Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

2 - 10
جنین کی موروثی بیماری کا علاج
جنین کی موروثی بیماری کا علاج

کیا فرماتے ہیں علمائے دین و مفتیانِ شرع متین اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
جدید طرقہائے علاج میں سے ایک طریقہ جو ان دنوں مغربی ممالک میں رائج ہے‘ وہ یہ ہے کہ:جنین (ماں کے پیٹ میں موجود بچے) میں موروثی بیماریوں میں سے کسی ایک بیماری کے پائے جانے پر مطلع ہونے کے بعداس جنین کو جو کہ ۸تا ۱۲ ہفتے کے درمیان ہو‘ اس موروثی بیماری سے تحفظ دلانے کے لئے مختلف طریقے اختیار کئے جاتے ہیں: مثلاً
۱:․․․ کسی صحت مند مرد یا عورت کے مادہٴ منویہ سے اسے تبدیل کردیا جائے
ء ۲:․․․ یاکسی صحت مند مرد یا عورت کے جسم کے خلیے سے تبدیل کردیا جائے
۳:․․․ یاکسی جانور کے خلیے سے تبدیل کردیا جائے
۴:․․․ یاکسی مصنوعی خود ساختہ خلیے سے تبدیل کردیا جائے
پھر اس تبدیلی کے باعتبار تاثیر کے دو طریقے ہیں:
۱:․․․ ایک طریقے میں صرف جنین کا جسم اس بیماری کے اثرت سے محفوظ ہوجاتاہے‘ تاہم چونکہ موروثی بیماری کے جراثیم اس کے مادہٴ منویہ میں باقی رہتے ہیں‘ لہذا اس کی آئندہ نسلوں کے اس بیماری سے تحفظ کے بارے میں کوئی بات یقین سے نہیں کی جا سکتی۔
۲:․․․دوسرے طریقہٴ علاج میں نہ صرف جنین کا جسم اس بیماری کے اثرات سے محفوظ ہوجاتاہے‘ بلکہ اس کا مادہٴ منویہ بھی محفوظ ہوجاتاہے ‘ چنانچہ نہ صرف وہ خود بلکہ گمان کی حدتک اس کی نسلیں بھی محفوظ ہوجاتی ہیں۔
اس صورت حال کے واضح ہونے کے بعد اب چند باتوں کا جائزہ لینا شرعی اعتبار سے ضروری ہے:
۱:․․․ یہ طریقہ ٴ علاج ابھی تجرباتی مراحل میں ہے ‘ لہذا عام بیماریوں کی طرح اس کے منفی اورمثبت پہلو واضح نہیں‘ بلکہ ہنوز پردہٴ خفا میں ہیں اور بعید نہیں کہ اس کے منفی اثرات جنین یا زچہ میں متعدد بیماریوں کی صورت میں ظاہر ہوں‘ سوال یہ ہے کیا ایسی صورت میں یہ طریقہ اختیار کرنا جائز ہوگا؟ جبکہ زچہ( مریضہ) کو اس پوری صورتحال سے واقف کرانے اور اس کی رضامندی کے بعد ہی یہ طریقہ اختیار کیا جاتاہے۔
۲:․․․ کیا دوسرے مرد یا عورت کا خلیہ یا مادہٴ منویہ جنین کے جسم میں داخل کرنے سے‘ شرعی اعتبار سے اختلاطِ نسب یا غیر فطری عمل کے محظور وممنوع کا ارتکاب لازم آئے گا یا نہیں؟ خصوصاً اس صورت میں جب کہ اس جنین کی پیوند کاری کا اثر آئندہ نسلوں تک بھی جائے گا ۔
۳:․․․ یہ طریقہٴ علاج‘ تکریم انسانی کے شرعی پہلو سے متصادم تو نہیں؟ کیونکہ ایک طرف تو ایک انسان کے جسم کا حصہ جدا کیا جاتاہے اور دوسری طرف ایک زچہ (مسلمان عورت) کی عفت وعصمت کی بے احترامی بھی ہے ۔ برائے کرم شرعی دلائل کی روشنی میں جواب دیں۔
ڈاکٹر عرشی
جنرل فیزیشن
آغاخان ہسپتال کراچی
الجواب بعون الملک الوہاب
واضح رہے کہ شریعت نے انسان کو علاج کا حکم دیا ہے‘ قرآن کریم میں اگرچہ اس حکم کی صراحت نہیں‘ لیکن ایسی آیات موجود ہیں جن سے علاج کی رخصت معلوم ہوتی ہے‘ چنانچہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
”ثم کلی من کل الثمرات فاسلکی سبل ربک ذللا‘ یخرج من بطونہا شراب مختلف الوانہ فیہ شفاء للناس‘ ان فی ذلک لاٰیة لقوم یتفکرون“۔ (سورہٴ نحل:۶۹)
اس آیت سے یہ بات ثابت ہوئی کہ شہد کے اندر شفاء ہے یعنی شہد ایسی دوائی ہے جو شفا پہنچانے والی ہے اور احادیث مبارکہ میں صراحت کے ساتھ علاج کی اجازت دی گئی ہے‘ چنانچہ حدیث میں ہے:
”عن اسامة ابن شریک قال اتیت النبی ا واصحابہ کانما علی روسہم الطیر‘ فسلمت ثم قعدت فجاء الاعراب من ہاہنا وہاہنا فقال یا رسول اللہ! انتداوی؟ فقال: تداووا‘ فان اللہ تعالیٰ لم یضع داء الا وضع لہ دواء غیر داء واحد ”الہرم“۔ (ابوداؤد ج:۲‘ص:۱۸۳)
اس حدیث میں آپ ا نے علاج کرانے کا حکم دیا‘ نیز اگر کسی بیماری کا علاج کسی دوائی سے ممکن ہو تو اس دوائی کو طلب کرنا اور اس کا استعمال کرنا صحیح ہے‘ چنانچہ حدیث میں ہے:
”عن جابر عن رسول اللہ ا انہ قال: لکل داء دواء‘ فاذا اصیب دواء الداء برأ باذن اللہ تعالی“۔ (مسلم ج:۲‘ص:۲۲۵)
علامہ ابن قیم الجوزی  ”زاد المعاد فی ہدی خیر العباد“ میں اس حدیث کی تشریح میں لکھتے ہیں:
”یقول: وفی قولہ ا لکل داء دواء‘ تقویة لنفس المریض والطبیب‘ وحث علی طلب ذلک الدواء والتفتیش علیہ‘ فان المریض اذا استشعرت نفسہ ان لدائہ دواء یزیلہ تعلق قلبہ بروح الرجاء‘ وبردت عندہ حرارة الیاس‘ وانفتح لہ باب الرجاء‘ ومتی قویت نفسہ انبعثت حرارتہ العزیزیة‘ وکان ذلک سببا لقوة الارواح الحیوانیة والنفسانیة والطبعیة‘ ومتی قویت ہذہ الارواح‘ قویت القوی اللتی ہی حاملة لہا‘ وقہرت المرض ودفعتہ‘ وکذلک الطبیب اذا علم ان لہذا الداء دواء‘ امکنہ طلبہ والتفتیش علیہ“۔ (زاد المعاد فی ہدی خیر العباد ص:۱۷)
البتہ بغیر تجربے اور علم کے کسی دواء کو مریض کے لئے تجویز کرنا صحیح نہیں‘ حدیث میں اس کی ممانعت آئی ہے‘ چنانچہ حدیث میں ہے:
” ان رسول اللہ ا قال من تطبب ولایعلم منہ طب فہو ضامن“۔(ابو داؤد ج:۲‘ص:۲۸۲)
اس کی تشریح میں ہے:
”وہذا یعنی انہ لایجوز لاحد ممارسة الطب قبل ان تکتمل لدیہ آلتہ وتختمر فیہ معرفتہ والا فہو مسئول دیانة وقضاءً عن کل ما یلحقہ من اضواء فی اجساد الآدمیین“۔ (حکم الانتفاع بالأعضاء البشریة والحیوانیة ص:۱۳۴)
یعنی جبتک کسی کو علاج معالجہ میں مہارت نہ ہو‘ اس وقت تک اسے لوگوں کا علاج معالجہ کرنا درست نہیں‘ سائل نے اس علاج کے چار طریقوں کا ذکر کیا ہے‘ اس میں بعض صورتیں حرام ہیں اور بعض صورتیں جائز ہیں۔ ہرایک پر تفصیلی کلام ملاحظہ ہو:
پہلا طریقہ: جنین کی موروثی بیماری کا علاج کسی صحت مند مرد یا عورت کے مادہ منویہ سے۔
دوسرا طریقہ:جنین کی موروثی بیماری کا علاج کسی صحت مند مرد یا عورت کے جسم کے خلیے سے۔
یہ دونوں طریقہائے علاج صحیح نہیں ‘ اس کی وضاحت سے پہلے چند تمہیدی باتوں کا جاننا ضروری ہے تاکہ مسئلہ سمجھنے میں آسانی ہو۔
۱:․․․ انسان اپنے جسم واعضاء کاخود مالک نہیں‘ چنانچہ فتح الباری میں حافظ ابن حجر عسقلانی خود کشی کی ممانعت پر حدیث ذکر کرنے کے بعد لکھتے ہیں:
”ویؤخذ منہ ان جنایة الانسان علی نفسہ کجنایتہ علی غیرہ فی الاثم‘ لان نفسہ لیست ملکالہ بل ہی للہ تعالیٰ فلا یتصرف فیہا الا بما اذن لہ فیہ“۔ (فتح الباری ج:۱۱‘ص:۵۳۹)
اس عبارت سے اور باتوں کے علاوہ یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ انسانی جسم واعضاء کے ذریعے دوسرے انسان کی بیماری کا علاج جائز نہیں۔
۲:․․․ ناجائز اور حرام اشیاء کے ساتھ علاج صرف حالت اضطرار کے وقت جائز ہے‘لیکن حالت اضطرار میں بھی انسانی اعضاء سے انتفاع کسی صورت جائز نہیں۔ مبسوط میں ہے:
”الاتری ان المضطر کما لایباح لہ قتل الانسان لیأکل من لحمہ لایباح لہ قطع عضو من اعضائہ“۔ (مبسوط‘ ج:۲۴‘ص:۴۸)
فتاوی قاضی خان میں ہے:
”مضطر لم یجد میتة وخاف الہلاک فقال لہ رجل اقطع یدی وکلہا‘ اوقال: اقطع منی قطعة فکلہا لایسعہ ان یغعل ذلک‘ ولایصح امرہ کما لایسع للمضطر ان یقطع قطعة من لحم نفسہ فیأکل“۔ (ص:۴۱۰‘ج:۳)
البحر الرائق میں ہے:
”وقال محمد  فی السیر الکبیر لابأس بالتداوی بالعظم اذا کان عظم شاة او بقرة او بعیر او فرس او غیرہ من الدواب‘ الا عظم الخنزیر والآدمی فانہ یکرہ التداوی بہما“۔ (البحر الرائق‘ ص:۲۳۳‘ ج:۸)
واضح رہے کہ مادہ منویہ ‘ چاہے مرد کا ہو یا عورت کانجس ہے اور نجس سے علاج حالت اضطرار(مجبوری) میں جائز ہے‘( اضطرار ایک شرعی اصطلاح ہے جس سے مراد مجبوری کی آخری حد تک پہنچنا ہے یعنی ایسی حالت جس میں دین‘ مال ‘ جان یا عزت کو نقصان پہنچتا ہو)۔
فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
”ویجوز للعلیل شرب الدم والبول واکل المیتة للتداوی اذا اخبرہ طبیب مسلم ان شفاء ہ فیہ‘ ولم یجد من المباح ما یقوم مقامہ وان قال الطبیب شفاء ک فیہ‘ وجہان“ ۔ (عالمگیری ص:۵۵‘ج:۳)
البتہ یادر ہے کہ انسان کے کسی عضو یا جزء سے حالت اضطرار میں بھی انتفاع جائز نہیں‘ خلاصہ یہ کہ مذکورہ بالاعبارات سے یہ معلوم ہوا کہ حرام اشیاء سے علاج وانتفاع جائز نہیں‘ مگر ضرورت کے وقت۔ البتہ انسانی اعضاء سے حالت اضطرار میں بھی علاج جائز نہیں۔
۳:․․․ انسانی اعضاء میں اللہ تعالیٰ کا حق غالب ہے‘ اس لئے بندہ کا اس میں تصرف جائز نہیں۔
۴:․․․ اعضاء انسانی واجزائے انسانی مکرم ومحترم ہیں‘ اس لئے علاج کے طور پر ان کا استعمال جائز نہیں‘ کیونکہ اس میں اعضاء انسانی کی بے حرمتی کے ساتھ ساتھ پوری انسانیت کی بے حرمتی ہے‘ اس لئے جب انسان اپنے جسم واعضاء کا مالک نہیں تو وہ اپنے جسم میں کسی قسم کا تصرف بھی نہیں کرسکتا۔
امام نووی  لکھتے ہیں:
”وقد فصلہ اصحابنا فقالوا: ان وصلت شعرہا بشعر آدمی فہو حرام بلا خلاف‘ سواء کان شعر رجل او امرأة‘ وسواء شعر المحرم اوالزوج اوغیرہا بلاخلاف‘ لعموم الاحادیث‘ ولانہ یحرم الانتفاع بشعر الآدمی وسائر اجزائہ لکرامتہ بل یدفن شعرہ وظفرہ وسائر اجزائہ“۔ (شرح مسلم ج:۲‘ص:۳۰۴)
۵:․․․ آزاد انسان اور اس کے اعضاء ناقابل بیع وناقابل انتقال ہیں‘ چنانچہ حضور اکرم ا کا ارشاد ہے:
” قال اللہ تعالیٰ ثلاثة انا خصمہم یوم القیامة رجل اعطیٰ بی ثم غدر‘ ورجل باع حرا فاکل ثمنہ‘ ورجل استأجر اجیراً فاستوفیٰ منہ ولم یعط اجرہ“۔ (بخاری ج:۱‘ص:۲۹۷)
انسان اور اعضاء انسان تمام کے تمام معزز اور محترم ہیں‘ البحر الرائق میں ہے:
”ولبن المرأة ای لم یجز بیع لبن المرأة لانہ جزء الآدمی وہو بجمیع اعضائہ مکرم مصون عن الابتذال بالبیع“۔ (البحر الرائق ج:۶‘ ص:۸۰)
۶:․․․ اعضاء انسانی کی پیوند کاری سے علاج کرنا حالت اضطرار میں بھی جائز نہیں‘ چنانچہ فتاویٰ عالمگیری میں ہے:
”التداوی والمعالجات والانتفاع باجزاء الادمی لم یجز للنجاسة‘ وقیل للکرامة وہو الصحیح“۔ (فتاوی عالمگیری ج:۵‘ ص:۳۵۴)
اگر کسی صحت مند مرد یا عورت کے مادہٴ منویہ سے علاج ہو تو مذکورہ خرابیوں کے ساتھ ساتھ مندرجہ ذیل قباحتیں بھی ہیں:
الف:․․․ دوسرے کی کھیتی کو اپنے پانی سے سیراب کرنا لازم آئے گا جو کہ حرام ہے‘ چنانچہ حدیث میں ہے:
”قال رسول اللہ ا لایحل لامرئ یومن باللہ والیوم الآخر ان یسقیٰ ماء ہ زرع غیرہ“ ۔ (ابوداؤد ص:۳۰۰‘ ج:۱)
علاج کی غرض سے کسی دوسرے انسان کا مادہٴ منویہ کسی اجنبی عورت کے رحم میں داخل کرنا بموجب حدیث حرام ہے‘ اور شریعت سے بغاوت کے ساتھ ساتھ اس میں معاشرتی خرابیاں بھی ہیں۔
ب:․․․ جس اجنبی عورت کے رحم میں مرد کا مادہٴ منویہ یاکسی عورت کا مادہٴ منویہ داخل کیا جائے گاتو ظاہر ہے کہ کوئی غیر مرد اور ڈاکٹرہی داخل کرے گا تو ان کے سامنے بلا ضرورت شدیدہ ‘اعضائے مستورہ کا مظاہرہ ہوگا‘ حالانکہ حفاظت شرم گاہ وحفاظت نظر از روئے شرع ضروری ہے ۔
ج:․․․ اولاد میں غیر کے مادہٴ منویہ کی بناء پر اشتباہ آجائے گا‘ جس کی حفاظت کے لئے شریعت نے کئی طرح کے احکام نازل کئے ہیں۔
د:․․․․ مرد وعورت کا مادہٴ منویہ غیر فطری طریقے سے حاصل ہوگا‘ جس کی شریعت اجازت نہیں دیتی۔
ان تمام مقدمات سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ صحت مند انسان کا مادہٴ منویہ ہو یا جسم کاکوئی خلیہ‘ اس سے موروثی بیماری کا علاج صحیح نہیں‘ کیونکہ حق اللہ میں تصرف کے ساتھ ساتھ قرآن اور احادیث کی مخالفت بھی لازم آتی ہے‘ البتہ اگر میاں بیوی ہی کے مادہٴ منویہ یا جسم کے کسی خلیے سے اس موروثی بیماری کا علاج ممکن ہو تو اس سے علاج جائز ہے‘ جبکہ حفاظت نظر اور حفاظت شرمگاہ باقی رہے‘ ورنہ ممنوع کے ارتکاب کی بناء پر یہ طریقہ بھی حرام ہوگا۔
تیسرا اور چوتھا طریقہ:کسی حیوان کے جسم کے خلیے یا کسی مصنوعی خلیے سے علاج کرنا‘ یہ دونوں طریقے اس صورت میں درست ہیں‘ جبکہ اس میں حفاظت نظر اور حفاظت شرمگاہ ممکن ہو اور کسی غیر شرعی امر کا ارتکاب بھی لازم نہ آتا ہو۔
الجواب صحیح الجواب صحیح
محمد عبد المجید دین پوری شعیب عالم
محمد شفیق عارف محمد انعام الحق صالح محمد کاروڑی
کتبہ
انوار الحق
متخصص فی الفقہ الاسلامی
جامعہ علوم اسلامیہ علامہ بنوری ٹاؤن کراچی
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: دینی مدارس اور علماء کا کردار
Flag Counter