Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

3 - 10
مثبت طرز فکر تعمیروترقی کا غماز
مثبت طرز فکر تعمیروترقی کا غماز

مثبت طرزِفکر کا امت کے وجود وبقا اور تعمیر وارتقا میں بنیادی کردار ہے‘مثبت طرزِ فکر امت کو موت کے کنویں سے نکال کر زندگی کی ثریا تک پہنچاتاہے‘ البتہ منفی اندازِ فکر نہ کسی قوم کی تعمیر کرتا ہے‘ نہ کسی تمدن کی بنیاد ڈالتاہے جیسے جب کوئی شخص وزنی بھاری بھر کم سامان کہیں لے جانا چاہتاہے تو مضبوط وتوانا مزدوروں کی خدمات حاصل کرتا ہے‘ کیوں کہ کمزور ولاغر مزدور کا خود چلنا پھر نا دشوار ہے ‘ وہ دوسروں کے بوجھ کیا اٹھائے گا۔
اللہ عز وجل کی ذات قوی پر ایمان کامل کی بدولت مومن کے اندر زبردست قوتوں اور توانائیوں کے سوتے پھوٹتے ہیں‘ یہ حقیقت ہے کہ ایمان برحق توانائی کی لہر دوڑادیتاہے‘ ہمتوں کو مہمیز بخشتاہے اور مثبت طرزِ فکر کی روح پھونک دیتاہے۔ ایک سچے مسلمان کے لئے مثبت طرزِ فکر کا حامل ہونا ضروری اور لازمہٴ ایمان ہے،جب صحابہ کرام کی تربیت مثبت طرزِ فکر پر ہوئی تو انہوں نے تاریخ کو بدل ڈالا‘ انسانیت کے جنگل کو محبت والفت اور ایمان ویقین کا چمن بنادیا‘ یہی فکری پرواز انہیں نیک اعمال میں ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کے لئے پرِ پرواز عطا کرتی ۔
کچھ لوگوں کی یہ خام خیالی ہے کہ تقویٰ وپرہیزگاری کا تقاضا ہے کہ بلندیوں کو نہ سر کیا جائے اور مہم جوئی کی چوٹی پر کامیابی کا جھنڈا نہ لہرایاجائے۔ ان کی رائے کے مطابق قیادت وسیادت کے لئے کوشش نہ کی جائے‘ کیونکہ تقویٰ عہدہ طلبی سے باز اور الیکشن ومیدان سیاست سے دور رکھتاہے‘ حالانکہ اس طرح کے خیالات لوگوں کی زندگی میں منفی سوچ جنم دیتے ہیں اور ان افکار کا تقویٰ وپرہیزگاری سے دور کابھی واسطہ نہیں ہے‘ بلکہ متقی وپرہیزگار تو نظام حکومت اور حکومت کے اہل‘ پاکباز ہاتھوں میں لانے کے لئے ہمہ وقت ساعی وکوشاں رہتاہے‘ تاکہ اللہ کے منشاء کے مطابق روئے زمین پر حکمرانی قائم ہو‘دنیا عدل وانصاف سے بھرجائے اور عالمی امن کا نظام برپاہو۔ مؤمن کی شان‘ اخلاق وکردار‘ علم وآگہی‘ صنعت وحرفت اور لوگوں کے ساتھ رکھ رکھاؤ میں نمایاں رہنا اور تفوق وامتیاز حاصل کرناہے۔
مثبت فکر کے چند عوامل
۱- مقصد کی شفافیت: جب آپ کا مقصد مثل آفتاب روشن ہوگا تو آپ اس کو وجود کا جامہ پہنانے کی امکانی کوشش کریں گے تاکہ آپ آگے بڑھ کر مقصد پر قابو پالیں اور مشکل سے مشکل کام کر گذریں۔ مسلمان ایک عظیم پیغام اور ایک جلیل القدر ذمہ داری کا حامل ہے‘ وہ ذمہ داری کما حقہ اللہ کی عبادت ‘تابعداری اور سارے عالم کو رب العالمین کے احکام امن وسکون کا پابند بنانے کے لئے ہمہ وقت سرگرم رہناہے۔
مقصد کی یہ بلندی مسلمان سے مثبت فکر کے حامل ہونے کا مطالبہ کرتی ہے‘ حتی کہ ایک مسلمان کو دنیوی معاملات میں بھی کمزور ولچر امور پر اکتفا نہیں کرنا چاہئے‘ بلکہ مقاصد کی بلندی اورعظمت پیش نظر رہنی چاہئے تاکہ بلند ورفیع مقاصد کے حصول کے لئے دنیوی ترقیاں کام آسکیں۔
۲- انفرادی احساس جوابدہی: ہرانسان انفرادی طور پر اللہ تعالیٰ کے روبہ رو کھڑے ہوکر براہ راست بغیر کسی وکیل کے اپنے ہر چھوٹے بڑے عمل کا جواب دہ ہوگا اور اس سے اس کے کئے دھرے کا حساب لیا جائے گا‘ جیساکہ قرآن کریم میں ہے:
”وکلہم آتیہ یوم القیٰمة فردا“۔ (مریم:۹۵)
یعنی اور اس کے سامنے (اللہ کے) ان میں سے ہر ایک قیامت کے دن یک وتنہا آئے گا)
”کل نفس بما کسبت رہینة“۔ (مدثر:۳۸)
یعنی ہرشخص اپنے اعمال کے عوض گروی رکھا ہوا ہے۔ چاہے آدمی کتنی ہی بڑی جماعت کے ساتھ اجتماعی کام کررہا ہو‘ اسے اپنا حساب تو خود یک وتنہا اللہ کے حضور دینا ہے‘ رسول اللہ ا نے فرمایا:”پانچ چیزوں کو پانچ چیزوں سے پہلے غنیمت سمجھو! اپنی متاعِ حیات کو فنا ہونے سے پہلے‘ صحت وتندرستی کو امراض وآلام سے پہلے‘ فرصت کے اوقات کو مصروف ہوجانے سے پہلے‘ قوت وجوانی کو ضعف وبڑھاپے سے پہلے‘ فراخ دستی کو تہی دستی سے پہلے“۔
اس پیغام رسالت میں مسلمانوں کی ذہن سازی کچھ اس طرح کی گئی ہے کہ وہ جو کچھ کرے گا‘ اس کے بارے میں عند اللہ جوابدہ ہوگا‘ کسی دوسرے کی گردن میں جواب نہیں ڈال سکتا۔
البتہ کچھ لوگ اس غلط فہمی کے شکار ہوجاتے ہیں کہ جب ہم جماعت کے ساتھ اجتماعی کام میں لگے ہوئے ہیں تو بس یہ قبولیت ومقبولیت کے لئے کافی ہے‘ اور انہیں جنت میں داخلے کا ٹکٹ مل گیا ہے‘ ایسے لوگوں کو خبر دار کیا جاتاہے کہ آپ اپنے اعمال کا محاسبہ کریں‘اپنی چارج شیٹ دیکھیں اور اپنا روز نامچہ درست کریں‘ کیونکہ آپ کو اپنا حساب انفرادی طور پر دینا ہوگا۔
۳- عالی حوصلہ اور بلند ہمت اشخاص کی سوانح کا مطالعہ: عالی حوصلہ‘ بلند ہمت اشخاص اور اصحاب عزیمت‘ رجال کار کی سوانح اور زندگیوں کا مطالعہ آپ کے اندر حوصلہ وولولہ کوٹ کوٹ کر بھردے گا‘ آپ کی خوابیدہ صلاحیتوں کو پیدا کرے گا جس کے نتیجہ میں آپ ان جیسا بننے کی انتھک کوشش کریں گے‘ ایسی شخصیات کا مطالعہ جنہوں نے اقوام عالم کی تاریخ میں روشن وتاباں نئی تاریخ رقم کی ہے‘ جیسے خلفائے اربعہ‘ ائمہ اربعہ اور ہرزمانے کے نمایاں افراد‘موجودہ زمانے کے اکابر علمأ‘ کلمہ حق کی صدابلند کرنے کے خواہشمند ہوشمند داعی ومبلغ‘ کلمہ باطل کو پاش پاش کرنے کے لئے کوشاں مجاہدین جو تقریر وتحریر‘ قول وعمل‘ حکمت ودعوت کے میدان میں سرگرم ہیں اور حفاظتِ نفس ودین‘ عزت وناموس‘ ملک اور ملت کے بچانے اور دفاع کے لئے آخری قطرہ خون بہانے کے لئے بے تابانہ جذبہ اور فداکارانہ حوصلہ رکھتے ہیں۔ جب آپ ان مہ پاروں‘ آفتابوں اور مہتابوں کی بے مثال چمک دمک‘ بے داغ روشنی میں کھڑے ہوں گے تو آپ کے وجود کا ذرہ ذرہ چمک اٹھے گا‘ تمنائیں کروٹیں لیں گی‘ امنگیں جواں ہوں گی‘ آپ کے اندر ایک اسپرٹ پیدا ہوجائے گی‘ امیدوں کی ایک فوج اٹھے گی جو آپ سے کارہائے نمایاں انجام دلائے گی۔ ۴- اپنے سراپا کا جائزہ: اپنے ذہن وفکر‘ اپنی موجودہ خوابیدہ صلاحیتوں کا بار یک بینی سے جائزہ لینا‘ اپنے آپ سے سوال کرنا کہ اسلام مسلمانوں اور دنیا کے انسانوں کے مفاد میں کیا کچھ کیا؟ اور کیا مزید کرسکتے ہیں اور کتنی قوت واستطاعت ہے‘ لوگوں تک اپنی خدمات پہنچانے کے کتنے راستے نکل سکتے ہیں‘ پھر قلبی واردات وخطرات سے اوپر اٹھ کر کام میں لگ جائیں اور مقصد کو روبہ عمل لانے میں لوگوں کو فائدہ پہنچانے میں کسی سعی وکاوش سے دریغ نہ کریں۔
۵- پیچھے مڑکر نہ دیکھیں: پیچھے مڑکر دیکھنا ناکامی اور نفسیاتی شکست کا ذریعہ بنتا ہے‘ البتہ ماضی سے آپ نے جو سبق سیکھا ہے‘ اسے مستقبل کے لئے زاد راہ بنایئے!
آپ دیکھتے ہیں کہ جب کوئی سیڑھی پر چڑھنا چاہتا ہے تو وہ مجبور ہے کہ پیٹھ پیچھے والوں کی طرف کرے‘ یہ بھی حقیقت ہے کہ لوگوں کی بڑی تعداد کامیابی وکامرانی کی دشمن ہے‘ بس آپ لوگوں کی طرف نہ دیکھیں‘ نہ ان کی باتوں پر کان دھریں انشاء اللہ کامیابی آپ ہی کی ہوگی‘ بشرطیکہ آپ کا مقصد حقیقت وواقعیت کا آئینہ دار اور منزل متعین ہو۔
۶- وقت کی قدر وقیمت: آپ کا وقت آپ کی زندگی ہے‘ فضول کاموں میں ضائع نہ کریں‘ زندگی کے ہرمنٹ اور ہرسکنڈ کا لائحہ عمل تیار رکھیں‘ہوشیار تاجر اپنے سرمایہ کی نگرانی ہمہ وقت کرتا ہے‘ اور ذہین وذکی مؤمن اس حقیقت سے آشنا ہوتا ہے کہ اس کی پونجی اس کی زندگی ہے اور وہ اسے رائیگاں ہونے سے بچاتاہے : ارشاد نبوی ا ہے: ”رب کی دونوازشوں صحت اور فرصت کے سلسلہ میں ڈھیر سارے لوگ دھوکہ کے شکار ہیں“۔
جب تک آپ وقت کی قدر کرتے رہیں گے اور اس سے بھر پور فائدہ اٹھاتے رہیں گے آپ پر اللہ کی نعمتوں کی بارش ہوتی رہے گی۔
۷:- اپنے وجود کو پرکھنا: آپ جس وقت کسی منصوبہ کی تکمیل سے فراغت پائیں تو کچھ دیر رک کر سوچیں اور اس تکمیلی مرحلے سے گذرے منصوبے کا جائزہ اس خاکہ کی روشنی میں لیں جو آپ نے شروع کرتے وقت تیار کیا تھا‘ پھر اس نتیجہ تک پہنچنے کی کوشش کریں کہ آپ اپنے منصوبے کو طے شدہ خاکے کے مطابق عملی جامہ پہنا سکے یا نہیں۔
مثبت فکر کے فوائد
۱- اللہ کی جناب میں عذرداری: آپ نے قوم وملت کی حالت بدلنے ‘ راہ ہدایت وانابت پر چلانے اور فضل وکمال کی انتہا تک پہنچانے میں کوئی کوتاہی وغفلت نہیں برتی۔
۲-جس سرحد پر آپ ہیں اس کی حفاظت: زندگی میں ہم میں سے ہرایک‘ ایک معین سرحد پر کھڑا ہے‘ آپ ہروقت چوکنا رہیں کہ آپ کی سرحد کی طرف سے اسلام پر حملہ نہ کیا جائے۔
۳-خود شناسی: مثبت طرزِفکر آپ کو خود شناسی کی دولت سے نوازے گا۔
۴- آپ کے اندر یہ شعور پیدا ہوگا کہ آپ جو خدمت اسلام مسلمانوں کے عروج وارتقأ کے لئے کررہے ہیں‘ سب سے پہلے وہ اللہ کی نگاہ میں اپنی قدر وقیمت متعین کرتی ہے‘ اس کے بعد دنیا میں اس کے اثرات ظاہر ہوتے ہیں۔
۵- آپ کی خوابیدہ پوشیدہ صلاحیتوں کا بیدار وظاہر ہوجانا۔
۶- ترقی کے منازل طے کرتے کرتے کارہائے نمایاں اور بے مثال نئے نئے منصوبوں وخوابوں کو عملی تعبیر دینا اور کچھ کر گذرنا۔
مضمون کا اختتام ایک حد درجہ عالی ہمت کی علو ہمت اورعالی حوصلگی کے اوج کمال کے تذکرے پر کیا جاتا ہے‘ علامہ ابن قیم اپنی عالی ہمتی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
” میرا دل چاہتاہے کہ سارے علوم وفنون میں حذاقت ومہارت پیدا کرکے دنیا کا سب سے بڑا عالم بن جاؤں‘ سیاست کے رازہائے سربستہ کی آشنائی حاصل کرکے امام وخلیفہ المسلمین بن جاؤں‘ کسبِ رزق وتجارت کی گتھیاں سلجھا کر مال دار ترین بن جاؤں‘ پیار ومحبت دینے والی حسیناؤں سے شادی کروں‘ عبادت وریاضت میں طاق کہلاؤں‘ علم کے سمندر بہاؤں‘ دنیا کو عدل وانصاف سے بھر دوں‘ عطا وبخشش جود وسخا کے دریا لٹاؤں‘ نیک وصالح مجاہدین پیدا کروں ‘ اللہ کی محبت وعشق میں سرشار رہوں‘ خواہشات وتمنائیں تو اپنی ہیں‘ اپنے بس میں بس اتنا ہی ہے‘ زندگی کا ایک لمحہ ضائع کئے بغیر ان رفیع وبلند اور مقصود ومطلوب درجات کے حصول کے لئے عمل کئے جاؤں“۔
(بشکریہ ماہنامہ ”محدث عصر “ہندوستان)
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: جنین کی موروثی بیماری کا علاج
Flag Counter