Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1434ھ

ہ رسالہ

9 - 14
بے کسوں کی دست گیری اور اسوہٴ رسولِ رحمت صلی الله علیہ وسلم
مولانا سید احمد ومیض ندوی
 لاکھوں درود وسلام ہوں اس نبی رحمت پر، جو اس دنیا میں بے کسوں، مجبوروں اور مظلوموں کا مسیحا بن کر آئے اور جن کی آمد نے انسانیت کے تنِ مر دہ میں نئی روح پھونکی اور ظلم وجور کے ایوانوں میں زلزلے آئے، آپ کی آمد سے پہلے کمزوروں اور معاشرہ کے خستہ حال افراد کا کوئی پرسان حال نہیں تھا،طاقت وروں کا راج تھا، کمزور مزید کمزور ہوتے جارہے تھے، مظلوم ظلم کی چکی تلے خوب پسے جارہے تھے،معاشرہ کے سارے کمزور طبقات موت وحیات کی کشمکش سے دوچار تھے، خواتین کی حالت زار ناقابل بیان تھی، ان سے حق زندگی بھی چھین لیا جارہا تھا ،شیر خوار بچیاں زندہ درگور کی جارہی تھیں، خاندا ن کے بوڑھوں کا کوئی پرسان حال نہیں تھا، یتیموں کے ساتھ ان کے سر پر ست انتہائی ظالمانہ سلوک رو ا رکھتے تھے ، مسکینوں اورغریبوں کو دھتکاردیا جاتا تھا، ایسی گھٹا ٹوپ تاریکیوں میں فاران کی چوٹیوں سے وہ آفتاب عالم تاب ہوا جس کی ضیا پاشیوں سے ہر انسانی طبقہ مستفید ہوا ، ظلم وجبر کی تاریکیاں چھٹ گئیں، آپ نے اعلان فرمایا: ”ارحموا من فی الارض یرحمکم من فی السماء “(ترمذی 2/58)

تم اہل زمین پر رحم کرو، آسمان والا (خدا) تم پر رحم کر ے گا۔ نیز آپ نے یہ بھی اعلان فرمایا ” اللہ اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا“۔ اتنا ہی نہیں آپ نے اس شخص کو بد بخت قرار دیا جس سے رحمت چھین لی جائے، آپ میں غریبوں سے الفت اور خلق خدا سے شفقت ورحمت اس قدر رچ بس گئی تھی کہ خدا نے آپ کا تعارف ان الفاظ میں فرمایا :﴿لَقَدْ جَاء کُمْ رَسُولٌ مِّنْ أَنفُسِکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْْکُم بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَؤُوفٌ رَّحِیْمٌ﴾ (التوبہ: 128)

تمہارے پاس تم میں سے ایک رسول آئے ہیں، تمہاری پریشانی ان پر گراں گذرتی ہے، وہ تمہارے خیر خواہ ہیں اور رحم کرنے والے ہیں، آپ کو مسکینوں سے اس قدر محبت تھی کہ اکثر آپ یوں دعا فرماتے: ” اللہم احینی مسکینا، وتوفنی مسکینا، واحشرنی فی زمرة المساکین“․

اے اللہ! مجھے مسکین بنا کر زندہ رکھ اور مسکینی میں موت دے اور میرا حشر مساکین کے ساتھ فرما۔ حضرت عائشہ نے جب اس کی وجہ دریافت فرمائی تو فرمایا مساکین اغنیا سے چالیس سال پہلے جنت میں جائیں گے۔ عائشہ! تو مسکین کو کھجور کا ٹکڑا ہی کیوں نہ دے، مگر اسے خالی ہاتھ واپس نہ لوٹا، اے عائشہ  !مسکینوں سے محبت کرتی رہا کر اور انہیں اپنے سے قریب کر، اللہ تعالیٰ قیامت کے دن تجھے قریب رکھے گا۔ (ترمذی 2/58)

ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا تم مجھے اپنے کمزوروں میں تلاش کرو، تمہیں اپنے ضعفا کی بدولت روزی دی جاتی ہے اور تمہاری مدد کی جاتی ہے۔ (ابوداوٴد 1/349)

آپ کی نگاہ میں غرباء اور معاشرہ کے کمزور افراد کی بے پناہ قدر تھی، ایک مرتبہ ایک شخص کو دیکھ کر آپ نے اپنے پاس بیٹھے ایک صاحب سے پوچھا کہ اس شخص کے بارے میں تمہاری کیا رائے ہے؟ ان صاحب نے کہا کہ یہ معزز لوگوں میں سے ہے ، اس لائق ہے کہ اگر وہ نکاح کا پیغام دے تو اسے قبول کیا جائے اور سفارش کرے تو قبول کی جائے، سرکار دو عالم صلی الله علیہ وسلم خاموش رہے ، کچھ دیر بعد ایک غریب آدمی کا گذر ہوا تو اس کے بارے میں ان کی رائے پوچھی تو وہ کہنے لگے ،یہ ایک فقیر مسلمان ہے، جس سے کوئی نہ نکاح کرے گا اور نہ کوئی اس کی سفارش مانے گا اور نہ کوئی اس کی بات سنے گا، اس پر نبی رحمت صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا یہ ایک اُ ن جیسوں سے بھری دنیا سے بہتر ہے۔ (بخاری 2/954)

آپ ہمیشہ غرباء کو اپنے ساتھ رکھتے، قریش کے لوگ غریبوں کے ساتھ آپ کے غیر معمولی رویہ کو دیکھ کر ناراض ہوتے تھے اور کہتے تھے کہ کیاہم میں سے اللہ نے انہی پر احسان کیا ہے ؟ حضرت عبد اللہ بن عمروبن عاص فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ سرکار دوعالم صلی الله علیہ وسلم مسجد میں داخل ہوئے اور فقرا کے ساتھ بیٹھ گئے ، آپ نے انہیں جنت کی بشارت سنائی تو خوشی سے ان کے چہرے کھل اٹھے، حضرت عبد اللہ بن عمر وبن عاص کہتے ہیں کہ مجھے یہ منظر دیکھ کر افسوس ہوا کہ میں اس میں نہ تھا۔(دارمی 2/339)

آپ کے لیے یہ بات ناقابل برداشت تھی کہ کوئی کسی مسکین کوذلیل کرے، ایک مرتبہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے حضرت سعد بن ابی وقاص کو کسی مسکین کو ذلیل کرتے دیکھاتو ان سے کہا کہ جو نیکی اور مدد ان کو حاصل ہوگی وہ انہی فقرا کا نتیجہ ہوگی اور وہ ان مساکین کے ممنون ہوں گے۔ (بخاری 1/405)

بے کس اور تنگ حال لوگوں میں ایک طبقہ یتیموں کا ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم یتیموں کے ساتھ بڑی شفقت فرماتے تھے اور اپنی امت کو یتیموں کے ساتھ حسنِ سلوک کی تاکید فرماتے تھے، ایک موقعہ پر آپ نے فرمایا ”انا وکافل الیتیم کہاتین“ میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا قیامت کے دن اتنے قریب ہوں گے جیسی یہ دو انگلیاں ہیں۔خادموں اور ملازمین کے ساتھ بھی بے حد شفقت فرماتے تھے، حضرت معاویہ بن سوید کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے عہد میں ہم بنی مقرن کے پاس ایک ہی خادمہ تھی، جس کو ہم میں سے کسی نے مارا، جب رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو خبر ہوئی تو آپ نے ان سے فرمایااسے آزاد کردو۔ لوگوں نے بتایا کہ ان کے پاس صرف وہی خادمہ ہے تو آپ نے فرمایا کہ جب تک کام ہے اس سے کام لیں، ورنہ اسے آزاد کردیں۔ (مسلم 2/51)

حضرت ابو مسعود سے روایت ہے کہ میں نے کوڑوں سے اپنے غلام کو مارا تو پیچھے سے ایک آواز سنی، مڑ کر دیکھا تو رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا کہ ابو مسعود! یہ جان لو کہ اللہ تعالیٰ کو تم پر تمہارے غلام سے زیادہ قدرت حاصل ہے۔(صحیح مسلم 2/51)

غلاموں کے بارے میں حسن سلوک کی تاکید کرتے ہوئے فرمایا کہ غلام تمہارے بھائی ہیں، جنہیں اللہ تعالیٰ نے تمہارے ماتحت کردیا ہے تو جس کے پاس غلام بھائی ہو، جو کھائے اس کو کھلائے اور جو پہنے اسے پہنائے اور اس کی سکت سے زیادہ اس سے کام نہ لے اوراگر لے تو اس کی مدد کرے۔ (بخاری2/893)

معاشرہ کا ایک بے بس طبقہ بوڑھوں اور عمر رسیدہ افراد کا ہے، آپ نے ان کے تعلق سے احترام اور اکرام کا حکم دیا اور فرمایا کہ جو بڑوں کا احترام ملحوظ نہ رکھے وہ ہم میں سے نہیں ،ایک روایت میں ہے کہ جو بڑی عمر والوں کے حقوق کو نہ جانے وہ ہم میں سے نہیں ہے۔ (الادب المفرد2/234)

بیوہ خواتین کی بھی آپ خبر گیری فرماتے تھے اور لوگوں کو اس کی ترغیب دیتے تھے، چناں چہ فتح مکہ کے موقع پر حضرت سراقہ بن جعشم سے فرمایا کہ کیا میں تم کو بتلاوٴں کہ سب سے بڑا صدقہ کیا ہے؟ انہوں نے عرض کیا ضرور ارشاد فرمائیں، آپ نے فرمایا تم اپنی اس بیٹی کا خیال رکھو جو تمہارے پاس لوٹا دی گئی ہو اور تمہارے علاوہ کوئی اس کی نگہداشت کرنے والا نہ ہو۔ (الأدب المفرد 2/78)

اسی طرح ایک موقع پر آپ نے فرمایا بیوہ اور مسکین کی نگہداشت کرنے والا (ان کے کام کرنے والا) ایسا ہے جیسے اللہ کے راستہ میں کوئی جہاد کرنا یا ایسا شخص جو دن کے روزے رکھتا ہے اور رات کو عبادت کرتا ہے۔ (الأدب المفرد 2/108)

الغرض بے کسوں، بے بسوں اور خستہ حالوں کی دست گیری رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم  کا وصف خاص تھا ،یہی وجہ ہے کہ جب پہلی وحی کے نزول کے بعد آپ اپنے گھر آئے اور اپنی پریشانی کا اظہار فرمایا تو آپ کی زوجہ محترمہ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا: ”واللہ، لا یخزیک اللہ أبدا، إنک لتصل الرحم، وتحمل الکل، وتقری الضیف، وتعین علی نوائب الحق“ (الله کی قسم !خدا آپ کو ہر گز رسوا نہیں کرے گا، اس لیے کہ آپ صلہ رحمی کرتے ہیں اور کمزوروں کا بوجھ اپنے سر لیتے ہیں ، مہمان نوازی کرتے ہیں…۔ بے کسوں کی دست گیری کرنے والے نبی کی امت کو بھی دنیا بھر کے ضعیفوں، کمزوروں اور معاشرہ کے کچلے ہوئے طبقات کی دست گیری کے لیے آگے بڑھنا چاہیے،ایسے عظیم المرتبت نبی سے نسبت رکھنے والے ہم مسلمانوں کا حال اس قدر گیا گذرا ہے کہ پڑوسی تک کی خبر نہیں لیتے، افرادِ خاندان میں بے شمار لوگ ہمارے تعاون کے محتاج ہیں، لیکن ہم کبھی ان سے ہمدردی کے دو بول تک نہیں بولتے، آج ہمیں اپنے رسول کے اسوہ کو اپنانے کی ضرورت ہے۔الطاف حسین حالی نے کیا خوب کہا #
        وہ نبیوں میں رحمت لقب پانے والا
        مرادیں غریبوں کی برلانے والا
        مصیبت میں غیروں کے کام آنے والا
        وہ اپنے پرائے کا غم کھانے والا
        فقیروں کا ملجا ضعیفوں کا ماویٰ
        یتیموں کا والی غلاموں کا مولیٰ
Flag Counter