Deobandi Books

ماہنامہ الابرار ستمبر 2009

ہ رسالہ

7 - 13
ملفوظات حضرت مولانا حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم
ایف جے،وائی(September 13, 2009)

مرتبہ: سید عشرت جمیل میر

(گذشتہ سے پیوستہ)

علما ءکا اکرام

ارشاد فرمایا کہ حکیم الامت تھانوی رحمة اﷲ علیہ فرماتے ہیںکہ علماءکا اکرام علماءکے ذمہ بھی ہے، عام عالم یہ سمجھتے ہیں کہ علماءکا اکرام عوام کے ذمہ ہے اور یہ بھی فرمایا کہ جو علماءجاہ میں مشہور ہوگئے ان کا اکرام کافی نہیں ہے جو علما مسکین ہیں ان کا اکرام بھی لازم ہے، ورنہ بڑا عالم جو مرسڈیز پر جارہا ہے اس کے پیچھے تو پورا مجمع لگا ہوا ہے اور بے چارے مسکین ملا کو کوئی پوچھتا بھی نہیں، اس کا بھی اکرام کرو، اﷲ نے اس کو بھی علمِ وحی سے نوازا ہے۔

سرورِ عالم صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ نماز میں میرے قریب اہلِ فہم، اہلِ دین، اہلِ علم کھڑے ہوں۔ اس سے یہ مسئلہ ثابت ہوا کہ جب تقریرہو تو علماءحضرات مقرر کے قریب بیٹھیں۔ اس سے مقرر کو فیض ہوتا ہے ، سمجھ دار لوگ سامنے ہوں تو مضامین کی آمد ہوتی ہے۔ جہاں تک ہوسکے اہلِ علم حضرات کو قریب بیٹھنا چاہیے۔

غیر اﷲ سے فرار وصول الی اﷲ کا ذریعہ ہے

ارشاد فرمایا کہ اب بھی ہوشیار ہوجاو اپنے ماضی سے توبہ کرلو اور حال کو درست کرلواور مستقبل کے لیے ارادہ کرلو کہ جان دے دیں گے مگر اﷲ کو ناراض نہیں کریں گے ان شاءاﷲ آپ کا تینوں زمانہ روشن ہوجائے گا ماضی استغفار و توبہ سے روشن، حال باوفائی سے روشن، اور مستقبل عزمِ وفا سے روشن کہ جان دے دیں گے مگر اﷲ کوناراض نہیں کریں گے بس نظر بچاو، دل بچاو اور جسم بچاو یعنی عیناً وقلباً وقالباً حسینوں سے دور رہو۔ بس اب میں سارے عالم میں ڈنڈا لے کر حسینوں کے خلاف دوڑ رہا ہوں کیوں کہ میں نے دیکھا کہ ان لیلاوں سے بھاگے بغیر مولیٰ نہیں ملے گا، لیلاوں سے بھاگو مولیٰ کی طرف پھر مولیٰ ملے گا کیوں کہ اﷲ تعالیٰ نے فَفِرُّوا کے بعد اِلٰی داخل کیا۔ معلوم ہوا کہ یہ فرار تم کو اﷲ تک پہنچا دے گا،یہ غایت تم کو مغیا تک لے جائے گا۔ اِلٰی آتا ہے غایت کے لیے۔ اگر تم نے حسینوں سے فرار اختیار کیا تو تم جاکر اﷲ کے پاس قرار پاو گے جیسے کوئی دوڑ رہا ہو تو کسی منزل پر جا کر کھڑا ہو کر سانس لیتا ہے۔اسی طرح تم جب غیر اﷲ سے بھاگو گے تو میرے پاس قرار پاجاو گے۔ فَفِرُّوا اِلَی اﷲِ کی تفسیر روح المعانی میں اس جملہ سے کی ہے کہ فَفِرُّوا اِلَی اﷲِ عَمَّا سِوَا اﷲِ یعنی غیر اﷲ سے بھاگو اﷲ تک یعنی یہ تمہارا غیر اﷲ سے فرار ہماری ذات تک وصول کا ذریعہ ہے اور اگر تم نے ایک سیکنڈ بھی کسی حسین کو دیکھا تو تم نے فرارکے خلاف حرکت کی اور تم نے وہاں قرار پکڑا جب کہ ہم تم کو فرار کا حکم دیتے ہیں اور تم اپنے مولائے پاک کی مرضی کے خلاف وہاں قرار اختیار کرتے ہو، یاد رکھو تمہاری خیریت نہیں دونوں جہان برباد ہوجائیں گے نہ تم دنیا میں چین سے رہو گے نہ آخرت میں۔ دیکھ لو رومانٹک والوں کو کہ کوئی چین سے نہیں ہے، سب کی کھوپڑی گرم ہے۔ ایک شخص میرے پاس آیااس نے کہا میرا سر گرم ہے دواخانے میں کوئی ٹھنڈا تیل ہے؟ تو میں نے بہت ہی ٹھنڈا تیل اس کو دیالیکن میں دیکھتا تھا کہ وہ ایک معشوق بھی ساتھ رکھتا تھا لیکن پھر بھی میںنے اپنا حق ادا کردیا کہ طبیب کا کام یہی ہے کہ وہ مریض کو مرض کی دواد ے دے مگر وہ دو دن کے بعد آیا اور کہا کہ اتنا ٹھنڈا تیل آپ نے دیا مگر میری کھوپڑی ٹھنڈی ہونے کے بجائے آپ کا تیل ہی گرم ہوگیایعنی میں نے تیل لگایا تو تیل گرم ہوگیا مگر کھوپڑی ٹھنڈی نہ ہوئی۔ میںنے کہا کہ اصل بات بتا دوں۔ کہا کہ بتائیے۔ میں نے کہا کہ وہ جو معشوق ہے اس کو تم چلتا کر دو،ہوائی جہاز پر بٹھلا کر اس کے وطن روانہ کردوورنہ تمہاری جان خطرے میں پڑ جائے گی، عشق مجازی سے تمہارا ہارٹ فیل ہوجائے گایا پاگل ہوجاو گے اور شلوار اتار کے پھرو گے۔ غرض اس نے میری بات مان لی کیونکہ جب جان پر آبنی تو میری بات ماننی پڑی اور معشوق کو روانہ کردیا تو دو دن کے بعد ہنستا ہوا آیاکہ اب بغیر تیل کے کھوپڑی ٹھنڈی ہوگئی پس فَفِرُّوا اِلَی اﷲِ پر جب تک عمل نہیں کرو گے چین نہیں پاوگے۔

کعبہ شریف میں ایک بچہ اپنی ماں سے الگ ہوگیاساری دنیا کی حجنوں نے آسٹریلیا کی حجن اردن کی حجن مصر کی نائجیریا کی الجزائر کی مراکش کی سارے عالم کی ماوں نے اس کو گودمیں لیالیکن وہ چلاتا رہا قریب تھا کہ مرجاتا پولیس نے اس کو اٹھا کر دکھایاکہ کس کا بچہ ہے اس کی کالی کلوٹی ماں نے جیسے ہی گود میں لیا وہ سو گیا۔اس پر میرا شعر ہے

آتی نہیں تھی نیند مجھے اضطراب سے

ان کے کرم نے گود میں لے کر سلا دیا

میں نے اس سے سبق لیا کہ جس طرح سارے عالم کی مائیں سے اسے چین نہ دے سکیں، یاد رکھو سارے معشوق ساری دنیا کی لیلائیں تمہارے قلب کو سکون نہ دیں سکیں گی جب تک اﷲ کی رحمت کی گود تم کو نصیب نہ ہوگی۔ یہ عجیب مرض ہے کہ کتنے لوگوں نے تجربہ بھی کر لیاکہ ساری رات بیداریاںاختر شماریاں بے قراریاں آہ وزایارں کرتے رہے اور ولیم فائیو کھاتے رہے لیکن ان کو چین نہ ملا،اگر وہ توبہ کرکے اﷲ کی طرف نہ آتے تو قریب تھا کہ شلوار اتر جاتی اور پاگل ہوجاتے۔ دنیا میں جتنے پاگل خانے ہیں اُن میں نوے فیصدلیلاوں اور بدنظری اور عشق بازی کے چکروں میں پڑ کر پاگل ہوئے ہیں کیوں کہ آدمی پاگل ہوتا ہے دماغ کی بے اعتدالی سے اور دماغ میں بے اعتدالی پیدا ہوتی ہے نیند کی کمی سے اور نیند میں کمی پیدا ہوتی ہے یبوست اور خشکی سے پھر نیند نہیں آتی۔اس لیے بس ایک ہی راستہ ہے کہ معشوقوں کی محبت سے دست بردار ہوجاو اس میں تکلیف تو بہت ہوگی لیکن پھانسی کے اس تختہ سے گذر کر جلد اﷲ کو پا لو گے اور پھر ایسا چین نصیب ہوگا جو بادشاہوں کو بھی نصیب نہیں

آو دیارِ دار سے ہو کر گذر چلیں

سنتے ہیں اس طرف سے مسافت رہے گی کم

یہ شارٹ کٹ راستہ ہے کہ اپنی حرام خواہشات کا خون کرو،خون تمنا کی عادت ڈال لو پھر دیکھو کہ کیا ملتا ہے

سارے عالم میں یہی اختر کی ہے آہ و فغاں

چند دن خون تمنا سے خدا مل جائے ہے

دیکھو!دوراستے ہیں، ایک راستہ ہر اخلاق رذیلہ کی اصلا ح کا یہ ہے کہ شیخ کو لکھا کہ ہم کو غصہ بہت آتا ہے کچھ دن کے بعد جب وہ قابو میں آیا تو پھر لکھا کہ میرے اندر حسد بہت ہے۔ اس طرح ایک ایک مرض کے علاج میں زمانہ لگ جائے گااور دوسرا راستہ کیا ہے؟ کہ اﷲکی محبت سیکھ لوعشق کی آگ لگا لو سارے اخلاقِ رذیلہ جل کے خاک ہوجائیں گے۔ مولانا رومی رحمة اﷲ علیہ کا شعر ہے

عشق سازد کوہ را مانند ریگ

عشق جوشد بحر را مانند دیگ

عشق پہاڑ کو پیس کر ریت کر دیتا ہے تکبر اور جاہ وپندار اور باہ کا اگر پہاڑ بھی ہوگا تو اﷲ کا عشق سب کو خاک کر دیتا ہے۔ جاہ کا جیم اور باہ کی ب نکل جائے گی اور صرف آہ رہ جائے گی اور عشق سمندر کو اس طرح جوش دیتا ہے جیسے دیگ میں کھانا پکتا ہے، لہٰذا اﷲ کا عشق و محبت سیکھو۔

حکیم الامت کا ایک خاص ارشاد ہے کہ اہل محبت کی صحبت اختیار کرو کیونکہ اہل محبت کبھی اﷲسے بے وفا نہیں ہوتے اور اہل عقل بے وفا ہوگئے اور اہل محبت کے بے وفا نہ ہونے کی دلیل:

﴾مَن یَّرتَدَّ مِنکُم عَن دِینِہ فَسَوفَ یَاتِی اﷲُ بِقَومٍ یُّحِبُّھُم وَ یُحِبُّونَہ﴿

مرتدین کے مقابلے میں اﷲ نے اہل محبت کا طبقہ پیش کیا ہے اور اگر یہ بھی بے وفا ہوجاتے تو مرتدین کے مقابلے میںاﷲ ان کو نہ پیش کرتا مرتدین نے دین اسلام سے بغاوت اور اﷲ سے بے وفائی کی، بے وفاوں کے مقابلے میں بے وفا نہیں پیش کیے جاسکتے۔ اﷲ تعالیٰ کا کلام ہے، بے وفاوں کے مقابلے میں اﷲتعالیٰ نے اہلِ محبت کو پیش کیا کہ اہل محبت میرے وفادار ہوتے ہیں وہ جان دے دیں گے مگر مجھ کو نہیں چھوڑیں گے۔

اہل اﷲ کی محبت

ارشاد فرمایا کہ حضرت حکیم الامت تھانوی رحمة اﷲ علیہ نے کلید ِمثنوی میں یہ شعر لکھا ہے

آہِ من گر اثرے داشتے

یار بکویم گذرے داشتے

اگر میری آہ میں کچھ اثر ہے، اگر میری آہ کچھ اثر رکھتی ہے تو میرا دوست ضرور میری گلی میں آئے گا ۔ اﷲ کا شکر ہے کہ میں اہل درد محبت کو خوب پارہا ہوں اور اہل درد بھی مجھے ڈھونڈ رہے ہیں، الفت کا جب مزہ ہے جب دونوںبے قرار ہوں اور دونوں طرف ہو آگ برابر لگی ہوئی۔ مولانا رومی رحمةا ﷲ علیہ فرماتے ہیں

تشنگاں گر آب جویند از جہاں

آب ہم جوید بہ عالم تشنگاں

پیاسے لوگ اگر جہان میں پانی کو ڈھونڈ رہے ہیں تو پانی بھی اپنے پیاسوں کوتلاش کررہا ہے۔ دیکھو اﷲ والے اپنے عاشقوں سے اپنے طالبین سے اور اپنے احباب سے محبت کرتے ہیں، یہ ہمارے اسلاف کا ورثہ چلا آرہا ہے۔

مولانا یحییٰ صاحب رحمة اﷲ علیہ وعدہ کرکے گئے تھے کہ غروب سے پہلے آجائیں گے، اب مولانا گنگوہی رحمةا ﷲ علیہ بے چینی سے اپنے شاگرد اور مرید کا انتظار کررہے ہیں، اتنے میں سورج ڈوب گیا مولانا یحییٰ نہیں آئے تو قطب العالم مولانا گنگوہی نماز پڑھ کر صحن میں بے چینی سے ٹہلنے لگے کہ آہ! اب تک مولانا یحییٰ کیوں نہیں آیااور یہ شعر پڑھ رہے تھے

او وعدہ فراموش تو مت آئیو اب بھی

جس طرح سے دن گذرا گذر جائے گی شب بھی

یہ تھے ہمارے آبا ، جو یک طرفہ ٹریفک نہیں چلاتے تھے کہ مرید بے چارے مرتے رہیں اور شیخ جی اپنے کام میں لگے رہیں۔

تفسیر حَرِیص عَلَیکُم

آہ! دوستو شیخ پر حَرِیص عَلَیکُم کی شان ہونی چاہیے۔ اﷲ تعالیٰ نے اپنے نبی کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی کہ میرا نبی تم پر حریص ہے مگر کس بات پر حریص ہے یہ بھی سن لو لِاَنَّ الحِرصَ لاَ یَتَعَلَّقُ بِذَوَاتِ الصَّحَابَةِ صحابہ کی ذات پر حریص نہیں ہیں بلکہ حَرِیص عَلٰی اِیمَانِکُم وَصَلاَحِ شَانِکُم یعنی ہمارا نبی اس بات کا حریص ہے کہ تم سب کے سب ایمان لاو اور تمہارے حالات دونوں جہاں میں اچھے ہوجائیں۔ یہ آیت پوری اُمتِ دعوت کے لیے نازل ہوئی یعنی کفار زیادہ تر اس کے مخاطب ہیں کہ اے کافرو میرا نبی تمہارے ایمان کا حریص ہے لیکن جو ایمان لاچکے ان کے ساتھ میرے نبی کا کیا معاملہ ہے؟ بِالمُومِنِینَ رَئُ وف رَّحِیم یعنی صرف ایمان والوں پر آپ کی شانِ رحمت اور رافت ہے اور رافت کو شانِ رحمت پرکیوں مقدم کیا؟ علامہ آلوسی رحمة اﷲ علیہ اس کا جواب دیتے ہیں کہ رافت دفع مضرت ہے کہ میری مسلمان امت کو کوئی نقصان نہ پہنچنے پائے اور رحمت جلب منفعت ہے اور دفع مضرت مقدم ہے جلب منفعت پرجیسے کہ اﷲ تعالیٰ نے لا الٰہ کو مقدم کیا کہ دیکھو اے ایمان والو! حسینوں سے دل مت لگانایہ تمہارے لیے مضر ہیں اس لیے ہم دفع مضرت کو مقدم کررہے ہیں ورنہ تم لیلاوں کے چکر میں پڑ کر مولیٰ سے محروم ہوجاو گے اور لیلائیں تم کو ایک اعشاریہ بھی فائدہ نہیں پہنچا سکتیں، تمہاری نیندیں حرام کردیں گی تمہاری صحت خراب کردیں گی او رخطرہ ہے کہ تم رسوا بھی ہو جاو، اگر ان کو ہینڈل کرتے ہوئے کہیں پکڑے گئے تو تمہاری کھوپڑی پر سینڈل پڑیں گے۔ اﷲ کا شکر ہے کہ میں جہاں بھی جاتا ہوں میرا مضمون یہی رہتا ہے کہ اے دنیا والو بہت مرچکے دنیا پر، اب ذرا تجربہ کرلو کہ میرے اﷲ مولائے کائنات پر مر کر دیکھو تمام لیلائے کائنات تمہاری نگاہوں سے گر جائیں گی، بیوی مستثنیٰ ہے لیکن سڑکوں والی سے بالکل دل مت لگاو۔ ذراد یکھو تو کیا ہے ان کے پاس؟ ان کا فرسٹ فلور تم کو ان کے گراونڈ فلور میں داخل کرے گا لیکن بیوی مستثنیٰ ہے بیوی سے مت کہنا کہ تمہارے گراونڈ فلور سے مجھ کو نفرت ہوگئی، بیویوں سے خوب محبت کرو کہ اﷲ کا حکم ہے اور ان کے پیٹ سے اولاد اولیاءاﷲ پیدا ہوسکتی ہے۔ اس نیت سے ان سے محبت کرو خالی استلذاذاً ان سے تعلق نہ رکھنا چاہیے بلکہ اس نیت سے کہ اﷲ تعالیٰ میری نسل میں کوئی ولی اﷲ پیدا کر دے اور میدانِ قیامت میں میرا بیڑا پار ہوجائے۔ اس لیے دوستو دردِ دل سے کہتا ہوں کہ جتنی محنتوں سے دارالعلوم بناتے ہو جتنی محنتوں سے طلباءکے لباس اور ان کی غذاوں کا فکر کرتے ہو ان کے دل میں اﷲ کا دردِ محبت داخل کرنے کی فکر اس سے بھی زیادہ کرنی چاہیے ورنہ دارالعلوم کا جسم ہوگا روح نہ ہوگی۔ حضرت مولانا شا ہ محمد احمد صاحب رحمةا ﷲ علیہ کا شعر ہے اور مولانا حبیب الرحمن اعظمی رحمة اﷲ علیہ کے دارالعلوم میں حضرت نے یہ شعر پڑھا تھا کہ

دارالعلوم دل کے پگھلنے کا نام ہے

دارالعلوم روح کے جلنے کا نام ہے

اگر اﷲ کے عشق میں دل نہیں تڑپتا بس ضرب یضرب کی گردان لگائے جارہے ہو اور علم کا مقصد تن پروری بنا رکھا ہے حالانکہ اﷲ کی محبت کی آگ میں روح تڑپ جانی چاہیے، جب تڑپو گے تب تڑپاو گے لیکن آجکل لوگ خود نہیں تڑپتے تڑپانا چاہتے ہیں، تو یہ تڑپانا نہیں ہے یہ لوگوں کا مال ہڑپانا ہے یعنی ہڑپ کرنا ہے ان کا نذرانہ اور مال وصول کرنا ہے اور اندر کچھ ہے نہیں، اﷲ کی محبت سے دل خالی ہے تو جو تڑپتا ہے وہ تڑپاتا ہے۔ ایک مبلغ اﷲ والے عالم نے مجھ کو بتایا کہ اﷲ کی طرف بلانالگانا ہے یعنی اﷲکی محبت کی آگ لگاناہے مگر لگا وہی سکتا ہے جس کے لگی ہو۔کیا بات کہی میں دل سے فریفتہ ہوں اس بات پر۔ اس لیے دوستو علمائے کرام طلبائے کرام سے کہتا ہوں پہلے اپنے دل میں لگاو، لگنے کے بعد فکر کرو لگانے کی۔ اپنے لگی نہیں اور لگانے کے لیے بھاگے جارہے ہو۔ آجکل اسی وجہ سے لگ نہیں رہی ہے کیونکہ جس کے خود نہیں لگی وہ دوسروں کو کیا لگائے گا۔ لہٰذا پہلے کسی عاشق حق اﷲ والے سے تعلق قائم کرو دل میں اﷲ کے دردِ محبت کی آگ حاصل کرو۔ دیکھ لو شمس الدین تبریزی کے سینے میں جو غم کی آگ تھی وہ آگ ساڑھے اٹھائیس ہزار اشعار کی صورت میں مولانا رومی کی زبان سے نکلی۔ میرے شیخ فرماتے تھے کہ بانسری خود نہیں بجتی اس کاایک سرا کسی بجانے والے کے منہ میںہوتا ہے، پھر دیکھو اس بانسری سے کیسی آواز نکلتی ہے۔ ایسے ہی ہماری روح میں اﷲ کی محبت کے نغمات موجود ہیں، دردِ دل کی بے شمار امواج ولہریں موجود ہیں لیکن اپنی روح کا ایک سرا کسی اﷲ والے کے منہ میں دے دوپھر دیکھو اﷲ تعالیٰ تمہاری زبان سے اپنی محبت کے کیسے مضامین بیان کراتے ہیں کہ دنیا حیران رہ جائے گی۔ تو آج جو آپ نے اشعار سنے اس میں میرا مقصد حیات ظاہر ہے کہ مجھے پورے عالم میں کچھ آدمی چاہیے خالی آدمی نہیں عاشق بھی ہواور خالی عاشق نہیں بلکہ دردِ دل کا سرچشمہ اور خزانہ اس کی رگ رگ میں ہو اور اس کی ہر سانس اﷲ پر فدا ہو، اس کے جسم کے تما م صوبوں میں کوئی بغاوت نہ ہو، اس کی آنکھیں کان زبان ہاتھ پاوں اس کے قابو میں ہوں اور اپنے اعضاو جوارح سے اﷲ کی نافرمانی نہ ہونے دے، ایسا بندہ مجھے چاہیے جو بجمیع اعضاءہ وبجمیع کمّیاتہ وبجمیع کیفیاتہاﷲتعالیٰ پر فدا ہوجو کماً وکیفاً ایک لمحہ بھی اﷲ کو ناراض نہ کرتا ہو، اگر خطاءکا صدور ہوجائے تو استغفار وتوبہ میں سجدہ گاہ کو آنسووں سے اس قدر تر کر دے کہ فرشتوں میں زلزلہ پیدا ہوجائے کہ یا اﷲ یہ کیسا بندہ ہے جو آپ کی نافرمانی پر اتنا غم زدہ ہے کہ روتے روتے سجدہ گاہ کو تر کر دیا،اس کی آواز گریہ کو ہم لوگ برداشت نہیں کرسکتے۔ ملائکہ سے یہ آواز نکل جائے تب سمجھ لو کہ اﷲ کا عاشق ہے ورنہ یہ کیا ہے کہ نافرمانی وبدنظری کر کے چائے بھی عمدہ پی رہے ہو اور سموسے بھی ٹھونس رہے ہو، کس منہ سے گرین مرچیں اور ٹھنڈا پانی مانگتے ہو، بے غیرت ہے وہ شخص جو اﷲ کی نافرمانی کے بعد استغفار و توبہ سے اپنے رزّاق اﷲ کو خوش نہ کرے اور بغیر توبہ کیے اس کا رزق ٹھونسے۔ میں اﷲ تعالیٰ سے یہ دعا کرتا ہوں کہ مجھ کو کچھ اپنے عاشقوں کی ایک جماعت عطا فرماجو اختر کے دردِ دل کی ترجمانی کے لیے اپنا کان پیش کریں اور کانوں سے وہ درد دل حاصل کریں اور پھر سارے عالم میں وہ میرا ساتھ دیں اور میں ان کا ساتھ دوں۔ اﷲ تعالیٰ غیب سے ایسا خزانہ برسائے کہ سارے عالم میں اختر کی آہ وفغاں اور دردِ دل کے نشر کا شرف عطا ہو اور میری آہ وفغاں کو سارے عالم میں نشر کے لیے اسباب پیدا فرما اور افراد عطا فرمااور الحمد ﷲ میں پا بھی رہا ہوں محدثین اور علماءومفسرین اور شیخ الحدیث بھی اﷲ مجھے دے رہا ہے اور شاعر بھی دے رہا ہے۔ اور آخر میں جملہ مدارس سے گذارش کروں گا کہ اردو کو لازم کرلیں، اردو پڑھنا فرض ہے۔ حکیم الامت کا فتویٰ ہے کیونکہ ہمارے سارے دین کا خزانہ اردو میں ہے اس لیے اردو پڑھنا ضروری ہے۔ اب آپ کے ہاں ہندوستان، بنگلہ دیش، پاکستان کا کوئی عالم آئے گا تو ہمارے نوجوان بچے اردو جانتے ہی نہیں ترجمہ میں وہ بات کہاں ہے ،ترجمے میں کہاں وہ مزہ ہے جو اصل میں ہے

اگرچہ شیخ نے داڑھی بڑھائی سن کی سی

مگر وہ بات کہاں مولوی مدن کی سی

(جاری ہے۔)
Flag Counter