ہندوستان میں تدریس حدیث -فنی اور تاریخی نقطہٴ نظر سے
مولانا اختر امام عادل قاسمی
ہندوستان علماء ومحدثین کی سرزمین ہے ،ہر دور میں یہاں ایسی شخصیتیں موجود رہی ہیں جن کے نفوس قدسیہ سے چمنستان علم کی بہار قائم رہی ہے،اس سلسلے کی سب سے اولین شخصیت جس کا ذکر نہ صرف برکت کے لیے ضروری ہے، بلکہ ایک تاریخی حقیقت کا اظہار بھی ہے ،اور جو نہ صرف ہندوستان بلکہ ساری دنیائے علم کے لیے باعث افتخا رہے۔
ہندوستان میں تدریس حدیث کی اولین شخصیت
میری مراد اس سے حضرت ابوحفص ربیع بن صبیح السعدی البصری (160ھ)کی شخصیت ہے،یہ تبع تابعین اور بلند پایہ محدثین میں گذرے ہیں ،صدوق ،عابد اور مجاہد تھے،ان کے حالات میں لکھاہے کہ(اول من صنف فی الاسلام ) اسلام میں پہلی کتاب آپ نے ہی تصنیف کی ،حضرت حسن بصری اور حضرت عطا ءکے شاگردوں میں ہیں ،اور آپ کے تلامذہ میں حضرت سفیان ثوری ،حضرت وکیع بن الجراح اور ابن مہدی جیسے بلند پایہ محدثین شامل ہیں ،صاحب المغنی کا بیان ہے کہ ان کا انتقال سندھ میں ہوا ،اور اسی مناسبت سے ان کو علماء ہند میں شمار کیا جاتا ہے ،یہ خلفائے عباسیہ کا دور تھااور سندھ کا علاقہ اولین عہد اسلامی میں ہی فتح ہوچکاتھا ،اموی خلیفہ ولید بن عبدالملک کے زمانہ میں محمد بن قاسم الثقفی نے 92 ھ میں سندھ کو فتح کیا اور 95ھ میں اس کی فوجیں حدود سندھ سے نکل کر اقصائے قنوج تک پہنچ گئی تھیں،غالباًاسی ضمن میں یا دعوت وتبلیغ کی غرض سے حضرت ابوحفص ربیع سندھ تشریف لائے اور بالآخر یہ امانت اسی خاک کی آغوش میں مدفون ہوئی ،(ابجد العلوم الوشی المرقوم فی بیان احوال العلوم ،محمد صدیق حسن خان القنوجی (م 1307ھ)ج 3 ص 215،ج 1 ص 344ط دارالکتب العلمیة بیروت 1978ء ،ہدیة العارفین لاسماعیل بن محمد امین بن میر سلیم الیابانی البغدادی (م1399ھ)ج ۱ ص 191)
ہندوستان کے لیے قابل فخر ہے کہ یہ سرزمین حضرت ابوحفص ربیع جیسی عظیم ہستی کی دینی ،علمی اور دعوتی سرگرمیوں کا مرکز بنی اور ان کی برکت سے ہندوستان میں حدیث اور روایت حدیث کابول بالا ہوا اور ہندوستان علماء ومحدثین کا گہوارہ بن گیا ،درس حدیث کی نہ معلوم کتنی درس گاہیں قائم ہوئیں، اور یہ سلسلہ چلتاہوا حضرت شیخ عبدالحق محدث دہلوی اور حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی اور پھر دارالعلوم دیوبندتک پہنچا ،علم وفن کی نئی نئی جہتیں دریافت ہوئیں اور یہ قافلہٴ قدس آج بھی رواں دواں ہے اور اپنے عہد کے لحاظ سے اس کی اہمیت آج بھی اسی طرح قائم ہے، جیسے کہ (کیف وکم کے فرق کے ساتھ )قرون وسطیٰ میں تھی ۔
تدریس حدیث کے تین طریقے
٭...حضرت شاہ ولی اللہ محدث دہلوی جو ہندوستان میں علم حدیث کی نشر واشاعت کے اولین معماروں میں ہیں ،انفاس العارفین میں تحریر فرماتے ہیں :
”باید دانست کہ درس حدیث را نزدیک علمائے حرمین سہ طریق است ،یکے طریق سرد کہ شیخ یا قاری وے تلاوت کتاب کند ،بے تعرض مباحث لغویہ وفقہیہ واسماء رجال وغیر آن، ودیگر طریق بحث وحل کہ بعد تلاوت یک حدیث بر حفظ غریب وترکیب عویص ورسم قلیل الوقوع از اسمائے اسناد وسوال ظاہر الورود، ومسئلہ منصوص علیہا توقف کند، وآں را بہ کلام متوسط حل نماید، وآنگاہ پیش رود، وعلیٰ ہذا القیاس ،وسویم طریقہٴ امعان وتعمق کہ بر ہر کلمہ مالہا وما علیہا ومایتعلق بہا بسیار ذکر کند ،مثلاً در کلمہٴ غریبہ وترکیب عویص ،شواہد آن از کلام شعراء واخوات کلمہ در اشتقاق ومحال استعمال وے ذکر کند ودراسماء رجال احوال ایں قوم وسیرت ایشاں بیان نماید ومسائل فقہیہ را برآں مسئلہٴ منصوص علیہا تخریج نماید وبادنیٰ مناسبت قصص عجیبہ وحکایات غریبہ بگوید۔“ (ص 187)
ترجمہ : معلوم ہونا چاہیے کہ علمائے حرمین کے یہاں حدیث پڑھانے کے تین طریقے ہیں ،ایک طریقہ سرد کہلاتا ہے ،یعنی استاذ یا طالب علم کتاب کو روایتاً پڑھتا چلاجائے اور اس میں لغوی ،فقہی یا فنی مباحث سے تعرض نہ کرے
٭...دوسرا طریقہ بحث وحل کا ہے ،یعنی کسی حدیث کی تلاوت کے بعد جو ضروری مباحث ہیں ،مثلاً کوئی اجنبی یا نادر لفظ یا مشکل ترکیب ہے ،یاسند میں کسی غیر معروف راوی کا نام آگیا،یا کوئی کھلااعتراض مضمون حدیث پر وارد ہو تا ہے ،یا جن مسائل کاحدیث میں صراحتاً ذکر آیا ہے ،ان پر استاذ تھوڑی دیر ٹھہر کر اوسط درجہ کی گفتگو کرے اور ان کو حل کرکے آگے بڑھے ۔
٭...تیسرے طریقہٴ درس کانام امعان وتعمق ہے ،یعنی حدیث کے ہر ہر لفظ کی تمام تفصیلات زیر بحث لائی جائیں ،مثلاً کسی اجنبی لفظ یا مشکل ترکیب کے لیے شعراء کے کلام سے شواہد پیش کئے جائیں ،اس کے مترادفات، مصادر اشتقاق، اور مواقع استعمال پر تفصیلی گفتگو کی جائے ،اسی طرح ایک ایک راوی کے حالات پورے شرح وبسط کے ساتھ پیش کیے جائیں ،کسی مسئلہ فقہی کا ذکر حدیث میں آیا ہوتواس پر قیاس کرکے کچھ اور مسائل فقہیہ کی تخریج کی جائے اور ذرا ذرا سی مناسبت سے واقعات وقصص کا انبار لگادیا جائے“۔
شاہ صاحب کے نزدیک پہلا طریقہ منتہی طلبہ کے لیے ہے اور دوسرا طریقہ مبتدیوں اور متوسط الاستعداد طلبہ کے لیے مفیدہے ،جن کو ابھی مضامین حدیث سے پوری واقفیت نہ ہوئی ہو اور تیسرے طریقہ کے بارے میں ان کی رائے یہ ہے کہ :
”طریقہٴ قصاص است ،کہ قصد ازاں اظہار فضیلت وعلم است ،یا غیر آں۔ واللہ اعلم۔ نہ روایت وتحصیل علم ۔“(حوالہ ٴبالا )
ترجمہ :یہ واعظوں اور قصہ خوانوں کا طریقہ ہے ،اس کا مقصد محض اپنے علم وفضل کا اظہار ہے ،یا اس کے سوا کوئی اور غرض ،یہ روایت حدیث اور تحصیل علم کا طریقہ نہیں ہے ۔واللہ اعلم ۔
شاہ صاحب کے نزدیک رجال کی فنی بحثیں ،فقہی تشقیقات ، مذاہب فقہیہ کی تطبیقات اور روایات کی ترجیح وتطبیق وغیرہ تیسرے طریقہٴ درس (طریقہٴ امعان وتعمق )میں داخل ہیں اور یہ طریقہ عہد سلف میں رائج نہیں تھا۔(حوالہ بالا)
میرا ناقص خیال یہ ہے کہ یہ تیسرا طریقہ جس کا رواج شاہ صاحب نے اپنے دور کے بعض علماء حرمین کے یہاں دیکھا تھا ،یہ متخصصین کے لیے مفیدہوسکتا ہے ،تعلیمی نظام میں تبدیلیوں کے ساتھ جب صلاحیتیں بھی کمزور ہونے لگیں اور علم ومعنی میں تعمق کے بجائے سطحیت اورمادیت کا رجحان بڑھنے لگا تو حقائق دین کے تحفظ کے لیے کم ازکم ایک ایسی جماعت کی تیاری پر توجہ دی گئی جو اپنی صلاحیتیں علم وفن کی گہرائیوں تک پہنچنے میں خرچ کریں اور جن کی زندگی کا نصب العین ہی حقائق واسرار کے لعل وگہر چنناہو ۔
ہندوستان کاقدیم نصاب حدیث
اسلامی ہندوستان کے قدیم نصاب تعلیم میں حدیث کے نام پر عموماً صرف تین کتابوں کا باقاعدہ درس ہوتا تھااور اکثر مباحث حدیث انہی کتابوں کے ضمن میں پڑھادیے جاتے تھے ،مشارق الانوارللصغانی ، المصابیح للبغوی ،یا مشکوٰة المصابیح للخطیب التبریزی (م737ھ) انہی تین کتابوں کے ذریعہ معانی حدیث کی بحث مکمل کی جاتی تھی،اور بالعموم ان تین کتابوں کے بعد فقہی اورفنی مباحث کی ضرورت نہیں رہ جاتی تھی اس کے بعد محض تکمیل سند کامسئلہ رہ جاتا تھا ،اس لیے باقی کتابیں سرداً پڑھائی جاتی تھیں، بعض لوگ اس کے لیے حرمین شریفین تک کا سفر کرتے تھے اور جن کو یہ موقعہ نہیں ملتا تھا ،وہ انہی کتابوں پر اکتفا کرلیتے تھے ،اس لیے کہ اس کوضرورت نہیں صرف فضیلت خیال کیا جاتا تھا …۔
شاہ ولی اللہ کا طریقہٴ درس حدیث
خود حضرت شاہ ولی اللہ دہلوی نے کئی سال کے درس وتدریس کے بعد حرمین شریفین کا سفر کیا اور وہاں کے مشائخ بالخصوص شیخ ابوطاہر سے سرداً صحاح ستہ کا درس لیا ،بقول حضرت شاہ صاحب شیخ ابوطاہر کا طریقہٴ درس سرداً ہی تھا اور اس کا فائدہ یہ لکھتے ہیں کہ :
”تا زود سماع حدیث وسلسلہٴ روایت درست کنند …باقی مباحث بر شروح حوالہ می کردند، زیراکہ ضبط حدیث امروز مدار آں برتببع شروح است“ (انفاس العارفین ص 187)
ترجمہ : تاکہ سماعت حدیث کاکام جلدختم ہوجائے اور سلسلہٴ روایت درست ہوجائے ،…باقی تفصیلی مباحث شروحات کے حوالہ کردیتے تھے ،اس لیے کہ آج کے دور میں ضبط حدیث کا زیادہ تر مدار شروحات حدیث پر ہے ۔
شاہ صاحب حدیث کے فنی اور فقہی مباحث سے پہلے ہی آشنا تھے، اور برسوں انہوں نے ہندوستان میں حدیث کا درس دیا تھا ،اس لیے ان کے لیے اصل مسئلہ فہم حدیث کا نہیں بلکہ روایت حدیث کا تھا ،تاکہ ان کا سلسلہٴ سند درست ہوجائے اور شاہ صاحب کا بڑا کارنامہ یہی ہے کہ ان کی بدولت تمام علمائے ہند کا سلسلہٴ سند درست ہوااور یہ کوئی نئی چیز نہیں ہے ،محدثین کے یہاں قبل سے ہی اخذ حدیث کی آٹھ صورتوں میں سے ایک صورت مناولہ کی رہی ہے ،یعنی شیخ کسی عالم کی صلاحیت وقابلیت پر اعتماد کرکے پڑھائے بغیر اپنی مسموعات ( کتابیہ) کی روایت کی اجازت دے دے ،اصول حدیث کی کتابوں میں اس کی تفصیل موجود ہے ۔
دارالعلوم دیوبند میں تدریس حدیث
حضرت مولانا مناظر احسن گیلانی نے اپنی مشہور کتاب ”ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت “ میں دارالعلوم دیوبند کے طریقہٴ درس حدیث (جو بلاشبہ ولی اللٰہی سلسلے ہی کی ایک اہم شاخ ہے )کے بارے میں ایک جگہ لکھا ہے کہ :
”پچھلے دنوں اخباروں میں ناواقفوں کی طرف سے جب یہ شائع کرایا گیا کہ دیوبند میں بخاری کے چالیس چالیس پچاس پچاس ورق ایک دن میں ہوجاتے ہیں ،حضرت مولانا حسین احمد متع اللہ المسلمین بطول بقائہ پر الزام لگایا گیا ،کہ سال بھر تک وہ سیاسی مشاغل میں منہمک رہتے ہیں اور ختم سال پر اسی طرح کتابوں کا عبور کرادیتے ہیں ،تو درس حدیث کے راز سے جو ناآشنا ہیں انہوں نے تعجب کے ساتھ ان خبروں کو پڑھا ،حالاں کہ ان بیچاروں کو کیا معلوم کہ یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ،حدیث کے پڑھانے کا صحیح طریقہ ہی یہ ہے ،…جو چیز مطالعہ اور مزاولہ سے استاد کی تعلیم کے بغیر آسکتی ہے ،سچی بات تو یہی ہے کہ اس کو پڑھانے کی حاجت کیا ہے ؟(ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت: ص 352 ط مکتبہ الحق بمبئی ،مئی 2007ء)
یعنی یہ چیز قابل طعن نہیں ،قابل تقلید ہے ،تحصیل حاصل بہر حال ایک لغو کام ہے ،اسی طرح خوامخواہ کا اظہار علم بھی علامت کبر ہے، جو منصب حدیث کے شایان نہیں ہے ،نیز اس سے طلبہ کا ذوق تخلیق اور جذبہٴ تحقیق کمزورپڑجاتا ہے ،دل ودماغ کی صلاحیتیں مردہ ہونے لگتی ہیں ،جس کی وجہ سے عبقری صلاحیت کے علماء پیدا نہیں ہوسکتے ۔
قدیم طریقہٴ تعلیم کے نتائج
حضرت مولانا احمد علی محدث سہارن پوری ،حجة الاسلام حضرت مولانا محمد قاسم نانوتوی ،فقیہ العصرحضرت مولانا رشید گنگوہی جیسے علماء اور محدثین اسی قدیم نصاب حدیث کی پیداوار ہیں جن میں مشارق اور مشکوة کو مرکزی حیثیت حاصل تھی ،باقی تمام کتابیں حسب موقعہ سرداً پڑھادی جاتی تھیں ،بعد کے ادوار میں ان جیسے عبقری علماء پیدا نہیں ہوئے ،…یہ اکابر مرکز ولی اللٰہی سے پھر بھی قریب تھے اور اس سے استفادہ بھی کیا تھا ،لیکن مرکز شاہ ولی اللہ سے بہت دور بہار کی سرزمین سے پیدا ہونے والے علامہ شوق احسن نیموی (صاحب آثار السنن )نے درس نظامیہ والی حدیث سے زیادہ اور کوئی چیز اس فن میں استاذ وں سے نہیں پڑھی ،لیکن فن رجال اور تنقید احادیث میں ان کا جو پایہ تھا ،ایک زمانے نے اس کا اعتراف کیا۔
علامہ شوق نیموی
علامہ مناظر احسن گیلانی علامہ شوق نیموی کے بارے میں رقمطراز ہیں :
”آپ کا اسم گرامی مولانا ظہیر احسن اور تخلص شوق # تھا ،حدیث خصوصاً نقد رجال، میں ان کا جو پایہ تھا اس کا اندازہ اسی سے ہوسکتا ہے ،کہ حضرت مولانا انور شاہ کشمیری ان کی دقت نظر کے مداحوں میں تھے ،آپ ”نیمی “بہار میں پیدا ہوئے اور مولانا عبدالحی فرنگی محلی سے درس نظامیہ کی تکمیل کرکے پٹنہ میں مطب کے ساتھ ساتھ تالیف وتصنیف کا کاروبار شروع کیا ،آثار السنن کے چند ابتدائی حصے ملک میں شائع ہوئے کہ سارے ہندوستان میں دھوم مچ گئی ،لیکن افسو س عمر کم پائی ،کتاب ناتمام رہی ،پھر بھی جتنا حصہ شائع ہوچکاہے ،حنفی مدارس میں بعضوں نے اس کو نصاب کا جزو قرار دیا ہے ،یہ کتاب حنفی مکتب خیال کی تائید میں محدثانہ اصول پر مرتب کی گئی ہے، علامہ تھانوی نے اس کا تکملہ بھی کرایا ہے ،مولانا شوق اردو زبان کے بڑے نامور شعراء میں تھے ،جلال لکھنوی سے زبان کے مسئلے میں تحریری مناظرہ بھی کیا تھا ،جس میں مولانا ہی کی جیت ہوئی تھی ،ایک بڑی دردناک مثنوی اردو میں لکھی ہے اور بھی بیسیوں کتابوں کے مصنف ہیں ۔“(ہندوستان میں مسلمانوں کا نظام تعلیم وتربیت ،حاشیہ ص 353) (جاری)