Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

9 - 10
علوم دینیہ اور علماء کے خلاف پروپیگنڈہ
علوم دینیہ اور علماء کے خلاف پروپیگنڈہ

یہ حقائق اظہر من الشمس، آفتاب نیمروز سے زیادہ روشن ہیں، یہ واقعات ومشاہدات ناقابلِ تردید ہیں، اس کے باوجود سمجھ میں نہیں آتا کہ کیوں اور کس کے اشاروں پرخاص کر ان آخری ایام میں یہ شوروغوغا برپا اور شرم ناک پروپیگنڈہ جاری ہے،مہینوں سے سرکاری اور نیم سرکاری رسالوں اور میگزینوں میں ادارتی نوٹ لکھے جارہے ہیں،صدر مملکت کے نام مکاتیب بھجوائے جارہے ہیں کہ مذہب اور دینی علوم جدید ترقیات کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ ہیں، علماء دین ملک کی ترقی اور استحکام وسالمیت کے سب سے بڑے دشمن ہیں، مدارسِ عربیہ اور مکاتبِ دینیہ عصری تقاضوں کے خلاف فتنہ وفساد برپا کرنے کی تعلیم کے مراکز ہیں، حکومت کا فرض ہے کہ وہ ان تمام دینی مدارس ومکاتب ، درس گاہوں اور بڑی بڑی مساجد کو اپنے کنٹرول میں لے کر ان علوم ِدینہ اور حاملینِ علوم نبوت کی بیخ کنی کرے، نہ یہ حکومت کی مالی امداد سے آزاد، عربی مدارس اور دینی درس گاہیں ہوں گی، نہ یہ علماء دین پیدا ہوں گے، نہ ملکی ترقی اور عصری تقاضوں کے خلاف کوئی آ واز بلند کرنے والا ہوگا۔ ہمیں اچھی طرح یقین ہے کہ حکومت اتنی بے خبر اور نا سمجھ نہیں ہے کہ وہ ان بازیگروں سے بے خبر ہو جن کے اشاروں پر یہ کٹھ پتلیاں ناچ رہی ہیں، بقول شاعر:
”کوئی معشوق ہے اس پردہ زنگاری میں“
اور مشرقی وسطیٰ کے المیہ کے بعد تو یہ راز بالکل ہی طشت از بام ہوچکا ہے کہ اسلامی ملکوں او رمسلمان قوموں میں سامراجی منصوبوں کی خاک میں ملانے والی ناقابلِ تسخیر طاقت صرف اورصرف اسلام اور دین وایمان کی قوت ہے ،اس لئے تمام استعماری حکومتیں اور سامراج پرست قومیں یہ یاد رکھیں کہ اشتراکی ممالک اور اقوام، درحقیقت سب سے بڑی استعمار پر ست قومیں ہیں، جس طرح بھی بن پڑے، زور سے، زر سے، دھمکیوں سے، لالچوں سے، اسلامی ممالک اور مسلمان قوموں سے اسلام اور دین وایمان کو مٹانے کے درپے ہیں، کوئی دوست بن کر، کوئی دشمن بن کر، اس وقت دنیا میں جنگ دراصل دین اور لادینیت کی جنگ ہے۔ تاہم ان لا دینی اقوام کے بامعاوضہ یا بے معاوضہ ایجنٹوں سے مدارسِ دینیہ اور علماء دین کے خلاف پروپیگنڈہ کاپول کھولنے کی غرض سے ہم دریافت کرتے ہیں کہ:
۱-کس عالمِ دین نے کب اور کہاں یہ کہا ہے کہ ملکی دفاع کو مستحکم کرنے کی غرض سے جدید آلات واسلحہ سے مسلح ، جدید فنون سے واقف اور آزمودہ کار فضائیہ اور بحری بیڑہ تیار کرنااور اس کے لئے ٹینک سازی، طیارہ سازی اور اسلحہ سازی کے کارخانے قائم کرنا، ایٹمی انرجی کے ادارے قائم کرنا اور ان کو فروغ دینا حرام اور شرعاً ممنوع ہے اور ایٹم بم یا ہائیڈروجن بم بنانا گناہ ہے؟
۲-کس عربی مدرسہ میں یہ درس دیا جاتا ہے کہ ملک کو غذا کے مسئلہ میں خود کفیل بنانے کی غرض سے ملکی غذائی پیداوار میں اضافہ کرنے کی مہم چلانا، اس کے لئے محکمے قائم کرنا، منصوبے بنانا، مصنوعی کھاد،ٹریکٹر اور ترقی یافتہ جدید آلات زراعت کے کارخانے قائم کرنا، جراثیم کش ادویہ، ہوائی جہازوں کے ذریعہ کھیتوں میں چھڑکنا، قابلِ کاشت زمین کو سیم اور تھور کے گھن سے پاک کرنے کی غرض سے ترقی یافتہ ملکوں میں آزمودہ تدابیر و وسائل پاکستان میں اختیار کرنا، ناقابلِ کاشت زمینوں کو قابل ِکاشت بنانا اور اس مقصد کے لئے قوم کا روپیہ خرچ کرنا حرام ہے، خدا کی ناراضگی اورآخرکت کے عذاب کا موجب ہے؟
۳-کسی مفتی ٴ دین متین نے یہ فتویٰ دیا ہے کہ غیر ملکی مصنوعات سے بے نیاز ہونے اور ملکی مصنوعات کو فروغ دینے کی غرض سے پاکستانی انڈسٹری کو جدید ترقی یافتہ معیار پر لانا اور اس کے لئے دوسرے ملکوں سے جدید سے جدید مشینری برآمد کرنا، بڑے بڑے جدید طرز کے صنعتی کارخانے قائم کرنا اور ملک کو صنعت کے اعتبارسے اس قابل بنانا کہ ملکی ضروریات سے فاضل مصنوعات کو عالمی منڈیوں میں برآمد کر سکے، معصیت ہے اور حرام یا مکروہ تحریمی ہے؟
۴-کس عربی مدرسہ کی درسی کتاب میں لکھا ہے کہ ملک کی تجارت، درآمد وبرآمد اور اقتصادیات کی سطح کو بلند کرنے کے لئے درآمدو برآمد کے جدید نظام کو اختیار کرنا، ضرورت کے تحت بیرونی تجارتی اداروں کو ملک میں جائز اور ملکی مفاد کے مناسب شرائط کے تحت کاروبار کرنے کی اجازت دینا یا ملکی مفاد کے خلاف کاروبار کرنے والے اداروں کو معاوضہ دے کر قومی ملکیت میں لے لینا گناہ اور ناجائز ہے؟
۵-کس جامع مسجد کے خطیب اور عالمِ دین نے بر سر منبر یہ خطبہ دیا ہے کہ ملک میں تباہ کن حد تک پہنچی ہوئی اسمگلنگ (غیر قانونی تجارت) وہ بھی دشمن ملک کے ساتھ چور بازاری اور رشوت ستانی کو ختم کرنے کے لئے اعلیٰ سطح پر مؤثر تدابیرا ختیار کرنا، محکمے قائم کرنا، ملک میں خطرناک حد تک بڑھتے ہوئے جرائم کے انسداد کے لئے پولیس فورس کو بڑھانا اور مؤثر اقدام کرنا اور معاشرہ کو تباہ کرنے والے جرائم پیشہ لوگوں کو عبرتناک شرعی سزائیں دینا، جو موجودہ قانونی سزاؤں سے بدرجہاز یادہ عبرتناک ہیں، ظلم ہے، گناہ ہے، اور ناجائز ہے؟یعنی عدل ومساوات کے ساتھ ساتھ ہر شعبہ زندگی میں ملک کی ترقی اور فروغ کے وسائل اور اقدامات کو اختیار کرنے سے علومِ آخرت کے حاملین ہر گز منع نہیں کرتے اور دینی درسگاہوں اور علماء دین کی مساعی کو ملکی ترقی کی راہ میں رکاوٹ کہنا سفید جھوٹ اور شیطانی پروپیگنڈہ ہے۔
ہاں !علماء یہ ضرور کہتے رہے، کہتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مدرسوں کی درس گاہوں میں مسندِدرس پر بیٹھ کر بھی اورمسجدوں کے منبر اور مجمع عام کے اسٹیج پر کھڑے ہو کر بھی، بلکہ تختہ دار کے اوپر بھی اور جیل خانوں کی کال کو ٹھریوں کے اندر بھی، ظالم وجابر حکمرانوں کے روبہ رو بھی او رپسِ پشٹ بھی، اور اسلام کا حقیقی محافظ خدا ان کے کلمہ حق کو قوم کے کانوں تک ضرور پہنچائے گا، تجربہ اس کا شاہد ہے کہ:۔
۱-اسلامی ملک میں صرف خدا کا نازل کردہ اور رسول اللہا کا لایا ہوا اسلامی قانون ہی بغیر کسی ترمیم وتصرف اور کتربیونت کے نافذ کیا جاسکتا ہے، اسکے منافی یا اسکے علاوہ کسی بھی قانون کو نافذ کرنا حرام ہے اور اسکی مخالفت فرض ہے۔
۳-ہنگامی حالات کو، وقت کے تقاضوں کو اور ملکی ترقیاتی منصوبوں کو اسلامی قانون کے سانچے میں ڈھالنا ماہرین قانون اسلامی کا فرض ہے ،اسلامی قانون کوان حالات، تقاضوں اور ترقیاتی منصوبوں کے سانچے میں ڈھالنا اور اس غرض سے اس کی خود ساختہ تعبیرات اور من مانی تشریحات کرنا قطعاً حرام اور گناہ کبیرہ، بلکہ کفرو ارتداد کے مرادف ہے۔
۳-اسلامی معاشرہ میں مندرجہ بالا چیزیں قطعاً ممنوع ہیں:
(الف) زنا قطعاً حرام ہے، اور شرعی ثبوت کے بعد اس پر حد جاری کرنا فرض عین ہے، چاہے وہ چکلوں میں ہو،چاہے کلبوں میں، چاہے گھروں کی چار دیواریوں کے اندر ہو، چاہے سرراہ اور چاہے باہمی رضا مندی سے ہو،چاہے بالجبر ہو، بہر صورت زنا قابلِ دست اندازی پولیس جرم ہے، زنا کے کیس میں کوئی بھی عدالت باہمی مصالحت(راضی نامہ) قبول کرنے کی مجاز نہیں۔
(ب) شراب ام الخبائث :جس کی جنم دی ہوئی خباثتوں سے مغربی ممالک بھی لرزہ براندام ہیں، قطعاً حرام ہے ،خواہ ایک گھونٹ ہو، خواہ ایک بوتل ہو، کسی بھی قسم کی ہو، کسی بھی نام کی، اسلامی ملک میں ،اسلامی حکومت کے لئے اس کی کشید یادر آمد و برآمد اور خرید و فروخت کے لئے لائسنس جاری کرنا بھی حرام ہے اور اس کے ٹیکس سے جو حکومت کو آمدنی ہوتی ہے، وہ بھی قطعاً حرام ہے۔
(ج) سود:ملک کی دولت وثروت، خیرو برکت کو چاٹ جانے والی” دیمک“ دولت کو پوری قوم کے ہاتھوں سے چھین کر چند سود خورہاتھوں میں جمع کر دینے والا” شعبدہ“ لینا بھی اور دینا بھی قطعاً حرام ہے، اسی طرح ہر سودی کاروبار، بڑا ہو یا چھوٹا، سودی نظام مالیات، بینکاری سسٹم ،پوری قوم کو بھوکا ننگا بنا دینے والا سسٹم،قطعاً حرام ہے، اس کے بجائے اسلامی نظام مالیات واقتصادیات ملک میں جاری کرنا اور سود کی لعنت سے ملک کو پاک کرنا ہر مسلمان حکومت کافرض اولین ہے، دنیا کی فلاح کے اعتبار سے بھی اورآخرت کی نجات کے اعتبار سے بھی۔
(و) قمار جوا: خواہ مہذب ہو، خواہ غیر مہذب، کلبوں میں ہو ،خواہ ریس کو رس میں، کسی بھی شکل وصورت میں ہو ،قطعاً حرام ہے، اس سے جو آمدنی ہو ،وہ بھی قطعاً حرام ہے ،اسلامی حکومت کے لئے کسی بھی صورت میں جوئے کے لائسنس دینا اور اس کی آمدنی سے ٹیکس وصول کرنا بھی قطعاًحرام ہے۔
(ھ) اسلامی معاشرہ کے تحفظ کے لئے امر بالمعروف او رنہی عن المنکر کا ایک محکمہ احتساب قائم کرنا جو محرمات ومنکرات شرعیہ کا ارتکاب کرنے والوں کو شرعی سزائیں دینے کا مجاز ہو، اسلامی حکومت کا فرض ہے، تاکہ خود غرض اور ہوس پرست ،اسلامی معاشرہ کے خدو خال کو مسخ کرنے کی جرأت نہ کرسکیں۔
یاد رہے! کسی خطہ زمین اورملک وملت میں علوم ِآخرت کے مذکورہ سابق ثمر ہائے بیش رس اور خیرات وبرکات کے وجود، نشونما اور بقا وتحفظ کے لئے اس ملک میں انسانی دسترس سے محفوظ، قانون الٰہی اور احکام شرعیہ کا نفاذ اور امر بالمعروف نہی عن المنکر کے لئے محکمہ احتساب از بس ضروری ہے اور یہ فرض اس طبقہ کے ہاتھوں انجام پاسکتا ہے جو نسلا بعد نسل اپنی عمریں علوم قرآن اور علوم سنت کی تحصیل، غور وفکر اور پھر ان پر عمل کرنے کرانے میں صرف کرتے ہیں ،یعنی حاملین علوم کتاب وسنت علماء ،اور ایسے علماء کو پید ا کرنے اور پروان چڑھانے والے ادارے یہی آزاد معاہد ومدارس علوم عربیہ ہیں ،جو ملک ان آزاد عربی مدارس اور دینی مکاتب سے محروم ہوجائے گا، وہ لازمی طور پر حاملین علوم الٰہیہ سے بھی محروم ہوجائے گا، اور پھر اس ملک اور ا س کے معاشرے کی فنی اور سائنسی علوم وفنون کی ترقی کے باوجود ہی بھیانک شکل اور جہنمی صورت بن جائے گی ،جس کا نمونہ ہم اس سے پہلے پیش کرچکے ہیں۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: وادئ ثمود اور مدائن صالح میں ہم نے کیا دیکھا ؟
Flag Counter