Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

4 - 10
بچوں کی تعلیم و تربیت ایک بنیادی فریضہ
بچوں کی تعلیم و تربیت ایک بنیادی فریضہ

انسان کو اللہ تعالیٰ نے بے شمار نعمتوں سے نوازا ہے‘ ان میں سے ایک عظیم نعمت اولاد بھی ہے، نکاح کے بعد مرد وعورت ہرایک کو اولاد کی خواہش ہوتی ہے‘ اس کے لئے دعائیں مانگی جاتی ہیں‘ اللہ تعالیٰ جسے چاہتاہے، اسے اس نعمت سے نوازدیتا ہے‘ کسی کو لڑکا ‘ کسی کو لڑکی اور کسی کو دونوں‘ جبکہ بعض کو اپنی کسی حکمت کی بنأ پر اولاد نہیں دیتا۔جیساکہ قرآن کریم میں ہے:
”یہب لمن یشاء اناثاً ویہب لمن یشاء الذکور‘ او یزوجہم ذکراناً واناثاً ویجعل من یشاء عقیماً“۔ (الشورٰی:۴۹‘۵۰)
ترجمہ:․․․”جس کو چاہتاہے بیٹیاں عطا فرماتاہے اور جس کو چاہتاہے بیٹے عطا فرماتاہے یا ان کو جمع کردیتاہے بیٹے بھی اور بیٹیاں بھی اور جس کو چاہے بے اولاد رکھتاہے“۔
اولاد کے متعلق شریعت نے ماں باپ پر کئی ذمہ داریاں عائد کی ہیں ‘ارشاد الٰہی ہے:
”یا ایہا الذین اٰمنوا قوا انفسکم واہلیکم نارا․․․۔“ (التحریم:۶)
ترجمہ:․․․”اے ایمان والوں تم اپنے کو اور اپنے گھر والوں کو (دوزخ کی) اس آگ سے سے بچاؤ․․․“۔
اس آیت میں اسی کی طرف اللہ تعالیٰ نے توجہ دلائی اور بڑے پیاربھرے انداز میں انسان کو خطاب کیا: ”اے ایمان والو!“ یعنی اللہ نے انسان کو اس رشتہ سے پکارا جو بندے اور اس کے رب کے درمیان قائم ہے‘ اور وہ رشتہٴ ایمانی ہے‘ پھر فرمایا کہ: ”تم اپنے آپ کو اور اپنے گھر والوں کو جہنم کی آگ سے بچاؤ‘ ‘وہ کیسی آگ ہے‘ اس کی صفت بیان کی کہ” جس کا ایندھن انسان اور پتھر ہوں گے‘ اور اس پر ایسے نگران فرشتے مقرر ہیں جو بڑے طاقتور اورسخت ہیں‘ اللہ کے حکم کی نافرمانی نہیں کرتے جو حکم ملتا ہے‘ اسے وہ پورا کرتے ہیں۔“اس آیت سے پتہ چلا کہ اخروی کامیابی کے حصول کے لئے محض اپنی اصلاح کی فکر کرنا اور خود نیک عمل کرتے رہنا کافی نہیں ہے‘ کیونکہ اگریہی کافی ہوتا تو پھر اتنا فرمایا جاتا کہ اپنے آپ کو جہنم کی آگ سے بچاؤ ‘لیکن آگے ”واہلیکم“ بھی فرمایا کہ: اپنے اہل وعیال کو بھی اس آگ سے بچاؤ۔
ہمارے معاشرے میں یہ بات عام ہوچکی ہے اور ہرآدمی یہ کہتا ہے کہ مجھے اپنی قبر میں جاناہے‘ میری بیوی کو اپنی قبر میں جانا ہے‘ بچوں کو اپنی قبر میں جانا ہے‘ ان کو سمجھانے کے لئے کون دماغ خراشی کرتاپھرے‘ اپنی فکر کرو‘ خود صحیح ہوجاؤ‘ یہ بہت اور کافی ہے‘ اور اس کے لئے اپنے تئیں بظاہر دینداری کا اہتمام بھی کیا جاتاہے کہ خود نماز‘ روزہ کا پابند‘ نوافل کا عادی اور اپنے طور پر منکرات سے بچنے والا‘ لیکن گھر کا ماحول اور اولاد کا طرزعمل گھر کے سربراہ سے بالکل مختلف ہوتا ہے‘ جس سے معلوم ہوا کہ گھر کے سربراہ نے اپنی ذمہ داری مکمل طور پر نہیں نبھائی‘ جس کا لازمی نتیجہ ہے کہ والدین اور اولاد دونوں کی سمتیں مختلف ہیں‘ لہٰذا اس معاملہ پر توجہ دینے کی ضرورت ہے، لوگوں کا یہ کہنا کہ ہم نے کوشش تو بہت کی‘ مگر بچے نہیں مانتے،ہم کیا کریں؟ قرآن کریم نے ”نار“ (آگ) کا لفظ ذکر کرکے ایسے لوگوں کو لاجواب کردیا کہ ذرا سوچو: اگر بہت بڑی آگ دہک رہی ہو اور تمہارے بچے اس آگ میں کودنا چا ہیں تو کیا ان کے اصرار اور ضد پر ان کو اس آگ میں جانے دوگے؟اور اس وقت یہ کہہ سکتے ہو کہ ہم نے بہت سمجھالیا‘ اوران کا آگ میں کودنا تم برداشت کرلوگے؟ جبکہ جہنم کی آگ تو اس دنیا کی آگ سے ستر گنا زیادہ سخت ہے۔ ٹھیک ہے اگر والدین یا سربراہ نے حتی المقدور کوشش کرکے اپنا فرض ادا کردیا ہے تو وہ عند اللہ برئ الذمہ ہوجائیں گے‘ لیکن کہاں تک اپنی ذمہ داری نبھائی ہے؟ اور کس حد تک کوشش کی ہے؟ یہ ہر شحص اپنے بارہ میں بخوبی جانتا ہے۔
اولاد کے عقیدہ ‘ اعمال ‘ اخلاق اور تعلیم وتربیت کی فکر بہت ضروری ہے ‘عقائد کا تعلق ایمان سے ہے ، اعمال کا تعلق اسلام سے ہے جبکہ اخلاق کا تعلق دین سے ہے، قرآن کریم میں ہے کہ انبیاء کرام علیہم السلام نے بھی اپنی اپنی اولاد کی فکر کی‘ حضرت یعقوب علیہ السلام نے دینی فکر کرتے ہوئے اپنی اولاد سے سوالیہ انداز میں استفسار کیا کہ: ” ما تعبدون من بعدی“ ۔(البقرہ:۱۳۳)( میرے بعد تم کس کی بندگی کروگے؟) یہ اولاد کے ایمان کی فکر ہے۔ اسی طرح حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت یعقوب علیہ السلام نے اپنی اپنی اولاد کو وصیت کی:
”یٰبنی ان اللہ اصطفی لکم الدین فلاتموتن الا وانتم مسلمون“۔ (البقرہ:۱۳۲)
ترجمہ:․․․”میرے بیٹو اللہ تعالیٰ اس دین (اسلام) تمہارے لئے منتخب فرمایا ہے سو تم بجز اسلام کے اور کسی حالت پر جان مت دینا“۔
حضرت اسماعیل علیہ السلام کااپنی اولاد کے متعلق یہ ارشاد:
”وکان یأمر اہلہ بالصلوٰة والزکوٰة“۔
ترجمہ:․․․”اوراپنے متعلقین کو نماز اور زکوٰة کا حکم کرتے رہے تھے“۔ (مریم:۵۵)
جبکہ آج کااکثر مسلمان طبقہ اپنی اولاد کو اچھی باتوں کا حکم نہیں دیتا‘ اپنی اولاداور بیوی بچوں کو خوش کرنے کے لئے دین وشریعت کی پرواہ نہیں کرتا‘ بلکہ الٹا ان کی ناجائز خواہشات کو پورا کرکے اللہ اور اس کے رسول کو ناراض کردیتا ہے۔
آپ علیہ السلام نے ہر انسان پر کسی نہ کسی درجہ میں ایک ذمہ داری عائد کی ہے، اور فرمایا:”کلکم راعٍ وکلکم مسئول عن رعیتہ“یعنی”تم میں سے ہرایک نگران ہے اور ہرایک سے اس کے ماتحتوں بارے میں پوچھاجائے گا“۔
آج معاشرہ میں ہرطرف بے دینی کا سیلاب ہے‘ مسلمانوں کے بچوں کے عقائد بگڑ رہے ہیں‘ ان کے اعمال واخلاق تباہ ہورہے ہیں اور ہم مسلمان والدین ہیں کہ ہمیں اس کی کوئی فکر اور پرواہ ہی نہیں،مسلم بچوں کے عقائد ‘ اعمال اور اخلاق کی تصحیح اور درستگی کے مقصد کو سامنے رکھتے ہوئے اوراسے ایک دینی ضرورت سمجھتے ہوئے جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کراچی کے فضلأ اور بعض ائمہ مساجد ، ملک کے مختلف شہروں‘ بالخصوص کراچی کی کئی مساجد میں اسکول وکالج کے بچوں کی سالانہ چھٹیوں میں چالیس روزہ مفید ترین اور لائق تقلید سلسلہ بڑے اہتمام کے ساتھ پچھلے کئی سالوں سے جاری وساری کئے ہوئے ہیں‘ اور بعض مساجد میں اس سلسلہ کو مزید احسن طریقہ سے آگے بڑھایا گیا ہے۔
چالیس روزہ دینی واخلاقی تربیتی کورس کے فوائد وثمرات
۱:․․․اس کورس میں بچوں کو ضروری شرعی مسائل اور دیگر دینی معلومات سکھلائی جاتی ہیں جو مسلم معاشرہ کی نہ صرف یہ کہ دینی ضرورت‘ بلکہ ان کے فرائض میں بھی داخل ہیں۔
۲:․․․ یہی بچے جب کچھ عرصہ اپنے مذہبی مرکز (مسجد) سے جڑے رہیں گے تو ان کا دینی شعور بیدار اوربرقرار رہے گا۔
۳:․․․بچوں کو فرائض وواجبات اور اعمال صالحہ کی عادت اوردینی رجحان نصیب ہوگا۔
۴:․․․بچوں کے لئے صحیح تلفظ کے ساتھ تلاوتِ قرآن اور نمازوں کی عملی مشق کا خاص اہتمام ہوگا۔
۵:․․․چالیس روز تک مسجد کے ماحول میں دینی باتوں کا مذاکرہ ،جو انشاء اللہ بچے کی طبیعت اور مزاج میں فطری انقلاب اور دینی ذوق پیدا کرنے کا ذریعہ بنے گا۔
۶:․․․بچہ ․اچھی صحبت اورپاکیزہ ماحول کی نعمت عظمیٰ سے ہمکنار ہوگا‘ کیونکہ اچھی صحبت اپنا اثر رکھتی ہے‘ صالحین کا ہم نشین غیر ارادی طور پر بھی ان کی صحبت سے حصہ پاہی لیتاہے۔
۷:․․․․مسجد کا ماحول بچہ کے لئے تمام فضولیات‘ لغویات اور معاصی سے بچاؤ کا ذریعہ بنے گا۔
بہرحال اسکول وکالج وغیرہ کے طلباء کے لئے سالانہ تعطیلات میں ”چالیس روزہ دینی واخلاقی تربتی کورس“ کا انعقاد نہایت ضروری اور بہت سی برکات وثمرات کا حامل ہے۔
چالیس روزہ اس تربیتی کورس میں نصاب کی کوئی قید نہیں‘ ہرمسجد کے امام صاحب کورس کے شرکاء کی تعلیمی وذہنی سطح کے مطابق کچھ بھی نصاب مقرر فرماسکتے ہیں‘ کیونکہ مقصد محض دینی شعور اور شوق پیدا کرنا ہے‘ تاہم اس کورس کے لئے جامعہ کے فضلاء نے بھی جامعہ کے اساتذہ کرام کی نگرانی اور ان کے مشوروں سے ایک نصاب مرتب کیا ہے‘ اس نصاب میں تقریباً ہرنوع کے چیدہ چیدہ اہم منتخب موضوعات شامل ہیں‘ جو احباب یہی مجوزہ نصاب ِتدریس رکھنا چاہیں یا طریقہٴ تدریس‘ طرزِ تعلیم یا تجربہ کار حضرات کے تجربات سے فائدہ اٹھانا چاہیں، وہ جامعہ علوم اسلامیہ علامہ محمد یوسف بنوری ٹاؤن کے دفتر یا عصر تا عشاء صالح مسجد جہانگیر پارک صدر کراچی سے رابطہ فرماسکتے ہیں۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: مثبت طرز فکر تعمیروترقی کا غماز
Flag Counter