***
حضرت عیسیٰ کا مسلمانوں سے کیا تعلق ہے؟
محترمہ ام فاکہہ زنجانی، جدہ
جوپال ایچان کا تعلق فلپائن سے ہے ۔ ان کی فیملی کٹر رومن کیتھولک تھی۔ جو پال بھی کٹر مذہبی تھا اور چرچ میں اس خاص گروہ کا ممبر تھا جو چرچ کی خدمت کرتا تھا۔ جوپال چرچ میں موجود بتوں کی بھی بڑی شوق سے پوجا کرتا تھا۔ جوپال کا ایک دوست، جو پروٹسٹنٹ تھا، اس نے جو پال کو اپنے چرچ میں آنے کی دعوت دی ۔ وہاں جوپال نے دیکھا کہ سب لوگوں کو بائبل پڑھنے کی اجازت تھی جب کہ کیتھولک چرچ میں بائبل صرف مذہبی پیشوا ہی پڑھ سکتے تھے ، عام لوگوں کو بائبل پڑھنے کی اجازت نہیں تھی اور پروٹسٹنٹ چرچ میں کسی قسم کی بت کی پوجا بھی نہیں ہوتی تھی ۔ جو پال کو پروٹسٹنٹ چرچ ، کیتھولک چرچ سے زیادہ پسند آیا اور وہ اسی چرچ میں شامل ہو گیا۔
جوپال اسلام کے بارے میں بس یہ جانتا تھا کہ یہ کسی مذہب کا نام ہے ۔ زندگی میں جن چند مسلمانوں سے وہ ملا تھا اسے ان کی اور اپنی معاشرت میں کوئی خاص فرق محسوس نہیں ہوا تھا۔ اپنے ملک کے اخباروں اور ٹی وی میں اس نے یہی سنا تھا کہ مسلمان دہشت گرد طبقہ ہے ۔ اس نے یہ بھی سنا تھا کہ مسلمانوں سے بچ کر رہو اور کوئی لین دین ان کے ساتھ نہ کرو، کیوں کہ یہ ذرا سی بات پر قتل کر دیتے ہیں ۔ یہ بات اس کے دماغ میں پوری طرح بیٹھ چکی تھی ۔ کمپیوٹر سائنس سے بی ایس سی کرنے کے بعد جوپال او راس کا دوست سعودی عرب کے ایک بینک میں کمپیوٹر انجینئر لگ گئے۔ وہ دوسر ے ہم وطنوں کے ساتھ ایک کرائے کے مکان میں رہنے لگے ۔ سعودی عرب میں جو پابندیاں تھیں، وہ انہیں بالکل پسند نہیں تھیں، انہیں لگتا تھا کہ وہ گھٹن بھری زندگی بسر کر رہے ہیں ۔
ایک دن جو پال نے دمام شہر میں ایک ٹیکسی کرائے پر لی اور اس کا کرایہ پندرہ ریال طے ہوا ۔ سفر ختم ہونے پر ٹیکسی ڈرائیور نے زیادہ کرایہ مانگا۔ سعودی عرب میں رہتے ہوئے جو پال کو نمازوں کی اہمیت کا احساس ہوچکا تھا، اس لیے اس نے ڈرائیور سے کہا کہ تم پانچ وقت اپنے الله کے سامنے نماز پڑھتے ہو، اس کے باوجود اصل سے زیادہ کرایہ لیتے ہو؟ ۔ یہ سنتے ہی ٹیکسی ڈرائیور خاموش ہو گیا اور شرمندگی سے بولا ٹھیک ہے ، آپ مجھے صرف پندرہ ریال ہی دے دو اور وہ ہاتھ اٹھا کر الله سے معافی مانگتا ہوا چلا گیا ۔ اس کے بعد جوپال کی رائے مسلمانوں کے بارے میں بدلنا شروع ہو گئی ۔ جو پال نے سوچا یہاں کے لوگ بنیادی طور پر اچھے ہیں اور اپنے الله سے ڈرتے ہیں اور نیک دل انسان ہیں ۔
ایک دن جوپال کے انچارج عبدالله العمری نے اچانک اس کے سامنے حضرت عیسی علیہ السلام کا ذکر کیا۔ جوپال نے کہا عیسی علیہ السلام تو ہمارے پیغمبر ہیں ، آپ ان کا ذکر کیسے کر رہے ہیں ؟ اس پر عبدالله العمری نے کہا عیسی علیہ السلام ہی نہیں بلکہ نوح علیہ السلام ، ابراہیم علیہ السلام اورموسی علیہ السلام بھی ہمارے پیغمبر ہیں ۔ یہ جاننے کے بعد جو پال کے دل میں بے چینی شروع ہو گئی اور اس نے اسلام کے بارے میں چھان بین شروع کر دی کہ آخر یہودیوں، عیسائیوں اور مسلمانوں میں کیا تعلق ہے ؟ اس چھان بین کے لیے جوپال نے کچھ اسلامی کتب خریدیں جس میں ایک کتاب Jesus not god son of Marry بھی تھی ۔ اس طرح تقریباً دوسال تک وہ مختلف کتب کا مطالعہ کرتا رہا۔ جوپال نے بتایا کہ اس دوران نہ تو کسی نے مجھے اسلام قبول کرنے کو کہا نہ اسلام کی دعوت دی ۔ جوپال ایک تبلیغی مرکز بھی جانے لگا ، وہاں وہ جو بھی سوال پوچھتا اسے اس کا تسلی بخش جواب دیا جاتا۔ اس اثنا میں وہاں کسی نے بھی اسے اسلام قبول کرنے پر مجبور نہیں کیا ۔ احمد دیدات کی کتابوں کے مطالعہ اور ویڈیو پر اسلامی لیکچر سننے سے بھی اس کا ذہن اسلام کے لیے کھل گیا۔ اس تحقیق سے جوپال پر تین باتیں واضح ہوئیں ۔
1. عیسیٰ علیہ السلام خدا نہیں ۔
2. بائبل اپنی اصل شکل میں نہیں۔
3. الله صرف ایک ہے اور اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں۔
ان سب باتوں کو جان لینے کے بعد جوپال نے اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کر لیا اور ایک دن الخبر کے تبلیغی مرکز میں انہوں نے اسلام قبول کرنے کی خواہش کا اظہار کیا۔ مرکز کی انتظامیہ نے اسے مزید اسلامی لٹریچر کا مطالعہ کرنے اور غور کرنے کو کہا ۔ جوپال نے کہا میں نے دو سال تک اسلام کا اچھی طرح مطالعہ اور غور کرنے کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا ہے چناں چہ مرکز میں جوپال نے اسلام قبول کر لیا ۔ وہاں موجود سبھی لوگوں نے اسے گلے لگایا۔ اس رات جوپال سکون کی نیند سویا۔ صبح فجر کی نماز کے لیے وہ مسجدگیا، مگر نماز نہیں آتی تھی، اس لیے مسجد کے دروازے پر ہی کھڑا ہو گیا۔ وہاں ایک سوڈانی بھائی کے پوچھنے پر جوپال نے بتایاکہ میں نے گزشتہ رات ہی اسلام قبول کیا ہے، اس لیے مجھے نماز کا طریقہ نہیں معلوم ۔ سوڈانی نے اسے استنجا اور وضو کا طریقہ سمجھایا اور کہا جب تک نماز نہیں آتی جماعت میں شامل ہو جاؤ ، جیسے سب لوگ کرتے رہیں ویسے ہی کرتے رہنا۔ جوپال کا کہنا ہے کہ الله کا شکر ہے کہ میں نے اسلام قبول کرنے سے لے کر آج تک کوئی نماز قضا نہیں کی ۔ جوپال اپنی اسلامی تعلیم حاصل کرنا چاہتاتھا۔ تعلیم کے دوران جوپال کو پتہ چلا کہ اسلام میں سود حرام ہے ۔ اب وہ جلد از جلد بینک کی نوکری چھوڑ دینا چاہتاتھا۔
جو پال کے فلپائنی دوستوں کو جب اس کے مسلمان ہونے کا پتہ چلا تو ان سب نے اسے گھیر لیا اور اس سے طرح طرح کے سوال پوچھنے لگے اور انہوں نے اسے غدار کہنا شروع کر دیا۔ وہ سب اسے طرح طرح سے پریشان کرنے لگے، جوپال کو ان کے ساتھ جب ایک مکان میں رہنا مشکل ہو گیا تو وہ ایک دوسرے نو مسلم فلپائنی دوست کے پاس منتقل ہو گیا۔ اب وہ دو ہو گئے تھے، ان دونوں نے ایک مصری استاد سے قرآن پڑھنا شروع کر دیا ۔ اس کے علاوہ دینی تعلیم بھی جاری رکھی ۔ جو پال کو گٹار اور پیانو بجانے کا بہت شوق تھا، لیکن اسلام قبول کرنے کے بعداس نے یہ آلات موسیقی بیچ کر ان سے نجات حاصل کی اور سگریٹ نوشی بھی ترک کر دی۔
اسلام قبول کرنے کے بعداپنی سالانہ چھٹی پر جب جوپال منیلا ائیرپورٹ پر اترا تو دیکھا کہ اس کے والدین اسے لینے آئے ہیں ۔ اس نے اسلامی تعلیمات کے مطابق ان کے ماتھے پر بوسہ دیا، جب کہ ان کے مذہب میں والدین کے احترام میں ا ن کا ہاتھ اپنے ماتھے پر رکھنا ہوتا ہے ۔ والدین اپنے بیٹے کی طرف سے تعظیم کے نئے انداز پر بہت حیران ہوئے ۔ گھر پہنچنے پر جوپال نے انہیں بتایا کہ وہ مسلمان ہو چکا ہے ، اب اس کا نام جو پال ایچان نہیں بلکہ صالح ایچان ہے۔ اس کی آنے کی خوشی میں اس کے گھر والوں نے اس کے لیے خنزیر کے گوشت کا اہتمام کیا تھا، جوپال نے انہیں بتایا کہ اسلام میں خنزیر کا گوشت اور اس سے بنی ہوئی ساری چیزیں حرام ہیں، اس لیے میں ایسی کسی چیز کو ہاتھ بھی نہیں لگاؤں گا۔ جوپال کے اس موقف پر پہلے تو اس کے والدین چونکے، مگر جوپال کے بہت سمجھانے پر وہ اس سے راضی ہو گئے اور اس کے لیے حلال کھانے کااہتمام کیا گیا۔ جوپال کہتے ہیں کہ چوں کہ میں ابھی دین کی دعوت کے اسلوب سے نابلد تھا، اس لیے میں اپنے والدین اور رشتہ داروں سے اسلام قبول کرنے کے لے زیادہ ہی اصرار کرنے لگا۔ میں چاہتا تھا کہ سبھی لوگ جلدازجلد اسلا م قبول کر لیں ۔ میرے اس رویہ سے گھر کا ماحول کشیدہ رہنے لگا۔ اب میری سمجھ میں آیا کہ دین کی تبلیغ کا میرا یہ اسلوب صحیح نہیں تھا۔
اگلی سالانہ چھٹی میں جب جوپال اپنے وطن گیا تو اس وقت تک اس کے دینی علم میں کافی اضافہ ہو چکا تھا۔ وہ کہتا ہے کہ اس کے والدین نے اسے واپس اپنے مذہب میں لانے کے لیے ایک پادری کو گھر بلایا، تاکہ وہ اسے سمجھا سکے اور والد صاحب بھی ساتھ بیٹھ گئے، تاکہ ہماری بات چیت سن کر تجزیہ کر سکیں ۔ ان کی والدہ ایک ٹیچر تھیں اور والد آرمی سے ریٹائرڈ تھے ۔ جوپال نے پادری کے سارے سوالوں کے جواب بائبل کے حوالے سے دیے تو پادری سے کوئی جواب نہ بن پڑا اور وہ یہ کہہ کر رخصت ہو گئے کہ اگلی بار بڑے پادری کو لے کر آؤں گا۔ جب وہ چلے گئے تو اس کے والد نے اس کی والدہ سے کہا تمہار ا بیٹا پادری سے زیادہ علم والا ہے۔
سعودیہ میں رضوان جو جوپال کے روم میٹ تھے جنہوں نے اپنے پورے خاندان کے ساتھ اسلام قبول کیا تھا، نے اپنی بیٹی کا رشتہ جوپال سے کرنے کی خواہش ظاہر کی تو جوپال نے ان سے کہا کہ پہلے میں بینک کی نوکری چھوڑ کر دوسری نوکری تلاش کر لوں تو شادی کروں گا ، چناں چہ جوپال نئی نوکری کی تلاش شروع کر دی ، وہ جس کمپنی میں جاتا لوگ یہ جان کر حیران ہوتے کہ جوپال زیادہ تنخواہ کی نوکری چھوڑ کر کم پر کیوں ملازمت کرنا چاہ رہا ہے۔ بہت مشکل سے ایک کمپنی میں اس نے اس شرط پر ملازمت حاصل کی کہ اپنی تعلیمی قابلیت کے حساب سے وہ زیادہ تنخواہ کا مطالبہ نہیں کر ے گا۔ اب جو پال مدینہ منورہ میں ملازمت کر رہا ہے۔
جو پال نے بتایا کہ بینک کی نوکری سے چھٹکارا حاصل کرکے موجودہ ملازمت سے مطمئن ہو کر اس نے رضوان کی بیٹی سے شادی کرنے کا ارادہ ظاہر کیا، جس پر رضوان نے اگلے سال جو پال سے اپنی صاحبزادی کا عقد کر دیا۔ جو پال کی شاد ی میں اس کے والدین بھی شریک ہوئے۔ اس کے والدین گو کہ مسلمان نہیں ہوئے، مگر اس سے بہت تعاون کرنے لگے ہیں۔
جوپال اپنی فیملی کے ساتھ مدینہ منورہ میں مقیم ہے ان کی دو چاند سی بیٹیاں ہیں، جن کے نام صفا او رمروہ ہیں۔
جوپال تبلیغی مرکز جاکر اعزازی طور پر خدمات انجام دیتے ہیں اورمدینہ منورہ کی اسلامی یونیورسٹی کے طلبہ کو بھی اعزازی طور پر کمپیوٹر کی تعلیم دیتے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ الله پاک آخرت میں میری فیملی کو کامیابی عطا کرے او رمیر ے والدین کو بھی اسلام کی روشنی عطا فرمائے، آمین۔