Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق ذوالحجہ 1434ھ

ہ رسالہ

1 - 14
مکمل مسلمان
عبید اللہ خالد
انسان اپنی خصوصیات سے پہچانا جاتا ہے۔ کسی فرد کی کوئی خصوصیت، اسے معاشرے میں پُر وقار بناتی ہے یا دوسروں کی نظروں سے گرادیتی ہے۔ انسان میں دو طرح کی خصوصیات پائی جاتی ہیں: اول اُس کی خوبیاں کہلاتی ہیں؛ دوم، انسان کی خامیاں کہلاتی ہیں۔ پھر، یہ خوبیاں اور خامیاں بھی دو طرح کی ہوتی ہیں۔ خوبیاں انسان کے وقار میں اضافہ کرتی ہیں تو خامیاں انسان کی عزت کو داغ دار کردیتی ہیں۔

یہ خوبیاں اور خامیاں ہر معاشرے اور ہر زمانے میں یکساں معیار کے ساتھ جاری رہی ہیں، اور انھی کی بنیاد پر کسی فرد کو ناپا تولا گیا ہے۔ ہر معاشرہ خوبیوں سے مزین افراد تیار کرنا اور خامیوں سے مبرا سماج سے محفوظ رہنا چاہتا ہے۔ اسی بنا پر تعلیم و تربیت اور دیگر اخلاقی اور تربیتی سرگرمیوں کا اہتمام معاشرے میں کیا جاتا ہے۔انسان کی یہ خوبیاں اور خامیاں بھی دو طرح کی ہوتی ہیں: ظاہری اور باطنی۔ انسان اگرچہ اپنی ظاہری خوبیوں پر توجہ دیتا، اور انھیں بہتر سے بہتر کرنے کی کوشش کرتا ہے جبکہ ظاہری خامیوں کو دور کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ لیکن سوچ کی حدود محدود ہونے کی بنا پر وہ اپنی باطنی خوبیوں اور خامیوں سے لاعلم اور لاپروا رہتا ہے۔انسان کی ظاہری خوبیوں خامیوں کا اس کی باطنی خوبیوں خامیوں سے براہِ راست تعلق ہے۔ نیز، باطنی خوبیاں انسان کی ظاہری خوبیوں پر اپنا زیادہ اثر ڈالتی ہیں بہ نسبت اس کے کہ ظاہری خوبیوں کا اثر اس کی باطنی خوبیوں پر ہو۔ چنانچہ لوگ اپنی ظاہری خوبیوں پر خوب توجہ کرتے اور اپنی ظاہری خامیاں دور کرنے کی بھرپور محنت میں لگتے ہیں مگر اس کے باوجود ہم دیکھتے ہیں کہ معاشرہ برائی کی طرف بڑی تیزی سے سفر کررہا ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ہی یہ ہے کہ انسان اپنے تئیں ظاہری و مادی خصوصیات ہی پر توجہ اور توانائی صرف کررہا ہے۔

لیکن یہ شخصیت کا صرف ایک پہلو ہے۔ انسان مادی کے علاوہ ایک روحانی مخلوق بھی ہے۔ وہ ظاہری وصف رکھنے کے ساتھ ساتھ بے شمار باطنی پہلو بھی رکھتا ہے اور اس کی باطنی خوبیاں اور خامیاں اس میں موجود رہتی ہیں۔ انسان کی باطنی خوبیاں اور خامیاں اس کی ظاہری خوبیوں خامیوں سے نہ صرف زیادہ طاقت ور، پُر اثر ہیں بلکہ ان ظاہری خصوصیات پر غالب بھی ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کی باطنی خوبیوں خامیوں کا بہت زیادہ اثر اس کی ظاہری خوبیوں خامیوں پر پڑتا ہے۔جیسے گاڑی کے دو پہیے ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہ ہوں تو گاڑی کی روانی اور رفتار متاثر ہوتی ہے، اسی طرح جب تک شخصیت کے ہر دو پہلو یعنی ظاہری اور باطنی وصف ایک دوسرے سے ہم آہنگ نہ ہوں، شخصیت میں کردار اوراخلاق کی تعمیر ممکن نہیں ہوتی۔ یہی وجہ ہے کہ آج انسان تعلیم اور تحقیق کے اوجِ ثریا تک پہنچ چکا ہے، لیکن اخلاق کی اُتاہ گہرائیوں میں گرا ہوا ہے۔

اسلام جیسا کہ ہر معاملے میں انسان کی تمام تر ضروریات و سہولیات کا خیال رکھتا ہے، اس نے انسان کے اس پہلو کو نہ صرف مدنظر رکھا ہے، بلکہ اس پر از حد توجہ دی ہے، کیوں کہ جب تک کسی معاشرے میں افراد کی تمام تر خوبیاں بہتر سے بہتر نہ ہوں اس وقت تک اس معاشرے میں نہ سکون آسکتا ہے اور نہ راحت و خوش حالی گھر کرسکتی ہے۔اسلام انسانی شخصیت کے ظاہری اور باطنی ہر دو پہلوؤں پر توجہ کرتا اور ان کی نمو کی ترغیب دیتا ہے۔ اسلام ایک طرف ظاہری خوبیوں کو بڑھانے اور ظاہری خامیوں کو دور کرنے کی بات کرتا ہے تو دوسری جانب باطنی خوبیوں میں زیادتی اور باطنی خامیوں کے خاتمے کی تحریک دیتا ہے۔ اول الذکر کے لیے اسلام نے تعلیم اور تربیت کا نظام دیا ہے تو آخر الذکر کے لیے تصوف کی صورت میں ہمارے پاس منظم سلسلہ موجود ہے۔

یاد رکھیے، انسان کے ظاہری اور باطنی وصف، دونوں ہی کی پرداخت کی ضرورت ہے۔ اور جو لوگ صرف ظاہری پہلو پر توجہ کرتے اور باطنی پہلو کو نظر انداز کردیتے ہیں، وہ نصف شخصیت کی بات کرتے ہیں۔اسلام ایک ایسا معاشرہ پروان چڑھانا چاہتا ہے جہاں مکمل شخصیت کے حامل افراد رہتے ہوں، اور یہ تبھی ممکن ہے جب فرد اپنے دونوں پہلوؤں پر مکمل توجہ دے اور ان کی نشوونما کرے۔ ایسا مسلمان ہی مکمل مسلمان بننے کی اہلیت رکھتا ہے۔ 
Flag Counter