Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1434ھ

ہ رسالہ

11 - 14
مولانا علی میاں ،فکرو نظر کے آئینے میں
محترم عارف عزیز (بھوپال)
مفکر اسلام حضرت مولانا سیدابو الحسن علی ندوی کا شمار بجاطور پر ملک اور بیرون ملک کی نام ور مذہبی و علمی شخصیتوں میں ہوتا ہے، وہ بیک وقت مفکر،مدبر، مصنف،محقق ،مورخ ،ادیب ،مصلح ،نباض وقت اور زمانہ شناس تھے ،قدرت نے انہیں جہاں وسعت نظر ، فراست فہم، رسوخ فی العلم کا وافر حصہ عطا کیا تھا ،وہیں اس کو بروئے کار لاکر عہد حاضر کی ضرورتوں وتقاضوں کے مطابق دین و شریعت کو پیش کرنے کا ملکہ وجذبہ بھی خوب بخشا تھا،مولانا نے اپنی زندگی کی طرح فکرو نظر کو بھی کسی ایک خانہ تک محدود نہیں رکھا، یہی وجہ ہے کہ ان کی فکر میں تنوع اور عملی اور زندگی میں ہمہ رنگی ملتی ہے ،قوم ،ملک اور ملت کے لیے جو مفید اور نفع بخش نظر آیا اس کو کہتے سنتے،بولتے اور لکھتے رہے۔

آج ہم میں عالم وفاضل تو بہت ہیں، لیکن علم کے ساتھ اپنی فکر اور اپنا تدبر،مستی کردار ، انکساری و تواضع ،بے نفسی و خند ہ پیشانی،خلوص و بے لوثی اور اپنوں و پرایوں کا درد ہو،انسانیت کے ایسے بے غرض پیامی کی بڑی کمی ہے اور حضرت کا، شاد عظیم آبادی کے الفاظ میں ایسے ہی کم یاب اہل علم میں شمار ہوتا ہے، بلکہ یہ کہا جائے تو زیادہ صحیح ہوگا کہ وہ 20ویں صدی کے ان علمائے عظام میں سے ہیں جن کی نظیر ہم عصروں میں مشکل سے ملا کرتی ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت والا کی زندگی میں بھی بڑی برکت عطا فرمائی تھی،کتابوں کی تصنیف و تالیف ، اداروں کی سر پرستی وسربراہی،مختلف براعظموں کے اسفار، بیرونی مقامی مہمانوں سے ملاقات کے علاوہ ندوة العلماء، مسلم پرسنل لا، رابطہ ادب اسلامی ،رائے بریلی خانقاہ کے علاوہ عوام و خواص کی مجالس سے خطاب، جلسوں اور علمی مباحثوں میں شرکت اور ان میں پوری جرأت ایمانی کے ساتھ حق و صداقت کا ایسا برملا اظہار کہ علمائے سلف کی یاد تازہ ہو جائے اور فراست ایمانی کا وہ مظاہرہ جو اللہ کے مقرب بندوں کا امتیاز رہا ہے اور جس کا ذکر قرآن حکیم کی سورہ توبہ میں داعی و نذیر کی حیثیت سے ہوا ہے۔

اللہ تعالیٰ نے حضرت مولانا کو پوری امت مسلمہ اور عالم انسانیت کے لیے ایک فکر مند دل دے کر پیدا کیا تھا اور زبان بھی ایسی فصیح وبلیغ عطا فرمائی تھی کہ سامع اور قاری اس کی فصاحت و لطافت میں محوہو جاتے تھے ، عربی زبان و بیان پر ان کی قدرت و مہارت کا یہ عالم تھا کہ اہل عرب بھی اس پر رشک کرتے تھے، حالاں کہ اہل زبان بہت کم کسی غیر زبان کی زبان دانی کا اعتراف کرتے ہیں، لیکن حضرت اس عہد کے غالباً وہ واحد عجمی تھے جن کی زبان دانی کو عرب بھی رشک بھری نظروں سے دیکھتے اور سحر زدہ ہوکر سنتے تھے،ان کی زبان کا یہی اعجاز اوراس سے زیادہ اپنی ”فکرونظر“کا برملا اظہار تھا، جس نے شاہ فیصل جیسے حکم راں کو مبہوت کردیا تھا اور وہ ہمہ تن گوش ان کے سامنے کھڑے تھے اور حضرت فرما رہے تھے ۔

”میں سوچ رہا ہوں کہ ہمارے یہا ں بھی ایک بادشاہ گزرا ہے ،آج کے ہندوستان و پاکستان ،سری لنکا، برما،نیپال اور دور تک اس کی حکومت تھی، اس نے اپنے باون سالہ عہد اقتدار میں بیس برس گھوڑے کی پیٹھ پر گزارے ، اس کے دور میں مسلمان آزاد تھے ،خوش حال تھے، ان کے لیے آسانیاں تھی، لیکن بادشاہ کا حال یہ تھا کہ وہ پیوند لگے کپڑے پہنتا تھا،وہ قرآن مجید کی کتابت کر کے اورٹوپیاں سی کر گزر اوقات کرتا ،رات بھر اپنے پروردگار کے حضور میں کھڑا رہتا اور اس کے دربار میں آنسووٴں کا نظرانہ پیش کرتا ،اس وقت مسلمان حکم ران غریب وسادہ تھے اور عوام خوش حال اور آسودہ۔ آج آپ کے محل میں قدم رکھا تواس تقابل میں کھو گیا کہ سب کچھ کتنا بدل گیا ہے؟ آج ہمارے بادشاہ خوش حال ہیں اور دوسری طرف مسلمانوں کا یہ حال ہے کہ وہ بے گھر، بے در ہیں۔“

راوی کابیان ہے جب مولانا علی میاں خاموش ہوئے تو شاہ فیصل کا چہرہ آنسوؤں سے تر ہو چکا تھا اور اتنی شدت سے ان کی ہچکی بندھ گئی تھی کہ محافظ تشویش میں مبتلا ہوکر دوڑ پڑے ،شاہ فیصل نے انہیں ہاتھ کے اشارے سے باہر جانے کا کہا اور مولانا سے مخاظب ہو کر بولے ۔

”وہ بادشاہ اس لیے ایسے تھے کہ انہیں آپ جیسے ناصح میسر تھے، آپ تشریف لاتے رہیں اور ہم جیسے کمزور انسان کو نصیحت کرتے رہیں“۔

حضرت کے اس علمی جاہ و جلال اور مومنانہ فکرو نظر سے ہندوستان کے حکم راں بھی بارہا مرعوب و متاثر ہوئے۔ 1976ء میں اس وقت کی وزیر اعظم اندراگاندھی کو ایمر جنسی کی غلطیوں پر ٹوکنے کا حوصلہ وہی کر سکتے تھے، ”شاہ بانو مقدمہ “ میں سپریم کورٹ کے سیاسی فیصلے کی زد مسلم پر سنل لا پر پڑی تو ضابطہ فوج داری کی دفعہ 125 میں ترمیم کا مسودہ قانون وزیر اعظم راجیو گاندھی کے سپرد کرنے والی اور اس کو پارلیمنٹ سے منظور کرانے کی ضرورت و اہمیت واضح کرنے والی حضرت کی ہی ذات والا صفات تھی ۔حق گوئی اور فراست ایمانی کی ان مثالوں کے علاوہ اپنی کو تاہی سے بے تامل رجوع کرنے اور کھلے دل سے غلطی کا اعتراف کرنے میں بھی حضرت کے ثانی کم ہوں گے، جس کی ایک مثال 1990ء میں وی پی سنگھ کے دورحکومت کا واقعہ ہے ایک صدارتی فرمان کے ذریعہ بابری مسجد اور اس سے ملحقہ تمام اراضی کو بحق سرکار ایکوائر کرنے کی کروائی کی گئی، وی پی سنگھ سے حسن ظن کی وجہ سے حضرت نے اس کی فورا ً تائید کردی لیکن غلطی کا احساس ہوا تو 24گھنٹے کے اندر اس سے رجوع کر لیا۔وی پی سنگھ کو بھی حضرت کی اس مراجعت کے بعد پوری کارروائی کو کالعدم قرار دینا پڑا ۔

کانگریس کی صدر سونیا گاندھی بیماری کے دوران مزاج پُرسی کے لیے حاضر ہوئیں تو آپ نے ان کے سامنے ملک کے جمہوری ڈھانچے ،عدم تشدد،سیکولر اصولوں کو برقرار رکھنے کی ضرورت واضح کی اور ملک و قوم کے استحکام کے لیے انہیں ناگزیر قرار دیا۔وزیر اعظم اٹل بہاری با جپئی عیادت کے لیے گئے تو شدید علالت اور نہایت کمزوری کے باوجود ملک کے حالات پر فکر مندی کا اظہار کیا اور کوئی بات نہیں کی، سوائے اس کے کہ”گاندھی جی، مولانا آزاد ،پنڈت نہرو نے جمہوریت ،عدم تشدد اور سیکولرازم کے جو اصول طے کیے تھے وہ برقرار رہیں، ورنہ ملک تباہ ہو جائے گا“۔ علاوہ ازیں مختلف رہنماؤں ،سیا ست دانوں اور ریاستی وزرائے اعلیٰ کو خطوط لکھنا ،ان سے ملاقات کرنا، اپنے در پر وہ آئیں تو انسانیت کا سبق پڑھنا ، کبھی عام جلسوں اور اجتماعوں میں ان کو سراغ زندگی سمجھاناحضرت کا زندگی بھر معمو ل رہا اور غالبا اس کا آغا ز 1935ء میں اس وقت ہوا، جب آپ کی عمر بمشکل 21 سال تھی اور آپ نے ڈاکٹر امبیڈ کر کو ان کی قیام گاہ بمبئی جا کر اسلام کی دعوت دی ۔اس کی تفصیل حضرت کی خود نوشت سوانح حیات ”کاروان زندگی“میں ملتی ہے اور اس سے آپ کی داعیانہ فکر و نظر کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے۔

دنیا سے بے رغبتی ،اقتدار سے دوری اور سیاست کی آلائشوں سے اپنا دامن بچائے رکھنے کے مخصوص مزاج کی وجہ سے ہی حضرت نے حکم رانوں اور سیاست دانوں سے ایک خاص دوری برقرار رکھی، تاہم دعوت و اصلاح کی ضرورتوں کا جہاں تک تقاضا تھا تو نہ صرف ایسے بااثر لوگوں سے رابطہ قائم کیا، بلکہ ان کی اصلاح کی کوشش بھی کی ،انہیں اسلامی تعلیمات سے متعارف کرایا اور احکام الٰہی کی پیروی پر مائل کیا،یہ کام ایک ایسا عالم اور مفکر ملت ہی انجام دے سکتا تھا جو علمی جمال اور اخلاقی کمال دونوں لحاظ سے بلند مرتبہ پر فائز ہو اور عالم اسلام کے حکم رانوں میں بھی اسے قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہو،حضرت اپنے علم و فضل ، حکمت و تدبر اور عالم اسلام کے عوام و خواص پر اپنے گونا گوں اثرات نیز ذاتی سیرت و کردار کی وجہ سے اس منصب کی ادائیگی کے لیے نہایت موزوں تھے، لہٰذا جب بھی عرب و عجم کے مسلم حکم رانوں سے ملاقات کرتے تو آپ کا مدعا یہی ہوتا کہ وہ بر سر اقتدار رہتے ہوئے امت مسلمہ کی آب یاری اور دین اسلام کی سر سبزی و شادابی کے لیے اپنے اوپر عائد ذمہ داری کو کما حقہ ادا کریں ،حضرت کی اس معتدل فکر و مزاج نے انہیں حکم رانوں اور بااثر سیاست دانوں کے درمیان کا م کرنے میں بڑی مدد کی، عالم اسلام کے سلاطین اور سربراہان مملکت حضرت کو اپنے یہاں مدعو کرنا خوش نصیبی تصورکرتے، جب تشریف لاتے تو ایک محسن کی طرح ان کا استقبال کرتے اور حضرت کے ارشادات کو ہمہ تن گوش ہو کر سنتے، نیز انہیں اپنے مفاد میں اور عوام میں نیک نامی کا ذریعہ سمجھتے ، حکم راں طبقہ میں کام کرنے کی تفصیلات آپ کے خود نوشتہ سوانح ”کاروان زندگی “ میں مزید دیکھی جاسکتی ہے اور اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انہیں حکمت و دانائی کے کتنے اعلیٰ مقام پر فائز کیا تھا؟ کیسی جرأت ایمانی ،اور فہم و بصیرت سے نوازا تھا ، جس نے بھی انہیں بادشاہوں اور حکم رانوں کے دربار میں اسلام یا امت مسلمہ کے ”سفیر“کا لقب دیا وہ کتنا مناسب تھا!!

حضرت گفتار کے ہی نہیں ،کردار کے بھی غازی تھے،علم کے ساتھ ان کے اندر جو مومنانہ بصیر ت تھی اس سے وہ دام ہم رنگ کو پہچان لیتے تھے، جب بھی کوئی زہر میٹھی گولی کی شکل میں ملت کو دیا جاتا تو اس کی بروقت نشان دہی کر کے مستقبل کے خطرات سے آگاہ فرما دیتے تھے،بالخصوص شعائر اسلامیہ اور عقائد دینیہ پر جب بھی ملت کے حریفوں کی طرف سے حملہ ہوتا تو اس کے دفاع میں پہلی فلک شگاف آوازآپ کی بلند ہوتی ،اتر پر دیش کے اسکولوں میں طلباء کے لیے ”وندے ماترم“اور”سر سوتی وندنا“ لازم کیا گیا تو حضرت نے پوری جرأت ایمانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے اس کو مسلمان بچوں کے لیے قبول کرنے سے انکار کر دیا کہ اگر حکومت اپنا فیصلہ واپس نہیں لیتی تو مسلمانوں کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا کہ وہ اپنے بچوں کو سرکاری اسکولوں سے اٹھالیں۔ مولانا کی یہ تنبیہ کسی دنیاوی طاقت کی بنا پر نہیں، بلکہ محض تائید خداوندی پر تھی اور اس کا اثر اتنا ہوا کہ حکومت وقت گھبرا گئی اور فیصلہ کے محرک وزیر تعلیم کو عہدہ سے ہٹایا گیا، نیز ذمہ داران حکومت کو حضرت کی خدمت میں حاضر ہو کر معذرت کرنا پڑی۔

حضرت کی ذات میں فکر و دعوت اور تحریک جیسے گونا گوں عناصر یکجا ہوگئے تھے، انہوں نے جہاں ادب کے میدان میں اپنے قلم کے جوہر دکھائے، وہیں دعوت فکر وعمل کو بھی اپنی مجتہدانہ شان و بصیرت سے نئے نئے زاویے عطا کیے ،مسلم پرسنل لا بورڈ کی نظامت و صدارت مذہبی، و طنی جذبات خیر سگالی کے ساتھ انجام دی،ملت اسلامی میں اسے جو مقام ملا وہ حضرت کی مخلصانہ اور اعتدال پسندانہ کوششوں کا ہی ثمرہ ہے۔ ایک نہایت خطرناک مرحلہ پر بورڈ کو بیجا مذہبی جذبات پسندی سے پوری جرأت کے ساتھ بچالینا کوئی معمولی کام نہ تھا، ورنہ یہ ادارہ ملک کے اندر شریعت اسلامی کی حفاظت کرنے کے قابل نہ رہتا ۔

”تحریک پیام انسانیت “کے ذریعہ بھی حضرت نے برادران وطن کو ایک مہذب اور اچھا شہری بننے ،وسعت نظر اور وسعت قلبی پیدا کرنے اور ہندوستان کی متنوع تہذیب کے ماننے کی دعوت دی، اس تحریک کا مسلمانوں کو میٹھا پھل یہ ملا کہ کئی مرتبہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی کے قیام اور گر م فضا کو معتدل بنانے میں اس سے مدد ملی اور اعلیٰ سطح کے قومی دانش وروں میں اسے بنظر استحسان دیکھا اور سمجھا گیا ۔

حضرت کو ”مفکر اسلام“کا خطاب سب سے پہلے کس نے دیا اور کب دیا؟ اس بارے میں تفصیلات کا علم نہیں، لیکن سچائی یہ ہے کہ اسلام کی ترویج و اشاعت کے لیے اللہ تعالیٰ نے انہیں جو فکر و درد عطا کیا تھا وہ بچا طور پر اس خطاب کا انہیں مستحق قرار دیتا ہے،بقول جسٹس مولانا محمد تقی عثمانی: مفکر ملت کی داعیانہ ”فکر و نظر“کا چہار سو آج اعتراف اس لیے بھی ہوتا ہے کہ آپ نے کبھی راستہ کو منزل نہیں بنایا اور صحیح منزل کی طرف جانے والے ہر راستہ کی کھلے دل سے قدر کی ، اس کے برعکس بہت سی ایسی تحریکات اٹھیں جنہوں نے اپنے بانیوں کے نظریات کو اپنی شناخت قرار دیا اور اس کے نتیجے میں وہ جلد ہی فرقوں کے رنگ میں رنگ گئیں لیکن مفکر ملت نے اپنی دعوت کا محور ہمیشہ ان بنیادوں کو قرار دیا جن پر امت کا اتفاق تھا، اسی لیے ان کی”فکر ونظر “کا ایک جہاں معترف ہے۔ 
Flag Counter