Deobandi Books

ماہنامہ الابرار ستمبر 2009

ہ رسالہ

5 - 13
ملفوظات حضرت تھانویؒ
ایف جے،وائی(September 13, 2009)

از جدید ملفوظات

(گذشتہ سے پیوستہ)

حضرت حکیم الامت کا سب سے پہلا خواب

فرمایا کہ ایک خواب میں نے بالکل بچپن میں میرٹھ دیکھا تھا (جو سب سے اول خواب ہے اس سے پہلے میں نے کوئی خواب نہیں دیکھا تھا) جس مکان میں ہم رہتے تھے اس کے دہلیز میں میں موجود ہوں شام کا وقت ہے اور وہاں ایک پنجرا رکھا ہوا ہے اور اس میں دو کبوتر ہیں وہ دونوں صاف زبان میں مجھ سے بولے کہ پنجرہ میں روشنی کردو میں نے کہا کہ تم خود ہی کرلو یہ سن کر انہوں نے چونچ کو رگڑا تو یکدم روشنی ہوگئی میں نے اپنے ایک ماموں صاحب سے جو میرے فارسی میں استاد بھی تھے یہ خواب عرض کیا تو فرمایا کہ وہ روح اور نفس تھے ان کی خواہش تھی تم مجاہدہ کرو تم نے انکار کردیا اس لیے اﷲ تعالیٰ تم کو بلامجاہدہ ہی عطا فرمائیں گے اور نور باطن حاصل ہوگا۔ جامع کہتا ہے

ایں سعادت بزور بازو نیست

تانہ بخشد خدائے بخشندہ

اس کے بعد ہمارے حضرت نے فرمایا کہ میں نے تو کچھ کیا نہیں صرف بڑے میاں کی ہی صحبت کو کچھ سمجھ لو باقی نور باطن کا اب تک انتظار ہے نہ معلوم کب حاصل ہوگا تو جامع کہتا ہے

سبحان اﷲ کیا ٹھکانا ہے اس عجز و انکسار کا

اس موقع پر مدعیان بزرگی ذرا گر یبان میں منہ ڈال کر دیکھیں

ببیں تفاوت رہ از کجا ست تابکجا

حضرت حکیم الامت مجدد ملتؒ کی ذکر سے فطری مناسبت

فرمایا کہ رات کو کبھی تو آنکھ کھلتی ہے کبھی نہیں کھلتی جب آنکھ کھل جاتی ہے تو تھوڑا سا ذکر خفی کرکے سوجاتا ہوں ذکر سے مجھ کو ایسا سکون ہوجاتا ہے کہ فوراً نیند آجاتی ہے (جامع کہتا ہے یہ مناسبت بالذکر اور الابذکر اﷲ تطمئن القلوب کی شان ہے جو حضرت والا کے اندر کمال درجہ میں پائی جاتی ہے) ہنس کر فرمایا لوگ ذکر غفلت دور کرنے کے لےے کرتے ہیں مجھے اور زیادہ ہوجاتی ہے۔

ذکر کے وقت نیند کا علاج سوائے نیند کے کچھ نہیں

فرمایا کہ ایک مرتبہ کسی ذاکر نے حضرت مولانا گنگوہیؒ سے عرض کیا کہ ذکر کے وقت نیند آتی ہے فرمایا تکیہ رکھ کر سوجایا کرو ذکر پھر کرلیا کرو نیند کا علاج سوائے سونے کے کچھ نہیں۔

حضرت مولانا شیخ محمدؒ کے وعظ میں اصطلاحات کی کثرت ہوتی تھی

فرمایا کہ مولانا شیخ محمدؒ وعظ میں لغات بہت بولتے تھے اور پھر اس کی تفسیر یعنی سے کرتے تھے ایک مرتبہ مولانا میرٹھ تشریف لے گئے تو ایک شخص کی نسبت دریافت کیا کہ یہ کیا میرٹھ سے ہیں یا احابیش میرٹھ سے ہیں (ہمارے حضرت نے فرمایا) مگر ہم نے اپنے اکثر بزرگوں کو دیکھا ہے کہ لوگ ان کو پہچانتے بھی نہ تھے کہ یہ علماءہیں گفتگو بہت معمولی آدمیوں کی طرح کرتے تھے ہاں تقاریر کے اندر اصطلاحات ضرور بولتے تھے ۔

(وہاں اس کی ضرورت ہوتی تھی جامع)

حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ بلا امتحان طلباءکے نمبر لکھ دیتے تھے

فرمایا کہ ہمارے مولانا محمد یعقوبؒ ماہانہ امتحان نہ لیتے تھے جب مہینہ ختم ہوتا تو پرچہ امتحان کا منگا کر بلا امتحان ہی سب کے نمبر لکھ دیتے ایک طالب علم نے عرض کیا کہ حضرت بلا امتحان ہی نمبر لکھ دیتے ہیں فرمایا مجھے سب کی لیاقت معلوم ہے (مالک اپنے بچھڑے کے دانت خوب جانتا ہے) اور اگر کہو تو لاﺅ سب کا امتحان بھی لے لوں مگر یاد رکھو کہ اس سے کم ہی نمبر آئیں گے مولانا کا رعب بہت تھا سب طالب علم چپ ہی جو ہوگئے۔

حضرت مولانا اسماعیل شہیدؒ نے برجستہ ایک سجع کہہ دیا

فرمایا کہ ایک شخص کا نام محمد کالے تھا وہ اپنا سجع کہلانا چاہتا تھا اکثر نے انکار کردیا کہ محمد صلی اﷲ علیہ وسلم تو گورے تھے کالے کہاں تھے اس میں جوڑ کیسے ملائیں وہ مولانا اسماعیل شہید کے پاس پہونچا تو آپ نے فوراً سجع کہد دیا کہ ( ہر دم نام محمد صلی اﷲ علیہ وسلم کا لے)

حضرت حکیم الامتؒ کو دین اور اہل دین سے محبت کہاں سے ملی؟

فرمایا کہ مولانا محمد یعقوبؒ کی عادت شریف تھی کہ جب کوئی ان کے پاس آکر بیٹھتا تو معارف و حقائق بیان فرمایا کرتے تھے ہمارے حضرت نے فرمایا کہ اﷲ کی شکر ہے بچپن ہی سے ایسوں کے پاس پہنچا دیا دین کی محبت تو مولانا فتح محمد صاحبؒ کی خدمت میں رہ کر ہوئی ان کی صورت دیکھ کر اﷲ کی محبت پیدا ہوتی تھی اور اہل دین سے محبت حضرت مولانا محمد یعقوبؒ کے یہاں پہونچ کر ہوئی۔

حضرت مولانا فتح محمد صاحب کے تحمل و تواضع کا واقعہ

فرمایا کہ ایک مرتبہ گرمیوں کے زمانہ میں کہ اس وقت سخت دھوپ تھی مولانا فتح محمد صاحبؒ جامع مسجد سے باہر تشریف لے جارہے تھے ایک صاحب نے جوتہ لینا چاہا آپ نے تواضع سے عذر کیا اس نے اصرار کیا مولانا نے انکار کیا اور جوتہ مضبوط تھام لیا اور یہ سب قصہ گرم فرش پر ہورہا ہے جب وہ اس طرح کامیاب نہ ہوا اس نے ایک ہاتھ سے مولانا کی کلائی پکڑی اور دوسرے ہاتھ سے زور سے جھٹکا دیا اور آپ کے ہاتھ سے جوتہ چھین لیا اور مسجد کے دروازہ پر لارکھا گویا بڑی خدمت کی حضرت تو خاموش ہوگئے مگر مجھ کو بڑا غصہ آیا اور اس کو لتاڑا۔

حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کے صاحبزادہ مولاناعلاءالدین کی دستار بندی اور انتقال کے واقعات

فرمایا کہ حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کے صاحبزادہ مولوی علاءالدین کا انتقال خاص بقر عید کے روز ہوا ہے نماز سے پہلے ان کی بہت غیر حالت تھی جب نماز کا وقت آیا تو مولانا نے یہ کہہ کر کہ اﷲ کے سپرد اﷲ خاتمہ بخیر کرے نماز میں پہونچ گئے نماز میں دیر نہ کی حالانکہ مولانا کی وجاہت ایسی تھی کہ اگر کتنی ہی دیر فرماتے تب بھی لوگوں کو گراں نہ ہوتا مگر ایسا نہیں کیا وقت پر پہونچے۔

دیوبند میں طاعون کی وباءمیں مولانا محمد یعقوبؒ کے گھر کے ۴۱ افراد فوت ہوگئے

فرمایا کہ جس زمانہ میں دیوبند میں وباءپھیلی ہے تو اس زمانہ وبا میں مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کے گھرانے کے چودہ آدمی مرے تھے۔ مگر مولانا بہت ہی متحمل رہے ذرا تزلزل اپنے اندر نہیں آنے دیا البتہ ایک دفعہ تو وضو کرتے ہوئے میں نے یہ شعر پڑھتے ہوئے سنا تھا کہ آپ ایک خاص شان سے اس کو پڑھ رہے تھے

غیر تسلیم و رضا کو چارہ

درکف شیرنر خونخوارہ

دیوبند میں ہیضہ کی وباءکے بارے میں مولانا محمد یعقوبؒ نے پیش گوئی کی تھی

فرمایا کہ جس زمانہ میں دیوبند میں ہیضہ پھیلا ہے تو اس زمانہ میں حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ نے ایک پیشن گوئی کی تھی اور لوگوں سے یہ فرمایا تھا کہ یہاں ایک وباءآنے والی ہے اگر ہر چیز میں سے صدقات کئے جاویں تو اﷲ تعالیٰ سے امید ہے کہ یہ بلا ٹل جائے بعض اہل دیوبند نے کہا کہ معلوم ہوتا ہے کہ مدرسہ میں کچھ ضرورت ہوگئی ہے اس کی خبر کسی نے مولانا کو کردی تو مولانا کو اس پر غیظ آیا اور فرمایا کہ یعقوب اور یعقوب کی اولاد اور سارا دیوبند اس جملہ کو چند بار تکرار فرمایا اس وقت حاجی محمد عابد صاحبؒ حجرہ کے اندر بیٹھے ہوئے اس کلمہ کو سن رہے تھے وہ گھبرا کر باہر نکلے اور کہنے لگے کہ حضرت کیا فرمارہے ہیں مولانا نے دریافت فرمایا کہ کیا کہا ہے حاجی محمد عابد صاحبؒ نے وہی جملہ سنا دیا کہ یوں فرمارہے تھے مولانا نے فرمایا کہ اب تو یوں ہی ہوگا اس کے بعد اس کثرت سے وباءپھیلی کہ بیس بیس پچیس پچیس جنازوں کی ایک دفعہ نماز ہوتی تھی بس دیوبند خالی ہی ہوگیا جب یہ وباءختم ہوگئی تو آسمان کی طرف دیکھ کر فرمایا کہ میں تو سمجھا تھا میرا بھی وقت آگیا کیا ابھی دیر ہے بس اس کے بعد اپنے وطن نانوتہ پہونچے اور وہیں جاکر مبتلائے مرض ہوکر واصل بحق ہوئے۔

انا ﷲ و انا الیہ راجعون

حضرت مولانا محمد یعقوبؒ کی ایک کرامت بعد وفات ظاہر ہوئی

فرمایا کہ مولانا معین الدین صاحب حضرت مولانا محمد یعقوب صاحبؒ کے سب سے بڑے صاحبزادے تھے وہ حضرت مولانا کی ایک کرامت (جو بعد وفات واقع ہوئی) بیان فرماتے تھے کہ ایک مرتبہ ہمارے نانوتہ میں جاڑہ بخار کی بہت کثرت ہوئی سو جو شخص مولانا کی قبر سے مٹی لے جاکر باندھ لیتا اسے ہی آرام ہوجاتا بس اس کثرت سے مٹی لے گئے کہ جب بھی قبر پر مٹی ڈلواﺅں تب ہی ختم کئی مرتبہ ڈال چکا پریشان ہوکر ایک دفعہ میں نے مولانا کی قبر پر جاکر کہا (یہ صاحبزادہ بہت تیز مزاج تھے) آپ کی تو کرامت ہوئی اور ہماری مصیبت ہوگئی یاد رکھو اگر اب کے کوئی اچھا ہوا تو ہم مٹی نہ ڈالیں گے ایسے ہی پڑے رہیو لوگ جوتہ پہنے تمہارے اوپر ایسے ہی چلیں گے بس اسی دن سے پھر کسی کو آرام نہ ہوا جیسے شہرت آرام کی ہوئی تھی ویسے ہی یہ شہرت ہوگئی کہ اب آرام نہیں ہوتا پھر لوگوں نے مٹی لے جانا بند کردیا۔
Flag Counter