Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

10 - 10
نقدونظر
تبصرے کے لیے ہر کتاب کے دو نسخوں کا آنا ضروری ہے
(ادارہ)

روایة النحو شرح ہدایة النحو :
درسِ نظامی کے نصاب میں ہدایة النحو کی اہمیت سے اہلِ علم بخوبی واقف ہیں‘ یہی وجہ ہے کہ مدارس میں ہدایة النحو کے علاوہ دیگر کتب کی تدریس میں تفاوت نظر آتاہے لیکن شایدہی کوئی مدرسہ ایسا ہو جہاں ہدایة النحو داخلِ نصاب نہ ہو۔ زیرِ نظر کتاب روایة النحو اسی کی معنی خیز شرح ہے۔ مؤلف مولانا عبد الرب صاحب میرٹھی نے قریبا ۱۳۶۰ئھ میں اس کی تالیف فرمائی‘ عام طور پر اردو شروحات میں حل مطالب کم ہوتا ہے‘ لیکن موصوف کی دیگر تالیفات کی طرح روایة النحو بھی مباحث ِ کتاب کے حل اور فن نحو کی وضاحت کے لئے بے مثل شرح ہے، زمزم پبلشرز کراچی نے از سر نو کمپوزنگ کراکے اسے شائع کیا ہے‘ جس سے اس کتاب سے استفادہ آسان ہوگیا‘ ورنہ سابقہ طباعتوں میں شرح ‘ حاشیہ پر تھی اور یہ امتیاز کرنا مشکل تھا کہ عبارت کی شرح کہاں سے شروع ہورہی ہے۔
ناشر نے ایک اضافہ یہ کیا کہ ہدایة النحو کا ترجمہ بھی کراکر اس میں شامل کرلیا‘ ایک لحاظ سے یہ بھی اچھی کوشش ہے۔ البتہ گذارش ہے کہ آئندہ ایڈیشن میں ترجمہ کی تصحیح کسی ایسے صاحبِ قلم سے کرالیں جن کو فن نحو اور خصوصاً ہدایة النحو سے مناسبت رہی ہو‘ کیونکہ بعض جگہ ترجمہ غیر واضح یا غیر سلیس ہے ‘ ٹائٹل جاذب ِ نظر ہے‘ بہترہوتا اگر کاغذ کا معیار بھی اچھارکھا جاتا، خلاصہ یہ کہ یہ شرح عمدہ انداز میں سامنے آئی ہے‘ لیکن اساتذہ‘ طلبہ کو اس کے پڑھنے کی ترغیب نہ دیں اور طلبہ بھی طالب علمی کے دور میں اپنے آپ کو اردو شروحات کا عادی نہ ہی بنائیں تو اچھا ہوگا۔
سلسلہ نقشبندیہ کی روشن کرنیں:
مولانا روح اللہ نقشبندی غفوری‘ صفحات:۴۴۸‘ قیمت: درج نہیں‘ پتہ: ایچ ایم سعید کمپنی‘ اد ب منزل‘ پاکستان چوک کراچی۔
پیشِ نظر کتاب میں مؤلف موصوف نے سلسلہ نقشبندیہ کے اکابر وبزرگان کے حالات وکمالات کو اردو کے قالب میں ڈھالاہے‘ بلاشبہ ان اکابر کے حالات وکمالات اہل علم سے مخفی نہیں‘ لیکن مختلف کتب میں ان کے تذکرے منتشر تھے‘ جناب مصنف نے ان کو ترتیب وار یکجا کردیا ہے اور جن جن ماخذ سے حالات لئے ہیں ان کا حوالہ دینے کی سعی بھی کی ہے‘ چونکہ سلاسل تصوف کی انتہاء آقائے دوعالم اکی ذات عالی ہے‘ اس لئے آقائے دو عالم ا کی ذات سے لے کر اپنے شیخ حضرت مولانا شمس الرحمن غفوری نقشبندی تک تمام اکابر کے دستیاب قابل رشک احوال جمع فرماکر ایک حسین گلدستہ تیار فرمایاہے۔ اللہ تعالیٰ اس مجموعہ کو تمام مسلمانوں کے لئے عموماً اور سالکین طریقت کے لئے خصوصاً مفید ونافع بنائے آمین۔ آخر میں سلسلہ نقشبندیہ کے اسباق کو بھی درج کردیا گیاہے۔
تذکار محمود:
جناب محمد فاروق قریشی‘ صفحات:۳۱۹‘ قیمت: ۲۰۰ روپے‘ پتہ: مفتی محمود اکیڈمی‘ پاکستان کراچی۔
مفکر اسلام حضرت مولانا مفتی محمود رحمة اللہ علیہ کی شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں اور نہ ہی ان کا علم وعمل اور کارہائے نمایاں کسی اظہار وبیان کے محتاج ہیں۔میں سمجھتاہوں ان کی شخصیت پر لکھنا ان کی شخصیت کے بجائے اپنا اعزاز وتعارف ہے‘ بہرحال اخلاف کا فرض ہے کہ اپنے اسلاف کا تعارف کرائیں اور نئی نسل کو ان کے نقش قدم پر چلنے کے لئے راہ نما واضح خطوط مہیا کریں۔
اللہ تعالیٰ جزائے خیر دے حضرت مولانا مفتی محمود صاحب کے نام لیواؤں کو جنہوں نے اپنی ذمہ داریوں کو محسوس کیا اور اس غرض سے مفتی محمود اکیڈمی کی داغ بیل ڈالی‘ مگر افسوس کہ اس قافلہ کے ہدی خوان حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزی شہید اور مولانا مفتی محمد جمیل خان شہید جلدی جلدی یکے بعد دیگرے شہادت کی خلعت فاخرہ زیب تن کرکے دنیا کی سرحد پار کرگئے‘ اب اس قافلہ کے رہے سہے چند ناموں میں سے ہمارے دوست جناب محمد فاروق قریشی ہیں جنہوں نے اپنے ناتواں کندھوں پر اس بوجھ کو سنبھالاہواہے۔
پیشِ نظر کتاب ان مقالات کا مجموعہ ہے جو دراصل ”مفتی محمودسپوزیم بنوں ”۱۹۹۶ء“ کے لئے تیار کئے گئے تھے۔ کتاب کا بنیادی اور مرکزی مقالاجناب محمد فاروق قریشی کا ہے جس میں موصوف نے ان تمام مقالات میں قابل وضاحت امور کے علاوہ حضرت مفتی صاحب کی ہمہ گیر شخصیت کے مخفی گوشوں سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی ہے کتاب لائقِ مطالعہ اور قابلِ قدر ہے۔
ماہتاب نبوت کی ضوفشانیاں:
مولانا عبد القیوم حقانی‘ صفحات: ۲۱۰‘ قیمت: ۱۲۰ روپے‘ پتہ: جامعہ ابوہریرہ خالق آباد‘ نوشہرہ۔
پیشِ نظر کتاب آنحضرت ا کے جمال جہاں آرأ اور رشک ملائک اخلاق‘ عادات اور کمالات سے متعلق ایک سو ساٹھ احادیث کی تشریح پر مشتمل حسین گلدستہ ہے‘ جسے مصنف علاّم نے اپنے حسین قلم اور شستہ انداز سے بارگاہِ رسالت میں ہدیہ عقیدت کے طور پر پیش کیا ہے۔
انوار السنن شرح الجامع السنن للترمذی:
حضرت مولانا عبد الغنی طارق لدھیانوی‘ صفحات: ۵۱۲‘ قیمت: درج نہیں‘ پتہ: زمزم پبلشرز‘ شاہ زیب سینٹر‘ نزد مقدس مسجد اردو بازار کراچی۔
پیشِ نظر کتاب جیساکہ نام سے ظاہر ہے‘ نوجوان عالم دین اور فاضل محقق جناب مولانا عبد الغنی طارق لدھیانوی صاحب کی درسی خود نوشت ڈائری کی شکل ہے جو انہوں نے بنات کے دورہ حدیث میں درس ترمذی کے لئے نہایت اختصار سے مرتب کئے‘ چونکہ اکابر احناف اور علمائے دیوبند کے کفش بردار اور مقلد محض ہیں‘ اس لئے ان کی یہ شرح اس اعتبار سے لائقِ قدر ہے کہ انہوں نے ذاتی رائے اور نام نہاد جدید تحقیقات کو درخور اعتناء نہیں سمجھا‘ بلکہ اکابر واسلاف کی تحقیقات ہی ان کا اول وآخر مرجع ہے۔
بلاشبہ یہ طلبہ وطالبات دونوں کے لئے مفید ہے‘ مگر چونکہ اس میں ایجاز واختصار سے کام لیا گیا ہے‘ اس لئے بعض جگہوں پر اختصاراور صرف اشارات سے کام لیا گیا ہے‘ جن کو وہی سمجھ سکتاہے جس کے سامنے تمام مباحث مستحضر ہوں‘ اس اختصار کے بجائے اگر کسی قدر تفصیل ہوتی تو یہ کتاب طلبہ کے علاوہ عوام کے لئے بھی بے حد مفید تھی‘ اس میں مسلک احناف کی اچھی ترجمانی کی گئی ہے۔
تذکرہ قطب عالم حضرت خواجہ ابو الحسن خرقانی قدس سرہ: محمد نذیر رانجھا‘ صفحات:
۲۵۵‘ قیمت: ۱۴۰ روپے پتہ: جمعیت پبلی کیشنز متصل مسجد پائلٹ ہائی سکول وحدت روڈ۔لاہور۔
قطب عالم حضرت شیخ ابو الحسن خرقانی قدس سرہ پانچویں صدی ہجری کے امام تصوف ہیں اور سلطان العارفین خواجہ بایزید بسطامی کے فیض یافتہ اور سلسلہ عالیہ نقشبندیہ کے چشم وچراغ‘ بلکہ آفتاب وماہتاب ہیں ۔
پیش نظر کتاب ان کے ملفوظات المعروف ”نور العلوم من کلام شیخ ابو الحسن خرقانی“ کا ترجمہ وتشریح ہے‘ نور العلوم کا اس وقت ایک ہی قلمی نسخہ ہے جو برٹش میوزیم میں محفوظ ہے‘ اصل کتاب فارسی زبان میں ہے‘ سب سے پہلے اس قلمی نسخے کو ۱۹۲۹ء میں ایک روسی محقق برتلس نے روسی مجلہ کے ذریعہ متعارف کرایا‘ اس کے بعد ایرانی محقق عبد الرفیع حقیقت نے ۱۳۷۷ھ میں پہلی بار اسے کتابی شکل میں نہایت تحقیق وتدقیق سے منصہ شہود میں لانے کی سعی کی۔
پیش نظر کتاب اس کتاب کا اردو ترجمہ ہے‘ چنانچہ مصنف جناب محمد نذیر رانجھا صاحب لکھتے ہیں:
”احقر راقم الحروف نے اولاً نور العلوم کے فارسی متن کا اردو ترجمہ کیا اور بعد ازاں اپنے ذوق وشوق سے حضرت شیخ ابوالحسن خرقانی قدس سرہ کے احوال وآثار اور تعلیمات وارشادات کو جامع وسادہ اسلوب میں مرتب کیا اور غیر ضروری بحثوں اور مکررات کو یکسر چھوڑدیا“۔ (ص:۳۳)
بلاشبہ یہ کتاب تصوف کے شائقین‘ صوفیا‘ اور اولیاء کے عقیدت مندوں کے لئے انتہائی گراں قدر تحفہ ہے جس میں نور العلوم کے اردو کے علاوہ شیخ ابوالحسن خرقانی کے احوال‘ آثار‘ فضائل‘ مناقب اور اقوال وارشادات کا نادر خزانہ اکھٹا ہوگیاہے،کتاب پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے‘ بلاشبہ کتاب کا ایک ایک حرف آبِ زر سے لکھنے کے لائق ہے۔ امید ہے اہلِ ذوق اس کی پذیرائی میں بخل سے کام نہیں لیں گے۔ کتاب پر خواجہ خواجگان حضرت مولانا خواجہ خان محمد صاحب سجادہ نشین کندیاں شریف کے کلمات تبرک یا تقریظ اس کی ثقاہت کی کافی دلیل ہے۔
تفسیر چرخی آخری دو پارے:
حضرت اقدس مولانا محمد یعقوب چرخی قدس سرہ‘ تحقیق وترجمہ: جناب محمد نذیر رانجھا صاحب‘ صفحات: ۴۰۷‘ قیمت:۲۵۰ روپے پتہ: جمعیت پبلی کیشنز متصل مسجد پائلٹ ہائی سکول وحدت روڈ‘ لاہور۔
شیخ طریقت حضرت مولانا محمد یعقوب چرخی قدس سرہ کا نام نامی اہلِ علم اور اہلِ قلوب کے ہاں کسی تعارف کا محتاج نہیں‘ آپ حضرت خواجہ بہأ الدین نقشبند کے مستر شد ومجاز اور قطب الارشاد حضرت خواجہ عبید اللہ احرار کے شیخ طریقت ہیں‘ آپ کا آبائی تعلق غزنی کی مضافاتی بستی چرخ سے تھا‘ اسی لئے چرخی کہلاتے۔ آپ نے اپنے خدام ومتوسلین کی خواہش وچاہت اور ان کی اصلاح وتربیت اور قرآن کریم سے سلوک واحسان کو مستنبط کرنے کے لئے آخری دو پاروں کی تفسیر لکھی جو فارسی زبان میں تھی۔ اللہ تعالیٰ جزائے خیردے جناب محمد نذیر رانجھا صاحب کو جنہوں نے اس گوہر گراں مایہ کو حاصل کرکے نہ صرف اس کا اردو میں ترجمہ کیا‘ بلکہ اس پر خوب صورت تحقیقات کا اضافہ کرکے اسے چار چاند لگادیئے،بلاشبہ یہ اپنی نوعیت کی پہلی تفسیر ہے جس میں متدادل تفاسیر کے انداز سے ہٹ کر سلوک واحسان کو بطور خاص مبرہن کیا گیاہے۔ کتاب ہر اعتبار سے لائقِ مطالعہ اور قابلِ قدر ہے۔
حضرت مفتی محمود حسن گنگوہی کے منتخب ملفوظات
جلد اول‘ جلد دوم‘ جلد سوم مفتی محمد فاروق استاذ جامعہ محمودیہ میرٹھ صفحات: جلد اول: ۴۱۱‘ جلد دوم:۴۰۳‘ جلد سوم: ۳۵۴‘ قیمت مکمل سیٹ: ۴۲۵‘ پتہ دار الہدی دفتر نمبر ۸ پہلی منزل شاہ زیب ٹیرس اردو بازار کراچی۔
ہندوستان کے مفتی اعظم‘ دارالعلوم دیوبند کے مفتی واستاذِ حدیث‘ قطب الارشاد حضرت مولانا محمد زکریا مہاجر مدنی قدس سرہ کے خلیفہ اجل‘ یادگار اسلاف حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی قدس سرہ کی جامع شخصیت کسی تعارف کی محتاج نہیں اور نہ ہی ان کی علمی‘ تحقیقی اور ارشادی خدمات محتاج بیان ہیں،پیش نظر کتاب جیساکہ نام سے ظاہر ہے ان کے ملفوظات کا مجموعہ ہے جو ان کے مسترشد ومجاز حضرت مولانا مفتی محمد فاروق میرٹھی صاحب نے مرتب فرمایاہے‘ بلاشبہ حضرت کا ایک ایک ملفوظ آب زر سے لکھنے کے قابل اور حرز جان بنانے کے قابل ہے‘ ان ملفوظات کے مطالعہ سے آپ کی علم ومعرفت میں گیرائی و گہرائی اور علمی استحضار اور تیقظ کا اندازہ ہوتاہے،اللہ تعالیٰ جزائے خیردے ادارہ دارالہدیٰ کے کارپردازوں کو جنہوں نے اس خزانہ کو شائع کرکے پاکستان کے قارئین کو اس سے استفادہ آسان فرمادیا۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 
Flag Counter