Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

8 - 10
وادئ ثمود اور مدائن صالح میں ہم نے کیا دیکھا ؟
وادئ ثمود اور مدائن صالح میں ہم نے کیا دیکھا ؟

حضرت صالح علیہ السلام‘ اللہ تعالیٰ کے برگزیدہ نبی گذرے ہیں‘وہ جس قوم میں پیدا ہوئے اور جس قوم کے لئے بھیجے گئے تھے‘ اس قوم کو ثمود کہتے ہیں‘ قرآن کریم میں قوم ثمود کا تذکرہ مندرجہ ذیل نو سورتوں میں آیا ہے۔
۱- سورہٴ اعراف‘ ۲- سورہٴ ہود‘ ۳- سورہٴ حجر‘ ۴- سورہٴ نمل‘
۵- سورہٴ فصلت‘ ۶-سورہٴ نجم‘ ۷-سورہٴ قمر‘ ۸- سورہٴ الحاقہ‘ ۹-سورہٴ الشمس۔
وادی ثمود میں کھڑے ہوکر جب کوئی شخص قرآن پاک کی ان آیات کو پڑھتاہے تو یوں لگتاہے کہ گویا قرآن ابھی اتر رہاہے‘ جس سے قرآن کریم کی عظمت‘ صداقت اور اس کی بلاغت وفصاحت کا سمندر دلوں میں موجزن ہونے لگتاہے۔ قوم ثمود کا نسب نامہ ایک قول کے مطابق اس طرح ہے:
صالح بن عبید بن جابر بن ثمودبن عاد بن عوص ابن ارم بن سام بن نوح علیہ السلام‘ قوم ثمود کے شجرہٴ نسب میں ایک شخص کا نام ثمود تھا‘ اسی نام سے یہ قوم مشہور ہے،خلاصہٴ کلام یہ کہ قوم ثمود ‘ قوم عاد کے بعد آئی ہے جو قوم عاد ہی کا تسلسل ہے‘ یہ لوگ شرک میں مبتلا تھے ‘ خوش عیشی اورمال کی فراوانی کی وجہ سے سرکشی ان کی عادت بن چکی تھی‘ انہوں نے وقت کے نبی حضرت صالح علیہ السلام کا مذاق اڑایا‘ ان سے فرمائشی معجزہ مانگا‘ جب ان کی فرمائش کے مطابق جبل ناقہ کی چٹان سے گابھن اوٹنی نکل آئی تو انہوں نے بجائے حضرت صالح علیہ السلام پر ایمان لانے کے اس اونٹنی کو مار ڈالا اور جب حضرت صالح علیہ السلام کو شہید کرنے کی کوشش کرنے لگے‘ تب اللہ تعالیٰ نے ان پر عذاب بھیجا۔ ان کی آبادی کا ایک حصہ تو زلزلہ سے ریزہ ریزہ ہوگیا اور دوسرا حصہ حضرت جبرئیل علیہ السلام کی چیخ مارنے سے نیست ونابود ہوگیا‘ اب اس قوم کے صرف آثار باقی ہیں جو نافرمان قوموں کے لئے نشانِ عبرت ہیں اور ہرگذرنے والے سے بزبان حال کہتے ہیں:
انقلاباتِ جہاں واعظِ رب ہیں دیکھو ہر تغیر سے صدا آتی ہے فافہم فافہم
گاہ گاہ بازخواں ایں دفتر پارینہ را تازہ خواہی داشتن گرداغہائے سینہ را
اسی قوم کے آثار قدیمہ سے متعلق اپنا آنکھوں دیکھا حال آپ کے سامنے پیش کررہاہوں۔
۵/جنوری ۲۰۰۶ء کو اللہ تعالیٰ نے بندہٴ ناچیز کو حج بیت اللہ کی سعادت سے نوازا‘ زندگی کا یہ پہلا موقع تھا کہ مجھے سعودی عرب کا آزاد ویزہ ملا تھا‘ یہ ایک ماہ کا محدود ویزہ تھا‘ مگر اس کی وجہ سے میں سعودی عرب کے ہرشہر میں جاسکتا تھا‘ جبکہ حج اور عمرہ کے ویزہ سے آدمی صرف جدہ‘ مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ کا سفرکر سکتا ہے ‘ کسی اور شہر نہیں جاسکتا۔ چنانچہ میں اپنے ایک درویش صفت رفیق سفر مولوی سفیان یونس کے ساتھ براستہ ریاض‘ مکہ مکرمہ کے لئے روانہ ہوا‘ ریاض میں محترم قاری عبد الحلیم اور محترم قاری حنیف صاحبان کے ہاں رات گذاری اور صبح بذریعہ گاڑی مکہ مکرمہ جانے کا ارادہ کیا‘ تاکہ راستہ میں آنے والے تاریخی مقامات کا چشم دید نظارہ کرسکوں‘ چنانچہ ہم سات ساتھی قاری محمد حنیف صاحب کی گاڑی کے ذریعہ نہایت آرام اورراحت کے ساتھ شام کے وقت طائف پہنچ گئے‘ طائف کا موسم انتہائی ٹھنڈا تھا‘ طائف سے قاری عبد الحلیم صاحب اور قاری محمد حنیف صاحب بمع اپنے ساتھیوں کے واپس ریاض روانہ ہوگئے‘ چونکہ یوم عرفہ اور حج بالکل قریب تھا اس لئے میں اپنے ساتھی مولوی سفیان کے ساتھ بذریعہ ٹیکسی مکہ مکرمہ کی طرف عازم سفر ہوا‘ حج سے فراغت کے بعد دوبارہ طائف جانے کا ارادہ کیا‘ کیونکہ ریاض سے آتے ہوئے ہم طائف سے رات کے اندھیرے میں گذرے تھے اور میری زندگی کی ایک قدیم تمنا تھی کہ طائف اور اس کے تاریخی مقامات کی زیارت کروں۔
میں نے طائف میں کیا دیکھا؟
فجر کی نماز مسجد حرام میں پڑھ کر مکہ مکرمہ سے طائف کے لئے بذریعہ ٹیکسی روانہ ہوئے‘ ۵۵ منٹ میں گاڑی طائف پہنچ گئی‘ طائف کا ”الہدا“ پہاڑ دنیا کے حسین مقامات میں سے ایک ہے‘ پہاڑ پر چڑھتے ہوئے یوں لگتاہے جیسے آدمی درخت پر چڑھ رہا ہو‘ پہاڑ کی چوٹی پر چڑھ کر جب میں نے نیچے دیکھا تو بادل نیچے نظر آرہے تھے‘ صبح کا وقت تھا‘ شدید سردی تھی اور پہاڑ کے راستے بندروں سے بھرے پڑے تھے‘ پہاڑ کے اوپر کھلا میدان ہے اور یہی جدید طائف ہے‘ صبح کے وقت جب سورج طلوع ہوا تو اس کی شعاعیں پہاڑ پر وہ مناظر دکھا رہی تھیں جس کا بیان کرنا میرے بس کی بات نہیں۔
ٹیکسی اڈہ سے میرے میزبان بھائی محمد اسلم مجھے گھر لے گئے‘ ناشتہ کے بعد قاری عبد الرحمان صاحب اور قاری محمد اجمل صاحب کے ساتھ ان کی گاڑی میں ہم جدید طائف سے‘ قدیم طائف گئے‘ وہاں پر ساتھیوں نے وہ جگہ دکھا ئی‘ جہاں حضور اکرم اکو طائف والوں نے پتھروں سے زخمی اور لہو لہان کردیا تھا تو آپ ا زخمی حالت میں ایک پتھر پر آکر بیٹھے تھے‘ اس وقت پتھروں سے بنا ہوا ایک گول ٹیلہ ہے جس کے اوپر ایک لمبا پتھر‘ ستون کی طرح کھڑا ہے۔ اس کے بعد ہم اس مقام پر گئے جہاں پر طائف کے قلعہ کے محاصرہ کے دوران حضور اکرم ا نے مورچہ بندی فرمائی تھی‘ میرا غالب گمان ہے کہ یہ وہی جگہ ہے جہاں پر ایک پرانی مسجد بنی ہوئی ہے جس کا نام مسجد نبوی اورمسجد رسول ا ہے‘ حکومت نے اس کے ارد گرد لوہے کی جالی لگادی ہے تاکہ کوئی اندر نہ جاسکے‘لیکن لوگوں نے ایک جگہ سے جالی توڑ کرتھوڑا ساراستہ بنایاہے جس سے لوگ اندر جاتے آتے ہیں‘ ہم بھی اسی راستہ سے اندر گئے اور تیمم کرکے دوگانہ نفل ادا کی۔ لوگوں میں مشہور ہے کہ اس مسجد کی دیواروں میں اب تک وہی پتھر لگے ہوئے ہیں جو آنحضرت ا کے وقت اس میں لگائے گئے تھے‘ اس مسجد کے قریب کچھ فاصلہ پر ایک ویران مکان ہے جس کی دیواریں کھڑی ہیں‘ مگر چھت نہیں ہے‘ صرف ایک پرانی لکڑی نظر آرہی ہے باقی کھنڈر ہے۔ لوگ کہتے ہیں کہ آنحضرت ا نے اس مکان میں قیام فرمایا تھا‘اندازہ یہی ہے کہ طائف کے قلعہ کے محاصرہ کے دوران آنحضرت ا نے اس مقام پر مورچہ بندی فرمائی تھی اوربعد میں بطوریارگار اس جگہ مسجد بنائی گئی ہے‘ البتہ طائف کے قلعہ کے آثاراب نظر نہیں آتے ۔
اس کے بعد ہم اس مقام پر گئے جہاں مسجد علی کے نام سے ایک مسجد بنی ہوئی ہے جو باہر سے مورچہ معلوم ہوتا ہے‘ اندر مسجد ہے‘ اس مسجد کے ساتھ ایک مینار ہے جو بالکل قلعہ نما ہے‘ جس سے اشارہ ہوتاہے کہ یہ مسجد دراصل قلعہٴ طائف کے محاصرہ کے لئے مورچہ تھا‘ جس طرح خندق کے مقام پر مساجد سبعہ مورچوں کی جگہ بنائی گئی تھیں تاکہ یادگاریں باقی ہوں‘اس کے بعد ہم واپس جدید طائف آگئے اور ظہر کی نماز ہم نے جامع مسجد ابن عباس میں ادا کی‘ یہ بہت بڑی جامع مسجد ہے اور اس کا جو صحن ہے یہ دراصل حضرت ابن عباس کی مسجد تھی‘ اس کے ساتھ حضرت ابن عباس کی قبر ہے اور ان کے نام پر مکتبہ ابن عباس بھی ہے‘ ہم نے عصر کی نماز بھی اسی مسجدمیں ادا کی ‘ عجیب مسجد ہے اس سے نکلنے کو جی نہیں چاہتا‘ بہرحال رات طائف میں گذاری جہاں ٹھنڈک بہت زیادہ تھی‘ رات کو دو کمبل اوڑھے پھر بھی ٹھنڈ لگتی تھی‘ طائف دیکھنے کی پرانی تمنا پوری ہوئی اور صبح ہوتے ہی جدہ چلا گیا اور پھروہاں سے مدینہ منورہ کے لئے روانہ ہوا۔ ۲۰/جنوری ۲۰۰۶ء کو جمعہ کی نماز منبر نبوی کے بالکل سامنے ادا کی‘ امام کا خطبہ سنا اور امام کوقریب سے دیکھا وہ توہین رسالت کارٹون پر احتجاج کررہے تھے‘ نماز کی پہلی رکعت میں سورہٴ الم نشرح اور دوسری رکعت میں سورہٴ کوثر پڑھی جس سے شان نبوت کی عظمت کی طرف اشارہ کیا۔
دیار ثمود کی طرف روانگی
جمعہ کے روز عصر کے وقت شیخ انعام اللہ کی معیت میں خیبر اور مدائن صالح کی طرف سفر کا آغاز ہوا‘ شیخ انعام اللہ صاحب تقریباً تیس سال سے مدینہ منورہ میں مقیم ہیں‘ مگر انہوں نے بھی دیار ثمود کے علاقے نہیں دیکھے تھے‘ مسجد نبوی کے قریب ہم دونوں ایک ٹیکسی میں مدائن صالح کی طرف روانہ ہوئے‘ مدائن صالح کے ابتدائی شہروں میں العلیٰ کا شہر آتاہے جو اس وقت خوب آباد ہے اور مدینہ منورہ سے گاڑیاں العلیٰ تک جاتی ہیں‘ مدینہ منورہ سے العلیٰ تقریباً ساڑھے چار سو کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے‘ اس وقت چونکہ حج کا موسم تھا‘ اس لئے ٹیکسی والے نے فی آدمی ساٹھ ریال کے حساب سے کرایہ وصول کیا‘ مدینہ منورہ سے مدائن صالح کی طرف بڑی شاہراہ جاتی ہے جو تبوک سے گذر کرشام نکلتی ہے‘ تاجکستان ‘ازبکستان‘ شام‘ عراق اور ترکی کے لوگ اسی راستے سے جاتے ہیں‘ مدینہ منورہ سے ایک سو نوے کلو میٹر کے فاصلہ پر راستے میں خیبر کا علاقہ آتاہے‘ یہ ایک کھلا علاقہ ہے‘ اس کے ایک طرف بڑے پہاڑ ہیں‘ اسی جانب جنگ خیبر کا مشہورواقعہ پیش آیا تھا‘ ہم شہر میں تو داخل نہ ہوسکے‘ البتہ جاتے آتے گاڑی سے اس علاقہ کو دیکھا‘عشاء کی نماز ہم نے العلیٰ کی جامع مسجد میں ایک نوعمر امام کے پیچھے ادا کی‘ یہ لڑکا بہت ہی اعتماد کے ساتھ بہترین قرأت کے ساتھ نماز پڑھا رہا تھا‘ سجدہٴ تلاوت کی آیت پر اس نے سجدہٴ تلاوت کیا‘ فجر کی نماز ان کے والد نے پڑھائی جو بہت ہی نیک صالح معلوم ہورہے تھے‘ العلیٰ میں ہمارے مہربان میزبان محترم جناب ڈاکٹر ریاض خان صاحب پشاوری اور جناب سائرخان صاحب افغانی ہماری انتظار میں تھے‘ اس وقت العلیٰ میں سخت ٹھنڈ تھی‘ العلیٰ گویا مدائن صالح کا دروازہ ہے۔
وادی ثمود کا محل وقوع
وادی ثمود میں داخل ہونے کے لئے پولیس تھانہ سے اجازت کا پرچہ لینا پڑتاہے‘ کیونکہ یہ پوری وادی آثار قدیمہ کی حیثیت رکھتی ہے جس کی چاروں طرف خاردارباڑ لگائی گئی ہے‘ جناب سائر خان افغانی نے رات کوپولیس سے پرچہ حاصل کیا اور ۲۱/جنوری ۲۰۰۶ء بروز ہفتہ صبح سویرے مختصر ناشتہ کے بعد ہم سائر خان کی ٹرک نما گاڑی میں وادی ثمود کی طرف روانہ ہوگئے‘ وادی ثمود کا اصل علاقہ العلیٰ سے تقریباً پچاس کلومیٹر کے فاصلہ پر واقع ہے‘ خاردارتار کی چہار دیواری میں ایک بڑا دروازہ ہے جس پر پولیس کا پہرہ رہتاہے‘ پرچہ دکھانے پر ایک غضبناک پولیس والے نے دروازہ کھولا اور ہم گاڑی سمیت وادی ثمود داخل ہوگئے‘ جہاں نہ کوئی آدم تھا اور نہ آدم زاد اور نہ ہی چرند وپرند اور حیوانات تھے‘ ریت سے بھرا ہوا ایک لق دق بیابان تھا جو پرکشش اور کھلے ہونے کے باوجود اپنی وحشت سے ہر آنے والے کو ڈرارہا تھا‘ یہ علاقہ مدائن صالح کے نام سے مشہور ہے اور قرآن پاک میں اس کو حجر اور وادی ثمود کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ یہ علاقہ دو حصوں پر منقسم ہے‘ ایک علاقہ وہ ہے جہاں قوم ثمود نے پہاڑوں کوتراش کر گھر بنائے ہیں جو اب بھی موجود ہیں اور دوسرا وہ علاقہ ہے جہاں قوم ثمود نے نرم میدانی علاقہ میں عالیشان مکانات بنائے تھے جو اس وقت ملبہ کا ڈھیر ہیں‘ قوم ثمود کی طرف اللہ تعالیٰ نے حضرت صالح علیہ السلام کو نبی بناکر بھیجا‘ آپ نے اپنی قوم کو جو وعظ ونصیحت فرمائی اس خطاب کو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں اس طرح ذکر کیا:
”واذکروا اذ جعلکم خلفاء من بعد عاد وبوأکم فی الارض تتخذون من سہولہا قصوراً وتنحتون الجبال بیوتا‘ فاذکروا آلاء اللہ ولاتعثوا فی الارض مفسدین“۔ (اعراف:۷۴)
ترجمہ:-”تم اس وقت کو یاد کرو کہ اللہ تعالیٰ نے تم کو قوم عاد کے بعد ان کا قائم مقام بنایا اور تم کو زمین میں ٹھکانہ دیا‘ تم اس زمین کی سطح اور نرم حصوں پر محلات بناتے ہو‘ اور پہاڑوں کو تراش کر گھر بناتے ہو‘ اللہ تعالیٰ کی نعمتوں کا خیال کرو‘ اور زمین میں فساد ڈال کر نہ پھرو“۔
اس آیت سے دو باتیں معلوم ہوئیں:
ایک یہ کہ قوم ثمود‘قوم عاد کے بعد وجود میں آئی جو درحقیقت قوم عاد کے بقایاجات اور اسی کا تسلسل تھا‘ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم میں اللہ تعالیٰ نے اس قوم کو عاد ثانی قرار دیا ہے‘ قرآن کریم میں اس طرح آیاہے:
”وانہ اہلک عاد ن الاولیٰ وثمودا فما ابقیٰ “۔ (النجم:۵۰‘۵۱)
قوم ثمود پر عذاب کی قسمیں
اوپر درج کردہ آیت سے دوسری یات یہ معلوم ہوئی کہ قوم ثمود کی آبادیاں اور ان کے مکانات دوحصوں پر منقسم تھے: ایک پہاڑی سلسلہ اور دوسرا میدانی علاقہ تھا‘ چنانچہ وہاں پر میں نے اپنی آنکھوں سے جو کچھ دیکھا وہ اسی طرح ہے جس طرح قرآن کریم میں مذکور ہے۔
علاقے کا نقشہ بتاتاہے کہ اس قوم پر دوقسم کا عذاب آیا تھا:
۱:- ایک قسم کا عذاب بجلی نما کڑک دار چیخ اور آواز تھی جوحضرت جبرئیل امین علیہ السلام نے ماری‘ جس سے وہ لوگ پہاڑوں میں بنائے گئے محفوظ ومضبوط مکانات کے اندر ہی اندر ہلاک ہو گئے۔ قرآن پاک ثمودیوں کے اس عذاب کو کبھی ”الصیحة“ کے لفظ سے بیان کرتا ہے جیسے ”فاخذ تہم الصیحة مصبحین“ (حجر:۸۳) یعنی صبح کے وقت ایک ہولناک آواز نے اس قوم کو پکڑ لیا‘ اسی آواز اور چیخ کو قرآن کبھی ”الصاعقة“ کے نام سے بیان کرتا ہے ۔
جیسے
”فاخذتہم الصاعقة وہم ینظرون‘فما استطاعوا من قیام وماکانوا منتصرین“ (ذاریات:۴۴‘۴۵)
یعنی ایک کڑک نے اس قوم کو پکڑ لیا اور وہ دیکھ رہی تھی مگر نہ بدلہ لے سکتی تھی اور نہ اٹھنے کے قابل تھی“۔
علاقے کا نقشہ بتاتاہے کہ اس قوم پر کڑک داراور گرجدار آواز کی صورت میں جو عذاب آیا تھا وہ ان پہاڑی علاقوں میں آیا تھا جہاں ثمودیوں نے پہاڑی چٹانوں کو تراش خراش کر مکانات بنائے تھے‘ جس کا نقشہ قارئین کے سامنے پیش کرنے والا ہوں۔
۲:- قوم ثمود پر دوسری قسم کا جو عذاب آیا‘ جس نے ان کے میدانی علاقوں کے محلات کو تہ وبالا کرکے رکھ دیا تھا‘ وہ عذاب زلزلہ کی صورت میں تھا‘ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں اس قسم کے عذاب کا تذکرہ اس طرح فرمایا ہے۔
”فاخذتہم الرجفة فاصبحوا فی دارہم جاثمین“ (اعراف:۹۱)
یعنی پھر اس قوم کو ہولناک زلزلہ نے پکڑ لیا‘ پس وہ (قوم) صبح کے وقت اپنے گھروں میں سرنگوں پڑی ہوئی تھی“۔
قرآن نے اس زلزلہ کو ”طاغیة“ کے نام سے بھی یاد کیاہے ۔قرآن کریم میں ہے:
”فاما ثمود فاہلکوا بالطاغیة “۔ (الحاقة:۵)
یعنی ثمود کے لوگ سخت بھونچال اور زلزلہ سے ہلاک کردیئے گئے“۔
وادی ثمود کا جو نقشہ میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھا وہ واضح طور پر بتاتاہے کہ زلزلہ کہاں آیاہے اور اس قوم پر چیخ کہاں ماری گئی‘ جہاں چیخ ماری گئی وہاں سنگ تراش مکانات ‘ پہاڑاور چٹانیں بالکل محفوظ ہیں‘ گویا لوگ ہلاک ہوگئے لیکن ایک پتھربھی ادھر ادھر نہیں گراہے۔ اور جہاں زلزلہ آیاہے وہاں مکانات ملبہ کی شکل میں ہیں‘ اگر میں اس علاقہ کو خود نہ دیکھتا تو قرآن کریم کے الفاظ کے اس واضح فرق اور عذاب کی دوقسموں کو الگ الگ کبھی نہ سمجھ سکتا‘ جس طرح بڑے بڑے دانشوروں پریہ حقیقت اب تک مخفی ہے۔ اب اس علاقے کے چشم دید واقعات سن لیجئے!
گاہ گاہ باز خواں ایں دفتر پارینہ را
تازہ خواہی داشتن گر داغہائے سینہ را
وادی ثمود کا سطحی اور فضائی منظر
میں اور میرے دو ہم سفرمحترم شیخ انعام اللہ صاحب اور جناب سائر خان صاحب ہم تینوں پہلے اس علاقہ میں گئے جہاں قوم ثمود کے مکانات پہاڑوں اور چٹانوں کو تراش کربنائے گئے ہیں‘ ہر مکان کے ساتھ اس کے نمبر شمار کی تختی لگی ہوئی ہے‘ یہ کام سعودی حکومت نے کیا ہے‘ رنگ کے اعتبار سے یہ پہاڑ ایسے ہیں کہ دیکھنے والا سمجھتاہے کہ یہ مٹی کے پہاڑ ہیں یا لکڑی نما کوئی چیز ہے‘ لیکن جب کوئی شخص اس کو کھودتا یا کریدتا ہے تواسے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ سخت قسم کا پتھر ہے‘ عمومی طور پر ان پہاڑوں کے پتھر اور چٹانیں اس طرح سرخ ہیں گویا کسی نے ان کو بھٹہ خشت میں پکا کر سرخ بنایاہو‘ ان پہاڑوں میں دنیا کے دیگر پہاڑوں کی طرح پہاڑی سلسلہ نہیں ہے‘ بلکہ عام طور پر جگہ جگہ مختصر مختصر پہاڑ اور بڑی بڑی چٹانیں ہیں‘ وادی ثمود کافی کھلا علاقہ ہے جو وسیع میدان کی صورت میں ہے‘ یہ پکی زمین ہے‘ ریت کے تودے نہیں ہیں۔ قدرتی طور پر ان پہاڑوں میں عجیب نقشے نظر آتے ہیں‘ مثلاً بعض نقشے بڑے بڑے مٹکوں کی شکل میں ہیں تو بعض بڑے بڑے تھال کی صورت میں ہیں‘ بعض نقشے انسانی اعضاء کا نظارہ پیش کرتے ہیں۔ ایک جگہ میں نے دیکھا گویا دو انسان کھڑے ایک دوسرے کا بوسہ لے رہے ہیں‘ بعض چٹانیں ایسی کھڑی ہیں گویا کسی انسان کی پگڑی ہے‘ بعض تراشے انسان کی پسلیوں کا منظر دکھا رہے ہیں‘ بعض چٹانیں بلندی میں اس طرح کٹی ہوئی ہیں گویا اونچے اونچے درخت کھڑے ہیں یا بڑے اونچے مینار ہیں‘ اس کے علاوہ تمام پہاڑوں میں لاکھوں کی تعداد میں ایسے شگاف اور رخنے وسوراخ ہیں گویا صدیوں سے کوئی سمندر ان سے ٹکرا چکا ہو اور ان چٹانوں میں گڑھے پڑ گئے ہوں‘ لیکن یہ نہایت سلیقہ سے بنے ہوئے آثار ہیں جو عجوبہ روزگار ہیں‘ یہ ایسے خوبصورت لگتے ہیں گویا ان پہاڑوں پر گلکاری کی گئی ہے‘ عجیب یہ کہ یہ پہاڑ کھلے میدانوں میں کافی فاصلوں پر واقع ہیں‘ سلسلہ کوہی نہیں ہے‘ ہاں عذاب کی وجہ سے اب بھی یہ پہاڑ وحشت ناک لگتے ہیں۔ بعض علمأ نے بتایا کہ پہاڑوں میں یہ سارے نقشے قوم ثمود نے اپنے ہاتھوں سے بنائے ہیں‘ لیکن یہ بات عقل اورپہاڑوں کے احوال واقعی کی رو سے بعید تر بلکہ خارج از امکان معلوم ہوتی ہے۔ بعض دیگر اکابر علمأ میں سے ایک عالم دین اور جامعہ حقانیہ کے شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ مدنی مدظلہ نے بتایا کہ ان پہاڑوں سے طوفانِ نوح ٹکرایاہے اس کی وجہ سے یہ گڑھے پڑ گئے اور قدرتی نقشے بن گئے ہیں‘ یہ بات بالکل قرین قیاس ہے اور میری رائے بھی یہی ہے۔ شیخ الحدیث ڈاکٹر شیر علی شاہ صاحب مدنی سے مدائن صالح کی باتیں کبھی کبھی سنتا تھا جس سے میرے دل میں ایک شوق پیدا ہوگیا اور آخر کار اللہ تعالیٰ نے وہاں تک پہنچادیا‘ الحمد للہ! میں ہرعالم سے کہتاہوں کہ اگرچہ شرعی فرض نہ سہی لیکن ہرعالم کا علمی فرض بنتاہے کہ وہ ان علاقوں کا معائنہ کریں اور اللہ تعالیٰ کی قدرت اور قرآن کریم کی صداقت کا نظارہ کریں‘ بہرحال وادی ثمود سے متعلق جو کچھ میں نے دیکھا ہے یہ گویا اس وادی کی سطحی اور فضائی منظر کشی ہے‘ اب اس وادی کے زمینی حقائق سے متعلق کچھ لکھنے کی کوشش کرتاہوں‘اگر چہ مجھے معلوم ہے کہ اس کے لکھنے کا حق ادا نہیں کرسکوں گا۔
وادی ثمود کے زمینی حقائق
العلیٰ سے وادی ثمود میں داخل ہونے کے لئے جب ہم اس وادی کے گیٹ پر پہنچے تو وہاں پولیس چوکی تھی اور گیٹ پر پولیس کے جوان پہرہ دے رہے تھے‘ ہم نے اجازت نامہ کی پرچی جب پولیس کو دکھائی تو ایک جوان نے مدائن صالح یعنی وادی ثمود کے لق دق بیابان اور صحرا کا دروازہ کھول دیا‘ یہ دشت وبیابان میلوں پر پھیلا ہوا ہے‘ ہم گاڑی سمیت وادی میں داخل ہوئے تو جاتے ہوئے بائیں جانب ہم نے بہت سارے ایسے مکانات دیکھے جو چٹانوں کو تراش کرپہاڑوں کے اندر بنائے گئے تھے‘ دروازوں کی جگہیں تھیں‘ لیکن دروازے نہیں تھے۔ یہاں بہت سارے ایسے غار نظر آئے جس میں داخل ہونے کے لئے جھک کر جانا پڑتا ہے‘ کیونکہ دروازوں کی جگہیں آدمی کے قد سے چھوٹی ہیں۔ مجھے تعجب ہوا کہ یہ دروازے اتنے چھوٹے کیوں ہیں‘ اندر جاکر معلوم ہوا کہ یہ رہنے سہنے کے مکان نہیں‘ بلکہ قوم ثمود کے مردوں کا قبرستان ہے جو پہاڑ تراش کر جگہ جگہ الگ الگ بنایا گیا ہے‘ مکان کے اندر جگہ جگہ گہرے کھڈے بنے ہوئے ہیں جو درحقیقت ان لوگوں کی قبر یں ہیں‘ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ لوگ ایک گڑھے میں کئی کئی مردوں کو اوپر نیچے رکھ کر دفنایا کرتے تھے‘ ان سنگ تراشیدہ چٹانوں میں بعض شاہی خاندان کے قبرستان بھی ہیں‘ جن کے اصول وضوابط کے لئے لکھے ہوئے بورڈ بھی نظر آتے ہیں‘ یہاں شاہی خاندان کے علاقے میں ”قصر البنت“ یعنی شہزادی کے محلات کا بورڈ بھی موجود ہے اور اس کے قواعد بھی لکھے ہوئے ہیں‘قبروں کے غاروں کے اوپر بتوں کے مجسمے بھی نظر آتے ہیں۔ (جاری ہے )
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: توہین رسالت اور گستاخان رسول کا بدترین انجام
Flag Counter