***
استاد کا ادب، دنیا و آخرت کی کامیابی
مولانا محمد حذیفہ وستانوی
حضرت تھانوی نے اپنی کتابوں میں بڑا زبردست واقعہ نقل کیا ہے کہ امام احمد بن حنبل کے زمانہ میں ایک آدمی وضو کر رہا تھا،امام احمد بن حنبل نیچے کی طرف تھے،یہ آدمی اوپر کی طرف تھا،اس نے یہ سوچا کہ اتنا بڑا امام ، اتنے بڑے عالم ہیں اور میں اوپر وضو کروں او رمیرا ماءِ مستعمل ان کی طرف جائے تو یہ اچھی بات نہیں ہے،ادب کے خلاف ہے وہ وہاں سے اٹھ گیااور اٹھ کر نیچے آگیا،امام صاحب کو آگے چھوڑ دیا،فرماتے ہیں کہ کچھ دنوں کے بعد اس کا انتقال ہوگیا، حضرت تھانوی اس واقعہ کو نقل فرما رہے ہیں،کسی نے اس کو خواب میں دیکھا، پوچھا کیا ہو ا ؟ فرمایا کہ اللہ کے دربار میں حاضر ہوا، میری برائیاں زیادہ تھیں اور نیکیاں کم تھیں،لیکن اللہ نے مجھ سے کہا کہ اے کے بندے! تو نے ایک مرتبہ میرے ایک نیک صالح اور مخلص بندہ کا ادب کیا،بس اس ادب کے طفیل میں، میں تجھے جنت میں داخل کرتا ہوں،کہا کہ یہ چھوٹا سا ادب کرنا اس کو کہاں لے گیا، اسی لیے کہا جاتا ہے کہ ادب کی وجہ سے انسان کو دنیا میں اور آخرت میں عزت ملتی ہے،یہ ہوئے ادب کے واقعات اس کے علاوہ بھی بے شمار واقعات ہیں،آپ تاریخ کو اٹھا کر پڑ ھ لیجیے، اما م ابو یوسف کو پڑھئے ، امام محمد کو پڑھیے، امام شافعی کے بار ے میں آتا ہے،وہ فرماتے ہیں کہ جب میں امام مالک کے پاس مدینہ منورہ پڑھنے کے لیے گیا، تو میں کاغذ کو اس طر ح الٹتا تھا کہ آواز نہ آئے،اس لیے کہ اگر خد ا نخواستہ میرے کاغذکے الٹنے کی وجہ سے آواز آئے اور استاذ کو تکلیف ہو اور ان کی تکلیف کی وجہ سے کہیں میں علم سے محروم نہ ہو جاؤں،ایسے امام نہیں بنے کاغذ الٹنے کی آواز بھی نہیں آنے دی،جب جاکر اللہ نے ان کو امت کے اتنے بڑے امام کے مرتبہ تک پہنچایا،یہ تھے ادب کرنے والے انسان ،کسی کو اللہ نے امام بنایا، کسی کو مجدد بنایا، ان کے زندگیوں میں سب سے کلیدی چیز یہ تھی کہ ان کا زندگی میں شریعت اور شریعت کے متعلقات اور نیک اور صالح لوگوں کے لیے ان کے دلوں میں محبت تھی، تو اللہ نے اتنے بڑے مقام تک پہنچایا۔
اور اب ایسے واقعات بھی سنتے چلیے کہ جنہوں نے اپنے اساتذہ کی بے ادبیاں کیں ،رسول اللہ صلی اللہ کی بے ادبی کی،ایسے لوگوں کا انجام خسر الدنیا والآخرة ہوا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب اپنے مشن اور اپنی دعوت کا آغاز کیا،تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت کو قبول کرنے والے تین طرح کے لوگ تھے،کچھ لوگوں نے حضور کی دعوت کو قبول کیا،کچھ لوگوں نے حضور کو تکلیف پہنچانا شروع کی اور کچھ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی دعوت پر سکوت اختیار کیا،پہلا طبقہ تو اسلام میں داخل ہوگیا،حضرت ابوبکر، حضرت خدیجة الکبریٰ،حضرت علی المرتضیٰ،حضرت عثمان غنی،حضرت زبیر بن العوام،حضرت عبداللہ بن مسعود، یہ وہ لوگ ہیں جو اول المسلمین کہے جاتے ہیں،حضور نے انہیں دعوت دی اور یہ اسلام میں داخل ہوگئے،لیکن ایک طبقہ وہ تھا کہ وہ خاموش رہا،جس نے حضورکو تکلیف نہیں پہنچائی، بے ادبی نہیں کی،اللہ تعالی نے انہیں دیر و سویر سہی، اسلام میں داخل کیا،آپ حضرت ابو سفیان کی زندگی کا مطالعہ کر سکتے ہیں، ابوسفیان اسلام لائے،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے انتقال سے مشکل سے ایک یا ڈیڑھ سال پہلے اسلام لے آئے،لیکن یہ بات تھی کہ رسول اللہ کو ستانے میں کہیں آپ کو ابو سفیان کا نام نہیں ملے گا اور یہی رسول اللہ کو نہ ستانا ان کے لیے ایمان اور ہدایت کا سبب بنا۔
اور ابو جہل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ستانے میں پیش پیش تھا، مکہ مکرمہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تیرا سال تک ستایا، مدینہ منورہ آنے کے دو سال کے بعد اس کا خاتمہ ہو ا او ر وہ بدر میں قتل کر دیا گیا،اللہ کے رسول کی بے ادبی کا انجام یہ ہوا،بلکہ تاریخ کے ایک ایک واقعہ سے یہ ثابت ہو سکتا ہے کہ استاذ اورخیر کی دعوت دینے والے کی بے ادبی کرنا انسان کو صرف دنیا اور آخرت کے خسارہ سے دوچار نہیں کرتا،بلکہ انسان کو اور اس کی نسلوں کو برباد کرکے رکھ دیتا ہے،رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جب حنین کے موقع پر مال غنیمت تقسیم کیاتو ایک آدمی نے کھڑے ہو کر رسول اللہ ہی اس تقسیم پر اعتراض کیااور کہنے لگا اے محمد! یہ کوئی آپ انصاف کر رہے ہو، اور یہ کہہ کر وہاں سے چلا گیا ، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بہت تکلیف ہوئی،یعنی جو انصاف کا داعی ہو،جس کے بارے میں قرآن کریم نے شہادت دی ہو ،کہ انصاف کو دنیا میں قائم کرنے کے لیے محمد کو مبعوث کیا،تو رسول کو آکر یہ کہہ رہا ہے، وہ مسلمان ہے،وہ آدمی چلا گیا اس کا نام ذوالخولصِرہ تھا،وہ چلا گیا اس کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہا: اس کی نسل میں سے ایسے انسان پیدا ہوں گے،جو قرآن کو پڑھیں گے، مگر قرآن ان کے سر سے ایک بالشت بھی اوپر اٹھے گا نہیں،وہ ایسے اعمال کریں گے کہ وہ خود بھی جہنم میں جائیں گے اور لوگوں کو بھی جہنم میں لے جائیں گے،حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ خدا کی قسم! حضور کے اس قول کی صداقت پر میں گواہ ہوں؛وہ فرماتے ہیں کہ میں نے ذوالخولصِرہ کی نسل کو دیکھاتھا کہ وہ حضرات صحابہ پر تنقید کرتی تھی اورنہروان میں وہ صحابہ کے مقابلہ میں لڑ نے کے لیے آئے اور صحابہ کے مقابلہ میں لڑتے ہوئے قتل کر دیے گئے، دنیا میں بھی ان کو عزت نہ ملی، ذلت کی موت مار دیے گئے اور آخرت میں تو ان کو عزت ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا،اس لیے کہ وہ صحابہ پر سب وشتم کرتے تھے،صحابہ پر جرح کرنے کو ا ور صحابہ کو برا بھلا کہنے کو وہ جائز سمجھتے تھے،جن کو امت نے فرقہ خوارج سے یادکیا،فرقہ خوارج کا بانی ذوالخولصِرہ کو قرار دیا جاتاہے،ا ور ذوالخولصِرہ کی غلطی کیا تھی؟ اس نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تکلیف پہنچائی تھی،صرف وہ برباد نہیں ہوا، اس کی نسلیں برباد ہو گئیں،بے ادبی صرف انسان کو نہیں برباد کرتی، انسان کی نسلوں کو برباد کرتی ہے،معتزلہ کا بانی بھی حضرت حسن بصری کا گستاخ تھا، ماضی قریب کی بھی ایک دو مثال دی جا سکتی ہیں،اس زمانہ میں نہیں،آج بھی یہ حال ہے کہ بے ادبی کرنے سے انسان بہرحال محروم رہتا ہے اور آج ہمارے طلبا کی زندگی کا مطالعہ کر لیا جائے،کہ ہمارے یہاں بے ادبی کاکیا حال ہے،کبھی استاذ بلانے کے لیے آئیں گے اور استاذ کہیں گے کہ چلو!تو آواز کرنا شروع کردیں گے، یا چپل زمین پر مارنا شروع کردیں گے،یہ سمجھتے ہیں کہ استاذسمجھ نہیں رہا ، استاذ سب سمجھتا ہے،لیکن وہ کہتاہے کہ اللہ کے لیے بلانے کے لیے آئے ہیں، مسجد میں جانے کے لیے ان کو بلایا جارہا ہے، کلاس میں جانے کے لیے ان کو بلایا جارہا ہے، کوئی غلط کام کے لیے تو ان کو نہیں بلایا جارہاہے،لیکن اس کے باوجود بھی یہ ایسی حرکتیں کرتے ہیں،پھر کہتے ہے کہ ہمارا پڑھنے میں دل نہیں لگتا ہے ،کلاس میں دل نہیں لگتا ہے،نہیں لگنے والا، کہاں سے لگے گا، زندگی میں بے ادبی ہوگی تو اللہ نماز کی بھی توفیق نہیں دے گا، کبھی پڑھنے کی بھی توفیق نہیں دے گااور اللہ کے طرف سے کوئی توفیق نہیں ملنے والی، بے ادبی کا انجام آپ چھوٹا موٹا نہ سمجھئے،بے ادبی کا انجام انتہائی بد ترین ہوا کرتاہے۔
اب میں آپ کو بے ادبی کی ایک دو مثال دیتا ہوں، حضرت مولانا یحییٰ صاحب ، حضرت مولانا زکریا صاحب کے والد ہیں فرماتے ہیں کہ میں مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے پاس حدیث پڑھنے کے لیے گیا، تو میں آپ کی خدمت میں تھا اور میں آپ کے پاس پڑھتا تھا،ایک طالب علم بہت ذہین تھا،میری عادت یہ تھی کہ کاندھلہ گنگوہ سے بہت قریب تھا، لیکن میں کبھی گھر نہیں جاتا تھا، میری والدہ نے اصرار کیا کہ تم گھر پر آوٴ،لیکن میں گھر نہیں گیا،لیکن ایک دن مولانا رشید احمد گنگوہی نے کہا کہ میرے حکم پر آج تمہیں گھر جانا پڑے گا،وہ فرماتے ہیں کہ میں گھر گیااور ایک دن کاسبق میرا ناغہ ہو گیا،مجھے بہت تکلیف ہوئی اس پر،جیسے ہی میں آیا تو استاذ نے کہا کہ اچھاتم اس حدیث کے سبق میں نہیں تھے،مولانا رشید احمد گنگوہی رحمة اللہ علیہ کو ان سے کتنا تعلق تھا،کہا کہ حضرت! نہیں، میں نہیں تھا، تو حضرت نے اس حدیث پر تقریر شروع کر دی اور سبق پڑھا یا ،اس دن اتنی لمبی تقریر نہیں کی تھی آج اس سے لمبی تقریر کی،اب وہ طالب علم جو عبارت پڑھتاتھا ،اس کو بہت غصہ آیا،اس طالب علم نے کہاحضرت گنگوہی رحمة اللہ علیہ کے سامنے : اور کوئی حدیث تمہاری چھوٹی ہے کیااور کوئی چھوٹی ہو تو وہ بھی بیان کردو،فرماتے ہیں کہ حضرت گنگوہی نے اپنی زبان سے کچھ نہیں کہا،تو فرماتے ہیں کہ میں نے کچھ دنوں کے بعد اس شخض کو دیکھا کہ وہ پاگل ہوگیا اور اس شخض کو اپنی آنکھوں سے سڑک پر چن کر کاغذ کھاتے ہوئے دیکھا،تو اس وقت میں نے سوچا کہ نہیں، اگر استاذ کو طالب علم سے تکلیف پہنچتی ہے تو استاذ اپنی زبان سے ایک کلمہ بھی ادا نہ کرے،تب بھی اس کو دنیا اور آخرت میں خسارہ اٹھانا پڑتا ہے اور اگر کلمہ ادا کردیا ہو تو پوچھنا ہی کیا۔
اور پھر اس کے بعد مولانا علی میاں ندوی کا ایک واقعہ نقل کیا جاتا ہے،فرماتے ہیں کہ ہمارے ساتھ ایک طالب علم پڑھتا تھا،احمد علی نگرامی نام تھا اس کا،اس کانام بھی حضرت نے اپنی کتاب میں نقل کیاہے،کہا کہ وہ انتہائی ذہین تھا، عربی دوم میں وہ جب پہنچ گیا تو وہ عربی سیکھنے لگاا ور جب وہ عربی سوم میں پہنچا تو برجستہ عربی بولتا تھا،تمام استاذوں کواس پر ناز تھا،لیکن حضرت مولانا سید سلیمان ندوی نے جب اپنا تعلق حضرت تھانوی سے قائم کیا تو ندوہ کے کچھ طلبا نے ان کی مخالفت کی اور اسٹرائک کی تو یہ طالب پیش پیش تھا ،وہ طالب علم ابھی طالب علمی سے فارغ نہیں ہوا تھا کہ اس کو بیماری لگ گئی،اتنی خطرناک بیماری لگی کہ اس کے گھر والوں نے اس کو ہاتھ پاوٴں باندھ کر گھر پر رکھ دیا،وہ فرماتے ہیں کہ میرے بھائی عبد العلی صاحب چوں کہ ڈاکٹر تھے، لہٰذا نہیں بلایا گیا کہ یہ کونسی بیمار ی میں مبتلا ہو گیا ہے ؟ اس کے بعد انہوں نے بہت علاج کیا، لیکن اچھا ہوا نہیں،میں اپنے استاذ کی خدمت میں گیا اور کہا حضرت اس طالب علم نے آپ کو بہت ستایا ہے،آپ نے اس کو کوئی بددعا تو نہیں دی،وہ فرماتے ہیں کہ ا نہوں نے کچھ بولا ہی نہیں،پھرمیں نے کہا کہ حضرت !بد دعا دی ہو تو معاف کردو، اس کی طرف سے میں معافی مانگتا ہوں،کیوں کہ وہ انتہائی ذہین طالب علم تھا،حضرت نے مجھے کچھ کہا نہیں میں آگیا،دوسرے دن جب میں گیا تو حضرت نے کہا کہ ٹھیک ہے، میں نے اس کو معاف کردیا،میں نے اس کے لیے دعا کی، وہ فرماتے ہیں کہ تیسرے ہی دن میں نے اس کو بازار میں دیکھاکہ وہ بازار میں صحیح سلامت جارہا تھا،مجھے بہت توقع تھی کہ وہ بہت کام کرے گا میرے سے بھی اچھا لکھنے والا تھا،لیکن ہفتہ کے بعد پتا چلا کہ وہ کسی حادثے میں انتقال کر گیا ، استاذ کی بے ادبی انسان زندگی کو بھی ختم کر دیتی ہے۔
فرماتے ہیں کہ میں نے اس واقعہ سے سبق لیاکہ اساتذہٴ کرام کی بے ادبی سے دنیا اور آخرت کے برباد ہونے کے علاوہ اور کچھ ہاتھ نہیں لگ سکتا، اسی لیے میں نے جان بوجھ کر کچھ واقعات آپ کے سامنے بیان کیے ہیں،کہ آپ کے سامنے یہ بات آئے۔
ایک اور نافرمان طالب علم کی داستانِ عبرت
مولانا عبد الواحد صاحب رحمہ اللہ، جو دار العلوم دیوبند کے فاضل تھے، ان کا ایک درسی ساتھی تھا، وہ بھی ان کے ساتھ دار العلوم دیوبند ہی میں پڑھتا تھا، موقوف علیہ کا درجہ تھا، موقوف علیہ کا درجہ اور ” ہدایہ رابع“ کا سبق ہو رہا تھا تو اس طالب علم نے کسی مسئلہ پر استاذ سے اعتراض کیا ، غالباً استاذ اس وقت تشفی بخش جواب نہ دے سکے تو اس نے ”ہدایہ“ ہاتھ میں لے کر استاذ کی طرف پھینک کر مار ی اور بولا : ” ایسی تدریس کا کیا فائدہ؟ ایسی ہدایہ تو میں بھی پڑھا سکتا ہوں اور اس سے اچھی میں حل کر سکتا ہوں “۔ یا اسی طرح کے کچھ الفاظ کہے اور طلبہ کے مجمع کے سامنے گویا اس نے استاذ کی بے عزتی کر ڈالی، استاذ کچھ نہ بولے، بالکل خاموش رہے، اس طالب علم نے پڑھائی چھوڑ دی اور غائب ہوگیا۔
مولانا عبد الواحد صاحب فرماتے ہیں کہ ایک طویل عرصہ کے بعد میں شہر کے اند ر کہیں سے گزر رہاتھا، اچانک میری نگاہوں کے آگے ایک بوڑھا شخص آرہا ہے، جس نے اپنے گلے میں بیلٹ کے ذریعہ ایک چو کور لکڑی کا ڈبہ لٹکا رکھا ہے، اس میں پان سگریٹ وغیرہ رکھا ہوا ہے اور گلیوں سڑکوں میں اس طرح گھومتا پھرتا پان ، بیڑی سگریٹ فروخت کر رہا ہے ۔ میں نے جب اس کو غورسے دیکھا تو پہچان لیا کہ یہ تو وہی میرا درسی ساتھی ہے ، جس نے ”ہدایہ شریف“ اور استاذ کی بیک وقت بے حرمتی کی تھی … شکل بگڑی ہوئی، چہرے پر داڑھی ندارد۔ میں نے اسے روکا اور اس کا نام لیا تووہ جھجکا اور کچھ دیر کے لیے رکا ، مجھے پہچاننے کی کوشش کرنے لگا تو میں نے اپنا نام بتا دیا اور وہ پہچان گیا، پھر میں نے اس کی حالت کے بارے میں پوچھا اور اس کو کتاب واستاذ کی بے حرمتی والا واقعہ بھی یاد دلایا تو اس نے گردن نیچی کر لی اور افسوس کرتے ہو ئے کہنے لگا” آج جو میری حالت ناگفتہ بہ نظر آرہی ہے ، یہ سب اسی واقعہ کی وجہ سے تو ہے“ ۔ پھروہ بھی آگے چلتا بنا اور میں اپنی منزل کی طرف چل پڑا ۔ (ص372، 373)
با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم اللہ خان صاحب زید مجدہم فرما تے ہیں: ”دار العلوم دیوبند میں ایک طالب علم تھا، اس کی قابلیت، ذہانت اور استعداد کا بڑا چرچا تھا، اتنا چرچا تھا کہ ویسے تو وہ سبق میں آتا ہی نہیں تھا اور اگر کبھی آجاتا اور ارادہ ہو تا کہ آج عبارت پڑھوں گا، اگر اس کو موقع نہ ملتا اور کوئی دوسرا عبارت شروع کرتا تو وہ کتاب بغل میں اٹھا کر چلا جاتاتھا، بے ادبی کی انتہا تھی، استاذ کی بھی اور کتاب اور ساتھیوں کی بھی، ایک کام اور کرتا تھا کہ اگر ارادہ کرتا کہ آج سبق نہیں ہونے دینا تو وہ آتا اور اشکال پراشکال کرتا اور اس طرح گھنٹہ ختم ہو جاتا، جیسے طلبہ عصر کے بعد نکلتے ہیں، ایسے اس کے ساتھی بھی نکلتے، وہ بھی ساتھ ہوتا تھا تو جہاں جاتے کھیت اجاڑ دیتے تھے اور شرارتیں کرتے تھے اور کبھی یہ حرکت کرتا تھا کہ حقہ لیا ہو ا ہے، منہ سے لگا کر دار ِ جدید کا چکر لگا رہا ہے، تو انجام یہ ہو ا کہ میزان سے لے کر دور ہ تک اسی دار العلوم میں پڑھا لیکن دورہ کے سال سہ ماہی میں اس کا اخراج ہو گیا، یقینا کوئی ناقابل برداشت حرکت کی ہوگی، جس کی وجہ سے اخراج ہو گیا ۔
دار العلوم دیوبند کے اجلاس صد سالہ کے موقع پر 1981ء میں دستار بندی تھی، ممتا ز لوگوں کی بھی دستار بندی ہوئی، جب ہم اجلاس صد سالہ کے لیے جا رہے تھے تو لا ہور کے اسٹیشن پر اس طالب علم سے ملاقات ہو گئی، وہ اپنی صلاحیتوں کے ساتھ اس طرح دفن ہو ا کہ نام ونشان نہ رہا #
نہ سمجھوگے تو مٹ جاوٴگے صفحہٴ ہستی سے
تمہارا نام تک نہ ہوگا داستانوں میں
اور معلوم ہوا کا ایک ہائی اسکول میں ٹیچر ہے، لوگ سارے دیوبند جا رہے ہیں اور خوش ہیں اور وہ رورہا ہے تو با ادب با نصیب ، بے ادب بے نصیب۔
کبھی اس پر فخر نہ کرو کہ ہمارا ذہن تیز ہے ، حافظہ عمدہ ہے ، میں نے دیوبند میں ایسے طالب علم دیکھے کہ قلم برداشتہ عربی کا قصیدہ شروع کیا اور فی البدیہہ لکھا، لیکن ان میں بھی اساتذہ کا ادب نہیں تھا، نتیجہ یہ ہوا کہ ان کے علم سے نہ ان کو فائدہ ملا ،نہ دوسروں نے فائدہ اٹھا یا، اس لیے میں عرض کرتا ہوں کہ ادب کا پاس رکھنا بہت ضروری ہے ۔“ (”مجالس علم وذکر “ جلد دوم ص 61، 62)
صاحب ہدایہ کے معروف تلمیذ امام زرنوجی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”یہ یقین رکھو کہ علم نافع، علم وعلماء اور استاذ کی تعظیم وتو قیر سے ہی حاصل ہوتا ہے ، مثل مشہور ہے کہ ” جو کسی مرتبہ عظیم پر فائز ہو تا ہے تو تعظیم کی بدولت اور کسی مرتبہ سے گرتا ہے تو ترک تعظیم کی وجہ سے ۔ “
نیز مشہور ہے کہ ” تعظیم وتوقیر اطاعت سے بڑھ کر ہے“۔ کیا نہیں دیکھتے کہ انسان گناہ کی وجہ سے کافر نہیں ہو جاتا، مگر گناہ کو ہلکا سمجھنے اور ترک تعظیم کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے۔“ (تعلیم المتعلم: ص 25) لہٰذا جس کسی طالب علم سے استاذ کو اذیت پہنچے گی وہ برکت علم سے محروم ہو جائے گا اور اپنے علم سے بہت کم منتفع ہو سکے گا #
ان المعلم والطبیب کلاہما
لا ینصحان إذا ہما لم یکرما
فاصبر لدائک ان جفوت طبیبہ
واقنع بجہلک ان جفوت معلما
”استاذ اور طبیب جب تک ان کے ساتھ اکرام کا معاملہ نہ کیا جائے خیر خواہی نہیں کرتے، لہٰذ1 اگر طبیب سے جفا کا معاملہ کیاہو تو پھر اپنی بیماری پر صبر کرو اور استاذ سے جفا کیا ہوتو جہل پر صبر کرو “ ۔ (ص28)
مفتی اعظم پاکستان حضرت محمد شفیع صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں: ”بارہا حضرت تھانوی رحمہ اللہ نے فرمایا کہ میں نے تحصیل علم میں نہ تو محنت زیادہ کی اور نہ بہت سی کتابیں میرے مطالعہ میں رہیں، بس اتنا اہتمام کیا کہ اپنے کسی بھی استاذ کو ایک لمحہ کے لیے بھی اپنے آپ سے ناراض نہیں ہونے دیا، یہ سب اسی کی برکت ہے کہ اللہ نے دین اور علم دین کی خدمت کی توفیق عطافرمائی ہے ، اکبر الٰہ آبادی مرحوم کا یہ شعر پڑھتے #
نہ کتابوں سے نہ کالجوں سے نہ زر سے پیدا
علم ہوتا ہے بزرگوں کی نظر سے پیدا
اپنے تمام اساتذہ کی توقیر اور ان سب کا ادب واحترام آپ کا خصوصی اور امتیازی فریضہ ہے ، آپ کو ان کی ایسی تعظیم کرنی چاہیے جیسے کہ ائمہ دین کی کی جاتی ہے، وہ آپ لوگوں کے لیے علم نبوی کے حصول کا ذریعہ ہیں اور جس شخص نے کسی کو دین کی ایک بات بھی بتلائی وہ اس کا مولیٰ ہو جاتا ہے، پھر علم دین کے مستقل اساتذہ کا جو حق ہے وہ سمجھا جاسکتا ہے، بلکہ اگر ان کے درمیان کچھ نزاعات بھی ہوں، تب بھی ادب اور تعظیم کا تعلق سب کے سب ساتھ یکساں رہنا چاہیے، خواہ چاہت وعقیدت کسی کے ساتھ کم اور کسی ساتھ زیادہ ہو، لیکن عظمت میں فرق نہیںآ نا چاہیے اور دل میں ان کی طرف سے بدی نہ آنا چاہیے…“ (آب بیتی: 258، بحوالہ ملفوظات حضرت دہلوی رحمہ اللہ: 127)
استاذ کے ساتھ عقیدت ومحبت اور احترام کا جو تعلق ہو نا چاہیے وہ آج کل بہت کم نظر آتا ہے، جس طرح سالک کے لیے مرشد کی محبت کامیابی کی کلید ہے ، اسی طرح شاگرد کے لیے استاذ کی خدمت اور محبت کامیابی کی کلید ہے۔ (جواہر الرشید، ج 2 ص 38)
جو عالم بننا چاہے وہ آلات علم، اساتذہ ، کتاب ، علمی کا غذات، قلم، روشنائی، تپائیاں وغیرہ کا ادب کرے، ورنہ علم کی دولت سے محروم رہے گا ، استاذ کے ادب کا بہت زیادہ خیال رکھے۔(جواہر الرشید، ج 3 ص 43)
شیخ الحدیث حضرت مولانا سبحان محمود صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
علم جو حاصل ہو تاہے محنت کے ساتھ ساتھ استاذ کی دعا سے ، اور استاذ دل سے دعا اس وقت دیتا ہے جب استاذ کی خدمت کرے، جیسے ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا دی اور معمولی خدمت میں دی، میری مراد خدمت سے استاذ کو راحت پہنچانا ہے۔ (سحبان الامة: 346)
علم کے اندر برکت استاذ کی دعا سے حاصل ہو تی ہے، صرف کتابوں سے برکت پیدا نہیں ہوتی، اس کا مشاہدہ آپ خو د بھی کر سکتے ہیں، برکت کا مطلب یہ کہ شاگرد کو عمل کی توفیق ہو تی ہے اور اس کا علم اس کے لیے نافع ہو جاتا ہے اور وہ پڑھانے لگتا ہے، معلم بن جاتا ہے۔ (سحبان الامت: 358)
حضرت مولانا شاہ ابرار الحق صاحب رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ آج علم میں بے برکتی کا بڑا سبب اساتذہ کا ادب واحترام نہ کرنا ہے اور تفسیر اور حدیث پاک کی کتابوں کا ادب نہ کرنا ہے ، عموماً طلبہ انگریزی اسکول کے لڑکوں کی طرح دینی کتب کو ہاتھ میں لے کر نیچے لٹکائے ہوئے ہلاتے ہوئے چلتے ہیں، جس سے دینی کتابیں کبھی آگے، کبھی پیچھے ہو جاتی ہیں اور بعض تو چار پائی کے سرہانے بیٹھے ہو ئے اور پائینتی کتابوں کو رکھتے ہیں ، بعض دینی کتب پر قلم، چشمہ اور ٹوپی رکھ دیتے ہیں، ان باتوں سے بچنا چاہیے، کیوں کہ اللہ تعالیٰ کا فضل بے ادب کو نہیں ملتا، حضرت عارف رومی رحمہ اللہ فرماتے ہیں #
اے خدا جوئیم توفیق ادب
بے ادب محروم ماند از فضل رب
”اے خدا! ہم آپ سے ادب کی توفیق مانگتے ہیں ، کیوں کہ بے ادب آپ کے فضل سے محروم ہو جاتا ہے“۔
حضرت حکیم الامت مولانا تھانوی رحمہ اللہ نے طلبہ وعلمائے کرام سے ایک مرتبہ خطاب فرمایا کہ صاحبو! جتنا آپ محسوس کر رہے ہیں یہ سب اساتذہ کرام کے ادب واکرام کا ثمرہ ہے اور حضرت حاجی صاحب رحمہ اللہ کی دعائیں ہیں ، حدیث پاک میں ہے کہ جس نے کسی کو ایک آیت سکھادی تو وہ سکھا نے والا طالب علم کا آقا بن گیا (طبرانی) یعنی طالب علم غلام اور استاذ آقا ہوگیا، غرض یہ ہے کہ استاذ کا بہت ادب کرنا چاہیے۔ (مجالس ابرار :171)
حضرت مولانا قاری صدیق احمد باندوی ”اساتذہ کا ادب“ بیان کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
طالب علم کو چاہیے کہ اساتذہ کا ادب واحترام اپنے اوپر لازم سمجھے، استاذ کے سامنے زیادہ بولنے کے بجائے اس کی بات کو توجہ سے سنے، اس کے سامنے زیادہ بولنا بے ادبی ہے کوئی بات سمجھ میں نہ آئے تو ادب کے ساتھ دریافت کرے۔ (ادب المتعلمین: ص28)
بزرگوں نے فرمایا کہ استاذ کے سامنے ادب سے بیٹھو، اس کے برابر نہ بیٹھو، وہ کہے تب بھی نہ بیٹھو ، جب نہ بیٹھنے پر اس کو صدمہ ہو تب بھی مضائقہ نہیں، اس کے سامنے بڑے ادب سے گفتگوا کرو ، لِمَ؟ (کیوں؟) لا نسلم (ہم نہیں تسلیم کرتے) نہ کہو۔ (ص 30)
ایک بزرگ نے فرمایا: اپنے اساتذہ کو برا نہ کہو، ورنہ تمہارے تلامذہ تمہیں برا کہیں گے۔ (ص30)
استاذ کو کبھی ناراض نہ کرنا چاہیے، اگر اس کی شان میں خدا نخواستہ کوئی بے ادبی اور گستاخی ہو جائے تو فوراً انتہائی عاجزی کے ساتھ معافی مانگ لے ، اگر استاذ کا دل مکدر ہوگیا تو اس سے فیض حاصل نہیں کر سکتا۔(ص36)
استاذ کی خوش نودی کامیابی کا زینہ ہے، اس کی ایک نگاہ طالب علم کو کہیں سے کہیں پہنچادیتی ہے ۔ (ص36)
طالب علم کو چاہیے کہ استاذ کی خدمت کو اپنے لیے فلاح دارین کا ذریعہ سمجھے، ہم نے استاذ کے آداب میں تحریر کیا ہے کہ طالب علم سے خدمت نہ لے ،یہی اس کے لیے مناسب ہے ، لیکن طالب علم استاذ کے کہنے کا انتظار نہ کرے، خودہی اس کا کام کردیا کرے او ر اس میں اپنی سعادت سمجھے۔ جو طالب علم اپنے استاذکی خدمت کرتا ہے اللہ پاک اس کو دینی ودنیوی ترقی عطا فرماتا ہے ، ایسے طلبہ بعد میں دین کی اشاعت کرتے ہیں، جس سے ہزاروں بندگان خدا کو ہدایت نصیب ہوتی ہے ،وہ زمین پر مانند ستاروں کے ہوتے ہیں، ان کی صحبت میں ایسی تاثیر ہو تی ہے کہ برسہابرس کا پاپی گناہوں سے توبہ کرکے خدا وند تعالیٰ کی معرفت کا نور قلب کے اندر پیدا کرتا ہے ، ان کی فراست وذکاوت سے بڑے بڑے پیچیدہ مسائل حل ہو تے ہیں، وہ اساطین امت ہیں، جن پر زمین وآسمان فخر کرتے ہیں، وہ جس سرزمین پر قدم رکھتے ہیں گمراہی دور ہو جاتی ہے اور ہدایت کی راہیں کھل جاتی ہیں۔ ہر ایک کو اس کا اچھی طرح تجربہ ہے کہ جس کو جو کچھ ملا استاذ کی خدمت اور اس کی عنایت ومہربانی سے ملا ، دین ودنیا کی عزت انہیں کی دعاوٴں کا ثمرہ ہے ۔ (ایضاً:ص 39,38)
حضرت قاری عبد الباری صاحب زید مجدہم ” استاذ کا ادب“ بیا ن کرتے ہوئے تحریر فرماتے ہیں:
میدان علم میں سب سے اہم استاذ کا ادب ہے ، سب کچھ ہو تے ہوئے اگر استاذ کا ادب نہ ہوا تو علم نہیں آئے گا؛ حضرت جبرئیل علیہ السلام نے صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہم کے سامنے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے زانوئے تلمذ طے کیے اور بتا دیا کہ استاذ کے آگے ایسے بیٹھنا چاہیے؛ صحابہٴ کرام اس طرح بیٹھتے کہ معلوم ہو تا کہ ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہیں۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں ایک ایک حدیث کے لیے میلوں سفر کر کے جب صاحب حدیث کے دروازہ پر پہنچتا تو معلوم ہو تا کہ وہ مشغول ہیں یا آرام فرما رہے ہیں تو میں ان کے آستانے پر سررکھ کر لیٹ جاتا، دھوپ اور ریت میرے منہ کو کالا کردیتی، جب وہ خود باہر آتے معلوم کرتے کہ کس وقت آئے ہو؟ تو میں کہتا کہ اتنا وقت گزر چکا ہے تو خفا ہوتے کہ تم تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا کے بیٹے ہو، خود کیوں آئے، ہمیں بلا لیتے ؟ تو میں کہتا کہ نہیں، میں طالب علم ہوں، میرا ہی آنا مناسب ہے۔ (تعلیم وتعلم کے آداب: ص 18)
حضرت پیر ذوالفقار احمد صاحب زید مجدہم تحریر فرماتے ہیں کہ طالب علم اپنے استاذ کے ادب کے بغیر نہ علم حاصل کر سکے گا ، نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکے گا، جو شخص منزل مقصود پر پہنچا وہ ادب ہی کی وجہ سے پہنچا اور جوگرا وہ بے ادبی کی وجہ سے گرا ، مثل مشہور ہے ”الحرمة خیر من الطاعة“۔ (ادب عبادت سے بہتر ہے )
حضرت شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب نے تو عجیب بات لکھی ہے، حضرت فرماتے ہے کہ صرف مدرسہ میں پڑھنے والا طالب علم نہیں، بلکہ کالج کا طالب علم بھی اگر اپنے استاذ کے ساتھ بدتمیزی کرتا ہے،تو اللہ اس کو اس علم سے بھی محروم رکھتا ہے،اس لیے کہ استاذ آپ کو پڑھا رہا ہے،اگرچہ وہ تنخواہ لے رہا ہو، مگر وہ اتنی قیمتی چیزیں بتلاتا ہے، وہ چیزیں آپ کو اپنے سے حاصل کرنے سے کہیں نہیں مل سکتیں، استاذ سے بڑا محسن کوئی نہیں ہو سکتا ہے،اسی لیے اس کو روحانی باپ کہا گیا، اسی لیے بیان کرتے ہیں کہ والدین کی نافرمانی کرنے سے انسان کی دنیا برباد ہوتی ہے اور استاذ کو ستا نے سے انسان کی آخرت برباد ہوتی ہے،لہٰذا اس مسئلہ کو سنجیدگی کے ساتھ لینے کی ضرورت ہے اور اپنے اندر ادب، مسجد کا ادب، کلاس کا ادب، کاغذ کا ادب، استاذ کا ادب ، ادب کو اپنے زندگی میں جگہ دینے کی ضرورت ہے،یہ شور شرابا کرنا، چیخنا،چلانا ، آوازے کسنا،تالیاں بجانا، خدائے پاک کی قسم! یہ ہمارا شیوا نہیں ہے،ہمارے اند ر یہ عادتیں کہا ں سے آئیں؟ ہم قرآن کریم کے پڑھنے والے،ہم معلم الناس علی الخیر،لوگ ہماری طرف توجہ لگا کر بیٹھے ہوئے کہ یہ آئیں گے تو ہمیں دین کی باتیں سکھائیں گے اور ہم سے یہ چیزیں سرزد ہو جائیں،یہ بڑے افسوس کا مقام ہے، لہٰذایہ معمولی معمولی چیزیں انسان اور دنیا اور آخرت کی بربادی کا سبب بن جاتی ہیں۔
اللہ رب العزت مجھے اور آپ کو بے ادبی سے محفوظ رکھیں۔ بہرحال سب سے بڑا سبب یہ ہے کہ اپنے آپ کو بے ادبی سے بچانے کی کوشش کریں اور اپنے اندر ادب اور شائستگی کو پیدا کیا جائے،اگر آپ ادب کو جگہ دیں گے تو آہستہ آہستہ اللہ آپ کو نماز کی توفیق بھی دے گا،انشاء اللہ، اللہ آپ کو پڑھنے کی توفیق بھی دے گا،اللہ آپ کومسجد کے احترام کی توفیق بھی دے گا،وہ تمام کے تمام راستے کھولیں گے،ان تمام بھلائیوں کو اپنا نے کے لیے اپنے اندر ادب کو جگہ دیں،اس کے بعد انشاء اللہ آپ سے غفلت بھی ختم ہو جائے گی،آپ سے سستی بھی ختم ہو جائے گی،یہ تمام کے تمام اسباب ہیں اور اس کو میں ام الاسباب کہتا ہوں۔
حضرت تھانوی اپنے زمانہ میں فرماتے ہیں،حضرت تھانوی کے انتقال کو بھی ساٹھ ستر سال ہوئے، کہ میں اس زمانہ میں تعلیم کی محرومی کا سب سے بڑا سبب بھی اسی کو گردانتا ہوں کہ طالب علم کے اندر استاذ کا ادب نہیں رہا،استاذ کبھی سزا دیتا ہے تو منہ بنا لیتے ہیں،استاذ کبھی کچھ بولتاہے تو منھ بناکر اس کے سامنے ہو جاتے ہیں،کہا کہ ایسے طالب علم کو اللہ کبھی بھی علم سے مالامال نہیں کرتا،لہٰذا اس معاملہ کو اپنے اندر سنجدگی سے جگہ دیجیے،اور بڑوں کا ادب، اس کا پورا پورا خیال کیجیے،اس لیے کہ میں نے آپ کو کہا کہ یہ مستحب نہیں یہ فرض ہے اور فرائض کے اندر کوتاہی کا انجام اچھا نہیں ہوتا ہے،اتنی بڑی سزائیں دنیا اورآخرت میں کیوں مل رہی ہیں؟
چھوٹے استاذ
مولاناشاہ عبد الرحمن مظاہر علوم میں صدر مدرس تھے۔ انہوں نے اپنا ایک واقعہ سنایا، فرماتے ہیں:
میں اپنے شہر سے جب سہارن پور تعلیم حاصل کرنے کے لیے آیا تو ہر استاذ سے مل کر آیا۔ ایک استاذ سے میں نے بالکل ابتدائی کتابیں پڑھی تھیں۔ ان سے ملاقات نہ ہو سکی۔ سہارن پور آکر پڑھانا شروع کیا۔ کتاب بالکل سمجھ نہ آئی ۔ حالاں کہ مجھے اپنی جماعت میں بہت سمجھ دار خیال کیا جاتا تھا۔ میں غور کرنے لگا کہ اس کی وجہ کیا ہے ؟ اللہ پاک نے راہنمائی فرمائی، دل میں بات ڈال دی کہ ان استاذ سے سے مل کر نہیں آیا ۔ چناں چہ خط لکھ کر ان سے معافی ما نگی اور ملاقات نہ ہوسکنے کی وجہ لکھی۔ جواب میں انہوں نے لکھا: ”میرے دل میں خیال پیدا ہوا تھا کہ مجھے چھوٹا سمجھ کر تم مل کر نہیں گئے، لیکن تمہارا خط آنے پر معلوم ہوا کہ یہ بات نہیں تھی ۔“
اس کے بعد انہوں نے دعائیہ کلمات لکھے ۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ کتاب خوب سمجھ میں آنے لگی اور آج میں تمہیں ترمذی پڑھا رہا ہوں۔“
ان کے درس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ اس وقت ترمذی پڑھانے میں ان کے برابر کا پورے ملک میں کوئی۔ اور نہیں تھا۔