Deobandi Books

ماہنامہ البینات کراچی ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء

ہ رسالہ

5 - 10
امیرالہند حضرت مولاناسید اسعد مدنی رحمہ اللہ
امیرالہند حضرت مولاناسید اسعد مدنی رحمہ اللہ

فسادات کی روک تھام
حضرت مولانا سید اسعد مدنی کے دورِ نظامت وصدارت میں ملک میں سینکڑوں فسادات ہوئے‘ ہر فساد کے موقع پر مندرجہ ذیل کام جمعیت علمأ ہند پابندی سے کرتی رہی: حکومت کو صحیح صورتحال سے آگاہ کرنا‘ اربابِ حکومت مثلاً وزیر اعظم‘ وزیر داخلہ‘ اعلیٰ افسران اور سیکولر قوتوں کو اقلیتوں پر ہونے والے مظالم اور نقصانات کی صحیح آگاہی کے ساتھ فساد روکنے کا مطالبہ‘ متأثرہ علاقے کا دورہ وسروے‘ ہلاک شدگان کی فہرست سازی‘ لاپتہ افراد کی تحقیق‘ فرقہ پرست سرکاری افسران کی نشاندہی اور فرقہ پرستانہ رویے پر بے باک تنقید واحتجاج‘ ایوانِ بالا میں فسادات کے خلاف آواز اٹھانا‘ مسلم ممبران پارلیمنٹ سے مل کر مشترکہ طور پر فسادات کے خلاف کارروائی کرنے کا مطالبہ کرنا‘ گرفتار شدگان کی رہائی کی کوشش‘ ریلیف کمیٹی کا قیام‘ مالی تعاون جس کی مقدار بلامبالغہ کروڑوں تک ہے‘ تباہ شدہ اور جلائے گئے مکانات کی تعمیر وتجدید (ان کی تعداد ہزاروں میں ہے) فساد سے متأثرہ افراد اور ہلاک شدگان کے ورثاء کو معاوضہ دلانے کی جد وجہد کرنا وغیرہ شامل ہے۔
مسئلہ آسام
حضرت امیر الہند  نے اپنے دورِ نظامت وصدارت کے دوران آسام کے مسلمانوں کی ہمیشہ رہنمائی فرمائی اگرچہ آپ کے دور میں آسام کی مسلم اقلیت کے مسائل پیچیدہ سے پیچیدہ تر ہوگئے‘ تاہم فدائے ملت  نے اس بارے میں خصوصی کوششیں جاری رکھیں،بلاشبہ یہ جمعیت علمأ ہند کا عظیم کارنامہ ہے‘ جس سے مستقبل کا مؤرخ اس کی اہمیت کے پیشِ نظر مسلمانوں کی تاریخ کو بالعموم اور مسلمانوں کی اس تنظیم کو بالخصوص سنہری عبارت سے مرتب کرے گا۔
مسئلہ کشمیر
اس مسئلہ کو بھی حضرت امیر الہند‘ فدائے ملت نے اپنے اکابر کے نقش قدم پر چلتے ہوئے بہت اہمیت دی اور کشمیری عوام کے ساتھ ہونے والی ناانصافیوں اور زیادتیوں کے خلاف ہمیشہ آواز اٹھائی۔
جس کا اندازہ ۱۶/اپریل ۱۹۹۰ء کی جمعیت علمأ ہند کی قرار داد کشمیر کے ان الفاظ سے کیا جاسکتاہے کہ:
”مظالم کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ہم اپنے کشمیری بھائیوں سے گہری ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ جگ موہن کو واپس بلائے اور کشمیریوں کے مطالبات پر فوراً غور کرے‘ چونکہ ظلم وجبر سے کوئی مسئلہ حل نہیں ہوتا‘ اس لئے ضروری ہے کہ حکومت کشمیر کے سیاسی رہنماؤں سے بات چیت کرے اور جمہوری اور آئینی طریقے سے مسئلے کو سلجھانے کی کوشش کرے“۔
چنانچہ فدائے ملت‘ امیر الہند کی اپیل پر ۱۶/اپریل ۱۹۹۰ء کو یومِ کشمیر منایا گیا۔
مسلم اوقاف کی حفاظت
ہندوستان میں مسلم اوقاف کی حفاظت اور ان کے ذریعے ہونے والی آمدنیوں کا صحیح مصرف ایک اہم مسئلہ رہاہے،جمعیت علمأ ہند کے لئے ہمیشہ یہ مسئلہ قابلِ توجہ رہا۔ حضرت امیر الہند  کے دورِ نظامت وامارت میں بھی اوقاف کو حکومتی مداخلت اور مطلوبہ حیثیت واہمیت کو بچانے کی برابر جد وجہد ہوتی رہی اور حکومت سے قانون اوقاف میں ایسی ترمیم کا مطالبہ بھی کیا جس سے وقفی جائیدادوں کی حفاظت کا انتظام ہوسکے،تاہم جمعیت کی مسلسل جد وجہد کے بعد مولانا اسعد مدنی سے ۱۹۸۹ء میں مرکزی گورنمنٹ نے وعدہ کیا کہ اس سلسلہ میں کوئی ضرور مناسب کارروائی کی جائے گی اور آئندہ اجلاس پارلیمنٹ میں وقف ترمیمی بل ضرور پیش کیا جائے گا۔
مساجد ومقابر کا تحفظ
اس مسئلہ کے پُرامن اور پائیدار حل کے لئے فدائے ملت ربانی اور تحریری طور پر حکومت سے ہمیشہ مطالبہ کرتے رہے کہ تمام مساجد ومقابر کی ۱۵/اگست ۱۹۴۷ء سے پہلے کی پوزیشن بحال کی جائے‘ یہاں تک کہ حضرت امیر الہند نے راجیوگاندھی کے دور حکومت میں وزیر اعظم مسٹر راجیوگاندھی سے ڈیڑھ گھنٹہ مسلسل بحث کے بعد اس کو اس مسئلے کے حل کے لئے تیار کرلیا اور اس مطالبے کو Manifestoمیں شامل کرلیا‘ چنانچہ یہ بل پارلیمنٹ سے منظور ہوچکا ہے یہ ایک بہت بڑی کامیابی ہے۔
اردو زبان کا تحفظ
اس حوالے سے شیخ الاسلام حضرت اقدس سید حسین احمد مدنی اور مجاہدِ ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہاردی وغیرہ کی روایات کو فدائے ملت‘ امیر الہند حضرت سید اسعد مدنی نے بھی اپنے دورِ نظامت وصدارت میں برقرار رکھا،جماعتی میٹنگز‘ مجلس عاملہ ومجلس منتظمہ کے اجلاسوں اور کارروائیوں میں اردو کے مسئلہ پر برابر غور وفکر ہوتا رہتاہے۔
قرار دادیں اور تجاویز منظور کرکے اربابِ اختیار کو اردو کے سلسلہ میں برتی جانے والی بے انصافیوں اور بے اعتنائیوں پر ہمیشہ توجہ دلائی گئی۔
تحفظ حرمین
جمعیت علمأ ہند نے تحفظ حرمین کے سلسلہ میں بھی وقیع خدمات انجام دی ہیں‘ یہ کسی ایک فرد کا مسئلہ نہیں‘ بلکہ اس کا تعلق پورے عالم اسلام سے ہے‘ حضرت امیر الہند‘ فدائے ملت  کے دورِ صدارت ہی میں نومبر ۱۹۸۷ء کو دلی میں عظیم الشان اور تاریخ ساز حرمین کانفرنس منعقد کی گئی ‘ جس کا افتتاحی خطبہ امام حرم مکہ مکرمہ حضرت شیخ عبد اللہ ابن سبیل نے پڑھا‘ جس میں انہوں نے کہا کہ اسی سرزمین کو یہ شرف حاصل ہے کہ وہاں خانہ کعبہ ہے اور وہیں نبی آخر الزمان ا تھے،امام محترم نے خصوصی طور پر امیر الہند‘ فدائے ملت حضرت سید اسعد مدنی کی کوششوں کو سراہا اور فرمایا کہ: دشمنانِ اسلام نے ہمیشہ اسلام کے خلاف سازش کی ہے مگر وہ کامیاب نہیں ہوئے‘ کیونکہ اسلام کی حفاظت کا وعدہ خود باری تعالیٰ نے فرمایاہے،اس کانفرنس کے موقع پر حضرت امیرالہند نے تاریخی مفصل خطبہ استقبالیہ پڑھا‘ جس کے سننے کے بعد اجلاس میں شریک دانشوروں‘ علمائے کرام‘ مفتیان عظام کی طرف سے خصوصی مبارکباد پیش کی گئی اورکہا گیا کہ حضرت والا نے ایک ایسے موضوع کی اہمیت سے روشناس کرایا جس کے بارے میں غافل مسلمان بالکل کچھ نہیں جانتے تھے۔
بابری مسجد
بابری مسجد کے مسئلہ کے حل کے لئے ویسے تو ۱۹۴۹ء سے مسلسل جمعیت علمائے ہند کے اکابر کوشش کرتے رہے ‘ انہیں کوششوں کے تسلسل کو حضرت امیر الہند‘ فدائے ملت نے باوجود سنگین سے سنگین ترحالات ہوجانے کے جاری رکھا‘ ہردور میں عدالتی طریق کار سے مسلمانوں کی اس مظلومیت سے حکومتوں کو آگاہ کیا جاتا رہا اور حضرت فدائے ملت کی کوشش ہر ظالم وجابر جانبدار فرقہ پرست حکمران کی ذلت کا باعث بنتی رہی۔
امداد وظائف
حضرت امیر الہند کے دورِ صدارت میں ایک اہم کام یہ بھی ہوا کہ جمعیت نے مسلمانوں کو ٹیکنیکل تعلیم دینے کے لئے ۱۹۷۴ء سے تعلیمی وظائف کا پُر تحسین سلسلہ شروع کررکھا ہے‘ اس میں مزید توسیع کے لئے ”مجاہدِ ملت سکالر شپ“ ۱۹۹۰ء میں قائم کیا گیا‘ جس کے تحت اعلیٰ دینی وفنی تعلیم حاصل کرنے والے طلباء کو وظائف دینے کا منصوبہ بنایا گیا‘ اسے مسلمانوں کی تعلیمی پس ماندگی کے خاتمہ کی طرف ایک اہم قدم کہا جاسکتاہے،نیز امیر الہند کے دورِ صدارت میں اس سلسلے میں اہم کوششوں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ ضرورت مند طلباء کی مدد کرنا‘ رہنمائی کرنا‘ انہیں سرکاری سہولتوں کی معلومات بہم پہنچانا‘ دینی ودنیوی تعلیم کو جمعیت کے پروگرام میں اہمیت دینا۔
دینی مکاتب کا قیام‘ دار المطالعہ‘ لائبریری کا قیام‘ درس حدیث کا اجراء‘ مسلمان بچوں اور بچیوں کے لئے دنیاوی تعلیم پر توجہ دینا۔ KGاورEMسکول کے ساتھ ٹیکنیکل پیشہ وارانہ تعلیم کے لئے کوشش کرنا‘ جمعیت علماءٴ ہند ہمیشہ اس بات کے لئے کوشش کررہی ہے کہ ملک کی مسلم اقلیت ہندوستان کو اپنا ملک سمجھ کر کھل کر ہاتھ بٹائے اور ساتھ دے۔
مسلم پرسنل لاء
اسلامی معاشرتی قانون کی اہمیت حضرت اقدس فدائے ملت  کے دورِ صدارت میں جور ہی ہے اس کا اندازہ ہم جمعیت علمائے ہند کے خصوصی اجلاسوں‘ اجلاس ہائے عام کی کارروائیوں اور تجاویز وقراردادوں کا جائزہ لینے کے بعد ہی بخوبی کرسکتے ہیں‘ مسلم پرسنل لاء کے ضمن میں آنے والے تمام معاشرتی علوم کے تعلق سے واضح نقطہ نظر ملتاہے اور اس حوالے سے چھوٹے سے چھوٹے واقعے اور معاملے کو بھی نظر انداز نہیں کیا گیا،مسلم پرسنل لاء کی اہمیت حضرت امیر الہند کے اس بیان سے کی جاسکتی ہے جو آپ نے ۱۹۶۶ء میں حکومت کی وضاحت طلب کرنے پر دیا‘ آپ نے فرمایا:
”قرآنی قوانین نہ کسی مجلس قانون ساز کے بنائے ہوئے ہیں نہ کسی حکومت کے نافذ کردہ ہیں‘ ان میں ترمیم اور تبدیلی کا حق کسی کو نہیں“۔
مسئلہ ارتداد
اپنے اکابر کے اس ورثہ کو حضرت فدائے ملت نے برقرار رکھا ہے‘ جمعیت علماء ہند واحد مسلم تنظیم ہے جس نے شروع ہی سے مسئلہ ارتداد کو سنجیدگی سے لیا اور اس سلسلہ میں اپنی حد تک مناسب ومعقول کارروائی کی،جمعیت علمائے ہند کے صدر حضرت مولانا سید اسعد مدنی نے فتنہ ارتداد سے متأثرہ علاقوں کا متعدد بار دورہ کیا اور اس مسئلہ میں خصوصی دلچسپی لیتے ہوئے جمعیت علماء ہند کے آرگنائزر سے صورتِ حال معلوم کر کے مناسب کارروائی بھی کرتے رہے‘ اس سلسلہ میں آپ کے دورِ صدارت میں نئی نسل کی دینی تعلیم اور مذہبی شعور پیداکرنے کے لئے جمعیت کے زیرسرپرستی سینکڑوں مدارس ومکاتب‘ مساجد اور ادارے قائم ہوئے اور اب تک قائم ہیں‘ اگرچہ ضرورت کے لحاظ سے پھر بھی کم ہیں۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ ارتداد کے فروغ کے لئے کسی بھی اقلیت کی بنیادی وجہ اقتصادی بدحالی بھی ہوا کرتی ہے‘ آپ نے اس وجہ سے ارتداد کے عمل کو روکنے کے لئے جمعیت علماء ہند کے پلیٹ فارم سے بلا سودی نظام جاری کرکے اس تنظیم کی تاریخ میں ایک انوکھا اور کامیاب تجربہ پیش کیا ہے،جو لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ مسلمانوں کو اقتصادیات نہیں آتی یا وہ اس میدان میں پیچھے ہیں‘ ان کے لئے یہ درس عبرت ہے۔
حضرت امیر الہند بحیثیت شیخِ طریقت
آپ کے بارے میں دنیا بالخصوص پاکستان کے عوام بلکہ بعض علماء بھی یہ سمجھتے ہیں کہ آپ عالم اسلام کے صرف سیاسی رہنما تھے‘ حضرت شیخ الاسلام کی سیاسی‘سماجی اور معاشرتی خدمات کا تسلسل تھے‘ یہ تأثر صرف انہیں لوگوں کا ہے جنہوں نے آپ کو قریب سے نہیں دیکھا یا آپ کی رفاقت میں کوئی ماہِ رمضان المبارک نہیں گزارا۔
اللہ کے فضل وکرم سے جیسے آپ حضرت شیخ الاسلام کی زندگی میں دارالعلوم دیوبند کے کامیاب ترین استاد تھے‘ اسی طرح آپ نے اپنے والد گرامی حضرت شیخ الاسلام کی رفاقت میں پچیس سال تک ماہِ رمضان گزارے اور ان سے منازل سلوک طے کیں‘ اپنے تمام اسباق ذکر اور اوراد وظائف مکمل کئے‘ یہی وجہ ہے کہ آپ کو اپنے والد گرامی شیخ العرب والعجم  کی رحلت کے بعد ان کے خلفاء نے باتفاق رائے عظیم منصبِ جانشینی شیخ الاسلام کے لئے چنا۔
انداز تربیت اصلاح باطن
جس طرح حضرت اقدسکے زمانہ میں سینکڑوں لوگ ماہِ رمضان میں آپ سے اصلاحِ باطن اور اوراد وظائف کی تکمیل اور پورے ماہِ صیام کو اتباعِ سنت کے مطابق گزارنے کے لئے آتے تھے اسی طرح بحمد اللہ! آپ کے ماہِ صیام کے معمولات بھی جہاں مکمل اتباعِ سنت کا مظہر تھے‘ وہاں حضرت شیخ الاسلام کے معمولات کا تسلسل بھی تھے۔یہی وجہ تھی کہ سینکڑوں علماء ومشائخ بھی ہرسال آپ کی رقافت میں رمضان گزارتے اور زندگی کے مختلف طبقوں سے تعلق رکھنے والے سینکڑوں عقیدت مند آپ کے پاس اصلاح ِ باطن کی غرض سے ہرسال رمضان گزارتے تھے۔
حضرت شیخ الاسلام کی وفات کے بعد بیالیس سال سے خانقاہ مدنیہ پوری آب وتاب سے آباد ہے‘ بیالیس سالہ عرصہ میں اکتالیس ماہِ صیام آپ نے دیوبند کی سر زمین پر گزارے ہیں‘ جبکہ ایک ماہِ صیام آپ نے ۱۹۹۷ء میں بنگلہ دیش کے عوام کے شدید اصرار پر ڈھاکہ میں گزارا،ڈھاکہ میں آپ کے معمولات ماہِ صیام اور شرکاء کی تعداد دیکھ کر حضرت شیخ الاسلام کے بعض اجل خلفاء بار بار یہ کہتے تھے کہ اس سال تو حضرت شیخ الاسلام کے سلہٹ کے ماہِ صیام کے معمولات کی یاد تازہ ہوگئی،آخیر عشرہ میں متوسلین کی تعداد ایک ہزار سے بھی متجاوز ہوگئی‘ ویسے تو بندہ نے حضرت امیر الہند کے ساتھ دیوبند میں بھی کئی ماہِ رمضان آپ کی خدمت میں رہ کر گزارے حسنِ اتفاق سے ڈھاکہ کا ماہ بھی آپ کی خدمت میں گزارا،حضرت اقدس شیخ الاسلام کے معمولات کے بارے میں جو کچھ پڑھا اور سنا تھا‘ آپ کے معمولات کو دیکھ کر ایسا محسوس ہوا کہ آج شیخ الاسلام کو دیکھ لیا۔
حضرت فدائے ملت کے معمولات ماہِ رمضان کی تفصیل
ویسے تو ہمارے تمام اکابر ماہِ رمضان کا خوب اہتمام کرتے اور اتباعِ سنت کی پوری کوشش فرماتے کہ ماہِ رمضان کی راتوں کو زندہ کیا جائے‘ حضرت اقدس شیخ الاسلام کا ماہِ رمضان دنیوی مصروفیات سے بالکل الگ تھلگ‘ مکمل انہماک واستغراق‘ ذکر‘ تلاوت‘ نوافل اور قدرے جسمانی آرام پر مشتمل ہوتا تھا۔جانشین شیخ الاسلام کے ماہِ رمضان کے معمولات درج ذیل حدیث مبارکہ کا عکس کامل تھے:
”جس شخص نے اللہ پر ایمان رکھتے ہوئے اور ثواب کی نیت سے رمضان کا روزہ رکھا اور رمضان کی راتوں کو زندہ کیا اس کے سابقہ گناہ معاف کردیئے جائیں گے“۔
آغاز معمولات
آپ کے معمولات کا آغاز ۲۹ شعبان بعد نماز عصر شروع ہوجاتا تھا‘ تراویح میں مقرر حافظ کے پارہ کو دور کی شکل میں سننا مغرب تک معمول رہتا‘ اگر چاند نظر آجائے تو معمولات کا تسلسل رہتا تھا‘ ورنہ ۳۰ شعبان سے بعد نماز عصر ہی تلاوت دوبارہ سنی جاتی اور نماز عشاء تاخیر سے ادا کئے جانے کا اعلان کردیا جاتا تھا‘ نماز مغرب وعشاء میں وقفہ تقریباً دو گھنٹے کا ہوتا تھا‘ اس وقفے کے دوران شام کا کھانا اور کچھ آرام بھی شامل تھا‘ نماز عشاء کی ادائیگی کے متصل بعد تراویح کا آغاز ہوجاتاتھا دورانِ تراویح ہرچار رکعات کے بعد جتنی دیر میں یہ چار رکعت ادا ہوتیں‘ اتنا ہی اس میں وقفہ ہوتا تھا‘ وقفہ میں سہولت کے ساتھ ہر شخص تلاوت ‘ ذکرواذکاراورآرام کے لئے آزاد تھا‘ ۲۰ تراویح تین گھنٹہ میں پایہٴ تکمیل کو پہنچتی اور تراویح کے بعد ہی نہایت الحاح وزاری سے اجتماعی دعا ہوتی تھی‘ وتر کی ادائیگی کے بعد انفرادی دعا ہوتی تھی۔
وتر کی ادائیگی کے بعد حضرت اقدس امیر الہند  اپنی مختصر دعا کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوتے تھے‘ تمام ذاکرین وسالکین اورشرکاء حلقہ بناکر بیٹھ جاتے‘ اس وقت آپ کی موجودگی میں حضرت شیخ الحدیث مولانا محمد زکریا کی معروف تصنیف ”اکابر کا رمضان“ کا کچھ حصہ پڑھا جاتا تھا‘ جس کو عام طور پر آپ کے نہایت بااعتماد رفیق خاص‘ حضرت شیخ الاسلام کے خلیفہ حضرت مولانا سید محمود صاحب پڑھتے تھے‘ اس تعلیم میں تقریباً بیس منٹ صرف ہوتے تھے‘ اس کے بعد حضرت اقدس  ذاکرین سے فرماتے کہ سب اپنے اپنے اذکار میں مصروف ہوجائیں‘ تمام سالکین آپ کی نگرانی میں ذکر شروع کردیتے تھے‘ اس دوران روشنی مکمل طور پر بند کردی جاتی تھی‘ یہ مجلس ذکر تقریباً ڈیڑھ گھنٹہ جاری رہتی‘ اس مجلس ذکر سے کچھ دیر بعد آپ حلقہٴ ذکر سے اٹھ جاتے‘ باہر سے آنے والے وفود جنہوں نے حضرت امیر الہند سے پہلے سے وقت لیا ہوتا تھا وہ حاضر ہوکر اپنے مسائل پر تبادلہ خیال کرتے تھے‘ یہ وقت ملاقات کم وبیش ایک گھنٹہ ہوتا تھا‘ ادھر مجلس ذکر کے اختتام کے بعد ایک گھنٹہ کے لئے وقفہ ہوتا‘ جس میں ذاکرین تازہ طہارت سے فراغت کے بعد چائے وغیرہ نوش کرتے تھے‘ اس کے بعد نماز تہجد میں مقررہ حافظ باری باری اپنے سامع کے ساتھ تہجد باجماعت شروع کردیتے‘ شرکاء اپنی مرضی واختیار کے ساتھ اس جماعت میں شامل ہوتے تھے۔
یہ بات ملحوظ رہے کہ نماز تہجد کی جماعت میں شمولیت کے لئے کسی کو بھی دعوت نہیں دی جاتی تھی‘ حتیٰ کہ آرام میں مصروف حضرات کو بھی بیدار نہیں کیا جاتا تھا،یہ تہجد کا معمول بھی تقریباً تین گھنٹے جاری رہتا تھا‘ جس میں عام طور پر چار سے پانچ پارے تلاوت ہوتے تھے‘ نماز تہجد کے اختتام پر تقریباً آٹھ دس منٹ تک دعا ہوتی تھی جس میں گریہ وزاری کا دلدوز منظر ہوتا تھا۔
اس کے فوری بعد سحری کے لئے دسترخوان لگادیا جاتا اور اعلان ہوجاتا تھا کہ تمام شرکاء سحری تناول کرلیں‘ سحری کے کھانے میں خوب فیاضی کا منظر ہوتا تھا جس میں عام طور پر قورمہ‘ سبزی کا سالن اور چاول‘ دہی دسترخوان کی زینت ہوتے تھے‘ اس موقع پر بھی حضرت اقدس امیر الہند  بنفس نفیس تشریف فرماہوتے تھے‘ آپ سحری کے تناول کے لئے اس وقت تک تشریف فرما نہیں ہوتے جب تک کہ تمام شرکاء کے سامنے کھانا نہیں پہنچ جاتا۔یہ کھانا پورا کا پورا خانقاہ مدنیہ یعنی حضرت اقدس  کی طرف سے ہی ہوتا تھا‘ تمام شرکاء کو آپ ذاتی مہمان سمجھتے تھے۔
شرکاء کی تعداد اول عشرہ میں چار سو سے پانچ سو تک ہوتی تھی‘ اس میں اضافہ ہوتا رہتا تھا حتیٰ کہ دوسرے عشرہ کے نصف میں ایک ہزار سے متجاوز ہوجاتی اور یہ تعداد اختتام رمضان تک برقرار رہتی تھی‘ بالفاظ دیگر کہ جو یہاں آیا وہ اختتام رمضان تک واپس نہ گیا‘ سحری سے فراغت کے بعد فوری فجر کی اذان کا وقت ہوجاتا‘ نماز فجر اول وقت یعنی اذان فجر کے پندرہ منٹ بعد ادا کی جاتی ‘ نماز فجر کے بعد تمام ذاکرین وسالکین آزاد ہوتے تھے یعنی تلاوت ‘ ذکر اور مراقبہ میں اشراق تک مشغول رہتے اور ادائیگی اشراق کے بعد آرام کرتے تھے‘ نماز ظہر سے کچھ دیر قبل عام طور پر تمام ذاکرین‘ سالکین آرام سے فراغت حاصل کرلیتے تھے اور نماز ظہر کی تیاری کرتے ہی مسجد میں پہنچ کرتلاوت قرآن میں مشغول ہوجاتے۔
نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد دو حلقے ہوتے تھے‘ ایک حلقہ حضرت اقدس امیر الہند کے پاس ہوتا تھا جس کے شرکاء اپنے اذکار کے اسباق اور کیفیات تحریری طور پر پیش کرتے اور حضرت اقدس اسی ترتیب سے فرداً فرداً علیحدگی میں ان کے جوابات ارشاد فرماتے تھے۔ دوسرا حلقہ حضرت مولانا سید محمود صاحب کے ہاں ہوتا تھا اس حلقہ میں حضرت مولانا محترم ”امداد السلوک“ مصنفہ فقیہ امت‘ قطب الارشاد حضرت مولانا رشید احمدگنگوہی نور اللہ مرقدہ کو تعلیماً سناتے تھے‘ یہ سلسلہ تقریباً گھنٹہ بھر جاری رہتا تھا‘ اس کے بعد شرکاء انفرادی طور پر تلاوتِ کلام پاک میں مشغول ہوجاتے جبکہ حفاظ کرام اپنی منزل کے دور میں منہمک ہوجاتے،حضرت اقدس  عام طور پر اس وقت تلاوتِ کلام پاک میں مصروف رہتے تھے‘ یہاں تک کہ نماز عصر کا وقت ہوجاتا ‘ ادائیگی نماز کے بعد فوراً آپ نماز تراویح کے لئے متعین حفاظ کرام کا دور سماعت فرماتے تھے‘ اس تلاوت کی سماعت کے لئے اکثر شرکاء اپنی خواہش پر موجود ہوتے‘ یہ دور وقت افطار سے پانچ منٹ قبل ختم ہوجاتاتھا،مسجد میں خدام افطار کے لئے دسترخوان بچھاچکے ہوتے تھے‘ حاضرین کو بذریعہ اعلان دسترخوان پر افطار کے لئے پہنچنے کے لئے بلایاجاتا تھا‘ اس موقع پر بھی فیاضی کا منظر ہوتا تھا‘ کھجور کے ساتھ ساتھ جہاں دسترخوان پر فروٹ چاٹ ہوتی‘ وہاں بھنے ہوئے چنے یا مٹر اور سموسے بھی ہوتے تھے‘ اس افطار کی سب سے اہم خصوصیت یہ تھی کہ ہرروزہ دار کو مدینہ منورہ کی کھجور اور ایک بڑا ڈبہ آبِ زم زم کا ملتا۔
اس افطاری میں آٹھ دس منٹ صرف ہوتے تھے‘ اس کے بعد نماز مغرب کی ادائیگی کا عمل شروع ہوجاتا تھا‘ نماز مغرب کی سنن ونوافل کے بعد فوراً کھانے کے لئے دسترخوان لگادیا جاتا تھا‘ اس موقع پر بھی فیاضی کا وہی منظر ہوتا جوکہ سحری کے وقت ہوتا تھا‘ البتہ اس کھانے میں سادہ چاولوں کی بجائے بریانی یا گوشت پلاؤ کا بطور خاص اہتمام ہوتا تھا، یہ بات بھی پیشِ نظر رہے کہ سحری اور افطاری کے وقت کمزوروں اور بیماروں کے لئے ہرایک کی طبیعت کے مطابق کھانا فراہم کیا جاتا تھا‘ یہ پرہیزی کھانے حضرت اقدس امیر الہند کی اہلیہ محترمہ بذاتِ خود یا اپنی بہوؤں سے اپنی نگرانی میں تیار کرواتی تھیں‘ جس طرح کہ کمزوروں اور بیماروں کے لئے خوراک کا اہتمام ہوتا‘ اسی طرح خانقاہ کے مہمانوں کے ایمرجنسی علاج کے لئے ایک ماہر طب اور ایک ماہر ڈاکٹر (میڈیکل وہومیوپیتھک) کا بھی انتظام ہوتا تھا (حضرت اقدس  کی اہلیہ محترمہ اس دار فانی سے ۲۳ ستمبر ۲۰۰۰ء کو رحلت فرماگئی تھیں۔
حضرت اقدس کی اہلیہ محترمہ کا خاص ذوق یہ بھی تھا کہ تراویح کے بعد اس وقت تک آرام نہ کرتیں جب تک اپنے بیٹوں سے یہ نہ پوچھ لیتیں کہ خانقاہ میں کسی کو کسی قسم مثلاً بستر ‘ خوراک وغیرہ کی ضرورت تو نہیں‘ اگر ضرورت ہو تو اس کو فراہم کرو‘ اس اطمینان کے بعد سوتیں‘ اس کے بعد شرکاء کچھ دیر تقریباً ایک گھنٹہ آرام کرتے اورعشاء کی نماز کی تیاری میں مشغول ہوکر حسبِ سابق معمولات میں مشغول ہوجاتے تھے، زنان خانہ میں بھی مستورات کے لئے تراویح کا اہتمام ہوتا تھا‘ جس کی امامت مرد حفاظ قرآن کرواتے تھے اور وہ پردے میں پڑھتے تھے‘ عام طور پر آپ کے خاندان کا ہی کوئی حافظ یہ فریضہ انجام دیتا۔ یہ معمولات ماہِ رمضان کی ہر شب میں جاری رہتے تھے‘ تمام شرکاء ماہِ رمضان کی ہر شب کو خانقاہ مدنیہ میں لیلة القدر کی طرح گزارتے تھے‘ اکثر ذاکرین وسالکین سے ہردن گزرانے کے بعد یہ دعائیہ جملہ سننے میں آتا رہتا تھا کہ: اے اللہ! یہ پورا ماہِ رمضان نصیب فرما دے‘ معلوم نہیں کہ آئندہ نصیب ہوگا یا نہیں اور ایک دوسرے کو تلقین کرتے ہوئے نظرآ تے کہ جو وقت ملا ہے اس کی قدر کرو،حضرت اقدس امیر الہند بھی ماہِ رمضان کے جمعوں میں بیان فرماتے ہوئے خصوصیت سے یہ ارشاد نبوی ا دہراتے تھے کہ :
”جس شخص نے تندرستی میں ماہِ رمضان کو پایا اور خوب عبادت کرکے راتوں کو زندہ نہ کیا اور اپنی بخشش نہ کرواسکا وہ بڑا ہی وہ بدنصیب ہے“۔
حالت اعتکاف
یہاں خانقاہ میں ماہِ رمضان کی ہررات لیلة القدر کا سماں پیش کرتی تھی‘ اس لئے حالتِ اعتکاف کے معمولات کا خاص فرق نہیں ہوتا‘ البتہ معتکفین پر ماہِ رمضان کی جلد جدائی کا صدمہ نمایاں نظر آتا تھا،اختتام ماہ رمضان‘ چاند نظر آنے پر چاند رات کو بھی اسی فکر کے ساتھ گزاراجاتا تھا‘ اس رات میں گریہ وزاری اپنے عروج پر ہوتی تھی‘ نماز فجر کے بعد مہمان نماز عید الفطر کی تیاری میں مصروف ہوتے ہیں‘ عیدگاہ جانے سے قبل تمام مہمانوں کو مختصر ساناشتہ دیا جاتا تھا‘ جس میں عام طور پر مدینہ منورہ کی کجھور ‘ دودھ میں بنائی ہوئی سویاں‘ پستہ وبادام سے مرصع ہوتی تھیں‘ چائے بھی دی جاتی تھی ‘ عید الفطر کا دن دیوبند میں مسلمانوں کی اعلیٰ عظمت کا نقیب ہوتا تھا‘ ہزاروں لوگوں کی آرزو اور تمنا کا لحاظ رکھتے ہوئے مشائخ‘ علماء اور آئمہ کے اصرار پر حضرت اقدس امیر الہند نمازِ عید الفطر کی امامت عیدگاہ میں فرماتے تھے‘ اس عظیم اجتماع کو دیکھ کر حرمین شریفین کے حج کی یاد تازہ ہوجاتی۔
اشاعت ۲۰۰۶ ماہنامہ بینات, ربیع الثانی ۱۴۲۷ھ بمطابق ۲۰۰۶ء, جلد 69, شمارہ 4

    پچھلا مضمون: بچوں کی تعلیم و تربیت ایک بنیادی فریضہ
Flag Counter