Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1434ھ

ہ رسالہ

6 - 14
عصمت انبیا پر استدلال
استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ
ہر باطل فرقہ اپنی آواز کو مؤثر بنانے کے لیے بظاہر قرآن کریم ہی کی دعوت لے کر اٹھتا ہے، بالخصوص موجودہ زمانے میں یہ فتنہ بکثرت پھیل رہاہے ، اس لیے استاذ المحدثین حضرت مولانا شیخ سلیم الله خان صاحب زید مجدہ کی دیرینہ خواہش تھی کہ قرآن کریم کی اردو میں ایسی جامع تفسیر منظر عام پر لائی جائے جس میں فرق باطلہ کے مستدلات کا تفصیلی علمی تعاقب کرکے اہلسنت والجماعت کا مؤقف واضح کر دیا جائے، چناں چہ اس مقصد کے پیش نظر جامعہ کے شعبہ دارالتصنیف میں حضرت کے افادات مرتب کرنے کا سلسلہ جاری ہے ، الله تعالیٰ اپنی توفیق سے اسے پایہٴ تکمیل تک پہنچائے او رحضرت کا سایہ تادیر ہم پر قائم رکھے۔ آمین۔ (ادارہ)

تفسیر
﴿وَظَلَّلْنَا عَلَیْْکُمُ الْغَمَام…﴾ یہ قصہ بھی وادی تِیہ میں پیش آیا، گزشتہ صفحات میں بنی اسرائیل کے تعارف میں ذکر کیا گیا تھا کہ بنی اسرائیل کا آبائی اورا صلی وطن شام تھا، حضرت یوسف ں کے زمانہ اقتدار میں یہ مصر میں آکر بسے تھے او رملک شام میں ایک دوسری قوم عمالقہ قابض ہو گئی تھی ،فرعون کی غرقابی کے بعد انہیں عمالقہ سے جہاد کرکے اپنا ملک چھڑانے کا حکم ہوا۔ لیکن انہوں نے عمالقہ کی قوت وطاقت کے قصے سن رکھے تھے، اس لیے ہمت ہاربیٹھے او رجہاد کرنے سے صاف انکار کر دیا، الله تعالیٰ نے سزا کے طور پر وادی تیہ میں چالیس سال تک سرگرداں رکھا، خیمے پھٹ گئے تھے، دھوپ کی شدت ہوئی تو الله تعالیٰ سے آسمان کو ابر آلود کر دیا۔ ان کی نافرمانیوں کے باوجود الله تعالیٰ انہیں انعامات سے نوازتے رہے ۔ کسی قسم کی زراعت او رکاروبار بھی نہ تھا، خوردونوش کے لیے الله تعالیٰ نے ان کے لییمن وسلویٰ اتارا۔ ”من“ دھنیا کے سائز کے ترنجبین قسم کے دانے ہوتے ہیں جو نہایت شیریں ہوتے تھے ۔ رات کو ان کے خیموں کے اردگرد برس جاتے ، بنی اسرائیل صبح کو جمع کر لیتے ، ”سلوی“ بیٹر قسم کا ایک پرندہ تھا، جن کے غول درغول دریائے شور سے اڑکر ان کے خیموں کے اردگر آکے بیٹھ جاتے، جنہیں یہ آسانی سے پکڑ کر گوشت وکباب بناتے۔

﴿وَلَکِن کَانُواْ أَنفُسَہُمْ یَظْلِمُونَ﴾… بنی اسرائیل کو من وسلوی ذخیرہ کرنے کی اجازت نہیں تھی، لیکن انہوں نے اس کا ذخیرہ کرکے حکم الہٰی کو توڑ ڈالا، جسکا نتیجہ یہ نکلا کہ گوشت سڑنے لگا۔ مسلم شریف کی روایت ہے کہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا اگر بنی اسرائیل ذخیرہ اندوزی کا ارتکاب نہ کرتے تو گوشت کبھی نہ گلتا اور نہ سڑتا، خواہ مہینوں پڑا رہتا۔ مگر ان کی نافرمانی کی وجہ سے گوشت سڑنے لگا۔ خدا کی نافرمانی کرکے اپنے نفس پر خود ہی ظلم کا ارتکاب کیا۔

﴿وَإِذْ قُلْنَا ادْخُلُواْ ہَذِہِ الْقَرْیَة الخ﴾… یہ قصہ بھی وادی تیہ کا ہے، اس مقام پر الله تعالیٰ نے بنی اسرائیل کی سرکشی، بے ادبی اور اس کے برے انجام سے آگاہ فرمایا ہے۔

بنی اسرائیل کو من وسلوی کی صورت میں ملنے والی مفت اور صحت بخش غذا کی کوئی اہمیت نہ تھی، انہیں شکایت تھی کہ ہم ایک ہی کھانا کھا کھا کر تنگ آچکے ہیں، اب دال ، سبزیاں وغیرہ کھانے کو جی چاہتا ہے، ان کے اصرار پر الله تعالیٰ نے انہیں ایک ایسی بستی میں جانے کا حکم دیا جہاں ان کی مطلوبہ چیزیں وافر مقدار میں تھیں ۔ نیز بستی میں داخل ہونے کے آداب بھی بتلائے گئے کہ عاجزی اور انکساری کے ساتھ شکر الہی بجالاتے ہوئے داخل ہونا او رزبان پہ یہ ورد جاری رکھنا اے الله! ہمارے غلطیوں کو معاف فرما دے۔ اگر تم نے ان ہدایت پر عمل کیا تو ہم تمہاری لغزشوں سے در گذر کرکے مزید اجر سے بھی نوازیں گے۔

لیکن بنی اسرائیلیوں نے الله تعالیٰ کے اس حکم کا مذاق اڑایا، عاجزی او رانکساری کے بجائے اکڑتے ہوئے داخل ہوئے اور کلمہ استغفار ”حطة“ ( اے الله! ہماری مغفرت فرما) کو لفظ حبة فی شعرة ( غلہ جَو کے درمیان ہے ) سے بدل دیا۔ اس مذاق پر عذاب الہٰی کی شکل میں طاعون پھوٹا او رسب گستاخ اس میں مر گئے۔

﴿وَإِذِ اسْتَسْقَی مُوسَی لِقَوْمِہِ فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْْناً قَدْ عَلِمَ کُلُّ أُنَاسٍ مَّشْرَبَہُمْ کُلُواْ وَاشْرَبُواْ مِن رِّزْقِ اللَّہِ وَلاَ تَعْثَوْاْ فِیْ الأَرْضِ مُفْسِدِیْن﴾․(البقرة:60)
اور جب پانی مانگا موسی نے اپنی قوم کے واسطے تو ہم نے کہا مار اپنے عصا کو پتھر پر سو بہ نکلے اس سے بارہ چشمے ، پہچان لیا ہر قوم نے اپنا گھاٹ کھاؤ اور پیو الله کی روزی اور نہ پھرو ملک میں فساد مچاتے۔

جب بنی اسرائیل وادی تیہ میں اترے تو وہاں پانی پانے کی کوئی سبیل نہ تھی ، انسانی زندگی کی بقا کے لیے پانی سے زیادہ اہم چیز کون سی ہو سکتی ہے ۔ اس لیے حضرت موسی ں نے بارگاہ الہی میں پانی کے لیے التجا فرمائی ، آپ کو ایک خاص پتھر پر عصا مارنے کا حکم ہوا ، جہاں عصا لگتے ہی بارہ چشمے پھوٹ پڑے، جوبارہ قبائل میں تقسیم ہو گئے اور سب کی ضروریات بآسانی پوری ہونے لگیں ۔ الله تعالیٰ نے پانی مہیا فرما کر کتنے بڑے انعام سے نوازا!!

عقل پرستوں کا اصول فطرت او رمعجزہ
عقل پرستوں کا اصول یہ ہے کہ اس کاروبار دنیا کا ہر فعل تعلیل وتسبیب کے ہمہ گیر قانون پر استوار ہے ، ذرّے سے لے کر پہاڑ تک ، قطرہ سے لے کر سمندر تک، کوئی چیز اس سے مستثنیٰ نہیں، کائنات کے ہر حصے پر اسی قاعدے او رقانون کی حکم رانی ہے ۔ یہ ایک ایسا اٹل قانون ہے کہ بقول سر سید اس کا انحراف خدا بھی نہیں کر سکتا ۔ ( محصلہ تحریر فی اصول التفسیر بمع تفسیر القرآن ، سرسید، الأصل الثامن، ص:21) عقل پرست اسے قانون فطرت کا نام دیتے ہیں، اسی قانون کی آڑ میں یہ معجزات او رکرامات کا انکار کرتے ہیں۔ قرآن کریم میں مذکور خرقِ عادات کو قانون فطرت میں ڈھالنے کے لیے تاویل وتحریف سے کام لیتے ہیں چناں چہ سر سید صاحب :﴿فَقُلْنَا اضْرِب بِّعَصَاکَ الْحَجَرَ فَانفَجَرَتْ مِنْہُ اثْنَتَا عَشْرَةَ عَیْْنا﴾(تو ہم نے کہا مار اپنے عصا کو پتھر پر ،سو بہ نکلے اس سے بارہ چشمے) پتھر سے چشمے بہنے کا انکار کرتے ہوئے اس آیت کریمہ کا ترجمہ کرتے ہیں۔

”حجر کے معنی پہاڑ کے ہیں اور ضرب کے معنی رفتن ( چلنا) کے ، پس صاف معنی ”فاضرب بعصاک الحجر“ کے ہوئے کہ اپنی لاٹھی کے سہارے پہاڑ پر چل ، اس پہاڑ کے پرے ایک مقام ہے، جہاں بارہ چشمے پانی کے جاری تھے، خدا نے فرمایا ” فانفجرت منہ اثنتا عشرة عیناً“ یعنی اس میں سے پھوٹ نکلے ہیں بارہ چشمے۔ ( تفسیر القرآن، البقرہ:60)۔

عربی زبان سے شدبد رکھنے والا ہر شخص جانتا ہے کہ حجر ( پتھر) بول کر پہاڑ مراد نہیں لیا جاتا اور ضرب بمعنی رفتن ( چلنا) اس وقت ہوتا ہے جب اس کے صلے میں لفظ ” فی“ ہو، لیکن عقل پرستوں کو قاعدے اور قانون سے کیا واسطہ؟ انہیں تو فقط اپنا مطلب نکالنا ہے اگرچہ وہ ”شوربے کی تحقیق“ کی صورت میں نکل رہا ہو ۔ شوربے سے روٹی کھانے کے مفہوم سے ہر خاص وعام واقف ہے، لیکن اگر کوئی شخص اس کی لغوی تحقیق میں جت کر یہ دعوی کر ڈالے کہ اس کا مطلب کھارے پانی سے روٹی کھانے کے ہیں ۔کیوں کہ، شوربہ شوراور آب سے مرکب ہے شور کھارے اور آب پانی کو کہتے ہیں، بتائیے! اس مسخرے پن کو تحقیق کا نام دیا جاسکتا ہے؟

مناسب ہے کہ اس مقام پر اس بنیادی اختلاف پر تفصیلی بحث ہو جائے جو خرق عادات امو رکے انکار کا موجب بنتا ہے۔ لہٰذا معجزہ کی حقیقت، اس کا ثبوت، منکرین کے دلائل وشبہات کا تفصیلی جائزہ لیاجارہا ہے۔

معجزہ کی تعریف
جو خرقِ عادات امور کسی مدعی نبوت کی ذات گرامی سے صادر ہوں اسے قرآن کریم کی اصطلاح میں آیت اور متکلمین اسلام کی اصطلاح میں معجزہ کہتے ہیں، معجزے کا مطلب ہے عاجز کر دینے والا، معجزے کو معجزہ اس لیے کہتے ہیں کہ نبوت ورسالت کے منکرین اس کے ہم مثل لانے سے عاجز ہوتے ہیں۔ معجزہ اپنے ظہور میں کسی سبب طبعی کا محتاج نہیں ہوتا، بلکہ وہ خالص ارادہ الہی کے نتیجے میں ظہور پذیر ہوتا ہے او رمدعی نبوت کی صداقت کا خدائی اعلان ہوتا ہے۔ (المعجزات: جمع معجزة وھی امر یظہر بخلاف العادة علی یدمدعی النبوة عند تحدی المنکرین علی وجہ یعجز المنکرین عن الاتیان بمثلہ، وذلک لانہ لولا التائید بالمعجزة لما وجب قبول قولہ․ ( شرح العقائد النسفیہ مبحث النبوة:135)

معجزہ نبوت کی دلیل ہے یا نہیں؟
اس کاجواب ایک دوسرے سوال پر موقوف ہے، وہ یہ کہ ایک نبی اور رسول اپنے دعوے نبوت ورسالت پر لوگوں کو کس طرح اطمینان دلائے گا؟

فلاسفہ کاجو گروہ معجزات کو سبب طبعی کا نتیجہ قرار دیتا ہے، ان کا موقف یہ ہے کہ ”پہلے یہ طے کیا جائے کہ صحیح عقائد او راعمال خیر کیا ہیں؟ اس امر کے محقق ہو جانے کے بعد جب یہ دیکھا جائے کہ ایک شخص لوگوں کو دین حق کی دعوت دیتا ہے اور یہ بھی نظر آئے کہ اس کی بات لوگوں کو باطل سے حق کی طرف لانے میں نہایت قوی اثر رکھتی ہے تو ہم کو یقین آجائے گا کہ وہ سچا پیغمبر ہے او رواجب الاتباع ہے ۔ یہ طریقہ عقل سے زیادہ قریب ہے او راس پر کم سے کم شبہے وارد ہوتے ہیں۔ (علم الکلام اور کلام، شبلی نعمانی:2/129)

فلاسفہ کا یہ موقف علامہ رازی رحمہ الله نے مطالب عالیہ میں نقل فرمایا ہے، جیسے ہمارے برصغیر کے معروف فلسفی علامہ شبلی نعمانی نے ”علم الکلام او رکلام“ میں اپنے مدعی پر پیش کیا ہے ۔

حقیقت یہ ہے کہ جس قدر عقلی شبہات اس طریق پر وارد ہوتے ہیں کسی اور پر نہیں ہوتے ۔ کون سے اعمال، خیرکے ضمن میں شمار ہوں گے اورکون سے اعمال؟ شر کے ضمن میں ؟ اس کا فیصلہ وحی کی راہ نمائی کے بغیر نہیں کیا جاسکتا ۔ اس لیے یہ کہنا ہی غلط ہے کہ ”پہلے یہ طے کیا جائے کہ صحیح عقائد اوراعمال خیر کیا ہیں “نبی کی بعثت کے مقاصد میں سے اہم مقصد یہی ہے کہ وہ ان اعمال ، افعال، عقائد، کی اصلاح کا بیڑا اٹھائے جسے لوگوں کی خواہشات نے بگاڑ دیا ۔ اگر لوگ عقائد کی تصحیح اور اعمال خیر کو اپنے تئیں محقق کر لیں تو پھر بعثت انبیاء چہ معنی دارد؟

مزید برآں انسانی عقل خیروشر کے جو پیمانے تیار کرتی ہے وہ سب مفادات ، مصالح، خود غرضی ، ہویٰ پرستی کے سانچے میں ڈھلے ہوتے ہیں جونظریہ ضرورت کے تحت بدل بھی سکتے ہیں، اس کی چھوٹی سی اور معروف مثال لیجیے۔ زنا تمام شرائع میں حرام رہا، خود عقل بھی ایک عرصے تک اس کی حرمت اورقباحت کا فیصلہ دیتی رہی لیکن اب یورپ کے فلاسفہ اور لادینی عناصر باہمی رضا مندی سے ہونے والے زنا کو ”آزادی عمل“ کی معراج قرار دے چکے ہیں، آپ ہی فیصلہ کریں انبیائے کرام کی بعثت خیر وشر کے انہیں پیمانوں کو سند جواز عطا کرنے کے لیے ہوتی ہے ؟

اس مفروضے کا دوسرا جز یہ ہے کہ ”اس کی بات لوگوں کو باطل سے حق کی طرف لانے میں نہایت قوی اثر رکھتی ہے تو ہم کو یقین آجائے گا کہ وہ سچا پیغمبر ہے۔“ معرفت نبوت کی یہ دلیل بھی محل نظر ہے، حضرت نوح علیہ السلام ساڑھے نو سو سال تک توحید کی دعوت دیتے رہے، لیکن ان کی آواز پر لبیک کہنے والے افراد اکثریت نہ بن سکے، بلکہ حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت کے روز بعض نبی ایسے ہوں گے جن کے ساتھ صرف دو امتی ہوں گے ، بعض کے ساتھ صرف تین امتی ہوں گے ۔ ( سنن ابن ماجہ، کتاب الزھد، رقم الحدیث:4284)

اسی طبقے کے بعض جدت پسندوں نے نبی کے حسن اخلاق اور حسن تعلیم کو دلیل نبوت قرار دیا۔

لیکن یہ مفروضہ بھی درست نہیں۔ نبوت ایک عظیم الشان دعوی ہے، اس کا تعلق عام وخاص، جاہل وعالم، امیر وفقیر سب کے لیے یکساں ہے او رحسن اخلاق وحسن تعلیم ایسی عام فہم دلیل نہیں،جو ہر طبقے کے لیے مفید ہو، نیز حسنِ اخلاق ایک کسبی چیز ہے، اسے اگر نبوت کی دلیل ٹھہرا دیا جائے تو ہر مجسمہ اخلاق کے لیے دعوی نبوت کی راہ ہم وار ہو جائے گی۔ خلاصہ یہ کہ عقل کی پرپیچ وادیوں میں قدم رکھنے والے فلاسفہ دلیل نبوت کے متعلق فیصلہ کن رائے دینے سے عاجز ہیں۔

اب آئیے متکلمین اسلام کی طرف! جن کا دعوی ہے کہ معجزہ دلیل نبوت ہے۔ کیوں کہ یہ عام فہم دلیل ہے؟ جو چیز طاقت بشر یہ سے خارج اور قادر مطلق کا کرشمہ ہو اس کانظارہ کرنے والا ہر شخص فوراً سمجھ جاتا ہے کہ اس شخص کا قادر مطلق کے ساتھ ایک خاص تعلق ہے ، اسی کو تسلیم کر لینے کا نام نبوت ہے، معجزے کے ظہور سے نبی کی سچائی کا علم اضطراری طور پر پیدا ہو جاتا ہے ،جس طرح آفتاب کو دیکھ کر بے اختیار دن کے وجود کا علم ہوتا ہے۔

معجزے کو دلیل نبوت نہ سمجھنے والوں سے ہمارا سوال یہ ہے کہ معجزات کے و قوع سے تو اس لیے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ وہ قرآن کریم کی آیات قطعیہ اور اخبار متواترہ سے ثابت ہیں۔ مثلاً حضرت موسی علیہ السلام کے عصا مارنے سے پتھر سے پانی کانکل آنا۔عصائے موسی علیہ السلام کا سانپ بن کر جادو گروں کے سانپوں کو نگل جانا۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے لیے آتش نمرود کا گل وگلزار ہو جانا۔ حضرت عیسی علیہ السلام کا بے جان چیزوں میں حیات نو ڈال دینا۔ حضور صلی الله علیہ وسلم کے انگشت مبارک سے پانی کا جاری وساری ہونا۔ ستون حنانہ کا آپ علیہ السلام کی جدائی میں رونا۔ انبیاء علیہم السلام کی ذات مبارکہ سے یہ افعال کیوں صادر ہوئے؟ یہ سب کھیل تماشا اور لہوو لعب تھا۔(نعوذ بالله) یا اس سے کوئی غرض وغایت تھی؟ اگر لہو ولعب تھا تو یہ انبیاء کے حسن اخلاق اور حسن تعلیم کے منافی ہے کہ وہ لوگوں کو لہو ولعب میں مصروف رکھ کر یادحق سے غافل رکھیں اور اگر ان افعال کا ظہور کسی غرض وغایت پرمبنی تھا تو وہ کیا ہیں ؟

معجزہ اور سحر میں فرق
معجزہ اور سحر میں چند وجوہ سے فرق ہے۔

معجزے کے ظہور میں بعض اوقات نبی کے ارادے کو بھی دخل نہیں ہوتا اور سحر ہمیشہ ساحر کے ارادے اور خبر سے وجود میں آتا ہے ۔ جب حضرت موسی علیہ السلام کو جادوگروں کے مقابلے میں اپنی عصا ڈالنے کا حکم ہوا تو انہیں خبر بھی نہ تھی کہ وہ سانپ بن جائے گا، اس لیے اسے سانپ بنتے ہوئے دیکھ کر آپ خود بھی خوف زدہ ہو گئے ۔

معجزے کے ظہور میں اسبابِ طبعیہ کا کوئی دخل نہیں ہوتا، جب کہ سحر کے ظہور میں مخفی اسباب طبعیہ کار فرما ہوتے ہیں ، جس کا اقرار خود ساحر بھی کرتے ہیں، اس لیے انہیں خرق عادات بھی نہیں کہا جاسکتا۔

کوئی شعبدہ باز او رجادوگر انبیاء سے ظاہر ہونے والے معجزوں کا معارض نہیں لاسکتا۔ ( المسامرة فی شرح المسایرة، الأصل العاشر، فی اثبات نبوة نبینا، ص:199) یہی وجہ ہے کہ ساحرانِ فرعون نے موسی ں کا معجزہ دیکھ کر فوراً شکست تسلیم کر لی اور اقرار کر لیا کہ یہ معجزہ ہے ،جو اسباب طبعیہ سے ماوریٰ ہے، اسے سبب طبعیہ کے ذریعے شکست نہیں دی جاسکتی۔ جب ساحر اوراہل فن معجزہ کو کسی سبب وغیرہ کا نتیجہ نہیں قرار دیتے تو ان کے مقابلے میں ان لوگوں کا یہ کہنا کیسے صحیح ہو سکتا ہے کہ ” سحر او رمعجزہ میں کوئی فرق نہیں، دونوں اسباب طبعیہ کا نتیجہ ہیں “؟ جنہیں اس فن سے کوئی تعلق ہی نہیں۔

انبیاء علیہم السلام روحانیت اور اخلاقیات کے اعلیٰ درجے پر فائز ہوتے ہیں ، شعبدہ باز اور ساحر اخلاق رزیلہ کا شکار ہوتے ہیں، گندگی اور ناپاکی کے بغیر انہیں سحر پر قدرت ہی حاصل نہیں ہوتی۔

انبیاء علیہم السلام معجزوں کے ذریعے لوگوں کو توحید کی دعوت دیتے ہیں اور ساحر اپنے سحر کو معاش کا ذریعہ سمجھتے ہیں، چناں چہ ساحران فرعون نے اپنے جادوگری کے مظاہرے سے قبل اجرت کا مطالبہ پیش کیا:﴿وَجَاء السَّحَرَةُ فِرْعَوْنَ قَالْواْ إِنَّ لَنَا لأَجْراً إِن کُنَّا نَحْنُ الْغَالِبِیْن﴾․ (الاعراف:113)

”بولے ہمارے لیے کچھ مزدوری ہے اگر ہم غالب ہوئے۔“

اگر جادوگر او رساحر نبوت کا دعوی کر دے تو اس کی جادوگری اور ساحری کا سارا کاروبار ٹھپ ہو جاتا ہے، کیوں کہ نبوت اور جادوگری دو متضاد چیزیں ہیں ،جو ایک ساتھ نہیں چل سکتیں۔ (ملخص تفسیر عثمانی،البقرہ تحت آیہ رقم:50) (جاری) 
Flag Counter