Deobandi Books

ماہنامہ الابرار ستمبر 2009

ہ رسالہ

12 - 13
روزہ کے مسا ئل
ایف جے،وائی(September 13, 2009)

روزہ نہ رکھنے کی چند وجوہات: اوّلاً معلوم ہونا چاہیے کہ روزہ اسلام کے ارکانِ خمسہ میں سے ایک رکن ہے جو فرض عین ہے۔ اس کا منکر کافر اور اس کو ادا نہ کرنے والا فاسق فاجر اور سخت گنہگار ہے۔ البتہ بعض صورتیں ایسی ہیںجن میں روزہ کے خاص مسائل ہیں۔ ذیل میں ان کا ذکر کیا جارہا ہے۔

(۱) مسافر کے لیے روزہ کا حکم: جب سفر کا لفظ بولا جاتا ہے تو فقہی اور شرعی اصطلاح میں اس سفر سے مراد سفر کی شرعی مسافت ہوتی ہے۔ موجودہ زمانہ میں جو کلو میٹر رائج ہے اس کے اعتبار سے ستتر ۷۷کلومیٹر شرعی مسافت ہے۔ اگر کوئی آدمی ۷۷ کلو میٹر یا اس سے زیادہ سفر کا اردہ رکھتا ہے تو وہ مسافر کہلائے گا اور اس سے کم مقدار پر سفر کے لیے نکلتا ہے تو مسافر نہیں ہوگا، اس کے لیے روزہ رکھنا بہرحال ضروری ہوگا، اگر روزہ نہ رکھے گا تو گنہگار ہوگا۔سفر اگر مشقت والا ہے، تکلیف دہ ہے، گرمی کا زمانہ ہے تو ایسی حالت میں حضرات علماءنے لکھا ہے کہ اس سفر میں روزے نہیں رکھے، بعد میں جب گھر پہنچ جائے تو ان کی قضا کرلے۔ البتہ وہ سفر جس میں مشقت اتنی نہ ہو تو ایسی صورت میں روزہ رکھنا ہی افضل ہے اور روزہ رکھنا چاہیے۔

(۲) مریض کے لیے روزہ کا حکم: اگر رمضان میں آدمی بیمار ہوجائے یا اس سے پہلے ہی بیمار چلا آرہا ہے، اور وہ مرض ایسا ہے کہ مسلمان حکیم یا ڈاکٹر یہ مشورہ دیتا ہے یا خود سمجھتاہے کہ میرا اس حالت میں روزہ رکھنا صحیح نہیں ہے، یا تو سرے سے جان ہی جاتی رہے گی یا پھر مرض طویل اور شدید ہوجائے گا تو ایسی صورت میں مریض روزے نہ رکھے، پھر جب اﷲ رب العزت اس کو صحت عطا فرمائیں تو ان روزوں کو پورا کرنا اس پر فرض ہے۔

(۳) حاملہ دودھ پلانے والی عورت کے لیے حکم:جو عورت حمل سے ہے یابچے کو دودھ پلا رہی ہے، اگر وہ یہ سمجھتی ہے کہ روزہ رکھنے کی صورت میں عورت یا بچے کو یا دونوں میں سے کسی ایک کو شدید خطرہ یا طبی نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہے تو ایسی صورت میں اس کے لیے بھی یہی حکم ہے کہ وہ ان دنوں میں روزے نہ رکھے اور بعد میں اس کی قضا کرے۔

(۴) مجبور و مکرہ کا حکم: اگر کسی آدمی پر جبر وتشدد کیا گیا کہ اگر رمضان کا روزہ آپ نے رکھا تو آپ کو جان سے مار ڈالا جائے گا، ایسی دھمکی صرف دھمکی ہی نہیں تھی بلکہ اس میں یقینی بات تھی کہ واقعتا یہ قتل کردیں گے تو ایسی صورت میں اس کے لیے بھی شریعت میں رخصت موجودہے۔

مریض کے احکامات: مرض دو طرح کا ہوتا ہے۔ ایک مرض تو وہ ہے جو وقتی طور پر ہے۔ اس کا حکم یہ ہے کہ مریض صحت مند ہوجانے کے بعد چھوٹ جانے والے روزوں کی قضا کرے گا۔ البتہ بعض مرض ایسے ہوتے ہیں جو طویل المدت ہوتے ہیں یعنی ایک آدمی ایسے مرض میں مبتلا ہے کہ اس کو اس بات کا یقین ہوچلا ہے کہ آخری دم تک یہ مرض رہے گا اور صحت کی کوئی امید باقی نہیں رہی، یا بڑھاپا اس قدر غالب ہوچکا ہے کہ اب موت ہی کی طرف راستہ جارہا ہے، صحت کی طرف دوبارہ آنے کا کوئی امکان نہیں، تو یہ دو آدمی ایسے ہیں کہ روزے قضاءکرنے کا ان کو موقع ہی نہیں ملے گا۔ تو ان کے لیے حضرات فقہاءنے لکھا ہے کہ وہ ان روزوں کا فدیہ ادا کریں۔

روزہ کا فدیہ: ایک روزہ کافدیہ ایک صدقة الفطر کے برابر ہوتا ہے۔ البتہ کرنسی نوٹ کی صورت میں ہر سال قیمت کے کم و بیش ہوجانے کی وجہ سے اس میں کمی زیادتی آتی رہتی ہے۔ اس لیے کسی مستند عالمِ دین سے معلوم کرکے فدیہ ادا کیا جائے۔

خواتین کے احکامات: عورت کو مخصوص ایام میں روزہ رکھنا ممنوع ہے۔ عورت کو مخصوص راستہ سے جو خون آتا ہے وہ تین طرح کا ہوسکتا ہے یا تو وہ حیض کہلائے گا جو ہر بالغہ عورت کو ماہانہ آتا ہے۔ یا نفاس کہلائے گا جو بچے کی ولادت کے بعد آتاہے اور تیسرا وہ خون ہوتا ہے جو نہ بچے کی ولادت کے بعد آرہا ہے اور نہ مخصوص ایام میں آرہا ہے بلکہ ویسے ہی خون کی آمد کا سلسلہ شروع ہوگیا تو اس کو استحاضہ کہا جاتا ہے۔

وہ خون جو مخصوص ایام میں یا بچے کی ولادت کے بعد آرہا ہو تو اس کے دوران عورت کے لیے روزہ رکھنا درست نہیں، اگر رکھے گی تو وہ روزہ صحیح نہیں ہوگا بلکہ ان روزوں کی قضا کرنی ہے، انہیں یاد رکھے اور بعد میں قضا کرے۔ خواہ وہ نفاس کے دن ہوں یا حیض کے ایام ہوں ان کی بعد میں قضا کرے، یہاں تک کہ اگر کسی عورت نے روزہ رکھا ہو ا ہے اور درمیان دن میں یہ عارضہ لاحق ہوگیا تو اس کا روزہ بھی شمار نہیں ہوگا بلکہ ختم ہوجائے گا لہٰذا اس روزہ کو بھی وہ یاد رکھے اور دوسرے روزوں کے ساتھ اس کی بھی قضا کرے۔

تیسرا خون وہ ہوتا ہے جو نہ حیض کا ہوتا ہے اور نہ نفاس کا بلکہ بیماری کی وجہ سے خون شروع ہوجاتا ہے، تو اس کے بارے میں بھی وہ یہ سمجھتی ہیں کہ ہماری پاکی کے ایام نہیں ہیں لہٰذا ہم روزہ نہیں رکھیں گی ، یہ درست نہیں، بلکہ اس خون کا حکم یہ ہے کہ ایسی خاتون روزے بھی رکھے گی اور وضو کرکے نماز بھی پڑھے گی۔

جن صورتوں میں روزہ مکروہ نہیں ہوتا

(۱) ہر قسم کاا نجکشن یا ٹیکہ لگوانا۔ (۲)کسی عُذر سے رگ کے ذریعے گلوکوز چڑھوانا۔ (۳) ضرورت کے وقت خون چڑھوانا (۴)طاقت کا انجکشن لگوانا (۵) ایسی آکسیجن لینا جس میں ادویات کے اجزاءشامل نہ ہوں۔ (۶)کلی کرنے کے بعد منہ کی تری نگلنا (۷)اپنا لعاب دہن جو منہ میں ہو نگل لینا، البتہ اسے منہ میں جمع کرکے نگلنا نہیں چاہیے۔ (۸) ضرورت کے وقت کوئی چیز چکھ کر تھوک دینا (۹) نکسیر پھوٹنا (۰۱) چوٹ وغیرہ کے سبب جسم سے خون نکلنا (۱۱) مرگی کا دورہ پڑجانا (۲۱)حلق میں بلا اختیار دھواں، گردو غبار یا مکھی وغیرہ کا چلا جانا (۳۱)بھول کر کھانا پینا یا بھول کر بیوی سے صحبت یعنی جماع کرنا (۴۱) اگر جماع کا اندیشہ نہ ہو تو بیوی سے بوس و کنار کرنا (۵۱) سوتے ہوئے احتلام (غسل کی حاجت) ہوجانا (۶۱) کان میں پانی ڈالنا یا بے اختیار چلے جانا (۷۱)خود بخود قے آجانا (۸۱) آنکھوں میں دوا یا سرمہ لگانا ، (۹۱) مسواک کرنا (سر یا بدن پر تیل لگانا (۱۲) عطر یا پھولوں کی خوشبو سونگھنا (۲۲) رومال بھگو کر سرپر ڈالنا یا کثرت سے نہانا (۳۲) بچے کو دودھ پلانا (۴۲) پان کی سرخی اور دوا کا ذائقہ منہ سے ختم نہ ہونا (۵۲)دانتوں سے نکلنے والا خون نگل لینا بشرطیکہ وہ لعابِ دہن سے کم ہو اور منہ میں خون کا ذائقہ محسوس نہ ہو۔

روزہ مکروہ کرنے والی چیزیں: مکروہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ کے صحیح ثمرات ، اس کی رحمتیں، اس کی برکتیں، نیز اس کا اجر کامل طور پر حاصل نہیں ہوتا بلکہ اس کے اندر کمی واقع ہوجاتی ہے۔

ٹوتھ پیسٹ اور منجن کا استعمال: روزے کی حالت میں ٹوتھ پیسٹ، منجن، دنداسہ اور کوئلہ وغیرہ سے دانت صف کرنا مکروہ ہے، البتہ مسواک کرنا مکروہ نہیں ہے، خواہ تر مسواک ہو یا خشک ۔

بیوی سے بوس و کنار کرنا: بے اختیار ہوجانے یا انزال ہوجانے کا خطرہ ہو تو بیوی کے ساتھ بوس و کنار کرنا، اس کے ساتھ لیٹنا، یا اس کے ساتھ معانقہ وغیرہ کرنا یہ بھی مکروہ ہے، اس سے احتراز کیا جائے۔

کسی ضرورت سے کوئی چیز منہ میں ڈالنا یا چکھنا: بغیر کسی ضرورت کے کوئی چیز منہ میں ڈال کر اس کو چبانا خواہ وہ مائع ہو یا غیر مائع۔ ضرورت سے کوئی چیز چکھ کر تھوک دینا بھی مکروہ ہے۔

(۳) غیبت کرنا: غیبت کے معنی یہ ہیں کہ کسی مسلمان بھائی کی عدم موجودگی میں دوسروں کے سامنے اس کے بارے میں ایسی بات کرنا کہ اگر اس کو معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص نے یہ بات میرے بارے میں کسی سامنے کی ہے تو اس کو برا معلوم ہو، اس کو غیبت کہتے ہیں۔ اگر روزہ کی حالت میں کسی کے بارے میں اس طرح کی بات کی گئی تو وہ غیبت میں شامل ہوگی اورروزہ ایسی حالت میں مکروہ ہوجاے گا۔

(۴) لڑائی جھگڑا اور گالم گلوچ کرنا: روزہ کی حالت میں لڑائی جھگڑا کرنا جاہلوں کی عادت ہے، اس سے روزہ مکروہ ہوجاتا ہے۔

(۵) لایعنی اور گناہوں میں وقت صرف کرنا: ٹی وی دیکھنا، وی سی آر، ڈش دیکھنا، تاش اور شطرنج وغیرہ کھیلنا، یہ سارے امورایسے ہیں جو خلافِ شرع ہیں اور فی نفسہ ان کا کرنا گناہ ہے۔ روزہ کی حالت میں یہ عمل اور زیادہ ناجائز ہوجاتا ہے اور روزہ بھی مکروہ ہوجاتا ہے۔

روزہ توڑنے والی چیزیں: اب ان مسائل کی فہرست پیش کی جارہی جن سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے اور اس کی قضا واجب ہوتی ہے۔

(۱) روزے میں دانت یا ڈاڑھ نکلوانا: اگر بحالتِ روزہ دانت یا ڈاڑھ نکلوادی اور اس سے خون نکل کر حلق کے اندر چلا گیا ایسی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گااور اس کی قضا واجب ہوجائے گی۔

بعض دفعہ مسوڑھوں میں تکلیف یا بیماری ہوتی ہے اور خون یا پیپ نکلتی ہے یہ بھی اگر نکل کر حلق میں چلی جائے تو ایسی صورت میں روزہ ٹوٹ جائے گا اور اس کی قضاءلازم ہوجائے گی۔ بشرطیکہ خون یا پیپ کی مقدار لعاب دہن کے برابر ہو یا اس سے زیادہ ہونے کاپتا اس طرح چلے گا کہ تھوکا جائے اور دیکھا جاے کہ اس میں خون یا پیپ کا رنگ زیادہ ہے کہ نہیں، یا یہ کہ حلق میں اس کا ذائقہ محسوس ہوتاہے یانہیں۔

(۲) ناک اور کان میں تردواڈالنا: ناک یا کان میں تردوا ڈالنے سے روزہ فاسد ہوجائے گا اور اگر خشک دوا ہے مگر اس کو ایسے طریقے سے استعمال کیا ہے کہ وہ جوفِ دماغ تک پہنچ گئی تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا اور اس کی قضاءلازم ہوجائے گی۔

(۳) کسی چیز کا حلق سے اتار لینا: کوئی ایسی چیز حلق سے اتار لینا جو عادتاً غذا یا دوا کے طور پر استعمال نہ ہوتی ہو ایسی چیز نگلنے سے روزہ فاسد ہوجائے گا اور اس کی صرف قضاءواجب ہوگی کفارہ نہیں۔ مثلاً کسی نے لکڑی کا ٹکڑا یا پتھر وغیرہ نگل لیا۔

(۴) جان بوجھ کر قے کرنا: جان بوجھ کر مثلاً حلق میں انگلیاں ڈال کر الٹی (قے) کرنے سے روزہ فاسد ہوجائے گا اور اس کی قضاءلازم ہوجائے گی۔

(۵) روزہ یا د ہونے کی حالت میں پانی حلق میں چلا جانا: وضو اور غسل کے دوران کلی کرتے ہوئے بغیر اختیار کے پانی حلق میں چلا گیا تو ایسی صورت میں بھی روزہ فاسد ہوجائے گا اور اس کی قضاءلازم آئے گی۔

(۶) سحری و فطاری میں لاپرواہی برتنا: روزہ کی نیت کرلینے کے بعد صبح صادق کے بعد یہ سمجھتے ہوئے کہ ابھی وقت باقی ہے کچھ کھا پی لیا حالانکہ صبح صادق ہوچکی تھی؟ ایسی صورت میں بھی روزہ فاسد ہوجائے گا اور اس کی قضاءلازم آئے گی۔

بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ روزہ رکھ لیا ، کھا پی لیا، لیکن ایک گلاس پانی کا اپنے پاس بھر کر رکھ لیتے ہیں۔ جیسے ہی موذن صاحب اذان شروع کریں گے، فوراً اس پانی کو پی لیں گے، حالانکہ اذان سحری کا وقت ختم ہونے کے بعد دی جاتی ہے۔ اذان ہوتے ہوئے اگر کھا پی لیا تو گویا روزہ کے وقت میں کھا پی لیا۔ ایسا کرنے والے اس گمان میں ہیں کہ روزہ رکھا ہوا ہے حالانکہ ان کا روزہ ٹوٹ گیا اور قضاءلازم ہوگی، اور رمضان کے بعد یہ دوبارہ رکھنا ہوگا۔ اس مسئلے سے بہت لوگ لاعلم ہیں۔ اس لیے اس بات کو خوب سمجھ لیں کہ جب سحری کا وقت ختم ہونے کا اعلان کیا جائے تو کھانا پینا بالکل بند کردینا چاہیے۔ یہ نہیں کہ اس کے بعد بھی کھاتے پیتے رہیں یا اذان کے انتظار میں رہیں کہ ہم حی علی الصلوة تک کچھ کھا پی لیں گے، ایسا کرنا بالکل غلط ہے۔

اسی طرح افطار کے وقت یہ سمجھتے ہوئے کچھ کھا پی لیا کہ سورج غروب ہوچکا ہے آج کل گھڑیاں تو ہیں مگر بعض دفعہ بادل وغیرہ کی وجہ سے ایسی صورت پیش آسکتی ہے تو یہ سمجھ کر کہ غروب ہوگھیا اور کچھ کھا پی لیں بعد میں تحقیق سے معلوم ہوا کہ سورج غروب نہیں ہوا تھا، تو ایسی صورت قضاءلازم ہوجائے گی۔اگر لوبان، عود یا اگربتی وغیرہ کا دھواں قصداً حلق میں چڑھا لیا تو اس سے روزہ فاسد ہوجائے گا اور قضاءلازم ہوجائے گی۔

شدید مجبوری میں روزہ توڑنا: اگر کسی شدید مجبوری یا بیماری کی وجہ سے روزہ توڑ نے کی نوبت آجائے تو اس سے بھی روزہ ہوجائے گا اور اس سے بھی صرف قضاءواجب ہوتی ہے، اس پر کسی قسم کا کوئی کفارہ نہیں آتا۔

کفارہ واجب کرنے والی چیزیں: ذیل میں ان صورتوں کا تذکرہ کیا جارہا ہے جن کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ روزہ ٹوٹ جاتا ہے بلکہ قضاءو کفارہ دونوں لازم ہوتے ہیں۔

(۱) جان بوجھ کر کھا پی لیا: جان بوجھ کر روزہ یا د ہوتے ہوئے کوئی چیز کھا پی لینے سے اس کے ذمہ قضاءو کفارہ دونوں لازم ہوجائیں گے۔

(۲) روزہ کی حالت میں ہمبستری کرنا: بیوی سے ہمبستری کرلی، چاہے مسئلہ معلوم ہو یا نہ ہو دونوں صورتوں میں کفارہ واجب ہوجائے گا اور قضاءبھی لازم ہوگی۔ اگر دونوں روزہ سے ہیں تو دونوں پر قضاءبھی ہے اور کفارہ بھی یہ نہیں کہ دونوں پر ایک ہی کفارہ ہو، اس لےے کہ دونوں الگ الگ مکلف ہیں۔ اگر دونوں میں سے ایک روزہ دار ہے تو صرف اس پر قضاءو کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔

(۳) کسی کا لعاب نگل جانا: بیوی سے بوس و کنار کرتے ہوئے یا بچے کو پیار کرتے ہوئے اس کا لعاب منہ میں لے لیا اور نگل گیا تو نہ صرف یہ کہ روزہ ٹوٹ جائے گا بلکہ قضاءو کفارہ دونوں واجب ہوجائیں گے۔

(۴) سگریٹ اور بیڑی وغیرہ کا استعمال: سگریٹ، حقہ یا بیڑی وغیرہ کا استعمال اگر بحالتِ روزہ کیا گیا تو روزہ فاسد ہوجائے گا اور اس پر بھی قضاءو کفارہ واجب ہوجائے گا۔

(۵) نسوار سے روزہ فاسد ہوجاتا ہے: نسوار کے استعمال سے بھی روزہ فاسد ہوجائے گا اور اس کی قضاءو کفارہ دونوں لازم ہوں گے۔ یہ صورت بھی کھانے پینے کی صورتوں میں داخل ہے۔

روزہ کا کفارہ: روزہ کا کفارہ یہ ہے کہ ایک غلام کو آزاد کیا جائے۔ اگر غلام آزاد کرنے کی استطاعت نہ ہو، یا تو اس وجہ سے کہ غلام تو ہے لیکن اس کے خریدنے کی استطاعت نہیں، تو ایسی صورت میں اس کا متبادل یہ ہے کہ دو ماہ لگاتار روزے رکھے جائیں، ساٹھ دن مسلسل بغیر کسی ناغہ کے روزے رکھے جائیں۔ اگر اس درمیان میں ایک دن کا بھی ناغہ ہوگیا تو دوبارہ دو ماہ روزے رکھنے پڑیںگے۔ اگر روزہ رکھنے کی استطاعت نہ ہو مثلاً کوئی بیمار ہے یا اتنا ضعیف العمر ہے کہ روزہ نہیں رکھ سکتا تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ ساٹھ مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلائے۔
Flag Counter