Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1434ھ

ہ رسالہ

2 - 14
دعا کی اہمیت اور احکام
مفتی ثناء الله خان ڈیروی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
وہ خانہ کعبہ کا طواف بڑے اطمینان اور رب کعبہ کی عظمت کے استحضار کے ساتھ کر رہے تھے ، اس وقت او رجتنے لوگ طواف کر رہے تھے، ایسا معلوم ہو رہا تھا ، جیسے وہ سب اس بزرگ ہستی کی جلالت شان سے انتہائی متاثر ہوں ، وقت کا بادشاہ بھی اس جم غفیر میں موجود تھا اور اس بزرگ سے ملاقات ہو جاتی ہے ، حال احوال دریافت کرنے کے بعد بادشاہ گزارش کرتے ہیں کہ حضرت کوئی حاجت ہو تو پوری کردوں؟ وہ بزرگ اپنی نظریں خانہ کعبہ کی طرف اٹھا کر فرماتے ہیں کہ مجھے اس کے مالک سے شرم آتی ہے کہ اس کے گھر میں آکر دوسروں کے سامنے اپنی حاجت پیش کروں۔ بات ختم ہو گئی۔

ایک اور موقع پر کہیں اور ملاقات ہوتی ہے، تو اب بادشاہ اس امید سے کہ اب ہم خانہ کعبہ میں نہیں ہیں یہ بزرگ اپنی حاجت بیان کریں گے ، جس کو پورا کرنا میرے لیے سعادت ہو گی ، گزارش کرتے ہیں کہ حضرت! کوئی حاجت ہو تو پوری کروں؟ اس پر وہ بزرگ فرماتے ہیں کہ آخرت سے متعلق یا دنیا سے متعلق؟ تو بادشاہ کہتے ہیں ، حضرت! آخرت سے متعلق کوئی حاجت پوری کرنا میرے بس میں نہیں ، دنیا سے متعلق۔

تواس بزرگ نے جواب دیا کہ دنیا تو میں نے مخلوق کو پیدا کرنے والے خالق سے کبھی نہیں مانگی ، تو پھر اس کی مخلوق سے کیسے مانگوں؟

ایک اور واقعہ ہے کہ ایک بوڑھے بابا اپنی پیرانہ سالی کی زندگی جنگل میں جھونپڑی بنا کر گزار رہے ہوتے ہیں کہ ایک دفعہ شکار پہ نکلے ہوئے اس ملک کے بادشاہ اپنے ہم راہیوں سے بچھڑ جاتے ہیں او ربھوک ، پیاس کی حالت میں ادھر سے ادھر سرگرداں وپریشان گھوم رہے ہوتے ہیں کہ اچانک ایک جھونپڑی پر نظرپڑتی ہے تو اس کو نعمت غیر مترقبہ خیال کرکے اس طرف روانہ ہو جاتے ہیں او رجھونپڑی میں بوڑھے بابا اور سامان زندگی کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں اور وہ بوڑھا بھی ایسا لگتا ہے جیسے آداب میزبانی سے خوب واقف ہوں، چناں چہ وہ بادشاہ کی خوب خاطر مدارات کرتے ہیں ، اتنے میں بادشاہ کے ساتھی اپنے ُآقا کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔

وقت رخصت میں بادشاہ اس بوڑھے کو پیش کش کرتے ہیں کہ اگر کبھی کوئی حاجت پڑے ، تو میرے پاس آجانا، وقت کی چکی گھومتی رہی کہ اس بوڑھے پر سختی اور تنگی کے دن آگئے، حالات سے پریشان ہو کر اچانک ان کے ذہن میں بادشاہ کی دی ہوئی، پیش کش یا دآ جاتی ہے اور وہ رخت سفر باندھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں ، جب وہ بادشاہ کے دربار میں پہنچتے ہیں تو دربار برخاست ہو چکا ہوتا ہے اور بادشاہ اپنے رب سے راز ونیار میں مصروف ہوتا ہے، وہ بوڑھے بابا دربان کو اپنا حوالہ دے کر آمادہ کرتے ہیں کہ بادشاہ مجھے ضرور شرف بار یابی عطا کریں گے ، آپ بادشاہ کو اطلاع کردیں۔

چناں چہ وہ بوڑھے بابا بادشاہ کے پاس اس حال میں حاضر ہوتے ہیں کہ بادشاہ عبادت سے فارغ ہوجاتے ہیں، تو وہ بوڑھے باباحیرت سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیا کررہے تھے؟ بادشاہ جواب دیتے ہیں کہ اپنے رب سے اپنی حاجت براری کے لیے درخواست کر رہا تھا، تو وہ بوڑھے بابافوراً اٹھ کر بولے کہ بس میری حاجت بھی پوری ہو گئی، جب اس زمین کے بادشاہ بھی اس کے محتاج ہیں اور اس سے اپنی حاجات طلب کرتے ہیں، تو پھر میں عام آدمی ہو کر اس ذات کے علاوہ کسی اور سے حاجت کیوں طلب کروں؟

یہ ایک تیسرا واقعہ ہے کہ ایک شہر میں ایک دفعہ چار طالب علم حصول علم کے لیے ایک جگہ جمع ہو گئے، پہلے زمانے میں اس طرح مدارس کا نظام نہیں تھا، کہ اب تو مہمانان رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو الله تعالیٰ نے رہائش اورکھانے پینے کی ضروریات سے آزاد کر دیا ہے۔

چناں چہ وہ طالب علم دن بھر علم حاصل کرتے اور رات کو اپنے ٹھکانے پہ آکر کچھ خرید کر کھا لیتے ، ایک دن ایسا آیا کہ سب کی جمع پونجی ختم ہو گئی اور فاقوں کو نوبت آگئی، جب کئی دن گزر گئے اور بھوک سے بے جان ہو گئے ، تو ان چاروں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہماری حالت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ہم دوسروں سے سوال کر سکتے ہیں، اس لیے ہم میں سے ایک باہر جاکر کچھ مانگ کرلے آئے ، چناں چہ انہوں نے قرعہ ڈالا اور ایک طالب علم کا نام اس کام کے لیے متعین ہو گیا، جس طالب علم کے نام پر قرعہ نکلا، اس کے لیے یہ بات سوہان روح تھی کہ وہ کسی کے درپہ جاکر سوال کرے ، چناں چہ اس نے یہ ارادہ کیا کہ وہ اپنی اس حالت کا ذکر سب کو رزق دینے والی ذات کے سامنے کرے گا۔

چناں چہ اس نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر الله تعالیٰ سے مانگنے لگا، ادھر یہ طالب علم الله تعالیٰ کے سامنے گریہ وزاری میں مصروف تھا او رادھر الله تعالیٰ نے اس شہر کے بڑے کو خواب میں متنبہ کیا، کہ جاؤ فلاں جگہ میرے محبوب بندے بھوکے ہیں، ان کی حاجت روائی کرو۔

یہ واقعات ان قصوں کی طرح نہیں ، جو دادی اماں بچوں کو بہلانے کے لیے جھوٹ موٹ گھڑ کر سُناتی ہیں ، بلکہ یہ وہ حقیقتہے ، جس کو آج ہمارے فرسودہ ذہن سننے اور ماننے کو تیار نہیں۔

آج ہمیں کوئی مصیبت، پریشانی، یا کوئی ضرورت پیش آجائے، تو سب سے پہلے ہماری نظر دنیاوی اسباب کی طرف جاتی ہے اور دنیاوی اسباب ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں او رجہاں جہاں سے تھوڑی سی امید بھی حاجت پوری ہونے کی ہو، وہاں وہاں گھومتے پھرتے ہیں، دَر دَر کی خاک چھانتے پھرتے ہیں، لیکن ہمارا ذہن اس بات کی طرف نہیں جاتا کہ جس ذات نے اس تکلیف میں مبتلا کیا ہے، کیا میں نے اس ذات کے سامنے اپنی اس تکلیف کو پیش کیا ہے ؟ یا مجھے اس کی ضرورت ہے کہ میں اپنی اس حاجت کو اس ذات کے سامنے پیش کروں ، جن کے پاس زمین وآسمان کے خزانے ہیں ، وہ ایسی قادر ذات ہے کہ اگر حضرت آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے انسان اور جنات سب کے سب ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور سب اپنی اپنی خوہشات کے مطابق الله تعالیٰ سے مانگیں اور الله تعالیٰ ان سب کو ان کی خواہش کے مطابق عطا کر دے، تو اس سے الله تعالیٰ کے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہیں آئے گی، جتنی کے ایک سوئی سمندر میں ڈبو دی جائے اور اس کے ساتھ جو پانی کا قطرہ نکلتا ہے اس سے جو سمندر کے پانی میں کمی واقع ہوتی ہے۔

چناں چہ حدیث قدسی ہے:”یا عبادی، لو ان اولکم وآخرکم وانسکم وجنکم اجتمعوا فی صعید واحد، فسألوني واعطیت کل انسان منھم ما سال لم ینقص ذلک من ملکی شیئا الا کما ینقص البحر ان یغمس فیہ المخیط غمسة واحدة․ (المستدرک للحاکم ، کتاب التوبة والإنابة، رقم الحدیث:7606،269/4، دارالکتب)

لیکن آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم دنیاوی اسباب ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور دعا کرنے، الله تعالیٰ سے مانگنے کی سوچ اور فکر نہیں ہوتی اور اگر دعا کرتے بھی ہیں، تو بس ذرا نام کو ہاتھ اٹھا لیتے ہیں، نہ دل حاضر ، نہ آداب کا خیال، ہاتھ اٹھائے اور منھ پر پھیرلیے، یہ بھی پتہ نہیں کہ زبان سے کیا کلمات نکلے اور کیا دعا مانگی؟!

اور دنیا میں کسی دوسرے آدمی کے سامنے انسان اپنی حاجت پیش کرے تو بہت کم ایسے ہوتے ہیں، جو انسان کی عزت نفس کو مجروح کیے بغیر حاجت پوری کر دیتے ہوں اور اگر ایک دفعہ پوری کردیں، تو دوسری یا تیسری بار انکار کر دیتے ہیں اور تنگ آجاتے ہیں۔

لیکن قربان جائیے اس رحیم وکریم ذات کے کہ نہ صرف یہ کہ مانگنے سے تنگ نہیں ہوتے ، بلکہ خوش ہوتے ہیں اور نہ مانگنے والوں سے ناراض ہوتے ہیں۔ چناں چہ قرآن کریم کی آیت ہے:﴿وقال ربکم ادعونی استجب لکم إن الذین یستکبرون عن عبادتی سیدخلون جھنم داخرین﴾․ (سورة المومن:60)

اور تمہارے رب نے فرمادیا ہے کہ تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بلاشبہ جو میری عبادت (دعا) سے تکبر کرتے ہیں، عنقریب بحالت ذلت جہنم میں داخل ہوں گے۔

اس آیت کریمہ میں الله تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، یہ الله تعالیٰ کا بہت بڑا انعام اور احسان ہے کہ بندوں کو اپنی ذات عالی سے مانگنے کی اجازت دے دی اور پھر قبول کرنے کا وعدہ بھی فرمالیا۔

دعا کی قبولیت کا وعدہ اس امت کی خصوصیت
اس آیت کی تفسیر میں علامہ قرطبی رحمہ الله تعالیٰ نے حضرت کعب احبار رضی الله عنہ کی روایت ذکر کی ہے کہ اس امت کو تین چیزیں ایسی عطا کی گئی ہیں، جو پچھلی امتوں کو نہیں دی گئی تھیں، صرف انبیاء کو دی گئی تھیں۔

ان میں سے ایک یہ کہ الله تعالیٰ نبی سے فرماتے تھے ، ادعنی استجب لکم مجھ سے دعا مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، لیکن اس امت کو الله تعالیٰ نے ارشاد فرمایا:﴿ادعونی استجب لکم﴾ یعنی اے امت محمدیہ! مجھ سے دعا مانگو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا۔ (الجامع لأحکام القرآن للقرطبی، سورة غافر:210/8,60 دار إحیاء التراث العربی، کنز العمال، کتاب الفضائل، فضائل ہذہ الأمة المرحومة، رقم الحدیث:34525،78/12، دارالکتب)

دعا عبادت کا مغز ہے
یہی نہیں کہ دعا صرف عبادت ہے، بلکہ عبادت کا مغز ہے، چناں چہ حضرت انس رضی الله عنہ کی روایت ہے، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:

”الدعاء مخ العبادة“۔ یعنی دعا عبادت کا مغز ہے۔(سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب منہ الدعاء مخ العبادة، رقم الحدیث:3371)

چھلکے کے اندر جواصل چیز ہوتی ہے ، اسے مغز کہتے ہیں اور اسی مغز اور گری کے دام اور قیمت ہوتی ہے۔

عبادتیں بہت سی ہیں اور دعا بھی ایک عبادت ہے ، لیکن یہ ایک بہت بڑی عبادت ہے ، عبادت ہی نہیں، عبادت کا مغز ہے اور اصل عبادت ہے۔

کیوں کہ عبادت کی حقیقت یہ ہے کہ الله جل شانہ کے حضور میں بندہ اپنی عاجزی اور ذلت پیش کرے اور خشوع وخضوع یعنی ظاہر وباطن کے جھکاؤ کے ساتھ بارگاہ بے نیاز میں پوری نیاز مندی کے ساتھ حاضر ہو اور چوں کہ یہ عاجزی والی حضوری دعا میں سب عبادتوں سے زیادہ پائی جاتی ہے، اس لیے دعا کو عین عبادت اور عبادت کا مغز فرمایا۔

دعا کرتے وقت بندہ اپنی عاجزی اور حاجت مندی کا اقرار کرتا ہے اور سراپا نیاز ہو کر بارگاہ خداوندی میں اپنی حاجت پیش کرتا ہے اور یقین رکھتا ہے کہ صرف الله ہی دینے والا ہے ، وہ قادر ہے کریم ہے وہ بے نیاز ہے اور مخلوق سراسر عاجز او رمحتاج ہے ، جب اپنے اس یقین کے ساتھ قادر قیوم کی بارگاہ میں ہاتھ پھیلا کر سوال کرتا ہے، تو اس کا یہ شغل سراپا عبادت بن جاتا ہے اور یہ دعا الله تعالیٰ کی خوش نودی اور ضا مندی کا سبب بن جاتی ہے۔

اس کے برعکس جو شخص دعا سے گریز کرتا ہے وہ اپنی حاجت مندی کے اقرار کو خلاف شان سمجھتا ہے، چوں کہ اس کے اس طرز عمل میں تکبر ہے اور اپنی بے نیازی کا دعوی ہے ، اس لیے الله جل شانہ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔

الله تعالیٰ کے نزدیک سب سے بزرگ وبرتر چیز
دعا کا الله تعالیٰ کے ہاں کیا مقام اور مرتبہ ہے ا س کا اندازہ اس حدیث سے ہوتا ہے کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ”لیس شيء أکرم علی الله من الدعاء“․

یعنی الله تعالیٰ کے نزدیک دعاسے بڑھ کر کوئی چیز بزرگ وبرتر نہیں۔ (سنن الترمذی ، ابواب الدعوات، باب ماجاء فی فضل الدعاء ،رقم الحدیث:3370)

دعا نہ کرنے والے سے الله تعالیٰ ناراض ہو جاتے ہیں
نہ صرف یہ کہ الله تعالیٰ دعا مانگنے سے خوش ہوتے ہیں ، بلکہ جو اس سے نہ مانگے، اس سے ناراض ہو جاتے ہیں۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” من لا یسئل الله یغضب علیہ“․

جو شخص الله تعالیٰ سے سوال نہیں کرتا، الله تعالیٰ اس سے ناراض ہو جاتے ہیں ۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب منہ من لم یسئل الله یغضب علیہ ، رقم الحدیث:3373)

دعا کرتے ہوئے کوئی شخص ہلاک نہ ہو گا
انسان اپنی بھلائی اور بہتری کے لیے جتنی تدیبریں کرتا ہے اور دکھ تکلیف اور نقصان وضرر سے بچنے کے لیے جتنے طریقے سوچتا ہے ان میں سب سے زیادہ کام یاب اور آسان اور مؤثر طریقہ دعا کرنا ہے۔

نہ ہاتھ پاؤں کی محنت، نہ مال کا خرچہ، بس دل کو حاضرکرکے دعا کر لی جائے غریب امیر ، بیمار، صحت مند، مسافر، مقیم، بوڑھا، جوان، مرد عورت، مجمع ہو یا تنہا ہو ، ہر شخص دعا کرسکتا ہے۔

چناں چہ حضرت انس رضی الله عنہ کی روایت ہے :” لا تعجزوا في الدّعاء، فإنہ لن یھلک مع الدعاء“․

دعا کے بارے میں عاجز نہ بنو، کیوں کہ دعا کے ساتھ ہوتے ہوئے ہر گز کوئی شخص ہلاک نہ ہو گا۔ (الترغیب والترہیب، کتاب الذکر والدعاء، باب کثرة الدعاء وما جاء فی فضلہ،479/2، دارإحیاء التراث العربی)

انسان ہر حاجت الله تعالیٰ سے مانگے
انسان کو کوئی بھی ضرورت وحاجت پیش ہو ، چھوٹی ہو یا بڑی ہو ، الله تعالیٰ سے مانگے، عموماً جب کوئی بڑی ضرورت، حاجت یا تکلیف پیش آتی ہے، تو اس میں دعا کی طرف متوجہ ہوتے ہیں ، لیکن چھوٹی چیزوں میں اس طرف دھیان نہیں جاتا، حالاں کہ ہر ضرورت انسان الله تعالیٰ سے مانگے۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:” لیسأل احدکم ربہ حاجتہ کلھا حتی یسأل شسع نعلہ إذا انقطع“․

چاہیے کہ تم میں سے ہر ایک اپنے پروردگار سے اپنی تمام حاجتیں مانگے یہاں تک کہ اگرچپل کا تسمہ ٹوٹ جائے تو وہ بھی الله تعالیٰ سے مانگے۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب یسأل احدکم ربہ حاجتہ کلھا، رقم الحدیث:3604)

شراح حدیث اس حدیث شریف کی تشریح میں فرماتے ہیں کہ امور دو قسم کے ہیں : عادی غیر عادی

عادی: جیسے کسی سے پانی مانگنا یا اور چھوٹے موٹے کام، جو روز مرہ کی زندگی میں انسان دوسرے کو کہہ دیتا ہے ۔

غیر عادی: جیسے اولاد مانگنا وغیرہ۔

پہلی قسم کے امور میں غیر الله سے استعانت جائز ہے، حدیث میں ہے : ”إن الله في عون العبد ما کان العبد فی عون اخیہ“․

یعنی الله تعالیٰ بندے کی مدد میں رہتے ہیں جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد کرتا ہے۔

اور دوسری قسم کے امو رمیں غیر الله سے استعانت جائز نہیں، پھر جن امور میں غیر الله سے استعانت(مدد طلب کرنا) جائز ہے، اس کی بھی دو صورتیں ہیں: حقیقی استعانت، مجازی استعانت۔

حقیقی استعانت: یعنی کسی کو مختار سمجھ کر مدد مانگنا، یہ قطعاً جائز نہیں۔

کیو ں کہ الله تعالیٰ کے سوا کوئی کسی چیز کا اختیار نہیں رکھتا۔

مجازی استعانت: کسی کو غیر مختار سمجھ کر مدد مانگنا یہ جائز ہے، رہی یہ بات کہ جو استعانت جائز ہے وہ بھی کرنی چاہیے یا نہیں ؟ اس حدیث میں اس کا بیان ہے کہ اپنی تمام حاجتیں الله تعالیٰ سے مانگو، کسی سے حاجتیں مانگ کر اس کے ممنون احسان مت بنو ، آپ صلی الله علیہ وسلم نے چند صحابہ کرام رضی الله عنہم سے اس شرط پر بیعت لی تھی کہ وہ کسی سے کچھ نہیں مانگیں گے ، چناں چہ ان کا کوڑا گر جاتا تھا تو وہ بھی کسی سے نہیں مانگتے تھے، خود گھوڑے سے اتر کر لیتے تھے۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب الزکوٰة، باب کراہیہ المسألة، رقم الحدیث:1837)

مسلمانوں کی دعا ضرورقبول ہوتی ہے
ایک ہے دعا کا قبول ہونا اور دوسرا ہے مانگی ہوئی چیز کامل جانا، کچھ لوگ ناواقفیت سے دونوں کو ایک سمجھتے ہیں ، انہوں نے جو کچھ مانگا ہے وہ مل جاتا ہے تو سمجھتے ہیں کہ دعا قبول ہوئی، ورنہ سمجھتے ہیں کہ دعا قبول نہیں ہوئی ، یہ بڑی غلط فہمی ہے، مسلمان کی کوئی دعا رد نہیں کی جاتی، اس کی ہر دعا قبول کر لی جاتی ہے ، شرط یہ ہے کہ اس نے کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کی ہو ۔

چناں چہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:” ما من مسلم یدعو بدعوة لیس فیھا اثم ولا قطیعة رحم إلا اعطاہ الله بھا إحدی ثلاث إما ان تجعل لہ دعوتہ، وإما ان یدخرھا فی الاخرة ، وإما ان یصرف عنہ من السوء مثلھا“․

یعنی جو بھی مسلمان بندہ کوئی دعا کرتا ہے تو الله تعالیٰ اس کو وہ چیز عنایت فرماتے ہیں جو اس نے مانگی ہے، یا اس دعا کو اس کے لیے آخرت میں ذخیرہ کر دیتے ہیں ، یا اس سے کوئی ویسی ہی برائی دور کر دیتے ہیں جب تک کہ وہ کسی گناہ یا قطع رحمی کی دعا نہ کرے۔ ( الفتح الربانی لترتیب مسند الامام احمد بن حنبل، کتاب الأذکار والدعوات، ابواب الدعاء، باب الحث علی الدعاء، 266/14 دارالحدیث)

یعنی جب بندہ الله تعالیٰ سے کوئی چیز مانگتا ہے، تو اگر اس کے دینے میں مصلحت ہوتی ہے ، تو الله تعالیٰ وہ عنایت فرما دیتے ہیں ، ورنہ اس کی دعا دفع بلیات کی طرف پھیر دی جاتی ہے اور اگر یہ بھی نہ ہو تو پھر دعا کو عبادت قراردیا جاتا ہے اور اس کا صلہ آخرت میں ملے گا۔

آخرت میں مومن کی تمنا: کاش دنیا میں میری کسی بھی دعا کا بدلہ نہ ملا ہوتا
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے دن الله تبارک وتعالیٰ مومن بندے کو بلائیں گے اور اپنے سامنے کھڑا کریں گے اور پھر اس سے فرمائیں گے کہ اے میرے بندے! میں نے تجھے دعا کا حکم دیا تھا اور میں نے تجھ سے دعا کو قبول کرنے کا وعدہ بھی کیا تھا ، پھر کیا تم نے دعا کی تھی؟ وہ کہے گا ، جی ہاں اے رب!

تو الله تبارک وتعالی فرمائیں گے کہ تم نے مجھ سے جو بھی دعا کی، میں نے اسے قبول کیا، کیا تم نے فلاں فلاں دن پریشانی کو دور کرنے کی دعا نہیں کی تھی اور میں نے تمہاری اس پریشانی کو دور نہیں کر دیا تھا؟ تو وہ کہے گا جی ہاں، کیوں نہیں! تو الله تعالیٰ فرمائیں گے کہ اس دعا کا ثمرہ میں نے دنیا میں دے دیا۔

پھر فرمائیں گے کہ تم نے فلاں فلاں دن پریشانی کو دور کرنے کی دعا کی تھی اور میں نے تمہاری وہ پریشانی دور نہیں کی؟ تو وہ بندہ کہے گا جی ہاں۔ تو الله تعالیٰ فرمائیں گے کہ وہ دعا میں نے تیرے لیے جنت میں ذخیرہ کر دی ۔

آپ ا نے فرمایا کہ مومن بندے نے الله تعالیٰ سے جو بھی دعا کی ہو گی ، الله تعالیٰ اس کو بیان کریں گے، کہ اس کی فلاں دعا دنیا میں قبول ہو گئی اور فلاں دعا آخرت میں ذخیرہ ہے تو وہ مومن کہے گا، یا لیتہ، لم یکن عجل لہ شییء من دعائہ“

اے کاش! دنیا میں اس کی کسی بھی دعا کا بدلہ نہ ملا ہوتا۔ (الترغیب الترہیب ، کتاب الذکر والدعاء ، باب کثرة الدعاء وماجاء فی فضلہ، 479/2، دارإحیاء التراث العربی)

جس کو دعا کی توفیق مل جاتی ہے اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”من فتح لہ منکم باب الدعاء فتحت لہ أبواب الرحمة“․

تم میں سے جس کے لیے دعا کا دروازہ کھولا گیا، اس کے لیے رحمت کے دروازے کھل جاتے ہیں۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب من فتح لہ منکم باب الدعاء، رقم الحدیث:3548)

دعا ہر طرح کی مصیبتوں میں نفع دیتی ہے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا:”ان الدعاء ینفع مما نزل ومما لم ینزل، فعلیکم عبادَ الله بالدعاء“․

یعنی دعا ان مصیبتوں میں بھی نفع دیتی ہے جو انسان کے اوپر اتری ہوئی ہیں اور الله تعالیٰ ان مصیبتوں سے چھٹکارا عطا فرما دیتے ہیں اور جو مصیبتیں انسان کے اوپر ابھی نہیں اتریں ان میں بھی دعا نفع دیتی ہے اور الله تعالیٰ ان مصیبتوں کو ٹال دیتے ہیں ، اس کے بعد آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: اے الله کے بندو! دعا کو لازم پکڑ و۔ (سنن الترمذی، ابواب الدعوات، باب من فتح لہ منکم باب الدعاء، رقم الحدیث:3548)

میں ایوب پیغمبر نہیں ہوں
ایک ایوب نامی آدمی تھا، اس کے اوپر پے درپے مصیبتیں اترنا شروع ہوئیں، چناں چہ ایک دفعہ وہ گھر کی چھت پر چڑھ کر الله تعالیٰ کو زور زور سے پکارنے لگا کہ اے الله! میں ایوب پیغمبر نہیں ہوں کہ اتنی مصیبتوں کا تحمل کر سکوں ، مجھے ان مصیبتوں سے نجات دے۔ چناں چہ اس کے بعد وہ کسی مصیبت میں مبتلا نہیں ہوا۔

جو الله تعالیٰ سے دعا کرتا ہے الله تعالیٰ اس کے ساتھ ہوتا ہے
آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:”ان الله عزوجل یقول: أنا عند ظن عبدی بی، وأنا معہ إذا دعاني“․

یعنی میں اپنے بندے کے ساتھ ویساہی معاملہ کرتا ہوں، جیسے وہ میرے ساتھ گمان رکھتا ہے ۔ ( اس لیے الله تبارک وتعالیٰ کے بارے میں اچھا گمان رکھنا چاہیے، یعنی کہ الله تعالیٰ ان شاء الله میری دعا ضرور قبول فرمائیں گے او رمجھے اس مصیبت سے نجات دیں گے یا میری یہ ضرورت پوری فرمائیں گے )

اور آگے الله تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جب بندہ مجھ سے دعا کرتا ہے تو میں اس کے ساتھ ہوتا ہوں۔ ( الجامع الصحیح لمسلم، کتاب الذکر والدعاء، باب فضل الذکر والدعاء والتقرب إلی الله تعالیٰ ،343/2، قدیمی)

وہ عوامل جن کو اختیار کرنے سے دعا کو الله تعالیٰ کی بارگاہ میں شرف قبولیت حاصل ہوتی ہے
دنیا میں اگر کسی کے سامنے اپنی ضرورت پیش کرنی ہو تو سب سے پہلے وقت معلوم کر تے ہیں کہ وہ کون سا وقت ہے ، جس میں وہ آدمی جس کے سامنے ضرورت پیش کرنی ہے، وہ اس وقت میں فارغ ہوں، تاکہ وہ میری بات اچھی طرح غور سے سن سکیں ،اسی طرح اچھے الفاظ کا چناؤ کرتے ہیں، تاکہ اپنے مدعا کو بہترین انداز میں پیش کرسکے، وغیرہ وغیرہ، ان سب آداب کو بروئے کار لاتے ہیں جو مقصد کی بجا آوری میں ممد ومعاون بنتے ہوں۔

جب کہ انسان الله تعالیٰ کو جب بھی پکارے تو الله تعالیٰ اس کی فریاد سنتے ہیں ، چناں چہ الله تعالیٰ فرماتے ہیں ﴿اجیب دعوة الداع إذا دعانی﴾․ (سورة البقرہ:186)

میں دعا کرنے والے کی دعا قبول کرتا ہوں ، جب وہ مجھ سے دعا کرتا ہے ۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ کچھ آداب ہیں ، جو آپ صلی الله علیہ وسلم نے دعا کے قبول ہونے کے بارے میں فرمائے ہیں ، ہم اگر ان آداب کا لحاظ کریں گے ، تو بہت جلد ہماری دعائیں ان شاء الله تعالیٰ الله تعالیٰ کے دربار میں شرف قبولیت پائیں گی۔ (جاری)
Flag Counter