Deobandi Books

ماہنامہ الابرار ستمبر 2009

ہ رسالہ

6 - 13
ملفوظات حضرت والا ہردوئیؒ
ایف جے،وائی(September 13, 2009)

(گذشتہ سے پیوستہ)

ملفوظ نمبر۵۶۲:

ارشاد فرمایا کہ مریضوں کی صحت کے لیے کم از کم ۱۱ بار الحمدﷲ شریف پڑھ کر پانی پر دم کرکے پلائے اور کثرت سے یہ سورہ فاتحہ پڑھ کر دم کرکے پانی پر پلاتے رہیں۔ جس قدر زیادہ تعداد الحمد شریف کی ہوگی اثر بڑھتا جاوے گا۔ مریضوں کو اس عمل سے بہت جلد حق تعالیٰ کی رحمت سے شفا ہوتی ہے اس کا نام سورہ شفا بھی ہے۔

ملفوظ نمبر۶۶۲:

ارشاد فرمایا کہ ذکر کا نفع جب ہوتا ہے کہ کثیر بھی ہو اور تسلسل بھی ہو جیسے پیاس لگی ہو اور کوئی ایک چمچہ پلادے تو کیا پیاس کو تسکین ہوگی اسی طرح اگر ایک مرتبہ خوب سیر ہوکر پلادیا جاوے اور پھر پانی نہ پلایا جاوے تو کیا وہ عمر بھر کے لیے کافی ہے پس معلوم ہوا ذکر کثیر ہو اور اس کا تسلسل بھی ہو اور ذکر کی تعداد کی کثرت کسی اہل اﷲ سے یعنی اپنے دینی مشیر سے تجویز کرالے۔

ملفوظ نمبر۷۶۲:

ارشاد فرمایا کہ اگر کسی فوجی سے کوئی کہے کہ بھائی کھانے کمانے کی بھی فکر میں لگو تو وہ جواب دیتا ہے کہ ہم کو سرکاری خزانے سے ملے گا۔ اسی طرح جو دین کے خدام ہیں ان کو حق تعالیٰ شانہ کے سرکاری خزانے سے روزی ملتی ہے اخلاص جانبازی اور توکل شرط ہے انشاءاﷲ دیکھئے کیسی روزی ملتی ہے۔

ملفوظ نمبر۸۶۲:

ارشاد فرمایا کہ حضرت تھانویؒ ریلوے کراسنگ پر گردن نکال کر دوسری ریل کی طرف نہ دیکھتے تھے کہ مبادا زنانہ ڈبہ میں کسی عورت پر نظرپڑجائے بجلی کے تار ننگے ہوں اور ان میں بجلی پاور ہاﺅس سے بند ہو پھر بھی احتیاط کرتے ہیں کہ بجلی آتے کتنی دیر لگتی ہے۔ ۰۲ سال کا ڈرائیور بھی ذرا غفلت کرتا ہے تو ایکسیڈنٹ کردیتا ہے۔ حضرت صحابہ کرام رضی اﷲ عنہم کے لیے حکم ہے اذا سئلتمو ہن الخ جب ازواج مطہرات سے بہ ضرورت کوئی بات کرنی ہو تو پردے کے باہر سے بات کریں حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فرمایا کہ اے علی اچانک نظر کے بعد دوسری نظر مت کرنا۔ ایک صحابیؓ نے عرض کیا یارسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم میری نظر عورتوں پر پڑجاتی ہے۔ پس حکم ہوا فامرنی ان اصرف بصری وہ صحابیؓ فرماتے ہیں کہ مجھے حکم ہوا کہ میں اپنی آنکھیں اس طرف سے ہٹالوں۔ مشکوٰة شریف میں حدیث منقول ہے کہ جہاں ایک مرد کسی نامحرم عورت کے ساتھ تنہائی میں جمع ہوتے ہیں تیسرا شیطان وہاں پہنچ جاتا ہے۔

شوہر کے حقیقی بھائی سے پردہ کے لیے دریافت کرنے پر حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ وہ تو موت ہے یعنی اس سے تو نہایت ہی احتیاط ضروری ہے (کیونکہ گھر میں آمدورفت اس کی زیادہ ہوتی ہے اس لیے بہ محل فتنہ کے اعتبار سے زیادہ خطرناک ہے)

حضرت تھانویؒ کے بھانجے مولانا سعید احمد صاحب جب ۱۲ سال کے ہوگئے تو فرمایا کہ سعید احمد تم ۱۲ سال کے ہوگئے بتاﺅ ممانی محرم ہے یا نامحرم پس اسی وقت سے پردہ کرنا شروع کردیا حالانکہ مولانا سعید احمد صاحب جب ڈھائی سال کے تھے اس وقت ان کی والدہ کا انتقال ہوگیا تھا۔ اسی وقت سے ممانی نے پرورش شروع کی تھی۔ مجھ سے ایک صاحب نے سوال کیا کہ کیا پردہ کا حکم قرآن و حدیث میں موجود ہے میں نے کہا کہ ارے بھائی قرآن و حدیث تو بڑی چیز ہے خود فطرت سلیمہ کا تقاضا بھی پردہ شرعی کا حکم دیتا ہے بہت تعجب سے پوچھا وہ کیسے؟

میں نے کہا روٹی کی حفاظت چوہے بلی سے کرتے ہیں، چیل کے خوف سے گوشت چھپا کرلاتے ہیں۔حالانکہ روٹی، گوشت اور نوٹ میں خود ان کے اچکنے والوں کے پاس کھنچ جانے کی صلاحیت نہیں ہے برعکس عورت کے اچکنے والے بھی ہیں اور ان میں خود ان کی طرف کھنچ جانے کا مادہ بھی ہے۔ نیز روٹی اور گوشت اور نوٹ اچکنے والوں سے واپس مل جانے کے بعد بھی قابل استعمال ہے برعکس عورت اغواءہونے کے بعد خاندان بھر کی گردن نیچا کردیتی ہے اور کوئی شریف انسان اس کو نکاح کے لیے قبول کرنے کو تیار نہ ہوگا۔ مردوں کے ساتھ عورتوں کو بھی حکم ہے کہ نامحرم مردوں سے نگاہ نیچی کرلیں۔

ملفوظ نمبر۹۶۲:

ارشاد فرمایا کہ ڈاکٹر شہرزادہ کو جب انجکشن لگاتا ہے تو اپنے کو شہزادہ سے افضل نہیں سمجھتا۔ اسی طرح دین کی بات سنانے والے کو سامعین سے اپنے کو افضل نہ سمجھنا چاہیے ماہر فن کو اکمل سمجھنا جائز مگر افضل سمجھنا حرام ہے کینوکہ فضیلت کا مدار قبولیت عنداﷲ پر ہے جو دنیا میں نہیں معلوم ہوسکتی۔ ہر مومن کی قلب میں عظمت ہو کسی عالم اور شیخ کامل کے لیے بھی جائز نہیں کہ کسی گنہگار مسلمان کو حقیر سمجھے۔ باپ کے اوپر چھوٹا بچہ اگر پیشاب کردے تو کپڑا باپ کا ناپاک سمجھا جائے گا لیکن باپ کی عظمت میں کمی نہ ہو۔ حضرت تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ میں جب کسی پرداروگیر کرتا ہوں تو خود سے اس کو افضل سمجھتا ہوں۔ اسی طرح میں بھی اپنی ماں بہنوں کو اور آپ لوگوں کو اپنے سے افضل سمجھتا ہوں مگر خدائے تعالیٰ کا حکم سنا رہا ہوں۔

ملفوظ نمبر۰۷۲:

ارشاد فرمایا کہ حضرت تھانویؒ نے لکھا ہے کہ کلام پاک کے ۴ حق ہیں (۱) عظمت، (۲) محبت، (۳) تلاوت مع الصحت، (۴)احکام کی متابعت حضرت تھانویؒ فرماتے ہیں حروف قرآن کو غلط پڑھنا یعنی جیسے صاد کو سین پڑھنا یہ لحن جلی کہلاتا ہے جو حرام ہے تھانہ بھون میں بعض محدثین کو بھی نورانی قاعدہ پڑھنا پڑا۔ مکان کے رنگ و روغن کی فکر ہے تاکہ جمال پیدا ہو لیکن قرآن پاک کے جمال کی فکر کیوں نہیں۔ تھانہ بھون میں جمال القرآن کی تعلیم کا سالکین کے لیے اہتمام تھا۔ جہاں ضروریات دین کا اہتمام نہ ہو تو پھر وہاں معارف و دقائق تصوف ان کو کیا نفع دے سکتا ہے۔

ملفوظ نمبر۱۷۲:

ارشاد فرمایا کہ لاوڈ اسپیکر کا استعمال جائز نہیں ہے اس پر اکابر علماءہندوپاک کا اتفاق ہے البتہ اگر اس پر نماز پڑھ لی تو ادا ہوجائے گی لیکن استعمال کا گناہ بھی ہوگا۔ بڑے بڑے اجتماع میں مکبر کا انتظام کیا جاسکتا ہے۔

ملفوظ نمبر۲۷۲:

ارشاد فرمایا کہ ارشاد فرمایا کہ میں مسافر ہوں امامت سے قبل دوچار منٹ دینی باتیں ہوجائیں تاکہ کسی کو شکایت کا موقعہ نہ ہو کہ نماز مسافر سے پڑھانے کے سبب میری جماعت چلی گئی۔

ملفوظ نمبر۳۷۲:

ارشاد فرمایا کہ اظہار حق انبیاءعلیہم السلام پر فرض ہے۔ ہر حال میں خواہ جان بھی چلی جائے لیکن علماءکے لیے گنجائش ہے کہ اگر قتل کا خطرہ ہو سکوت جائز ہے لیکن اظہار حق افضل ہے۔

ملفوظ نمبر۴۷۲:

ارشاد فرمایا کہ حضرت تھانویؒ کی مجلس سہ دری میں حضرت والا کے لیے حضرت خواجہ صاحبؒ نے قالین بچھادی حضرت نے اٹھوادی پھر ارشاد فرمایا اس سے آنے والوں پر ہیبت ہوتی ہے۔ میں اپنے احباب کو بے تکلف رکھنا پسند کرتا ہوں تاکہ ہر عامی بے تکلف دینی استفادہ کرسکے۔

ملفوظ نمبر۵۷۲:

ارشاد فرمایا کہ بزرگوں کی بیماری عوام کے عقائد کی اصلاح کا سبب بنتی ہے تاکہ عقیدت میں غلو نہ ہو۔ بیماری دیکھ کر ان کی عاجزی اور عبدیت کا مشاہدہ ہوجاتا ہے۔

ملفوظ نمبر۶۷۲:

ارشاد فرمایا کہ جس پر مقدمہ دائر ہو وہ یاحفیظ کثرت سے پڑھے اور جو خود کسی پر مقدمہ دائر کرے تو یالطیف کی کثرت کرے۔

ملفوظ نمبر۷۷۲:

ارشاد فرمایا کہ حضرت تھانویؒ فرمایا کرتے تھے کہ دینی مدارس میں انگریزی داخل کرنے سے سخت ضرر کا مشاہدہ ہوا۔ دنیا غالب ہوجاتی ہے دین کے خدام بہت کم پیدا ہوتے ہیں۔

ملفوظ نمبر۸۷۲:

ارشاد فرمایا کہ بدعت کا گندہ پانی نکالنے کا سہل طریقہ یہ ہے کہ سنتوں کی خوب اشاعت کی جائے جب سنت کے صاف پانی کا بہاﺅ آئے گا گندہ پانی خود بخود ختم ہوجائے گا۔

ملفوظ نمبر۹۷۲:

ارشاد فرمایا کہ حضرت تھانویؒ کے ملفوظات کو حضرت خواجہ صاحب من و عن حضرت کے الفاظ کے ساتھ سناتے تھے یہی وجہ تھی کہ بڑے بڑے خلفاءکے اجتماع میں حضرت خواجہ صاحبؒ ہی میر مجلس ہوا کرتے تھے۔

ملفوظ نمبر۰۸۲:

ارشاد فرمایا کہ اپنے بھائی بہن کو دینے سے اگر بیوی کو ناراضگی ہوتی ہو تو بیوی پر ظاہر نہ کرے چھپا کر دینا چاہیے اور یوں کہہ دے کہ کسی کار خیر میں اتنی رقم خرچ کی۔ اس طرح کام بھی چلتا ہے اور بیوی کی دلجوئی بھی رہتی ہے۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter