کو دیکھ کر راضی ہوتے ہیں تو یہ کفر ہے۔ (البرازیة:6/326)

ان دنوں کی بدعات میں سے ایک مہلک بدعت قبروں کی زیارت ہے، اس دن کو خاص کر کے قبروں کی زیارت کرنا مطلقا مرد و عورت سب کے لیے منع ہے ،پھر قبروں پر چراغاں کرنا ،شمعیں جلانا ،ڈھول کی تھاپ پر سریلی آواز میں نغمے گانا،عورتوں و مردوں کا مخلوط اجتماع اور قبروں پر پھول کی پتیاں خوش بو وغیرہ بکھیرنا ان کی اس بدعت کو قبیح بلکہ اقبح بنا دیتا ہے ۔اور جہاں تک عورتوں کا قبر کی زیارت کے لیے جانا ہے تو وہ مکروہ ہے ،بلکہ اس زمانے فتنہ و فساد کی وجہ سے ناجائز و حرام ہے ۔(عمدہ القار ی :8/70)

ترمذی شریف میں ہے:
”عن ابن عباس رضی الله عنہ قال، لعن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم: زائرات القبور والمتخذین علیھا المساجد والسرج․“(باب کراہیة أن یتخذ علی القبر مسجداً،رقم الحدیث :32)
ترجمہ : حضرت ابن عباس  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کی زیارت کرنے والیوں اور قبروں کو سجدہ کرنے والوں اور وہاں چراغاں کرنے والوں پر لعنت فرمائی ہے۔

بعض لوگ اس دن روزہ رکھنے کا خصوصی اہتمام کرتے ہیں اور استدلال کے طور پر ”مسلم شریف“کی حدیث پیش کرتے ہیں :
”عن ابی قتادہ أن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سئل عن صوم الاثنین فقال:فیہ ولدت، وفیہ اُنزل علی“․(باب استحباب صیام ثلاثہ ایام …،رقم الحدیث 2750)
ترجمہ:حضرت ابی قتادہ  سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا پیر کے دن روزہ رکھنے کے بارے میں تو آپ علیہ السلام نے فرمایا ”اس دن میں پیدا ہوا اور اس دن مجھ پر وحی نازل ہوئی“۔

اس حدیث میں کچھ غورو فکر کی ضرورت ہے ،ایک یہ کہ حدیث میں 12ربیع الاول کے دن روزہ رکھنے پر کوئی دلیل ذکر نہیں کی گئی،بلکہ پیر کے دن روزہ رکھنے کی صرف ترغیب ہے،دوسرے یہ کہ اس سے یہ بات بھی ثابت نہیں ہوتی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم بارہ ربیع الاول کو روزہ رکھتے تھے اور نہ ہی صحابہ سے منقول ہے ،تیسرے یہ کہ اگر اس روایت سے یو م ولادت پر روزہ رکھنے کا استحباب پتہ چلتا ہے تو یوم بعثت اور ابتدائے وحی کے دن روزہ رکھنا زیادہ اولیٰ ہے ،مگر کسی عالم کی توجہ اس طرف نہیں گئی ،چوتھی بات یہ ہے کہ12/ ربیع الاول کو یوم ولادت ماننا درست نہیں ہے،نہ عقل کے اعتبا ر سے اور نہ ہی نقل کے اعتبار سے ،جیسا کہ ابھی گزر چکا ہے ، البتہ مذکور ہ روایت سے پتہ چلتا ہے کہ پیر کے دن روزہ رکھنا اچھا ہے تو ہمیں ہر ہفتے پیر کے دن روزہ رکھنا چاہیے ،یہ نہیں کہ پورے سال میں صرف ایک بارہ ربیع الاول کا روزہ رکھیں ۔

جشن عید میلاد النبی
ویسے تو تمام بدعات اور منکرات قبیح ہیں ،مگر سب سے قبیح اور شنیع بدعت میلاد منانا ہے ،قربان ان کی اندھی عقل پر جو لوگ اسے افضل ترین عبادت گمان کرتے ہیں اور اسے شعائر اسلام کا درجہ دیتے ہیں ،اسی پر بس نہیں ،بلکہ اس بدعت میں بھی کئی اور بدعات رونما ہوتی ہیں(یعنی بدعت دربدعت ،حرام درحرام)وہ یہ ہیں کہ :
(1)آلات موسیقی اور ڈھول کا استعمال۔ (2)کلام اللہ کے ساتھ استہزاء،(یعنی مخلوط جلسوں میں قرآن کی تلاوت اور آلات موسیقی ساتھ ساتھ)۔(3)عورت کا آراستہ ہوکر نکلنا اور مردوں کا فتنے میں پڑنا۔ (4)مرد اورعورت کا اختلاط،جو کہ تمام فواحش کی جڑ ہے۔(5)مال کا بے جا اسراف۔(6)سڑکیں گلیاں بند ہونے کی وجہ سے لوگوں کو مشکلات و تکالیف کا سامنا ۔(7)ان جلسوں اور جلوسوں میں مشغول ہونے کی وجہ سے فرض نمازوں کا چھوڑنا۔(8)یہودونصاریٰ کے ساتھ مشابہت۔(9)خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ کی شبیہ بنا کر اس کو گلیوں کوچوں میں نصب کرنا اور پھر اس کا طواف کرکے تبرک حاصل کرنا۔(10)ان جلسوں میں موضوع (من گھڑت) روایات و احادیث کا پڑھنا۔(11)مدحِ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میں حد سے تجاوز کرجانا ،حتی کہ نبی کو اللہ کی صفات میں برابری کا درجہ دینا (نعوذ باللہ من ذلک)(12)یہ عقیدہ رکھنا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح مبارک ان کے ذکر کے وقت حاضر ہوتی ہے اور وہ عبادات کو دیکھ کر خوش ہوتے ہیں ۔یہ خاص خاص بدعات،اس کے علاوہ بھی بہت سی بدعات ہیں ،مگر ان سب کو مختصر مضمون میں سمیٹنا ممکن نہیں۔

جشن ولادت کی ابتدا کس نے کی؟
سب سے پہلے جشن ولادت قاہر ہ میں باطنی فرقے کے پیروکار فاطمیوں نے چوتھی صدی میں منایا،پھر چھٹی صدی میں عراق کے شہر موصل کا ایک فضول خرچ بادشاہ مظفر الدین اٹھا اور اس میلاد کی رسم کو عام کیا ،اس کو ایک درباری ملا عمر بن وحید ابو الخطاب کی تائید حاصل تھی ،اس کے کہنے پر اس بادشاہ نے میلاد کا انعقاد کیا ،یہ بے دین بادشاہ ہر سال میلاد کے نام پر3 لاکھ روپے خرچ کرتا تھا ۔

اب ہم ان جاہل لوگوں سے سوال کرتے ہیں کہ سب سے پہلے جس نے جشنِ ولادت منایا وہ فاطمی یہودی ہیں ،جو کہ عبید اللہ بن میمون الیہودی کی اولاد ہے۔ (کما قال البعض)پھر کیا کوئی مسلمان کسی یہودی کی تقلید پر راضی ہو سکتا ہے؟جو بات اس نے خود گھڑ لی ہو کیا اس کو دین سمجھ کر کوئی مسلمان اختیار کر سکتا ہے ؟ذرا سوچیے تو صحیح کہ یہ جلسے وہ لوگ آپ علیہ السلام کی ولادت کی خوشی میں کرتے ہیں یا وفات کی خوشی میں ؟کیوں کہ ان یہودیوں کا یہ گمان ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات اس زہر سے ہوئی ہے جسے ان یہودیوں نے بکری کے گوشت میں ملا کر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو پیش کیا تھا ۔

پھر یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ کیا نبی علیہ السلام کے صحابہ نے بھی کبھی جشن ولادت مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم منایا ہے؟ درآنحالیکہ وہ الله اور اس کے رسول سے سب سے زیادہ محبت کرنے والے تھے، اس کا جواب ضرور نفی میں ہو گا، وگرنہ ہمیں کوئی دلیل لاکر دکھائیں، اس کے بعد یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ اسی ماہ میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی ولادت ہوئی اور اسی میں وفات ہوئی، اس لحاظ سے اس ماہ میں غم او رخوشی ایک ساتھ جمع ہو گئے، پھر کس بنیاد پر خوشی کو غم پر ترجیح دی جاتی ہے؟ آخر لوگوں کو صرف عید منانے کا خیال کیسے سوجھ گیا؟ کسی کو غم منانے کا وہم کیوں کر نہ ہوا…؟؟ افسوس صد افسوس۔

محترم مسلمان بھائیو! اس پُرفتن دور میں بدعت کے اندر پڑنا نہایت آسان اور سنت پر چلنا انتہائی مشکل ہے ، خلافِ شریعت عمل بہت سہل اور اسلام پر عمل بڑا کٹھن ہے۔ یاد رکھیے! جس مسلمان کا تعلق نبی صلی الله علیہ وسلم سے جتنا زیادہ ہو گا وہ اتناہی باطل کی آنکھوں میں کھٹکے گا۔ الله رب العزت سے دعا ہے کہ ہمیں بدعات ومنکرات سے بچائے اور سنت نبوی پر چلاتے ہوئے ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔ اے الله! ہمیں اسلام کی سربلندی کے لیے قبول فرما۔ آمین ثم آمین۔

Flag Counter