تذکرہ ٴ حضرت مہدی علیہ الرضوان
مفتی محمد راشد ڈسکوی
رفیق شعبہ تصنیف وتالیف واستاذجامعہ فاروقیہ کراچی
احادیثِ مبارکہ کی تشریح میں محدثین ِ کرام کی جانب سے قیامت کی علامت کو دو قسموں میں تقسیم کیاگیا ہے: ایک تو وہ علامات ہیں جو معتاد ہیں ، جیسا کہ علم کا اٹھ جانا، جہل کا ظاہر ہو نا،زنا اور شراب کی کثرت اور دوسری وہ علامات ہیں جو غیر معتاد ہیں ، جیسا کہ ظہورِ دجال، نزول عیسیٰ علیہ السلام ، خروج یاجوج ماجوج، خروجِ دابة الارض اور سورج کا مغرب سے طلوع ہونا وغیرہ۔ اس کے بعد پانچ علاماتِ غیر معتاد اور بھی ذکر کی ہیں اوراس کے بعد پھر لکھا ہے کہ ”وزاد بعضہم فتح قسطنطنیہ و ظھور المھدي“ یعنی محدثین ِکرام رحمہم اللہ نے فتح قسطنطنیہ اور ظہورِ مہدی کو بھی علاماتِ قیامت میں ذکر کیا ہے۔ یہ بات علامہ ابیّ مالکی نے صحیح مسلم کی شرح ”اکمال اکمال المعلم“ میں ذکر کی ہے۔ (إکمالُ إکمال ِ المعلم، کتاب الإیمان: 1/70، دارالکتب العلمیة)
آخر زمانے میں حضرت مہدی علیہ الرضوان کا ظہور برحق ہے، علاماتِ قیامت میں سے ایک علامت ظہورِمہدی ہے۔
ظہورِ مہدی کے بارے میں اہلِ سنت والجماعت کا عقیدہ
”اہلِ سنت والجماعت کے عقائد میں ہے، کہ حضرت مہدی رضی اللہ عنہ کا ظہوراخیر زمانے میں حق اور صدق ہے اس پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے، اس لیے کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان کا ظہور احادیثِ متواترہ اور اجماع ِ امت سے ثابت ہے، اگرچہ اس کی بعض تفصیلات اخبارِ احاد سے ثابت ہیں، عہدِ صحابہ وتابعین سے لے کر اس وقت تک حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ظہور کو مشرق و مغرب میں ہر طبقہ کے مسلمان علماء اور صلحاء، عوام اور خواص، ہر قرن اور ہر عصر میں نقل کرتے آئے ہیں“۔ (عقائد الاسلام للکاندھلوی، ص:64، زم زم پبلشرز)
حضرت مہدی علیہ الرضوان سے متعلق روایات
ظہورِ مہدی علیہ الرضوان کی روایات اس قدر کثرت مروی ہیں کہ ان پر تواتر ِمعنوی کا دعویٰ کیا جاسکتا ہے، اس بارے میں تقریباً سینتیس (37 )
اصحابِ رسول رضی اللہ عنہم کی مرویات کتبِ احادیث میں موجود ہیں، جن میں تین خلفاء ِ اربعہ میں سے ہیں اور پانچ امہات ُ الموٴمنین میں سے ہیں اور بقیہ دیگر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین کی۔
نام و نسب
حضرت مہدی علیہ الرضوان کے نام و نسب کے سلسلے میں مستند روایات سے یہ بات ثابت ہے کہ ان کا نام حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کے نام کے مشابہہ ہو گا اور ان کے والد کا نام حضور صلی الله علیہ وسلم کے والد کے نام کے مشابہہ ہو گا، جیسا کہ مشکوة المصابیح میں ترمذی، ابوداوٴد شریف کے حوالے سے موجود ہے۔(مشکوٰة المصابیح، کتاب الفتن، رقم الحدیث: 5452، 3/ 292،دارالکتب العلمیہ)
اور چوں کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کے دو نام قرآن پاک میں صراحةً بیان کیے گئے ہیں،محمد اور احمد۔ اس لیے کہا جاسکتا ہے کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان کا نام محمد بن عبد اللہ یا احمد بن عبد اللہ ہو گا۔ ان کی والدہ ماجدہ کے نام کے بارے میں علامہ سید محمد بزرنجی نے لکھا ہے کہ تلاش کے باوجود مجھے آپ کی والدہ کا نام روایات میں کہیں نہیں ملا۔(الاشاعة لاشراط الساعة، المقام الثالث فی الفتن الواقعة قبل خروجہ، ص: 94، دار الکتب العلمیہ)
لیکن علامہ کاندھلوی نے بحوالہ مولانا شاہ رفیع الدین حضرت مہدی علیہ الرضوان کی والدہ کا نام ”آمنہ “تحریر فرمایا ہے۔(عقائد الاسلام للکاندھلوی ،ص: 63، زم زم پبلشرز)
حضرت مہدی علیہ الرضوان حسنی ہوں گے یا حسینی ؟
حضرت مہدی علیہ الرضوان حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد سے ہوں گے یا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد سے؟اس بارے میں دونوں طرح کے اقوال موجود ہیں، ان میں تطبیق دیتے ہوئے ملاعلی القاری لکھتے ہیں: ” اور اس بات میں اختلاف ہے کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان حضرت حسن رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے ہوں گے یا حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی اولاد میں سے؟اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دونوں کی نسبت جمع کیے ہوئے ہوں گے۔اور اس میں ایک ظاہر ترین بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ وہ والد کی طرف سے حسنی ہوں گے اور والدہ کی طرف سے حسینی ہوں گے“۔ (مرقاة المفاتیح:10/174، رشیدیہ)
لقب اور کنیت
آپ کا مشہور لقب ”مہدی“ اور غیر مشہور لقب ”جابر“ (جبیرہ سے نہ کہ جَبَر سے) ہو گااورکنیت ایک قول کے مطابق”ابوالقاسم “ ہو گی۔(الاشاعة لاشراط الساعة، المقام الثالث فی الفتن الواقعة قبل خروجہ،ص: 88، دار الکتب العلمیہ)
جائے پیدائش
نعیم بن حماد نے اپنی کتاب الفتن میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب کرتے ہوئے لکھا ہے ، حضرت مہدی علیہ الرضوان کی ولادت باسعادت ”مدینہ منورہ“ میں ہو گی۔ (الفتن لنعیم بن حماد، ص: 259، مکتبہ التوحید، قاہرہ)
حلیہ مبارک
حضرت علی کرم اللہ وجہہ سے منقول ہے :”حضرت مہدی علیہ الرضوان کی ڈاڑھی گھنی ہو گی، بڑی سیاہ آنکھوں والے ہوں گے، اگلے دو دانت انتہائی سفید ہوں گے، چہرے پر تل کا نشان ہو گا، لمبی ستواں ناک والے ہوں گے، کندھے پر حضور صلی الله علیہ وسلم کی علامت ہوگی ، خروج کے وقت ان کے پاس حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کا چوکور ، سیاہ ریشمی روئیں دار جھنڈا ہو گا، جس میں (ایسی روحانی )بندش ہو گی کہ جس کی وجہ سے وہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی وفات سے لے کر ظہورِ مہدی تک کبھی نہ پھیلایا جا سکا ہو گا، اللہ تعالیٰ تین ہزار فرشتوں کے ذریعے ان کی مدد فرمائیں گے، جو ان کے مخالفین کے چہروں اور کولہوں پر مارتے ہوں گے، ظہور کے وقت ان کی عمر30 سے 40 سال کے درمیان ہو گی۔ (الفتن لنعیم بن حماد، ص: 259، مکتبہ التوحید، قاہرہ)
ظہورِ مہدی علیہ الرضوان کی علامات
سید برذنجی نے حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ظہور کی بہت سی علامات ذکر کی ہیں، جن میں سے چند ایک تحریر کی جاتی ہیں:
٭……ان کے پاس حضور اکرم صلی الله علیہ وسلم کی قمیص مبارک اور جھنڈا ہو گا، جس سے ان کی شناخت ہو گی۔
٭……حضرت مہدی علیہ الرضوان کی تائید و تصدیق کے لیے ان کے سر پر ایک بادل سایہ فگن ہو گا، جس میں سے ایک منادی کی یہ آواز آرہی ہو گی:”ھٰذا المہدي خلیفة اللّٰہ، فاتبعوہ“․
٭……حضرت مہدی علیہ الرضوان ایک خشک بانس زمین میں گاڑیں گے تو وہ اسی وقت سرسبز ہو کر برگ و بار لانے لگے گا۔
٭…… حضرت مہدی علیہ الرضوان سے نشانی کا مطالبہ کیا جائے گا، تو وہ اپنے ہاتھ سے فضامیں اڑتے پرندے کی طرف اشارہ کریں گے تو وہ ان کے سامنے آگرے گا۔
٭…… حضرت مہدی علیہ الرضوان سے لڑنے کے لیے ایک لشکر روانہ ہو گا، جب وہ لشکر مکہ اور مدینہ پہنچے گا تو اس پورے لشکر کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔
٭……لوگوں کے دل غنی ہو جائیں گے اور زمین کثرت سے اپنی برکتوں کا ظہور کرے گی۔
٭…… حضرت مہدی علیہ الرضوان خانہ کعبہ میں مدفون خزانہ (رتاج الکعبہ) نکال کر فی سبیل اللہ تقسیم کر دیں گے۔
٭……جس طرح دریائے نیل حضرت موسیٰ علیہ السلام کے لیے پھٹ گیا تھا، اسی طرح حضرت مہدی علیہ الرضوان کے زمانے میں ہو گا۔
٭……مغرب کی طرف سے کئی جھنڈے (لشکروں سمیت) نمودار ہوں گے اور اس لشکر کا سردار قبیلہ کندہ کا ایک آدمی ہو گا۔
٭……دریائے فرات کا پانی خشک ہو جائے گا۔
٭…… ان کے ظہور کے وقت ایک روشن دُم دار تارا ظاہر ہو گا۔
٭……ان کے ظہور کے سال ماہِ رمضان کی پہلی تاریخ کو چاند گرہن اور پندرہ تاریخ کو سورج گرہن ہو گا۔(اگرچہ! سائنسی نقطہ نظر اور ماہرین فلکیات کے نزدیک ایسا ممکن نہیں)
٭……مشرق کی طرف سے ایک بہت بڑی آگ تین یا سات دن تک مسلسل ظاہر رہے گی۔
٭…… شام کی ”حرستا“ نامی بستہ کو زمین میں دھنسا دیا جائے گا۔
٭…… خراسان کی طرف سے ایک قوم سیاہ جھنڈوں کے ساتھ آئے گی۔ (الإشاعة لاشراط الساعة،ص: 97، دار الکتب العلمیہ)
ظہورِ مہدی علیہ الرضوان ترتیبِ زمانی کے ساتھ
”حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ظہور سے قبل دریائے فرات سے سونے کا ایک پہاڑ نکلے گا، جب لوگوں کو اس کی خبر ہو گی، تو اس کے حصول کے لیے دریائے فرات کی طرف روانہ ہوں گے، وہاں تین آدمی قائدانہ حیثیت سے اکٹھے ہوں گے اور دریائے فرات پر سونے کے پہاڑ کے حصول کے لیے یہ تینوں باہم اپنے لشکروں کے ساتھ جنگ کریں گے، ان تینوں لشکروں کے درمیان اس قدر شدید قتال ہو گا کہ ہر سو میں سے ننانوے افراد قتل ہو جائیں گے۔
صحیحین کی روایت میں ہے : ”جو شخص اس وقت وہاں حاضر ہو وہ اس سونے میں سے کچھ نہ لے“۔ (الصحیح للبخاری، کتاب الفتن، رقم الحدیث:7119، دارالسلام)
علاماتِ قیامت کا ظہور ہو رہا ہو گا، بے دینی عام ہو گی، کفر عام ہو گا، سب ملکوں میں نصاریٰ کی عمل داری ہو جائے گی، اسی زمانے میں ملکِ شام سے ایک شخص ابو سفیان کی اولاد سے ایسا پیدا ہو گا، جو بہت سے سیدوں کا خون کرے گا، شام اور مصر میں اس کے احکامات چلنے لگیں گے، اسی روم کے ایک مسلمان بادشاہ کی نصاریٰ کی ایک جماعت سے لڑائی ہو گی اور نصاریٰ کی ایک جماعت سے صلح ہو جائے گی، دشمن جماعت شہرِ قسطنطنیہ پر چڑھائی کر کے اپنا عمل دخل کر لے گی، وہ بادشاہ اپنا ملک چھوڑ کر شام چلا جائے گا اور نصاریٰ کی جس جماعت کے ساتھ صلح اورمیل ہو گا، اس جماعت کو اپنے ساتھ لے کر اس دشمن جماعت سے بھاری لڑائی لڑے گا، اسلام کے لشکر کو فتح ہو گی، ایک دن بیٹھے بٹھائے جو نصاریٰ موافق تھے ، ان میں سے ایک شخص مسلمان سے کہے گا، کہ ہماری صلیب کی برکت سے فتح ہوئی، مسلمان اس کے جواب میں کہے گا کہ اسلام کی برکت سے فتح ہوئی، اسی میں بات بڑھ جائے گی، یہاں تک کہ دونوں اپنے اپنے مذہب والوں کو پکار کر جمع کر لیں گے اور آپس میں لڑائی ہونے لگے گی، اس لڑائی میں مسلمانوں کا بادشاہ شہید ہو جائے گااور ملکِ شام میں نصاریٰ کا عمل دخل ہو جائے گا، اس وقت یہ جماعتِ نصاریٰ دوسری مخالف جماعت سے صلح کر لے گی، بچے کھچے مسلمان مدینہ منورہ کی طرف چلے جائیں گے اور خیبرتک نصاریٰ کی عمل داری ہو جائے گی، اس وقت مسلمانوں کو فکر ہو گی کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان کو تلاش کرنا چاہیے، تا کہ ان مصیبتوں سے جان چھوٹے، اس وقت حضرت مہدی علیہ الرضوان مدینہ منورہ سے مکہ مکرمہ چلے جائیں گے، اس زمانے میں جو ابدال ہوں گے وہ سب حضرت مہدی علیہ الرضوان کی تلاش میں ہوں گے، بعضے لوگ جھوٹ موٹ بھی دعویٰ مہدی ہونے کا شروع کر دیں گے، الغرض! حضرت مہدی علیہ الرضوان خانہ ٴ کعبہ کا طواف کرتے ہوں گے اور حجر اسود اور مقام ابراہیم کے درمیان ہوں گے کہ بعضے نیک لوگ ان کو پہچان لیں گے، اور ان کو زبردستی گھیر گھار کر ان سے حاکم بننے کی بیعت کر لیں گے، اسی بیعت میں آسمان سے ایک آواز آئے گی، جس کو سب لوگ جتنے وہاں موجود ہوں گے، سنیں گے، وہ آواز یہ ہو گی کہ یہ اللہ تعالیٰ کے خلیفہ ، یعنی: حاکم بنائے ہوئے ”مہدی “ہیں۔
حضرت مہدی علیہ الرضوان کے ظہور سے قیامت کی بڑی نشانیاں شروع ہو جائیں گی، غرض! جب آپ کی بیعت کا قصہ مشہور ہو گا، تو مدینہ منورہ میں جو فوجیں مسلمانوں کی ہوں گی، وہ مکہ چلی جائیں گی ملکِ شام، عراق اور یمن کے ابدال اور اولیاء سب آپ کی خدمت میں حاضر ہوں گے اور بھی عربوں کی بہت سی فوجیں اکٹھی ہو جائیں گی، جب مسلمانوں میں یہ خبر مشہور ہوجائے گی تو اس وقت ایک شخص خراسان سے حضرت مہدی علیہ الرضوان کی مدد کے واسطے ایک بڑی فوج لے کر چلے گا، جس کے لشکر کے آگے چلنے والے حصے کے سردار کا نام منصور ہو گا اور راہ میں بہت سے بددینوں کی صفائی کرتا چلا جائے گااور جس شخص کا اوپر ذکر آیا ہے کہ ابو سفیان کی اولاد میں سے ہو گا اور سیدوں کا دشمن ہو گا، چوں کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان بھی سید ہوں گے، اس لیے وہ شخص حضرت مہدی علیہ الرضوان سے لڑنے کے لیے ایک فوج بھیجے گا، جب یہ فوج مکہ و مدینہ کے درمیان ایک جنگل میں پہنچے گی تو ایک پہاڑ کے نیچے ٹھہرے گی، تو یہ سب کی سب زمین میں دھنس جائے گی، صرف دو آدمی زندہ بچیں گے، جن میں سے ایک تو حضرت مہدی علیہ الرضوان کو خبر دے گا، اور دوسرا اس سفیانی کو خبر پہنچائے گا، اس وقت سب نصاریٰ پوری دنیا سے فوجیں جمع کریں گے اور مسلمانوں سے لڑنے کی تیاری کریں گے، اس لشکر میں اس روزاسّی80 جھنڈے ہوں گے،ہر جھنڈے کے ساتھ بارہ ہزار آدمی ہوں گے، تو کل آدمی نو لاکھ ساٹھ ہزار ہوئے، حضرت مہدی علیہ الرضوان مکہ سے چل کر مدینہ تشریف لائیں گے اور وہاں سے رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے مزار شریف کی زیارت کر کے ملکِ شام کی طرف روانہ ہو جائیں گے اور شہرِدمشق تک پہنچنے پائیں گے کہ دوسری طرف سے نصاریٰ کی فوج مقابلہ میں آجائے گی، حضرت مہدی علیہ الرضوان کی فوج تین حصوں میں بٹ جائے گی، ایک حصہ تو بھاگ جائے گا، ایک حصہ شہید ہو جائے گا اور ایک حصہ کو فتح حاصل ہو گی،اس فتح اور شہادت کا قصہ یہ ہو گا کہ حضرت مہدی علیہ الرضوان نصاریٰ کے ساتھ لڑنے کے لیے لشکر تیار کریں گے اور بہت سے مسلمان آپس میں قسم کھائیں گے فتح حاصل کیے بغیر پیچھے نہ ہٹیں گے، پس سارے مسلمان شہید ہو جائیں گے، صرف تھوڑے سے مسلمان بچیں گے، جنہیں لے کر حضرت مہدی علیہ الرضوان اپنے لشکر میں چلے جائیں گے، اگلے دن پھر اس طرح کا قصہ ہو گا کہ قسم کھا کر جائیں گے اور تھوڑے سے بچ کر آئیں گے، تیسرے دن بھی ایسا ہی ہو گا، آخر چوتھے دن یہ تھوڑے سے آدمی مقابلہ کریں گے اور اللہ تعالیٰ فتح عطا فرمائیں گے، پھر کافروں کے دلوں میں لڑنے کا حوصلہ نہ رہے گا، اب حضرت مہدی علیہ الرضوان ملک کا انتظام سنبھالیں گے اور سب فوجیں روانہ کریں گے اور خود سارے کاموں سے نمٹ کر قسطنطنیہ فتح کرنے چلیں گے، جب دریائے روم کے کنارے پہنچیں گے، تو بنواسحاق کے ستر ہزار آدمیوں کو کشتیوں پر سوار کر کے اس شہر کے فتح کرنے کے واسطے تجویز کریں گے، جب یہ لوگ شہر کی فصیل کے مقابل پہنچیں گے تو ”اللہ اکبر، اللہ اکبر“بآواز بلند کہیں گے، اس نام کی برکت سے شہرِ پناہ کی دیوار گِر جائے گی اور مسلمان حملہ کر کے شہر کے اندر گھس جائیں گے اور کفار کو قتل کریں گے اور خوب انصاف اور قاعدے سے ملک کا بندوبست سنبھالیں گے۔
بیعت سے لے کر اب تک چھ 6 یا سات/۷ سال کی مدت گذرے گی، حضرت مہدی علیہ الرضوان یہاں کے بندوبست میں لگے ہوں گے کہ ایک جھوٹی خبر مشہور ہو گی کہ یہاں کیا بیٹھے ہو؟! وہاں شام میں دجّال آگیا ہے اور تمہارے خاندان میں فتنہ و فساد کر رہا ہے، اس خبر پر حضرت مہدی علیہ الرضوان شام کا سفر کریں گے اور تحقیق حال کے واسطے نو یا پانچ سواروں کو آگے بھیج دیں گے، ان میں سے ایک شخص آکر خبر دے گا کہ وہ خبر محض غلط تھی، ابھی دجال نہیں نکلا، حضرت مہدی علیہ الرضوان کو اطمینان ہو جائے گا اور سفر میں جلدی نہ کریں گے، اطمینان کے ساتھ درمیان کے ملکوں کے بندوبست دیکھتے بھالتے ملکِ شام پہنچیں گے، وہاں پہنچ کر تھوڑے دن ہی گذریں گے کہ دجال بھی نکل پڑے گا اور دجال یہودیوں کی قوم میں سے ہو گا،اول شام اور عراق کے درمیان میں سے نکلے گااور دعویٰ نبوت کرے گا، پھر اصفہان پہنچے گا، وہاں کے ستر ہزار یہودی اس کے ساتھ ہو جائیں گے، پھر خدائی کا دعویٰ شروع کر دے گا، اس طرح بہت سے ملکوں پر گذرتا ہوا یمن کی سرحد تک پہنچے گا اور ہر جگہ سے بہت سے بد دین اس کے ساتھ ہوتے چلیں جائیں گے، یہاں تک کہ مکہ معظمہ کے قریب آ کر ٹھہرے گا، لیکن فرشتوں کی حفاظت کی وجہ سے شہر کے اندر داخل نہ ہو سکے گا، پھر وہاں سے مدینہ کا ارادہ کرے گا، وہاں بھی فرشتوں کے پہرے کی وجہ سے اندر داخل نہ ہو سکے گا، مدینہ میں تین بار زلزلہ آئے گا، جتنے آدمی دین میں سست اور کمزور ہوں گے ، سب زلزلہ کے ڈر سے باہر نکل کھڑے ہوں گے اور دجال کے پھندے میں پھنس جائیں گے۔
اس وقت مدینہ میں کوئی بزرگ ہوں گے، جو دجال سے خوب بحث کریں گے، دجال جھنجھلا کر ان کو قتل کر دے گااور پھر زندہ کر کے پوچھے گا کہ اب تو میرے خدا ہونے کے قائل ہوتے ہو؟ وہ فرمائیں گے، اب تو یقین ہو گیا، کہ تو دجال ہے، وہ پھر ان کو مارنا چاہے گا، مگر اس کا ان پر کچھ بس نہ چلے گااور ان پر کوئی چیز اثر نہ کرے گی، وہاں سے دجال ملکِ شام پہنچے گا، جب دمشق کے قریب ہو گا، تو حضرت مہدی علیہ الرضوان وہاں پہلے سے پہنچ چکے ہوں گے اور لڑائی کی تیاری میں مشغول ہوں گے کہ عصر کا وقت آ جائے گا، موٴذن اذان دے گا اور لوگ نماز کی تیاری میں ہوں گے کہ اچانک حضرت عیسی علیہ السلام دو فرشتوں کے کندھوں پر ہاتھ رکھے ہوئے آسمان سے اُتر تے نظر آئیں گے اور جامع مسجد کے مشرق کی طرف والے منارے پر آکر ٹھہریں گے، وہاں سے زینہ لگا کر نیچے تشریف لائیں گے……الخ“۔
حضرت مولانا محمد اشرف تھانوی صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہ مضمون احادیث میں اس طرح مسلسل نہیں آیا، بلکہ حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ نے بہت سی متفرق احادیث کو جمع کر کے ترتیب دیا ہے۔ (بہشتی زیور، حصہ پنجم، تھوڑا سا حال قیامت اور اس کی نشانیوں کا،ص: 501، 502، دارالاشاعت)
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول کا وقت
مذکورہ عبارت میں نزول عیسی علیہ السلام کا وقت بحوالہ بہشتی زیور نمازِ عصر بتایا گیا ہے،حضرت حکیم الامت قدس سرہ نے یہ بات حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ کے مضمون سے بعینہ نقل کی ہے اور اسی طرح حضرت مولانا مفتی نظام الدین شامزئی رحمہ الله نے اپنی کتاب ”عقیدہ ظہور مہدی“ میں حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ سے ہی یہ مضمون نقل کیا ہے، اس موضوع پر اپنی مقدور بھر کوشش کرنے کے بعد ایسا معلوم ہوتا ہے کہ حضرت شاہ رفیع الدین صاحب رحمہ اللہ سے اس مسئلے میں سہو ہوگیا ہے یا لفظی مشابہت کی وجہ سے کتابت کی غلطی سے ایسا ہو گیا ہے، اس لیے کہ بہت ساری کتب تفاسیر، احادیث، شروح احادیث، کتب علم الکلام اور عربی و اردو فتاویٰ جات میں نزولِ عیسیٰ علیہ السلام کا وقت صبح کا وقت / نمازِ فجر / بوقتِ سحر مذکور ہے، نا کہ نمازِ عصر کا وقت،مثلا: تفسیر ابن کثیر، جامع البیان للطبری، الدر المنثور، سنن ابن ماجہ، مسند احمد بن حنبل، مستدرک علی الصحیحین، مجمع الزوائد، تکملہ فتح الملہم، الحاوي للفتاوي، الفتاویٰ الحدیثیہ، فتاوی عزیزیہ، جواہر الفقہ، معارف الحدیث، آپ کے مسائل اور ان کا حل وغیرہ ۔
علاوہ ازیں! عصر کے وقت میں نزول ِ عیسیٰ علیہ السلام کے بارے میں ماسوا مذکورہ بالا تین کتب کے کہیں کچھ نہیں ملااور نہ ہی اس وقت کی تردید پر شارحین یا محدثین وغیرہ کا کوئی کلام ملا، واللہ تعالیٰ اعلم بالصواب وعلمہ اکمل و اتم․
البتہ! حضرت اقدس ، شیخ الحدیث والتفسیر مولانا سرفراز خان صفدر صاحب نور اللہ مرقدہ نے اپنے کتاب ”توضیح المرام فی نزول مسیح علیہ السلام “ میں ایک مقام پر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے نزول پر قادیانیوں کی کتب سے ہی دلائل دیتے ہوئے ، تیسرے حوالے (مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ: حجج الکرامتہ ، ص:418 میں ابن واطیل وغیرہ سے روایت لکھی ہے کہ حضرت مسیح علیہ السلام عصر کے وقت آسمان پر سے نازل ہوں گے۔ تحفہ گولڑویہ،ص: 184) کے بعد لکھتے ہیں کہ: یہ تین حوالے ہم نے مرزا غلام احمد قادیانی کے نقل کیے ہیں، جن میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے آسمان سے نازل ہونے کی تصریح ہے اور اپنے اقرار اور بیان سے بڑھ کر آدمی کے لیے اور کیا حجت ِ ملزمہ ہو سکتی ہے؟! صحیح احادیث کے پیش ِ نظر جن کا ذکر اسی پیشِ نظر کتاب میں باحوالہ ہو چکا ہے، حضرت عیسیٰ علیہ الصلاة والسلام کا نزول عصر نہیں، بلکہ بوقتِ صبح ،صلاة صبح ہو گا، کما مرّ۔ (توضیح المرام فی نزول مسیح علیہ السلام، عیسائی بھی مسیح علیہ السلام کے رفع اور نزول کے قائل اور ان کی آمد کے منتظر ہیں، ص: 72، طبع پنجم، اگست/2010ء، مکتبہ صفدریہ)
مذکورہ تفصیل کے بعد مناسب یہی معلوم ہوتا ہے کہ نزول مسیح علیہ السلام کے نزول کا وقت نمازِ فجر ہی بیان کیا جائے اور لکھا جائے، تاوقتیکہ نماز ِ عصر کے وقت کی صریح اور صحیح روایت سامنے آجائے۔
چودھویں صدی میں اِمام مہدی علیہ الرضوان کے آنے کی شرعی حیثیت
سوال:حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم کی ایک حدیث ِ مبارکہ کہ ”جب چودھویں صدی ہجری میں امامِ مہدی آئیں گے، تو انہیں میرا سلام کہنا“۔ اب جب کہ چودھویں صدی ہجری جا رہی ہے تو پھر وہ امامِ مہدی کیوں نہیں آئے؟ حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم کی حدیث نعوذ باللہ ، نعوذ باللہ جھوٹی تو ہو ہی نہیں سکتی، تو پھر چودھویں صدی گذر گئی تو امامِ مہدی کیوں نہیں آئے؟ اگر آئے تو کون ہیں اور ہمیں پتہ نہیں چلا؟!
جواب: …چودھویں صدی میں امامِ مہدی علیہ الرضوان کے آنے کی کوئی حدیث نہیں ، جس شخص نے آپ کو حدیث کا حوالہ دیا، اس نے غلط اور جھوٹاحوالہ دیا۔ آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد تو کبھی غلط نہیں ہوسکتا، لیکن اگر کوئی شخص جھوٹی بات بنا کر آں حضرت کی طرف منسوب کر دے تو وہ ظاہر ہے کہ سچی نہیں ہو گی۔ اور جھوٹے لوگ ہی جھوٹی اور بناوٹی حدیث کا حوالہ دے سکتے ہیں۔(آپ کے مسائل اور ان کا حل،علاماتِ قیامت،چودھویں صدی میں امامِ مہدی کے آنے کی شرعی حیثیت:2/357،مکتبہ لدھیانوی،تخریج شدہ ایڈیشن)
ظہور کے وقت حضرت مہدی علیہ الرضوان کی عمر اور مدتِ خلافت
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب شہید رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
”روایات و آثار کے مطابق ان کی عمر چالیس برس ہو گی، جب ان سے بیعت ِ خلافت ہو گی، ان کی بیعتِ خلافت کے ساتویں سال کانا دجال نکلے گا،اس کو قتل کرنے کے لیے حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے، حضرت مہدی علیہ الرضوان کے دو سال حضرت عیسی علیہ السلام کی معیت میں گذریں گے اور 49 برس کی عمر میں ان کا وصال ہو گا“۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل،علاماتِ قیامت، حضرت مہدی علیہ الرضوان کا ظہورکب ہوگا؟ اور وہ کتنے دن رہیں گے؟ 2/358، 359،مکتبہ لدھیانوی،تخریج شدہ ایڈیشن)
”وأخرج أبو نعیم عن أبي نعیم عن أبي امامة قال: قال رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم: (سیکون)بینکم و بین الروم أربع ھدن․ یوم الرابعة علیٰ یدي رجل من أھل ھرقل، یدوم سبع سنین، فقال لہ رجل… یا رسول اللہ! من إمام المسلمین یومئذ؟ قال: المھدي من ولدي، ابن أربعین سنة، کأن وجھہ کوکب دري في خدہ الأیمن خال أسود “․ (العرف الوردي في أخبار المھدي:2/57، دارالکتب العلمیة)
”فلبث المھدي سبع سنین خلیفة، ثم یتوفیٰ، ویصلی علیہ المسلمون، قال أبو دأود: وقال بعضھم عن ھشام: تسع سنین․ فمن سبع سنین، فکأنہ أسقط السنتین اللتین بقی فیھما مشغولاً بالقتال․ (بذل المجہود، باب في ذکر المھدي: 5/103، طبع مکتبة سھارنپور)
حضرت مہدی علیہ الرضوان کی سخاوت
حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ (ایک بار) ہمیں حضور صلی الله علیہ وسلم کی وفات کے بعد پیش آنے والے حادثات کے خوف نے آگھیرا، تو ہم نے اس سلسلے میں حضور صلی الله علیہ وسلم سے دریافت کیا، آپ صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: (گبھرانے کی کوئی بات نہیں ) ”میری امت میں مہدی کا خروج ہو گا، جو پانچ، سات یا نو سال (بطورِ خلیفہ ) زندہ رہیں گے“، (سالوں کی تعداد میں شک راوی کی طرف سے ہے)ہم نے عرض کیا کہ یہ سلسلہ کب تک جاری رہے گا؟ ارشاد فرمایا: ”کئی سال“، پھر فرمایا :” ایک آدمی ان کے پاس آکر کہے گا کہ اے مہدی! مجھے کچھ دیجیے!، مجھے کچھ دیجیے! تو وہ لَپ بھر بھر کر اس کے کپڑے میں اتنا ڈال دیں گے،جس کو وہ اٹھا سکے“۔یعنی: کسی آدمی میں جتنا وزن اٹھانے کی ہمت ہو سکتی ہے، حضرت مہدی علیہ الرضوان اس سے کم نہیں دیں گے۔ (سنن الترمذی، کتاب الفتن، رقم الحدیث: 2232، 3/254، دارالکتب العلمیہ)
حضرت مہدی علیہ الرضوان کی وفات
حضرت مہدی علیہ الرضوان کا انتقال اپنی طبعی موت سے ہو گا، ان کی نمازِ جنازہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام پڑھائیں گے اور بیت المقدس میں دفن کریں گے۔ حضرت مولانا ادریس کاندھلوی رحمہ اللہ تحریر فرماتے ہیں:
ویصلي علیہ روح اللہ عیسیٰ علیہ السلام، ویدفنہ في بیت المقدس، کذا في شرح العقیدة السفارینیة،2/81․(التعلیق الصبیح،کتاب الفتن، حدیث الأبدال:6/203، سعید)
حضرت مہدی علیہ الرضوان کے لیے ”رضی اللہ عنہ“ کا خطاب
حضرت مولانا محمد یوسف لدھیانوی صاحب شہید رحمہ اللہ ایک سائل کے جواب میں تحریر فرماتے ہیں:
”حضرت مہدی علیہ الرضوان کے لیے ”رضی اللہ عنہ “ کے پُر شکوہ الفاظ پہلی بار میں نے استعمال نہیں کیے، بلکہ اگر آپ نے مکتوباتِ امام ربانی رحمہ اللہ کا مطالعہ کیا ہے تو آپ کو معلوم ہو گا کہ مکتوباتِ شریفہ میں امامِ ربانی مجدد الف ثانی رحمہ اللہ نے حضرت مہدی کو انہی الفاظ سے یاد کیا ہے“۔ (آپ کے مسائل اور ان کا حل،علاماتِ قیامت،الامام المہدی… سنی نظریہ:2/362،مکتبہ لدھیانوی،تخریج شدہ ایڈیشن) (جاری)