Deobandi Books

ماہنامہ الابرار ستمبر 2009

ہ رسالہ

11 - 13
صراطِ مستقیم
ایف جے،وائی(September 13, 2009)

ملفوظات حضرت پھولپوریؒ مرتب شیخ العرب والعجم عارف باﷲ حضرت مولانا شاہ حکیم محمد اختر صاحب دامت برکاتہم

(گذشتہ سے پیوستہ)

دنیا میں آنے کے بعد ادھر تو روح کے لیے عزیز و اقارب اور پڑوسیوں کی موت اس امر کو مقتضی تھی کہ

جگہ جی لگانے کی دنیا نہیں ہے

یہ عبرت کی جا ہے تماشا نہیں ہے

دوسری طرف جسد عنصری کے تعلق کی وجہ سے نفسانی خواہشات یعنی غضب و شہوت کے تقاضے اپنے اندر محسوس ہوئے اور ان تقاضوں پر عمل کرنے کے صحیح اور غلط دونوں راستے سامنے نظر آئے مثلاً تقاضائے شہوت کی تکمیل کے لیے اپنی بیوی بھی سامنے ہے جو اس کا صحیح مصرف ہے اور غیر محرم عورتوں کا ہجوم بھی سامنے دیکھا جو اس کا غلط مصرف ہے۔

اسی طرح ہر خواہش کے سامنے پاکیزہ اور غیر پاکیز ہ دونوں راستے دیکھ کر روح کو سخت پریشانی اور کشمکش کا سامنا ہوا کیونکہ نفس کا داعیہ شر کی طرف جاذب تھا اور عقل کا داعیہ خیر کی طرف جاذب تھا اور عالمِ ارواح میں روح نے ایسی کش مکش کو نہ تو کبھی دیکھا تھا نہ کبھی سنا تھا۔ اسی طرح دنیا میں بہت سے تعلقات کے حقوق سر پر آپڑے، اﷲ تعالیٰ کے حقوق کا لحاظ الگ ہے، والدین کے حقوق کی الگ فکر ہے بیوی اور بچوں کے حقوق کی الگ فکر ہے،اپنے نفس اور پڑوسیوں کے حقوق الگ سامنے ہیں، دوست احباب کے حقوق الگ پیش نظر ہیں، پھر ان تمام حقوق میں تعارض اور تقابل کے وقت وجہ ترجیح اور وجہ تقدیم و تاخیر کو سمجھنا ایک مستقل مسئلہ سامنے ہے۔ عالم ارواح میں روح کو چونکہ ان مراحل سے کبھی سابقہ نہ پڑا تھا اس لیے روح کو ایک تو سب سے بڑا غم اپنے اصلی وطن یعنی عالم ارواح سے جدائی کا تھا ہی اس پر مزید افکار اور ہموم و غموم حقوق مذکورہ کے رکھ اٹھے۔ ایسی صورت میں روح نے بزبانِ حال حق تعالیٰ سے سوال کیا کہ اے میاں آپ نے ہمیں عالمِ ارواح سے اس عنصری قالب میں محبوس فرما کر ان جھگڑوں میں کیوں بھیج دیا۔ سوال کبھی زبان سے ہوتا ہے اور کبھی زبان تو چپ رہتی ہے لیکن اس کا حال اس کے سوال کی غمازی کرتا ہے۔ ہمارے خواجہ صاحب اسی کو فرماتے ہیں

بے سوالی بھی نہ خالی جائے گی

دل کی بات آنکھوں سے پالی جائے گی

روح کا زبانِ حال سے یہ سوال کرنا عین اقتضاءفطرت ہے کیونکہ جو شے اپنے مرکز سے کٹ کر جدا ہوتی ہے اس کو اضطراب ہونا طبعی امر ہے۔ اسی کو مولانا فرماتے ہیں کہ

ہر کسے کو دور ماند از اصلِ خویش

باز جوید روزگار وصلِ خویش

مولانا فرماتے ہیں کہ یہ قاعدہ کلیّہ ہے کہ جب کوئی شے اپنے اصل اور طبعی مرکز و مستقر سے کسی قسری اور قہری قدرت سے جدا کردی جاتی ہے تو وہ شے پھر اپنے زمانہ وصال کی متلاشی رہتی ہے جس طرح مچھلی اگر جبراً یا اتفاقاً پانی سے باہر آجاتی ہے تو وہ پھر پانی کی طرف عود کرنے کے لیے بے چین اور تڑپتی رہتی ہے۔ اسی طرح روح چونکہ عالم ارواح سے جدا ہوئی ہے اس لیے پھر اسی باغ و بہار کی طالب ہے۔ اب کوئی اعتراض کرسکتا ہے کہ کافر کی روح تو دنیا ہی کے بہار میں رہنا چاہتی ہے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ہر شے کی خاصیت کا ظہور عدم موانع سے مشروط ہوتا ہے پس کفار کی ارواح سے بسبب ان کے کفر اور طغیانی اور سرکشی کے ان کی طبعی اور فطری خاصیت بالکلیّہ باطل ہوجاتی ہے یعنی مسلسل نافرمانیوں کی ظلمتوں سے روح کا وہ نورانی مزاج جو عالمِ ارواح سے منتقل ہونے کے بعد اس میں موجود تھا وہ فاسد ہوکر اپنی فطری خاصیت کا فاقد (یعنی ضائع کرنے والا) ہوجاتا ہے جیسے پائخانہ سونگھتے سونگھتے بھنگی کی ناک کا مزاج بدل جاتا ہے چنانچہ مثنوی شریف میں ایک بھنگی کا واقعہ لکھا ہے کہ وہ اتفاق سے کسی عطار کی دکان سے گذرا اور عطر کی خوشبو سونگھتے ہی وہ بے ہوش ہوگیا۔ لوگوں نے اس پر گلاب چھڑکا اس کی بے ہوشی اور بڑھتی گئی اس کے بھائی کو جب خبر ہوئی تو وہ فوراً سمجھ گیا اور جلد ہی سے تھوڑا سا پائخانہ لاکر اس کی ناک پر رکھ دیا جب بدبو اس کے دماغ کو پہنچی تو فوراً اس کو ہوش آگیا اور اچھا ہوگیا تو معلوم ہوا کہ بدبو سونگھتے سونگھتے اس کی ناک اپنی اصل غذا یعنی خوشبو سے غیر مانوس اور متوحش ہوگئی تھی، اسی طرح کفار دنیا کی چند روزہ ظاہری زندگی کی فانی لذتوں میں مشغول ہوکر اور مسلسل نافرمانیوں میں غرق ہوکر اصل بہارِ آخرت سے غیر مانوس ہوگئے

وہ فریب خوردہ شاہیں جو پلا ہو کر گسوں میں

اسے کیا خبر کہ کیا ہے رہ و رسمِ شاہ بازی

کر گس گِدھ کو کہتے ہیں جو مردار کھاتا ہے۔

اس کے برعکس اولیاءاﷲ کی ارواح طاعات اور تقویٰ کے انوار سے اپنی فطری اور طبعی نورانی مزاج کی محافظ ہی نہیں ہوتیں بلکہ اپنی نورانیت میں ترقی کرکے ملائکہ سے بھی سبقت لے جاتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ صالحین اور متقین بندے ہر وقت موت کے لیے متمنی رہتے ہیں، ان کا میلان ہروقت عالمِ آخرت کی طرف رہتا ہے۔ حضرت رومیؒ فرماتے ہیں

شد صفیر باز جاں در مرج دیں

نعرہائے لا احب الآفلیں

مولانا فرماتے ہیں کہ عارف باﷲ روح کی آواز دنیا میں یہ ہوتی ہے کہ میں فنا ہونے والی چیزوں سے محبت نہیں کرتی۔ موت کو حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ

الموت جسر یوصل

موت ایک پل ہے جو ایک دوست

الحبیب الی الحبیب

کو اپنے دوست سے ملانے والا ہے

اور اس کے برعکس جب یہودیوں نے کہا کہ ہم لوگ اولیاءاﷲ ہیں تو حق تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ

قل یا یہا الذین ہادوا ان زعمتم انکم اولیائﷲ من دون الناس فتمنوا الموت ان کنتم صادقین o ولا یتمنونہ ابد ابماقدمت ایدیہم ط واﷲ علیم بالظالمین o

اے ہمارے رسول صلی اﷲ علیہ وسلم آپ فرمادیجئے کہ اے یہودیو! اگر تمہارا یہ دعویٰ ہے کہ تم بلا شرکت غیر ے اﷲ تعالیٰ کے مقبول ہو تو اگر تم سچے ہو تو موت کی تمنا کردو اور وہ لوگ بوجہ ان اعمال کے جو اپنے ہاتھوں سمیٹے ہیں کبھی اس کی (یعنی موت کی) تمنا نہ کریں گے اور اﷲ کو ان ظالموں کی خوب اطلاع ہے۔

مشاہدہ ہے کہ نافرمانی سے ایک حجاب پیدا ہوجاتا ہے۔ دنیا میں اس کے نمونے موجود ہیں کہ جب کوئی غلام اپنے آقا کے ساتھ بغاوت اور سرکشی کرتا ہے تو پھر وہ آقا کے سامنے آنے سے خائف ہوجاتا ہے ہروقت اس کو یہ فکر دامن گیر ہوتی ہے کہ آقا کے ہاتھ میں اگر آگیا تو سیکڑوں جوتے سر پر برسیں گے۔ یہ خوف تو باغی اور سرکش کو ہوتا ہے اور کبھی فرماں بردار غلام سے بھی کوتاہیاں ہوجاتی ہیں اس صورت میں بھی غلام کو آقا سے حجاب ہوتا ہے لیکن اس خوف کی شان دوسری ہوتی ہے اس خوف میں عفو کی امید بھی شامل رہتی ہے۔ ایسا غلام آقا کے سامنے تو جاتا ہے لیکن غلبہ ندامت سے اس پر سکوت کا عالم طاری رہتا ہے اور لطف اور راز و نیاز کی باتیں کچھ دن کے لیے ملتوی ہوجاتی ہیں یہی حال صدور معصیت کے بعد سالکین کا ہوتا ہے۔ ایک عربی شاعر کہتا ہے

احب مناجاة الحبیب باوجہٍ

ولکن لسان المذنبین کلیلُ

(ترجمہ) میں محبوب کے ساتھ سرگوشی کو بہت سے عنوانات سے محبوب رکھتا ہوں لیکن گنہ گاروں کی زبان نافرمانیوں کے استحضار سے گونگی ہوجاتی ہے۔

یعنی کوتاہیوں کے بعد طاعات اور ذکر و مناجات میں ایک بستگی سی قلب میں محسوس ہونے لگتی ہے اور اتنے ہی سے سالکین پر غم کا پہاڑ ٹوٹ پڑتا ہے جس کو مولانا فرماتے ہیں

بر دلِ سالک ہزاراں غم بود

گرزباغِ دل خلالے کم بود

مولانا فرماتے ہیں کہ سالک پر ہزاروں غم ٹوٹ پڑتے ہیں جب اُن کو اپنے باغ دل میں ایک خلال کی بھی کمی نظر آتی ہے کیونکہ یہ خلال بھی بڑی مشقت سے ہاتھ لگا تھا، مجاہدات کے دریائے خون سے گذرے تھے جب یہ انوار قلب میں پیدا ہوئے تھے

عارفاں زانند ہردم آمنوں

کہ گذر کردند از دریائے خوں

مولانا فرماتے ہیں کہ عارفین ہر وقت امن اور چین میں اس سبب سے ہیں کہ انہوں نے رضائے حق کے لیے دریائے خون سے عبور کیا ہے یعنی نہ جانے کتنی کتنی مشقتیں نفسانی تقاضوں کو روکنے میں جھیلی ہیں اور استقامت علی الاعمال اور دوام ذکر کے لیے کیسی کیسی محنتیں کی ہیں۔

محرمِ ایں ہوش جز بے ہوش نیست

مرزباں رامشتری جزگوش نیست

مولانا رومیؒ فرماتے ہیں کہ یہ ہوش یعنی تعلق مع اﷲ کا غلبہ کس کو نصیب ہوتا ہے جو اس عالم سے بے ہوش ہوجاتا ہے۔ اس بے ہوشی کا یہ مطلب نہیں ہوتا ہے کہ وہ پاگل ہوجاتا ہے بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ وہ تعلقاتِ ضروریہ کی حفاظت اور تعلقات غیر ضروریہ سے انقطاع اختیار کرتا ہے۔

(جاری ہے۔)
Flag Counter