Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

7 - 10
توہین رسالت اور گستاخان رسول کا بدترین انجام
توہین رسالت اور گستاخان رسول کا بدترین انجام

ایک گستاخ عورت کا قتل
حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ایک شخص نابینا تھے‘ ان کی ایک ام ولد تھی (ام ولد اس باندی کو کہتے ہیں جس کی اولاد کو آقا اپنی اولاد قرار دیدے) جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بُرا بھلا کہتی تھی اور آپ کی شان میں گستاخی کرتی تھی‘ وہ اس کو منع کرتے لیکن وہ باز نہ آتی‘ ایک مرتبہ رات کو اس نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنا شروع کردی‘ جس پر انہوں نے ایک چھوٹی تلوار اس کے پیٹ پر رکھی اور دباکر اس کا پیٹ پھاڑ دیا اور اس کا کام تمام کیا‘ جب صبح ہوئی تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو قتل کا یہ واقعہ بتایا گیا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو جمع کرکے فرمایا:
”میں اس شخص کو اللہ تعالیٰ کی قسم دیتا ہوں جس نے (میری عزت و ناموس کی حفاظت کے خاطر) جو کچھ کیا ہے وہ کھڑا ہوجائے مجھ پر اس کا حق ہے!۔“
یہ سن کر وہ نابینا کھڑے ہوئے اور لڑکھڑاتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے جاکر بیٹھ گئے اور عرض کیا: یا رسول اللہ! مقتولہ ام ولد کا میں مالک ہوں‘ وہ آپ کی شان میں گستاخی کرتی تھی اور بُرا بھلا کہتی تھی‘ میں اس کو منع کرتا تھا لیکن وہ باز نہ آتی تھی‘ میرے اس سے دو خوبصورت لڑکے بھی ہیں اور وہ مجھ پر مہربان بھی تھی‘ لیکن گزشتہ شب جب اس نے آپ کی شان میں گستاخی کی اور آپ کی بے حرمتی کا ارتکاب کیا تو میں نے ایک چھوٹی تلوار سے اس کو قتل کردیا‘ یہ سن کر سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”گواہ رہو ان کا خون معاف ہے۔“ (السیف البتار)
گستاخ یہودی عورت کا انجام
حضرت علی رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ ایک یہودی عورت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی اور بدتمیزی کرتی تھی تو ایک شخص نے اس کا گلا گھونٹ دیا اور وہ مر گئی‘ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کا خون بھی معاف کردیا۔ (السیف البتار)
گستاخِ رسول ابن خطل کا قتل
فتح مکہ کے موقع پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: چار آدمی جہاں ملیں‘ انہیں قتل کردیا جائے‘ اگرچہ کعبہ کے پردے کے نیچے ہوں‘ ان میں سے ایک عبداللہ ابن خطل اور دوسرا حویرث ابن نقید۔
عبداللہ ابن خطل کے قتل کا حکم اس لئے فرمایا کہ پہلے یہ شخص مسلمان تھا‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے زکوٰة وصول کرنے کے لئے روانہ کیا‘ اس کے ساتھ ایک انصاری صحابی اور اس کا ایک مسلمان غلام بھی تھا جو ابن خطل کی خدمت کیا کرتا تھا‘ رات کو کسی جگہ ٹھہرے تو ابن خطل نے اپنے خادم غلام کو حکم دیا کہ وہ اس کے لئے بکرا ذبح کرکے کھانا تیار کرے اور خود سوگیا‘ جب جاگا تو دیکھا غلام نے کوئی چیزتیار کرکے نہیں رکھی تو غصہ میں اس نے غلام کو قتل کردیا اور مرتد ہوکر مشرکین مکہ سے جا ملا اور وہاں پہنچ کر ابن خطل نے دو باندیاں خریدیں جو گانا گاکر نعوذباللہ آپ کی ہجو کرتی تھیں اور یہ اس سے لطف اندوز ہوتا تھا‘ اس لئے حضرت زبیر ابن العوام رضی اللہ عنہ نے اسے قتل کیا جبکہ وہ خانہ کعبہ کے پردہ سے لٹکا ہوا تھا اور اس کی ایک باندھی بھی فتح مکہ کے موقع پر قتل کی گئی جبکہ دوسری باندی فرار ہوگئی جو بعد میں مسلمان ہوگئی،اور حویرث بن نقید مکہ مکرمہ میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو شدید ایذا پہنچایا کرتا تھا‘ اس لئے یہ بھی قتل کیا گیا‘ اسے حضرت علی رضی اللہ عنہ نے قتل کیا۔(فتح الباری)
حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بدگوئی کرنے والوں کے یہ واقعات وہ ہیں جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں پیش آئے‘ لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کرنے کی جرم میں انہیں معاف نہیں کیا گیا‘ بلکہ کیفر کردار تک پہنچایا گیا،اب چند واقعات وہ لکھے جاتے ہیں جو پاکستان بننے سے پہلے انگریزی دورِ حکومت میں واقع ہوئے اور غازیانِ اسلام نے ان شاتمانِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو جہنم رسید کیا اور خود بھی جامِ شہادت نوش کیا۔
راج پال ہندو کی توہین ِ رسالت
۱۹۲۳ء کو لاہور میں راج پال ہندو نے رسوائے زمانہ کتاب ”رنگیلا رسول“ شائع کی‘ جس میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں بڑی توہین کی گئی تھی‘ جب یہ کتاب چھپ کر بازارمیں آئی تو مسلمانوں میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی‘ مسلمان زعماء نے حکومت سے اس کتاب کی فوری ضبطی اور اس کے ناشر کو قرار واقعی سزا دینے کا مطالبہ کیا‘ جس پر راج پال کے خلاف فرقہ وارانہ منافرت پھیلانے کے جرم میں مقدمہ چلایا گیا‘ لاہور کے ایڈیشنل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ملزم کو چھ ماہ قید کی سزا دی‘ لیکن اس وقت شادی لال جیسا متعصب چیف جسٹس تھا‘ اس کی ایماء پر راج پال ملزم کو سزا سے بری کردیا گیا‘ جس نے مسلمانوں کی آتشِ غضب کو اور بھڑکادیا۔
غازی خدا بخش کا راج پال پر پہلا قاتلانہ حملہ
چنانچہ ۲۴/ستمبر ۱۹۲۷ء کو جب ملعون راج پال اپنی دکان پر موجود کاروبار میں مشغول تھا‘ ایک مرد مجاہد خدا بخش جو لاہور کا رہنے والا تھا‘ اس خبیث پر تیز دھار دار چاقو سے حملہ کرکے اسے زخمی کردیا‘ لیکن اس بدبخت نے اس وقت بھاگ کر اپنی جان بچالی‘ غازی خدا بخش کو زیر دفعہ ۳۰۷ الف تعزیرات ہند گرفتار کرلیا اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ لاہور سی ایم بی اوگلوی کی عدالت میں اس کے مقدمہ کی سماعت شروع ہوئی۔ غازی خدا بخش نے اپنی طرف سے وکیل صفائی مقرر کرنے سے انکار کردیا‘ راج پال مستغیث نے عدالت میں بیان دیتے ہوئے کہا:
”مجھ پر یہ حملہ کتاب ”رنگیلا رسول“ کی اشاعت اور مسلمانوں کے ایجی ٹیشن کی وجہ سے کیا گیا ہے‘ اور مجھے خطرہ ہے کہ ملزم خدا بخش اب بھی مجھے جان سے مار دے گا‘ کیونکہ حملہ کے وقت ملزم چلایا تھا: ”کافر کے بچے! آج تو میرے ہاتھ آیا ہے میں تجھے زندہ نہیں چھوڑوں گا۔“
عدالت کے استفسار پر اس مردِ غازی نے گرج دار آواز میں کہا: ”میں مسلمان ہوں‘ ناموسِ رسالت کا تحفظ میر افرض ہے‘ میں اپنے آقا کی توہین ہرگز برداشت نہیں کرسکتا۔“ پھر راج پال کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا: ”اس نے میرے رسول کی شان میں گستاخی کی تھی‘ اس لئے میں نے اس پر قاتلانہ حملہ کیا‘ لیکن یہ کم بخت اس وقت میرے ہاتھ سے بچ نکلا۔“
اقرارِ جرم کے بعد غازی خدا بخش کو سات سال قید سخت سنائی گئی۔
غازی عبدالعزیز
اس واقعہ کے چند دن بعد ایک اور مرد غازی عبدالعزیز نے جو افغانستان سے اپنے سینہ میں اس دشمن اسلام راج پال کے خلاف غصہ کی آگ لے کر لاہور پہنچا تھا۔ ۱۹/اکتوبر ۱۹۲۷ء کی شام راج پال کی دکان پر آیا‘ اتفاقاً اس وقت راج پال کا ایک دوست سوامی ستیانند بیٹھا تھا‘ جسے غازی عبدالعزیز نے شاتم رسول سمجھ کر چاقو سے حملہ کرکے زخمی کردیا‘ پولیس نے جائے واردات پر پہنچ کر غازی عبدالعزیز کو گرفتار کرلیا‘ عدالت نے اس مرد مجاہد کو بھی وہی سزا دی جو غازی خدا بخش کو دی گئی تھی‘ جسے بھگت کر یہ دونوں غازی جیل سے سرخرو ہوکر نکلے۔
غازی علم الدین شہید کا راج پال پر حملہ
علم الدین ایک محنت کش نجار ”طالع مند“ کا بیٹھا تھا‘ جب علم الدین پیدا ہوا تو اس کی ماں کی گود میں دیکھ کر ایک فقیر نے بشارت دی کہ تم لوگ بڑے ہی خوش نصیب ہو کہ ایسا نیک بخت بچہ تمہارے گھر پیدا ہوا ہے۔ علم الدین نے قرآن مجید کی ابتدائی تعلیم اپنے محلہ کی مسجد میں حاصل کی‘ جو اس زمانہ میں بازار سرفروشاں کے نام سے مشہور تھا‘ جب یہ بچہ ذرا بڑا ہوا تو باپ نے جلدی اسے اپنے ساتھ کام پرلگایا‘ جس میں اس نے بڑی جلدی مہارت حاصل کرلی‘ علم الدین کا ایک بچپن کا ساتھی عبدالرشید تھا جسے سب پیار سے ”شیدا“ کے نام سے پکارتے تھے‘ شیدا کے والد کی دکان مسجد وزیر خان کے سامنے واقع تھی‘ ایک دن دونوں دوست گھر سے شام کے وقت جب مسجد وزیر خان پہنچے تو وہاں ایک جلسہ عام میں شیطان راج پال کے خلاف تقریریں ہورہی تھیں‘ جس میں یہ اعلان ہورہا تھا کہ مسلمان اپنی جانیں قربان کردیں گے‘ لیکن اس مردود راج پال کو زندہ نہیں چھوڑیں گے‘ یہ تقریر سن کر دونوں دوست تڑپ اٹھے‘ گھر آکر علم الدین نے اپنے والد طالع مند سے پوچھا:
سوال: کیا کوئی شخص جو ہمارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرے‘ وہ زندہ رہ سکتا ہے؟
جواب: باپ نے جواب دیا: بیٹا! مسلمان اسے زندہ نہیں چھوڑیں گے۔
سوال: کیا اسے مارنے والے کو سزا ملے گی؟ علم الدین نے باپ سے دریافت کیا؟
جواب: ہاں بیٹا! یہاں گوروں کے قانون کے مطابق اس کو پھانسی کی سزا ملے گی۔
اسی رات علم الدین نے دیکھا کہ خواب میں ایک بزرگ نمودار ہوئے ہیں اور اس سے کہہ رہے ہیں: علم الدین دشمن نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وسلم) کی شان میں گستاخی کی ہے‘ تم ابھی تک سو رہے ہو‘ اٹھو اور جلدی کرو۔
یہ خواب دیکھ کر وہ فدائی رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) فوراً اٹھ بیٹھا اور اپنے اوزار لے کر صبح سویرے اپنے دوست شیدا کے گھر پہنچا اور وہاں سے دونوں دوست بھائی دروازے کے سامنے والے کھلے میدان میں جا پہنچے‘ علم الدین نے وہاں رازدارانہ طریقہ سے اپنے دوست ”شیدا“ کو رات والا خواب سنایا تو اس کی حیرت کی کوئی انتہا نہ رہی‘ کیونکہ اس نے بھی گزشتہ رات یہی خواب دیکھا تھا‘ اب دونوں دوستوں میں تکرار ہونے لگی‘ دونوں کا اصرار تھا کہ اس موذی کو مارنے کے لئے اسے بشارت ہوئی ہے‘ آخر طے پایا کہ قرعہ ڈالا جائے‘ اس میں جس کا نام آئے‘ وہی اس کام کو سر انجام دے‘ تین بار قرعہ ڈالا گیا اور ہر بار قرعہ فال طالع مند کے خوش نصیب فرزند علم الدین کے نام نکلا‘ جس پر اس کا چہرہ خوشی سے چمک اٹھا‘ شیدا کو اپنے اس دوست کی خوش بختی پر رشک آیا‘ اس نے علم الدین کو اس کامیابی پر مبارکباد دی‘ جس کے بعد دونوں دوست ایک دوسرے سے جدا ہوگئے‘ وہاں سے علم الدین سیدھے گھر پہنچے‘ وہ گھر آکر کچھ دیر کے لئے لیٹ گئے تو ذرا دیر کے لئے ان کی آنکھ لگ گئی‘ کیا دیکھتے ہیں کہ وہی بزرگ دوبارہ نمودار ہوکر ان سے کہہ رہے ہیں:
”علم الدین یہ وقت سونے کا نہیں‘ بلکہ جس کام کے لئے تمہیں چن لیا گیا ہے‘ اس کی تکمیل کے لئے فوراً پہنچو‘ ورنہ بازی کوئی اور لے جائے گا۔“
جس پر وہ ایک بار پھر اپنے دوست شیدا کے پاس الوداعی ملاقات کے لئے پہنچے‘ اسے اپنی کچھ چیزیں بطور یادگار دیں اور دوبارہ گھر پہنچ کر انہوں نے اپنے منصوبے کی تکمیل کا پروگرام اپنے ذہن میں مرتب کرلیا اور گھر میں کسی سے اس بارے میں کوئی بات نہیں کی‘ اس ڈر سے کہ کہیں خون اور قرابت کے رشتے اس راہ میں حائل نہ ہوجائیں‘ اس دن انہوں نے غسل کیا‘ سرخ دھاری دار قمیص اور سفید شلوار پہنی‘ سر پر پگڑی باندھی‘ صاف اور سِجَل لباس پر خوشبو لگائی‘ اس سے قبل انہوں نے اپنی ماں سے میٹھے چاول کی فرمائش کی تھی‘ جسے باپ بیٹے نے مل کر تناول کیا‘ باپ کے کسی کام پر جانے کے بعد علم الدین نے اپنی معصوم بھتیجی کے ماتھے کو سوتے میں بڑے پیار سے چوما اور اپنی بھابھی سے کچھ پیسے لے کر اس سج دھج سے خوشی خوشی اپنی مہم پر روانہ ہوگئے‘ مگر کسی کے ذہن میں یہ بات نہ آئی کہ علم الدین نے آج کے دن یہ سارا اہتمام کیوں کیا ہے‘ گھر سے گمٹی بازار پہنچ کر وہاں آتما رام کباڑیئے کی دکان سے ایک روپیہ میں ایک لمبا چاقو خریدا اور اسے شلوار کے نیفہ میں رکھ لیا‘ پھر وہ سیدھے دوپہر کے وقت انار کلی ہسپتال روڈ‘ راج پال کی دکان کے سامنے والی ٹال پر پہنچے۔
راج پال جہنم رسید
جوں ہی ٹال والے جوان نے علم الدین کو بتلایا کہ وہ منحوس دکان کے اندر داخل ہوا ہے تو وہ اپنے شکار کے تعاقب میں د کان کے اندر پہنچ گئے اور اسے دیکھتے ہی ان کی آنکھوں میں خون اتر آیا‘ اس کے ساتھ ہی ان کے اندر عقابی روح بیدار ہوئی اور انہیں اپنی منزل آسمانوں میں نظر آنے لگی‘ چیتے کی سی پھرتی کے ساتھ جھپٹ کر علم الدین نے راج پال خبیث کے سینے میں چاقو پیوست کردیا‘ جو اس کے دل کو چیرتا ہوا نکل گیا‘ یہ ضرب ایسی کاری ثابت ہوئی کہ وہ مردود زخموں کی تاب نہ لاکر اوندھے منہ زمین پر گر پڑا اور وہیں اس نے دم توڑ دیا‘ اس طرح اس بدبخت کو کیفر کردار پہنچانے کے بعد غازی علم الدین جب دکان سے باہر نکلے تو مقتول کے ملازمین نے مار دیا‘ ماردیا کا شور مچانا شروع کردیا‘ جس پر قریب کے ایک ہندو دکاندار سیتا رام کے لڑکے اور اس کے ساتھیوں نے آکر پیچھے سے اس نوجوان غازی کو پکڑ لیا‘ جس پر علم الدین نے کہا:
”آج میں نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم )کا بدلہ لے لیا‘آج میں نے اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم ) کا بدلہ لے لیا۔“
اس عرصہ میں پولیس بھی جائے واردات پر پہنچ گئی‘ جس نے غازی علم الدین کو گرفتار کرلیا اور ۱۰/ اپریل ۱۹۲۹ء کو مسٹر لوئیس ایڈیشنل مجسٹریٹ لاہور کی عدالت میں علم الدین کے خلاف زیر دفعہ ۳۰۲ تعزیرات ہند مقدمہ قتل کی کارروائی شروع ہوئی۔ مقدمہ کی سماعت کے دوران علم الدین کے چہرے پر معصوم مسکراہٹ کھیلتی رہی‘ شہادت قلم بند ہونے کے بعد سرسری بحث کے بعد مقدمہ سیشن کے سپرد ہوا‘ سیشن کورٹ نے ۲۲/ مئی ۱۹۲۹ء کو سزائے موت کا فیصلہ سنایا اور مسلسل حسبِ ضابطہ توثیق کے لئے لاہور ہائی کورٹ بھجوائی گئی،والدین کے حکم کی تعمیل میں علم الدین کی جانب سے بھی اس فیصلہ کے خلاف اپیل دائر کی گئی‘ جس کی پیروی اس وقت کے چوٹی کے قانون دان قائد اعظم محمد علی جناح نے کی‘ قائد اعظم کی بحث کا سب سے اہم نکتہ یہ تھا کہ راج پال نے ”رنگیلا رسول“ جیسی قابل اعتراض کتاب شائع کرکے پیغمبر اسلام کی توہین کی ہے‘ جسے کوئی مسلمان برداشت نہیں کرسکتا‘ چونکہ یہ کتاب اشتعال انگیزی کا سبب بنی‘ اس لئے ملزم نے قتلِ عمدکا ارتکاب نہیں کیا‘ لہٰذا اسے سزائے موت نہیں دی جاسکتی‘ اس کے جواب میں وکیل سرکار رام لال نے من جملہ دیگر دلائل کے یہ موقف اختیار کیا کہ پیغمبر اسلام کی اہانت واقعی افسوسناک بات ہے‘ لیکن تعزیرات ہند میں اس جرم کی کوئی سزا مقرر نہیں‘ اس لئے مقتول نے کوئی خلافِ قانون حرکت نہیں کی تھی‘ چنانچہ ملزم کا یہ فعل اشتعال انگیزی کی تعریف میں نہیں آتا اور اس نے سیشن کورٹ کی سزائے موت کا فیصلہ بحال رکھا‘ جب یہ فیصلہ غازی علم الدین کو سنایا گیا تو وہ مارے خوشی کے چیخ اٹھے اور کہا:
”اس سے بڑھ کر میری اور کیا خوش نصیبی ہوگی کہ مجھے شہادت کی موت نصیب ہورہی ہے اور بارگاہِ رسالت میں حاضری کی سعادت سے بھی مجھے سرفراز کیا جارہا ہے۔“
جب ان کا غمگسار دوست ”شیدا“ ان سے ملاقات کے لئے میانوالی جیل پہنچا تو اسے غمگین دیکھ کر علم الدین نے کہا:
”یار! آج تجھے تو میری طرح خوش ہونا چاہئے‘ اپنے آقا کے نام پر کٹ مرنا ہی ایک مسلمان کی سب سے بڑی آرزو ہے اور اللہ تعالیٰ کی یہ کتنی بڑی کرم نوازی ہے کہ ہزاروں ‘لاکھوں مسلمانوں میں سے اپنے اس حقیر بندے کے ہاتھوں اس ناپاک شیطان کو ختم کرایا اور دیکھو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر قربان ہونے کی میری دلی مراد بھی پوری ہورہی ہے‘ اس لئے تمام مسلمان بھائیوں تک میری یہ بات پہنچا دو کہ وہ میری موت پر غم نہ کریں‘ بلکہ میرے لئے دعائے خیر کریں۔“
والدین اور عزیز و اقارب سے آخری ملاقات کے موقع پر اپنی والدہ سے کہا کہ : وہ ان کا دودھ بخش دے‘ ماں کی آنکھوں میں آنسو دیکھ کر کہنے لگے:
”ماں دیکھ تو کتنی خوش نصیب ہے کہ تیرے بیٹے کو شہادت کی موت مل رہی ہے‘ مجھے تو ہنسی و خوشی رخصت کرنا چاہئے۔“
پھر علم الدین نے پیالہ سے پانی پیا اور اسی پیالہ سے اپنے عزیزوں اور والد طالع مند کو پانی پلاکر پوچھا کہ :انہیں بھی اس کی ٹھنڈک پہنچی ہے‘ سب نے جب اثبات میں جواب دیا تو کہنے لگے: مجھے تو جگر تک ٹھنڈک محسوس ہورہی ہے‘ پھر ان سب سے کہا کہ : ”کوئی ان کی موت پر آنسو نہ بہائے ورنہ انہیں اس سے تکلیف ہوگی۔“
جیل کے حکام کو وصیت نامہ میں اپنے عزیزوں کے لئے یہ بات بطور خاص لکھوائی کہ :
”ان کے پھانسی پر چڑھنے سے وہ بخشے نہیں جائیں گے‘ بلکہ ہر ایک اپنے اعمال کے مطابق جزا اور سزا کا حق دار ہوگا اور انہیں تاکید کی کہ وہ نماز نہ چھوڑیں اور زکوٰة برابر ادا کریں اور شرعِ محمدی پر قائم رہیں۔“
انجام کا ر ۳۱/اکتوبر ۱۹۲۹ء کو وہ دن آپہنچا‘ جس کے لئے علم الدین کی جان بے تاب تڑپ رہی تھی‘ رات اس جوان شب زندہ دار نے ذکرِ الٰہی اور تہجد میں گزاری اور طلوع سحر پر انتہائی خشوع و خضوع کے ساتھ نماز فجر ادا کی‘ اجل مسٹریٹ‘ داروغہ جیل اور مسلح سپاہیوں کے ہمراہ استقبال کے لئے کوٹھڑی کے دروازے پر موجود تھا‘ مجسٹریٹ نے اس مرد غازی سے پوچھا: کوئی آخری خواہش‘ تو کہا: صرف دو رکعت نماز شکرانہ کی مہلت‘ اجازت ملنے پر سجدئہ شکر ادا کرنے کے بعد سرخوشی کے عالم میں وہ ان کے ساتھ سوئے دار چل پڑے‘ اس وقت جیل کے قیدی اپنی اپنی کوٹھڑیوں اور بارکوں میں اس فدائی رسول کی آخری جھلک دیکھنے کے لئے تعظیماً ایستادہ کھڑے تھے‘ رفیقانِ زنداں کو الوداع اور سلام آخر کہتے ہوئے مقتل میں پہنچ کر جب تختہ دار کو دیکھا تو فرط مسرت سے جھوم اٹھے‘ پھر ساعت سعید کو قریب دیکھ کر تیزی سے تختہ دار کی طرف بڑھے اور شوق میں چاہا کہ پھانسی کے پھندے کو جو وصالِ حبیب کا مژدئہ جاں فزا لے کر نمودار ہوا تھا خود اپنے ہاتھوں سے گلے میں ڈال لیں‘ لیکن اسے خلافِ شریعت جان کر فوراً رک گئے اور حاضرین سے مخاطب ہوکر کہا:
”لوگو! گواہ رہنا! میں نے ہی راج پال کو حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی خاطر قتل کیا تھا اور آج اپنے نبی پاک کا کلمہ پڑھتے ہوئے ان کی خاطر اپنی جان نثار کررہا ہوں۔“
یہ کہتے ہوئے اس نوجوان پروانہ نبوت نے درارورسن کو چوم کر اپنی جان عزیز ناموس مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم پر نچھاور کردی،جیل کے حکام نے اپنے افسران بالا کی ایما پر علم الدین شہید کی نعش کو ان کے والد اور عزیز و اقارب اور سینکڑوں مسلمانوں کے حوالہ کرنے سے انکار کردیا‘ جو جیل سے باہر اسے لے جانے کے لئے منتظر کھڑے تھے‘ اس بے تدبیری کی وجہ سے مسلمانوں کے جذبات مشتعل ہوگئے۔ لیکن نقضِ امن کے اندیشہ کے پیش نظر جیل کے کارندوں نے حکومت کی خفیہ ہدایات پر شہید نبوت کی لاش کو نہایت خاموشی کے ساتھ عجلت میں جیل کے احاطہ میں عام قیدیوں کے قبرستان کے اندر دفن کردیا‘ جس نے جلتی پر تیل کا کام کیا‘ لاہور اور دوسرے شہروں میں ہڑتالیں شروع ہوئیں ‘کاروبار معطل ہوگیا‘ برہنہ پا اور برہنہ سرمانمی جلوس نکلنے لگے اور مسلمانوں میں شدید ہیجان پیدا ہوگیا‘ اس پر اکابرین وقت‘ جن میں علامہ اقبال پیش پیش تھے‘ سر محمد شفیع‘ جناب محسن شاہ والد محترم جناب جسٹس ڈاکٹر نسیم حسن شاہ چیف جسٹس پاکستان اور دوسرے قائدین کے ہمراہ گورنر سے ملے اور اپنے جواں سال شہید کی لاش کو مسلمانوں کے حوالے کرنے کا مطالبہ کیا‘ جو اس یقین دہانی پر کہ وہ امن عامہ برقرار رکھنے کے ذمہ دار ہوں گے‘ حکومت نعش ان کے حوالہ کرنے پر رضا مند ہوگئی‘ چنانچہ تدفین کے تیرھویں دن مسلمان مجسٹریٹ اور میونسپل کمشنروں کی موجودگی میں شہید کی میت قبر سے نکالی گئی‘ عینی شاہدوں کا بیان ہے کہ کئی دن گزرجانے کے باوجود لاش صحیح اور سالم حالت میں موجود تھی اور یوں محسوس ہوتا تھا کہ ابھی آنکھ لگی ہے۔
۱۴/نومبر ۱۹۲۹ء کو سارے شہر اور اس کے گردونواح سے ہزاروں لاکھوں انسانوں کا ایک سیل بے پناہ فدائی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے استقبال کے لئے رواں دواں تھا‘ مسجد وزیر خان کے خدا ترس خطیب مولانا محمد شمس الدین نے نماز جنازہ پڑھائی۔ مولانا ظفر علی خان نے اس شہید رسالت کی لحد میں تدفین سے قبل اتر کر کہا:
”کاش! یہ سعادت مجھے نصیب ہوتی“ شہید کے جسم کو اشکبار آنکھوں سے علامہ اقبال جیسے شیدائی رسول نے قبر میں اتارا‘ جس پر علامہ کی ز بان سے بے اختیار نکل گیا: ”یہ جوان ہم سب پڑھے لکھوں سے بازی لے گیا۔“
غازی عبدالقیوم شہید اور نتھورام کا قتل
غازی عبدالقیوم کا واقعہ شہادت بڑا ہی ایمان افروز واقعہ ہے‘اس نوجوان مرد مجاہد کا تعلق غازی آباد ضلع ہزارہ کے ایک غریب گھرانے سے تھا‘ لیکن کسے خبر تھی کہ ایک دن تخت ہزارہ کی شہ نشینی سے بھی اونچا مرگ باشرف کا رتبہ شہادت اسے نصیب ہوگا‘ اپنے گاؤں سے وہ تلاش روزگار میں کراچی آیا‘ جہاں اسے رزق حلال کے لئے گھوڑا گاڑی مل گئی‘ جس کی آمدن سے وہ اپنی بوڑھی ماں‘ بیوہ بہن اور ضعیف چچا اور نوبیاہتا بیوی کی کفالت کررہا تھا‘ نماز فجر اور عشاء کی نماز وہ اپنے محلہ کی مسجد میں پڑھا کرتا تھا‘ ایک روز امام مسجد نے اہل مسجد کو اشکبار آنکھوں سے بتلایا کہ ایک خبیث ہندو نتھو رام نے آقائے نامدار صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی ہے‘ غازی عبدالقیوم نے جب یہ بات سنی تو تڑپ اٹھا اور اس کے تن بدن میں اک آگ سی لگ گئی‘ اسی وقت اس نے صحن مسجد میں اپنے رب سے عہد کیا کہ وہ اس کافر کمینہ کو زندہ نہیں چھوڑے گا۔
یہ نتھورام آریہ سماجی ہندو تھا‘ جس نے ۱۹۳۳ء میں ”ہسٹری آف اسلام“ نامی ایک کتاب لکھی‘ جس میں اس نے اسلام اور پیغمبر اسلام کی ذات اقدس کو ہدف تنقید و ملامت بنایا اور شانِ رسالت میں گستاخانہ اور توہین آمیز الفاظ استعمال کئے تھے‘ جس سے مسلمانوں میں ہیجان پیدا ہوا اور سارے شہر میں غم و غصہ کی لہر دوڑ گئی‘ حکومت نے نقضِ امن کے اندیشہ سے ملزم کے خلاف فوج داری مقدمہ قائم کرکے اسے ایک سال قید اور جرمانہ کی سزا دی‘ لیکن مارچ ۱۹۴۳ء میں اس فیصلہ کے خلاف اپیل پر کراچی کے جوڈیشنل کمشنر نے اس کی عبوری ضمانت منظور کرلی‘ نتھورام کا مقدمہ سماعت کے لئے جس دن سندھ چیف کورٹ کے دو انگریز ججوں کی بینچ کے سامنے پیش ہونا تھا‘ اس دن نتھو رام اپنے وکلاء اور ساتھیوں کے ساتھ ہنسی مذاق کرتا ہوا کورٹ روم میں داخل ہوا‘ عدالت کے باہر ہندو اور مسلمان بڑی تعداد میں فیصلہ سننے کے لئے کھڑے تھے‘ مقدمہ کی سماعت سے کچھ دیر قبل شہ عرب و عجم کا یہ نوخیز غلام عبدالقیوم کمرئہ عدالت میں اس ہندو مصنف نتھو رام کے قریب پہنچنے میں کامیاب ہوگیا اور اپنے شکار پر نظریں جمائے بیٹھا تھا‘ موقع پاتے ہی اپنے نیفہ میں سے چھپا ہوا تیز دھار خنجر نکال کر عقاب کی طرح وہ اس پر جھپٹا اور اس ملعون کے پیٹ میں خنجر جھونک کر اس کی آنتیں باہر نکال دیں‘ نتھو رام منہ کے بل زمین پر گر پڑا تو اس خیال سے کہ کہیں وہ زندہ بچ نہ جائے‘ اس نے پوری قوت سے ایک اور وار اس کی گردن پر کیا اور اس کی شہ رگ کاٹ دی‘ اس طرح اس خبیث کا کام تمام کرنے کے بعد نہایت اطمینان اور سکون سے اس نے اپنے آپ کو گرفتاری کے لئے پیش کردیا۔ عدالت میں اس واقعہ سے بھگدڑ مچ گئی اور جج بھی اس اچانک واردات سے خوفزہ او ر سراسیمہ ہوگئے‘ عبدالقیوم کے مقدمہ قتل کے دوران جب ملزم کا بیان قلم بند کرتے ہوئے ایک انگریز جج نے اس مردِ غازی سے دریافت کیا کہ اسے اس بھری عدالت میں اس طرح واردات کی جرأت کیسے ہوئی؟ تو اس نے عدالت میں آویزاں جارج پنجم کی تصویر کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا:
”تم اپنے بادشاہ کی توہین برداشت نہیں کرسکتا ‘ ہم اپنے دین اور دنیا کے شہنشاہ کی شان میں گستاخی کرنے والے کو کیسے معاف کردیتا“ اس موذی کو ہلاک کرنے کے بعد نہایت حقارت کے ساتھ اس کی لاش پر تھوکتے ہوئے اس نے کہا تھا:
”اس خنزیر کے بچے نے میرے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین کی تھی‘ اس لئے میں نے اسے قتل کیا ہے“
اس نے اپنی طرف سے وکیل صفائی پیش کرنے سے انکار کردیا۔ اقبال جرم پر سیشن کورٹ سے غازی عبدالقیوم کو سزائے موت سنائی گئی تو وہ نوجوان مرد مجاہد اپنی خوشی اور مسرت ضبط نہ کرسکا اور بے اختیار اس کی زبان سے اللہ تعالیٰ کی حمد و ثنا کی صدا بلند ہوئی‘ مسلمانوں نے جب اس فیصلہ کے خلاف اپیل کرنا چاہی تو اس نے ان سب کی منت سماجت کرتے ہوئے کہا:
”آپ لوگ مجھے دربار رسول میں حاضری کی سعادت سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔“
اور وہ اس شعر کی مجسم تصویر بنا ہوا تھا:
دل پہ لیا ہے داغِ عشق کھوکے بہارِ زندگی
اک گل تر کے واسطے میں نے چمن لٹادیا
فیصلہ جب توثیق کے لئے عدالت عالیہ میں سپرد ہوا اور اس مرد غازی کی خواہش کے خلاف قانون کی توضیح اور تشریح کے لئے اپیل دائر کردی گئی تو اپیل کی سماعت کے دوران ہر پیشی پر اس محمد کے غلام کے دیدار کے لئے مسلمانوں کا بے پناہ ہجوم موجود ہوتا‘ جو اس پر گل پاشی کیا کرتا تھا‘ بالآخر وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور اسے بھی دوسرے غازیاں ملت کی طرح سزائے موت سنائی گئی‘ جس کے لئے وہ بے چین اور مضطرب رہتا تھا اور یہی پروانہ موت اس کے لئے حیاتِ جاوید لے کر آیا‘ جب سزائے موت اس کو سنائی گئی تو اس نے ججوں سے مخاطب ہوکر کہا:
”مجھے اپنی خوش قسمتی پر ناز ہے کہ میرے ہاتھوں وہ خبیث جہنم رسید ہوا اور میرے رب نے مجھے شہادت جیسی نعمت سے سرفراز کیا‘ یہ ایک جان کیا چیز ہے‘ اگر ایسی ہزاروں جانیں بھی ہوں تو وہ سب میرے آقا اور مولا پر قربان ہیں۔“
اس طرح اس مردِ غازی کے لئے جو کچھ عرصہ قبل عروس نوبیاہ کر لایا تھا‘ آج انشاء اللہ حورانِ جنت درہائے فردوس میں اس کے استقبال کے لئے کھڑی تھیں۔ یہ بھی ایک عاشق کا جنازہ تھا‘ اس لئے بڑی دھوم سے نکلا اور ہزاروں مسلمان جب میوہ شاہ کے قبرستان‘ اس شہید وفا کے جنازے کو لے جارہے تھے‘ ایسے میں حکومت افرنگ کے فرعون مزاج فوجیوں نے عاشقان ناموس رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے اس ہجوم پر اچانک گولیوں کی بوچھاڑ کردی‘ جس کے نتیجہ میں سینکڑوں مسلمان شہید اور زخمی ہوئے‘ معصوم عورتیں اور بچے جو مکانوں کی چھتوں سے اس کا جنازہ دیکھ رہے تھے‘ ان کی شقاوت کا نشانہ بنے اور اس دن وہ سب شہیدانِ ناموس رسالت اس فدائی رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ انشاء اللہ جنت الفردوس میں پہنچ گئے۔
غازی محمد صدیق شہید
غازی محمد صدیق فیروز پور ضلع قصور کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئے‘ بچپن ہی میں والد کا سایہ سر سے اٹھ گیا‘ ماں نے بڑے لاڈ پیار سے بیٹے کی پرورش کی اور ساتھ ساتھ صحیح تربیت تھی‘ سال ۱۹۳۴ء میں یہ نوخیز بچہ جب بیس برس کا ہوا تو اسے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت نصیب ہوئی اور حکم ہوا کہ قصور کے ایک دریدہ دہن گستاخ پالا مل زر گر کا منہ بند کیا جائے۔ یہ بشارت ملتے ہی نوجوان غازی تڑپ کر بیدار ہوا تو اس کے ساتھ اس کا مقدر بھی جاگ اٹھا‘ اس نے ماں کو یہ خوشخبری سنائی تو ماں نے خوشی سے لخت جگر کا ماتھا چوما اور شہادت کی الفت کی طرف اسے روانہ کیا ‘ قصور پہنچ کر اس مرد غازی نے اس گستاخ رسول پالامل کو راستہ ہی میں دبوچ لیا‘ اسے پچھاڑ کر اس کے سینہ پر سوار ہوگئے اور تیز دھار دار آلہ سے پے در پے وار کرکے اس موذی کو ہلاک کردیا اور وہاں سے فرار ہونے کے بجائے قریب ہی کی مسجد میں جاکر سب سے پہلے نماز شکرانہ ادا کی اور پھر مسجد کی سیڑھیوں پر اس شان اور تمکنت کے ساتھ بیٹھ گئے کہ کسی ہندو کو ان کے پاس آنے کی جرأت نہ ہوسکی‘ فیروز مندی ان کے قدم چوم رہی تھی اور فی الحقیقت اس سے بڑھ کر اور کیا نمایاں کام ہوسکتا تھا جس پر مسرت اور شادمانی بھی ناز کرے کہ ایک شاتم رسول صلی اللہ علیہ وسلم ان کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا‘ حسبِ معمول انگریز کا قانون حرکت میں آیا اور مرد مجاہد کا مقدمہ سیشن کے سپرد ہوا‘ غازی موصوف کی جانب سے میاں عبدالعزیز مالوڈہ اور نو مسلم بیرسٹر خالد لطیف گابا نے مقدمہ کی پیروی کی‘ لیکن چونکہ آپ نے عدالت کے روبرو جرأت کے ساتھ اعتراف کرلیا تھا‘ اس لئے سزائے موت سنائی گئی۔
آفرین ہے‘ اس ماں پر جس نے ایسے پیکر جرأت و ایثار کو جنم دیا اور آفرین ہے اس نوجوان مرد غازی پر جو اپنے آقا و مولا کے نام پر قربان ہوگیا‘ یہ فیصلہ سن کر ماں نے ایک بار پھر اپنے بیٹے کا ماتھا چوما اور کہا
: ”یہ ایک بیٹا تو کیا‘ ایسے بیس بیٹے بھی ہوتے تو میں ان سب کو اپنے آقا کے نام پر قربان کردیتی۔“
بیٹے نے بھی یہی کہا :
”یہ ایک جان کیا چیز ہے‘ ایسی ہزاروں جانیں میرے آقا کی خاک پر نثار ہیں۔“ سبحان اللہ !!!
غازی عبداللہ شہید
یہ بھی تقسیم ہند سے قبل اغلباً ۱۹۴۳ء کا واقعہ ہے‘ ایک بدبخت سکھ چلچل سنگھ شیخوپورہ کے گردو نواح میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بدگوئی کرکے اپنے خبث باطن کا اظہار کرتا پھرتا تھا‘ قصور کے رہنے والے ایک جیالے جوان عبداللہ کو سرکار رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم نے خواب میں حکم دیا کہ وہ اس گستاخ کا منہ بند کرے۔ چنانچہ کسی سے اس خواب کا ذکر کئے بغیر وہ شوریدہ سر آتش بجاں اٹھ کھڑا ہوا اور اس مردود کی تلاش میں نکل پڑا‘ معلوم ہوا کہ وہ خبیث وارث شاہ کے گاؤں جنڈیالہ شیرخان میں رہتا ہے‘ جو اس وقت سکھوں کا گڑھ تھا‘ بستی کے قریب پہنچ کر مزید دریافت پر پتا چلا کہ وہ اپنے کنویں پر بیٹھا کسی کام میں مشغول ہے‘ اس کے قریب ہی سکھوں کا جتھہ مصروف گفتگو تھا۔ غازی عبداللہ نے ایک نظر میں اس دشمن دین کو پہچان لیا‘ انہیں محسوس ہوا کہ ان کے جسم میں غیر معمولی طاقت بجلی بن کر دوڑ رہی ہے‘ چلچل سنگھ پر وہ جھپٹ کر حملہ آور ہوئے اور اسے پچھاڑ کر اس کے سینہ پر چڑھ بیٹھے اور پوری قوت سے اس کی شہ رگ کاٹ دی اور اس کا سر تن سے جدا کردیا‘ اس ناگہانی حملہ کو دیکھ کر پاس ہی بیٹھے ہوئے سکھ وہاں سے بھاگ کھڑے ہوئے‘ لیکن یہ مرد غازی اپنے آقا کے فرمان کی تعمیل کے بعد اس مردود کے لاشہ سے اٹھا اور وہیں رب کے حضور سربسجود ہوا کہ اس نے اس مہم کو کامیاب فرماکر اسے سرفرازی بخشی اور سرخرو کیا۔
موقع واردات پر جب پولیس پہنچی تو اس مرد مجاہد کو وہیں پر موجود پایا‘ جس کا چہرہ خوشی سے چمک رہا تھا‘ پولیس نے گرفتار کرکے دلی مراد پوری کردی‘ شیخوپورہ کے معروف وکیل ملک انور مرحوم نے مقدمہ کی پیروی کی‘ لیکن چونکہ غازی عبداللہ نے عدالت کے روبرو اعتراف جرم محبت کرلیا تھا‘ اس لئے سزائے موت سنائی گئی تو ایک مرتبہ پھر سجدئہ شکر بجالائے کہ انہیں بھی شہیدانِ رسالت کی صف میں جگہ مل رہی ہے‘ جس پر جتنا بھی فخرو ناز کیا جائے‘ کم ہے۔
غازی عبدالرشید شہید
غازی عبدالرشید شہید کا نام نامی بھی سرفروشانِ ملت میں ہمیشہ نمایاں رہے گا‘ جس نے آریہ سماج کے بانی سوامی دیانند سرسوتی کے چیلے سوامی شردھانند جیسے خبیث شاتم رسول کو دہلی میں موت کے گھاٹ اتارا اور راہِ عشق رسول میں اپنی جان نثار کرکے بارگاہ نبوت میں سرخرو اور سرفراز ہوا۔
(راج پال سے یہاں تک تمام واقعات ”ناموس رسول ا اور قانون توہین رسالت “سے بعد ترمیم اخذ کئے ہیں)۔
راہِ عمل
خلاصہ یہ کہ ڈنمارک اور یورپین ممالک میں جن لوگوں نے سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم کے گستاخانہ خاکے بنائے اور شائع کئے ہیں وہ سخت گناہگار اور سنگین جرم کے مرتکب ہیں۔ قرآن و سنت کی روشنی میں اگر وہ توبہ نہ کریں تو ان کو قتل کرنا جائز ہے اور ان کو قتل کرنا اصلاً تو حکومت کا کام ہے‘ لیکن اگر کوئی مسلمان ان کو قتل کرے گا وہ بڑے اجرو ثواب کا مستحق ہوگا‘ تاہم ان کو قتل کرنا ہر شخص کے اختیار میں نہیں‘ ہاں درج ذیل کام اختیار میں ہیں‘ اس لئے ان کو کرنا چاہئے:
#… غیرت ایمانی کے تقاضے کے مطابق ان کی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنا۔
#… ان کے خلاف پُرامن احتجاج کرنا۔
#… دوسروں کے جان و مال کو نقصان پہنچانے سے مکمل اجتناب کرنا۔
مذکورہ امور میں سب سے موثر ان کا اقتصادی بائیکاٹ ہے‘ اگر تمام مسلمان مل کر ان کی مصنوعات کو خریدنا‘ بیچنا اور استعمال کرنا چھوڑ دیں تو کچھ ہی عرصہ میں ان کو دن میں رات کے تارے نظر آجائیں گے اور انشاء اللہ تعالیٰ آئندہ وہ ایسی گستاخی کا ارتکاب نہ کریں گے‘ کاش! مسلمان ایسا کرسکتے!!
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: خموش ہے چراغ علم و آگہی
Flag Counter