Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ربیع الاول 1437ھ

ہ رسالہ

12 - 18
سیرت کے جلسے اپنے مقاصد کے آئینے میں

مفتی محمد مجیب الرحمن دیودرگی
	
ربیع الاول کا کیا مہینہ آیا ہر محلہ میں جلسوں کی تیاریاں ہورہی ہیں، کوئی شامیانے نصب کررہا ہے، کوئی مائیک کی سیٹنگ میں لگا ہوا ہے، کوئی اسپیکر لارہا ہے، اس موقعہ پر محلے کے کیا نوجوان کیا بوڑھے ہر ایک کا جو ش قابل دید ہے، کوئی کھانے کا نظم کررہا ہے، کوئی کسی اور چیز کی ذمہ داری لے رہا ہے، یہ جذبہ قابلِ صد تحسین ہے، قابلِ صد ستائش ہے، اس جذبہ کی جس قدر ہمت افزائی کی جائے کم ہے؛ لیکن وقتی جذبہ کیا پائیدار نفع کا ضامن ہوگا؟ یا یہ کہ یہ محنت صرف دھری کی دھری رہ جائے گی؟

مقرر کی تقریر پر ہر ایک نے واہ واہ کی، کسی نے تکبیر کے نعرے بلند کیے، مقرر نے بھی بڑے ہی پُرلطف انداز میں سیرتِ نبوی بیان کی اور سامعین اس کی تقریر سے محظوظ بھی ہوئے، کیا صرف ایک تقریر سے سیرت کا حق ادا ہوگا؟ کیا صرف تقریر ہی میں شرکت سے عملی زندگی درست ہوجائے گی؟ کیا صرف وقتی محبت کے اظہار سے نبی سے محبت کا حق ادا ہوجائے گا؟ کیا سیرت کے جلسوں کا صرف یہی مقصود ہے کہ کچھ دیر سیرت سُن لی جائے، پھر کہانی ختم؟

دورِ حاضر کے کئی سیرت کے جلسے مقررین کی لفاظی کی نذر ہیں، کہیں سیاستدانوں کی مذہب سے وابستگی کا اظہار سیرت کے جلسوں کا مطلوب ہوتی ہے،کہیں جلسوں کے نام پر عوام سے رقمیں بٹور کر منتظمین کا اثر ورسوخ دکھلانا مقصود ہوتا ہے، نیز کہیں ربیع الاول کے مقدس مہینہ میں سیرت بیانی کا سہارا لے کر مقررین اپنے لیے ہدایا وتحائف نذرانوں کی امیدیں لگائے رہتے ہیں، یہ سیرت کے جلسوں کا المیہ ہے کہ اسی لیے سیرت بیانی آج محض زبانی لذت اور واہ واہ کا معجون مرکب ہوکر رہ رہ گئی ہے، کہیں سیرت بیانی کے حسین عنوان سے اپنے کارناموں کا تذکرہ بھی شروع ہوجاتا ہے، کہیں ان جلسوں سے مقصود اپنی تنظیموں، تحریکوں، اداروں کا تعارف اور سیرت کے عنوان سے اپنی تشہیر کی سعی نامسعود کی جاتی ہے، غورکیجیے! اگر سیرت کا سہارا لے کر یہ اعمال کیے جانے لگیں تو صاحب ِسیرت سے ہمارا تعلق کیسے پیدا ہوگا؟

آپ صلی الله علیہ وسلم کا ذکر مبارک کئی خیر وخوبیوں کا مجموعہ ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم کے ذکر سے معطر مجالس فرشتوں کے جھرمٹ میں ہوتی ہیں، آپ صلی الله علیہ وسلم کے ذکر کے لیے سجی ہوئی محفلیں انتہائی با برکت ہیں، یہ مجلسیں آسمانی مخلوقات کے لیے باعث رشک ہیں، یہ رونقیں ارضی مخلوقات کے لیے باعث صد افتخار ہیں؛ کیوں کہ اس ذات گرامی کی سیرت کا تذکرہ ہورہا ہے جس نے بھٹکی ہوئی انسانیت کو راہِ راست پر گام زن کیا، جس نے انسانیت ناشناس افراد کو انسانیت کا معیار بنادیا، اس ذات بابرکت کے تذکرے کے باوجود زندگی میں تبدیلی کی لہر پیدا نہیں ہورہی ہے، اس لیے صرف وقتی جذبہ، وقتی جوش، وقتی ولولہ کار آمد ومفید نہیں؛ بلکہ اس کے لیے جہدِ مسلسل اور سعی پیہم کی ضرورت ہے، نہ صرف یہ کہ واعظ اپنی زندگی بدلنے کے لیے قوتِ گویائی کا استعمال کریں؛ بلکہ سامعین بھی عملی نیت سے شریک ہوں اورتوجہ سے سننے کے بعد سیرتِ رسول صلی الله علیہ وسلم سے اپنی عملی زندگی مزین کرنے کا عزم مستحکم لے کر اٹھیں کہ آج سے اپنی زندگی سیرت طیبہ کے مطابق ڈھالیں گے، سیرت مبارکہ کی روشنی سے اپنی زندگی کا چراغ جلائیں گے، سیرت کے انوار سے مغموم قلوب کو مسرور کریں گے، سیرت کی تابانیوں سے اپنی زندگی کی تعمیر کریں گے؛ کیوں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت مبارکہ عالمگیردائمی نمونہٴ عمل ہے، کتنے ہی اکابر آئے، کئی بر گزیدہ ہستیاں آئیں؛ لیکن نہ تو ان کی سیرت باقی ہے، نہ ہی اس پر عمل ممکن ہے، لیکن نبی آخر الزمان کی سیرت کے تمام پہلو من وعن محفوظ ہیں، اب ضرورت ہے ان عاملین کی جو سیرت رسول صلی الله علیہ وسلم سے اپنی زندگی کو مرقع ومزین کریں، سیرت کے جلسوں کا حقیقی مقصد یہ ہے کہ انسان نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کی صبح وشام والی زندگی اپنائے اور اپنی صبح وشام میں نبوی معمولات کو اپناتے ہوئے گذارنے کی سعی پیہم کرے، سیرت کے ان خوش گوار گوشوں کو اپنی حقیقی زندگی میں اپنائے جس سے سامع کی زندگی روشن ومنور ہوجائے، سابق کی طرح آج بھی سیرت نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم میں وہ طاقت وہ قوت وہ اثر ہے جسے اپنا کر بھٹکی ہوئی انسانیت راہِ راست پر آسکتی ہے، نہ صرف خو د راہ یاب ہوگی؛ بلکہ سیرت کی برکت سے ان کی زندگیاں اوروں کے لیے بھی رہبر وہادی بن جائیں گی، عوام بھی ان رہبروں کی زندگیوں کو نمونہٴ عمل کے طور پراپنائیں گے۔

آپ صلی الله علیہ وسلم سے منسوب واقعات اور آپ صلی الله علیہ وسلم کی صبح وشام کی زندگی محض زبانی لذت اور سامعین کے محظوظ کرنے کے لیے نہ ہو؛ بلکہ اس کے ذریعہ حقیقت میں واعظ اور سامعین کی زندگی کی اصلاح مقصود ہو،سیرت کے جلسوں میں آپ صلی الله علیہ وسلم کی زندگی کا تذکرہ کافی زور وشور سے کیا جاتا ہے اور آپ صلی الله علیہ و سلم کی عملی زندگی جس کا تعلق امت کے عمل سے ہے، اس کاتذکرہ بھی ہوتا ہے، چوں کہ عمل کاتذکرہ خود مقرر اور سامعین کو عمل پر آمادہ کرے گا، نہ یہ کہ صرف سمع خراشی تک محدود رہے، اسی لیے آپ صلی الله علیہ وسلم کی سیرت طیبہ کے ان پہلووٴں کوزیادہ اجا گر کرنے کی ضرورت ہے کہ جس پہلو کو اپنا کر امت محمدیہ آپ صلی الله علیہ وسلم کی کامل متبع کہلائے۔

دورِ حاضر کے بیشتر سیرت کے جلسوں میں کئی ایک قسم کی خامیاں پائی جاتی ہیں، تاریک رات میں سیرت بیانی ہورہی ہے، اس ذات گرامی کا تذکرہ ہورہا ہے جس سے عملی زندگی میں کسی کو ادنی سی تکلیف بھی نہیں پہنچی، آپ صلی الله علیہ وسلم نے قولی طور پر بھی دوسروں کو تکلیف دینے سے منع فرمایا؛ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانے کو نیکی قرار دیا؛ چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے راستے سے تکلیف دہ چیز کے ہٹانے کو ایمان ہی کا شعبہ قرار دیا؛ لیکن حیرت وصد افسوس ہے آج صاحب سیرت کا تذکرہ بھی اوروں کو تکلیف دیتے ہوئے کیا جارہا ہے، رات میں یکسوئی میں کوئی سونا چاہتا ہے؛ لیکن اسے ان جلسوں کی آوازیں سونے نہیں دیتیں، اسپیکر کی تیز ترین آواز سے نہ جانے کتنے سونے والوں کی نیندمیں خلل ہورہا ہے، نیز بے ترتیب گاڑیوں کے ٹھہرانے سے آمدورفت میں خلل ہورہا ہے، یہ ناقابل بیان ہے، اسی لیے ضرورت اس بات کی ہے کہ ان سیرت کے جلسوں کو بامعنی بنانے کے لیے ہر ایک کو اپنی ذمہ داری ادا کرنی ہوگی، سامعین ان مجالس میں زندگی میں انقلاب وتبدیلی کی نیت سے پہنچیں اور سنی ہوئی باتوں پر عمل کا ارادہ وجذبہ لے کر جائیں اور حقیقت میں بھی عملی زندگی کو چراغ سیرت سے روشن کریں، پھر دیکھیں کہ زندگی میں تبدیلی آئے گی یا نہیں؟ اور مقررین ان سیرت کے جلسوں کو محض لفاظی اور زبانی لذت اور سامعین کی واہ واہ کا ذریعہ بنانے سے محفوظ رکھیں،تصحیح نیت کے ساتھ اپنی او رعوام کی اصلاح کی لیے حق کے پیغام کو عام کریں، کہیں مقررین ان سیرت کے جلسوں کو دوسروں پر کیچڑ اچھالنے کا ذریعہ نہ بنائیں، کہیں متبعین سنت کو ہدفِ تنقید کرنے کا آلہ نہ بنائیں، کہیں سیرت کے جلسوں کو عوام میں افتراق وانتشار پھیلانے کے لیے استعمال نہ کیا جائے، اس لیے کہ آپ صلی الله علیہ و سلم کا یہ طرز عمل تو مختلف طبقات میں بٹی ہوئی قوم کو متحد کرنا، مختلف علاقائی وفکری مسائل میں الجھی ہوئی اقوام کو یکجا کرنا ہے، جو نبی صلی الله علیہ وسلم اتحاد امت کے داعی ہوں، جس نبی کا کام ہی قولی وعملی طور پر اتحاد کے پیغام کو عام کرنا ہو، اس نبی کی امت کیسے عوام کو سیرت کا سہارا لے کر مختلف فرقوں وطبقات میں بانٹ سکتی ہے؟ اس نبی کے نام لیواوٴں میں کیسے اختلاف وانتشار عام کرسکتی ہے؟

نیز منتظمین جلسہ کی ذمہ داری ہے کہ جس ذاتِ با برکت کے عنوان سے یہ حسین جلسے منعقد کیے جارہے ہیں اس کا مکمل پاس ولحاظ رکھیں، جلسوں کے انعقاد میں اپنی ناموری یا ریاکاری یا نمود ونمائش کا جذبہ پنہاں نہ ہوں،اس کے ذریعہ شہرت پر ستی اور اپنی تشہیر اور اپنی تنظیم کی کار کردگی عیاں کرنا مقصود نہ ہو؛ بلکہ ان جلسوں کے ذریعہ عوامی زندگی میں حقیقی سیرت نبوی جاگزیں کرنے کی سعی وجدوجہد کریں، بھولی بسری ہوئی انسانیت کو سیرت بیانی کے ذریعہ صاحب ِسیرت سے تعلق وعشق پیدا کرنا مقصد ہو اور جلسوں کے انعقاد میں عوام کو کسی قسم کی تکلیف نہ دی جائے، نہ ہی زبردستی چندہ وصول کیا جائے، نہ ہی راستہ روک کر جلسہ کیا جائے، نہ ہی جلسوں کی آواز سے اوروں کو تکلیف دی جائے کہ جس سے لوگوں میں اسلام اور اہل اسلام کے تئیں غلط تصور قائم ہوجائے، کہ اسلام اوروں کی تکلیف دہی کا ذریعہ بنتا ہے، تب جا کر یہ جلسے اپنے مقاصد میں کہیں کام یاب ہوسکتے ہیں، تب ہی ان جلسوں سے کہیں مطلوبہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں، اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ان سیرت کے جلسوں کو قبول فرمائیں اور عملی طور پر ہماری زندگیوں کو سیرت رسول کا نمونہ بنائے۔ آمین!

Flag Counter