Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1431ھ

ہ رسالہ

5 - 12
***
ہری ہو گئی کھیتی ساری خدا کی
مولانا سید ابوالحسن علی ندوی
پیغمبروں کی جماعت
پیغمبروں کا گروہ ایجاد واکتشاف کا دعویٰ نہیں کرتا، نہ وہ علوم میں مہارت کا مدعی ہے، نہ اس کو ادب وشاعری پر ناز ہے، وہ اپنے متعلق نہ مبالغہ آرائی سے کام لیتے ہیں، نہ بے ضرورت خاکساری سے ، وہ بڑی صفائی اور سادگی سے کہتے ہیں کہ وہ دنیا کو تین چیزیں عطا کرتے ہیں ۔ صحیح علم۔ اس علم پر یقین ۔ اس علم پر عمل کرنے اور اس یقین کے مطابق زندگی گزارنے کا جذبہ اور خواہش۔ یہ ہے حضرت آدم سے لے کر حضرت محمد مصطفی صلی الله علیہ وسلم تک کی تعلیم کا نچوڑ۔
پیغمبر کہتے ہیں کہ سب سے پہلے یہ معلوم ہونا چاہیے کہ ہم کو کس نے پیدا کیا اور کیوں پیدا کیا؟ اس کے معلوم کیے بغیر ہمارا ہر قدم غلط ہے ہم کو اس دنیا کی کسی چیز سے فائدہ اٹھانے کا کوئی حق نہیں اس لیے کہ اس زندگی میں جو کچھ ہو رہا ہے، چلنا، پھرنا، کھانا، پینا وہ سب اس عظیم کُل کا ایک حقیرجز ہے ، جب تک کہ ہم کو اس کائنات کا مرکز معلوم نہیں اور ہم اس کے مقصد کلی سے اتفاق نہیں رکھتے، ہم کواس کے اجزا سے فائدہ اٹھانے کا کیا حق ہے؟ اس کے بغیر تو روٹی کا ایک ٹکڑا توڑنا حرام ہے، آپ کے اور اس کائنات کے دوسرے جز کے درمیان کس نے ربط پیدا کیا؟ اسی خالق کائنات نے اور اسی مقصد کلی نے ! اگر آپ اس خالق کائنات کو نہیں جانتے، نہیں مانتے اور اس مقصد کلی سے آپ کو اتفاق نہیں ہے تو آپ کو اس کائنات کے کسی ذرہ یا دوسرے جز سے فائدہ اٹھانے کا کیا حق ہے ؟ میں پوچھتا ہوں کہ اگر روٹی کا وہ ٹکڑا جو آپ کے ہاتھ میں ہے، آپ سے سوال کرے کہ میں نے تو اپنے خالق کو پہچان لیا اور اس کے حکم کے مطابق میں نے اپنے مخدوم کے لیے اپنے وجود کو قربان کر دیا، لیکن اے انسان! تونے نہ اپنے خالق کو جانا، نہ اس کی بندگی کی ، تجھے مجھ سے فائدہ اٹھانے کا حق ہے ؟ تو آپ کیا جواب دیں گے؟
اس دنیا کی کسی چیز کا استعمال غلط ہے ، جب تک یہ جان نہ لیا جائے کہ اس کا پیدا کرنے والا کون ہے او راس کا مقصد کیا ہے ؟ مگر یہ عجیب ٹریجڈی(مشکل) ہے کہ آج دنیا میں تمام کام ہو رہے ہیں ، بازار میں چہل پہل ہے ، تعلقات قائم ہو رہے ہیں ، سواریاں چل رہی ہیں ، بڑے بڑے کام ہو رہے ہیں، مگر کسی کو یہ معلوم کرنے کی فرصت نہیں کہ جس دنیا میں یہ سب کچھ ہو رہا ہے اس کا پیدا کرنے والا کون ہے ، اس کی پیدائش کا مقصد کیا ہے ؟ جب پیغمبر دنیا میں تشریف لائے، انسانیت کی گاڑی بے مقصد جارہی تھی، فلاسفہ وعلماء اور ادباء وشعراء، فاتحین وحکمرانوں ، کاشت کاروں او رتاجروں کو اپنے کاموں سے فرصت نہ تھی، حاکم بھی تھے اور محکوم بھی تھے، ظالم بھی تھے اور مظلوم بھی تھے ، مگر سب اصل مقصد سے غافل اور اپنے پیدا کرنے والے سے ناواقف، ان چھوٹے چھوٹے بالشتی انسانوں میں ایک بلند قامت انسان آتا ہے اور جن لوگوں کے ہاتھ میں انسانیت کی باگ ڈور تھی ان سے سوال کرتا ہے کہ جواب دو کہ تم نے انسانیت پر یہ ظلم کیا ہے کہ ان کو اپنے مالک اور اس دنیا کے بادشاہ سے ہٹا کر اپنا غلام بنالیا ہے، تم کو کیا حق تھا کہ نابالغ انسانیت کا ہاتھ پکڑ کر تم نے اس کو غلط راستہ پر ڈال دیا ہے؟ اے ظالم ڈرائیور! تونے مسافروں سے پوچھے بغیر زندگی کی گاڑی کس طرف چلانی شروع کردی؟ وہ زندگی کے قلب وضمیر میں کھڑے ہو کر انسانیت کو خطاب کرتا ہے او راس کو پکارتا ہے ، اس کے سوال کو ٹالا نہیں جاسکتا، اس کی دعوت اور اس کی پکار پردو گروہ ہو جاتے ہیں ،ایک ان کی بات مانتا ہے ، ایک انکار کرتا ہے ۔ دنیا کو ان دونوں راستوں میں سے ایک راستہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔
پیغمبروں کی راست گوئی
پیغمبر کبھی نہیں کہتے کہ ہم قدرت کے راز ہائے سربستہ کا انکشاف کرنے آئے ہیں، ہم طبعی طاقتوں کو مسخر کرنے آئے ہیں ، ہم کچھ نئی ایجاد کریں گے، وہ جغرافیہ ومعدنیات میں مہارت کا دعویٰ نہیں کرتے ، وہ کہتے ہیں کہ ہم اس دنیا کے بنانے والے ہیں، بگاڑنے والے نہیں اور اس کی ذات وصفات کا صحیح علم عطا کرتے ہیں، جو ہم کو اس دنیا کے مالک نے او رانسان کے خالق نے عطا کیا ہے او راب ہمارے ہی ذریعہ سے وہ دوسروں کو مل سکتا ہے۔
وہ بتاتے ہیں کہ اس دنیا کا بنانے والا ایک ہے او راسی کی مرضی وحکمت سے یہ دنیاچل رہی ہے ، وہ بلاشرکت غیر ے اس کو چلا رہا ہے ، یہ دنیا بے مقصد نہیں پیدا کی گئی اور نہ بے مقصد چل رہی ہے۔ اس زندگی کے بعد دوسری زندگی ہو گی، جس میں اس پہلی زندگی کا حساب دینا ہو گا ، وہاں اچھے اعمال کا انعام ملے گا، برے اعمال کی سزا ملے گی، قانون لانے والے اور خدا کا منشا بتلانے والے پیغمبر ہیں، جو ہر ملک او رہر قوم میں آئے اور خدا کا پیغام لائے، خدا کا راستہ ان کے بغیر طے نہیں ہو سکتا ، یہ وہ باتیں ہیں جن پر تمام پیغمبر متفق ہیں، ان میں کسی قسم کا اختلاف نہیں ، فلاسفہ وحکماء میں سخت اختلاف ہے، ان میں سے دو بھی کسی ایک بات پر متفق نہیں، لیکن یہاں کسی ایک بات پر بھی دو پیغمبروں میں اختلاف نہیں ۔
لیکن علم کے لیے یقین ضروری نہیں، آج ہماری معلومات کتنی زیادہ ہیں، مگر ہمارا یقین کتنا کم ہے؟! علم ہمیشہ یقین پیدا نہیں کرتا، قدیم زمانہ کے فلاسفہ میں سے بہت سے یقین سے محروم تھے او رشک کے مریض ،آج بھی ان کا علم یقین پیدا کرنے کے بجائے الٹاشک پیدا کرتا ہے ، آج بھی بڑے بڑے صاحب علم یقین کو ترستے ہیں انبیائے کرام تنہا صحیح علم نہیں دیتے تھے، اس پر یقین بھی عطا کرتے تھے ، علم بڑی دولت ہے، مگر اس پر یقین اس سے بڑی دولت ہے ، علم بغیر یقین کے زبان کی ورزش ہے ، دماغ کا تعیش اوردل کا نفاق، پیغمبروں نے اپنے ماننے والوں کو صحیح علم عطا کیا او رمضبوط یقین او رانہوں نے جو کچھ جانا اس کو مانا، پھر اپنے کو اس پر قربان کر دیا ، ان کے دماغ اس علم سے روشن ہوئے اور ان کے دل اس یقین سے طاقتور، ان کے یقین کے قصے تاریخ میں پڑھیے، ان کے یقین کے نتائج اپنی گردوپیش کی دنیا میں دیکھیے۔
آج اگر یقین ہوتا تو بداخلاقی کیوں ہوتی ؟ ظلم کیوں پھیلتا؟ رشوت کا بازار کیوں گرم ہوتا ؟کیا یہ تمام خرابیاں اس لیے ہیں کہ علم نہیں ، لوگوں کو معلوم نہیں کہ چوری جرم ہے ؟ رشوت حرام ہے ؟ گرہ کٹی بداخلاقی ہے ؟ یہ کون کہہ سکتا ہے ؟ ہم تو دیکھتے ہیں جہاں علم زیادہ ہے، وہاں خرابیاں بھی زیادہ ہیں جو لوگ رشوت کی برائی پر کتاب لکھ سکتے ہیں، اس کی تاریخ مرتب کر سکتے ہیں، وہ زیادہ رشوت لیتے ہیں، جو چوری کی خرابی سے او راس کے انجام سے زیادہ واقف ہیں ، وہ چوری زیادہ کرتے ہیں ، گرہ کٹوں کو دیکھیے! ان میں سے بہت سے ایسے ملیں گے جو گرہ کٹی کے الزام میں کئی کئی بار سزا بھگتے ہوئے ہیں ، کیا ان سے زیادہ کوئی گرہ کٹی کے انجام اور سزا سے واقف ہو گا، اگر صرف علم کافی ہوتا تو چوری کی سزا کے بعد چوری چھوٹ جاتی اور ایک بار جرم کرنے کے بعد اور سزا بھگتنے کے بعد کوئی دوبارہ جرم نہ کرتا، لیکن ایسا نہیں ہو رہا ہے، معلوم ہوا کہ علم تنہا کافی نہیں۔
پھر علم ضروری اور یقین ضروری، مگر اس کی کیا ضمانت کہ اس پر عمل کاتقاضا بھی پیداہو گا، بہت سے لوگ جانتے بھی ہیں اور یقین بھی رکھتے ہیں کہ شراب بہت بری چیز ہے ، اس کے نقصانات کا تجربہ بھی ہے، یقین بھی، مگر پیتے ہیں ، آپ کے شہر میں بہت سے ڈاکٹر ، حکیم ہوں گے، جو بدپرہیزی کرتے ہیں ، ان کو یقین ہوتا ہے کہ بد پرہیزی خطرناک ہے ، مگر وہ بد پرہیزی کر گرزتے ہیں ، بات یہ ہے کہ عمل کا تقاضا نہیں ہوتا او ران کے اندر پرہیز کی خواہش اور بد پرہیزی سے نفرت نہیں پیدا ہوتی، بلکہ بدپرہیزی کی خواہش ہوتی ہے اور وہ اس خواہش کا مقابلہ نہیں کرسکتے۔
انبیائے کرام علم ویقین کے ساتھ یہ تیسری طاقت بھی عطا کرتے ہیں، یعنی اپنے علم ویقین پر عمل کرنے کی رغبت او راپنی غلط خواہشات کا مقابلہ کرنے کی طاقت ، اس کا نتیجہ ہوتا ہے کہ وہ اپنے علم ویقین سے پورا پورا فائدہ اٹھاتے ہیں او ران کے مطابق زندگی گزارتے ہیں ، ان کا ضمیر ان کی نگرانی کرتا ہے اور غلط کام کرنے کے وقت ان کا ہاتھ پکڑ لیتا ہے۔
ہر پیغمبر نے یہ تینوں دولتیں اپنے اپنے زمانے والوں اور اپنی اپنی امتوں کو عطا کیں او ران کی بدولت لاکھوں انسانوں کی زندگی بن گئی اور زندگی کی چول اپنی جگہ پر آگئی ، انسانیت پر حقیقی احسان انہیں پیغمبروں کا ہے ، الله کا درودوسلام ہو ان پر کہ انہوں نے انسانیت کی دستگیری کی او راس کو عین وقت پر ہلاکت سے بچالیا۔ ( صلی الله علیہ وسلم)
لیکن رفتہ رفتہ یہ دولتیں دنیا سے ناپید ہونے لگیں ، علم صحیح گم ہو گیا، یقین کا چراغ بجھ گیا، نیک عمل کی خواہش مردہ ہو گئی ، چھٹی صدی مسیحی آئی تو یہ تینوں دولتیں اتنی نایاب ہو چکی تھیں کہ ان کا سراغ لگانا مشکل تھا، پورے پورے ملک اور پورے پورے براعظم میں ڈھونڈنے سے بھی ایک الله کا بندہ نہ ملتا جو علم صحیح او رایمان قوی کی دولت سے مالا مال ہو اور انبیاء کا لایا ہوا دین اورپھیلا یا ہوا یقین سمٹتے سمٹتے ایک نقطہ بن گیا ، شک وبے عملی کی ظلمتوں میں علم ویقین کا یہ نور اس طرح کہیں کہیں چمکتا تھا جیسے برسات کی اندھیری رات میں جگنو چمکتے ہیں،اہل یقین کا ایسا قحط تھا کہ ایران کا ایک نوجوان سلمان فارسی یقین اور حسن عمل کی تلاش میں نکلتا ہے تو ایران سے شام اور وہاں سے حجاز پہنچ جاتا ہے او ران تینوں ملکوں میں اس کو صرف چار صاحب یقین ملتے ہیں۔
اس گھٹا ٹوپ اندھیرے اور اس عالم گیر ظلمت میں خدا کا آخری پیغمبر آتا ہے، وہ ان تینوں دولتوں کو اتنا عام کر دیتا ہے کہ اس سے پہلے کبھی اتنی عام نہیں ہوئی تھیں، جو دولت کسی کسی سینے اور کسی کسی سفینہ میں تھی، جو گھروں سے نکل کر محلوں میں بھی اور محلوں سے نکل کر شہروں میں بھی نہیں پھیلی تھی، وہ گھر گھر عام ہوجاتی ہے او رمشرق سے لے کر مغرب تک پھیل جاتی ہے #
رہے اس سے محروم آبی نہ خاکی
ہری ہو گئی کھیتی ساری خدا کی
وہ ان تینوں حقیقتوں کی تلقین ہی نہیں کرتا، ان کا صور پھونک دیتا ہے ، دنیا کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک کوئی کان والا ایسا نہیں جو کہہ سکے کہ اس نے اس صور کی آواز نہیں سنی اور جس نے نہیں سنی اس کے کان کا قصور ہے ، اس کے اعلان کا قصور نہیں ، آج دنیا کا کون سا گوشہ ہے جہاں ”اشھد ان لا الہ الا الله“ اور ”اشھدان محمد رسول الله“ کا ترانہ سننے میں نہیں آتا، جب دنیا کی تمام آوازیں تھک کر سو جاتی ہیں ، جیتے جاگتے شہر پر موت کی سی نیند طاری ہو جاتی ہے ، جب زبانوں پر قفل پڑ جاتے ہیں، اس وقت بھی کانوں میں یہی صدا آتی ہے کہ خدا کے سوا کوئی معبود نہیں او رمحمد رسول الله، الله کے پیغمبر ہیں۔
آج ریڈیو کے ذریعہ دنیا کے کونے کونے میں آواز پہنچتی ہے اور گھر گھر پیغام پہنچ جاتا ہے ، لیکن کیا کسی ریڈیو نے خواہ وہ امریکا کا ہو، خواہ برطانیہ عظمی کا، کسی حقیقت کو ، کسی علم کو، اس طرح دنیامیں عام کیا، جس طرح یہ علم عام ہوا ہے، جس کی صدا عرب کے نبی امی نے کوہ صفا پر چڑھ کر لگائی تھی۔
انسان کبھی ترنگ میں آتا ہے اور طفلانہ معصومیت کے ساتھ اپنے مالک سے کچھ کہنے لگتا ہے ، ایسی ہی ترنگ میں اقبال نے انسانوں کی طرف سے اپنے مالک کی بارگاہ میں عرض کیا تھا #
ترا خرابہ فرشتے نہ کرسکے آباد!
اگر آج محمد رسول الله کا ایک ادنیٰ غلام عرض کرے تو کیا بے جا ہے کہ خدا یا تیری خدائی برحق! تو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کا خالق، اس ساری دنیا کا خالق ومالک اور ہر شے پر قادر ہے ! لیکن کیا تیرے بندوں اور تیری مخلوقات میں سے کسی نے تیرا نام اس طرح پھیلایا اور دنیا کے کونے کونے میں پہنچایا جس طرح تیرے بندے اور پیغمبر محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے؟!
یہ کوئی بے ادبی اور سرکشی نہیں، اس میں بھی تعریف اسی خدا کی ہے جس نے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم جیسا پیغمبر بھیجا او ران کو اپنا نام پھیلانے اوراپنا دین چمکانے کی یہ طاقت او رتوفیق عطا فرمائی!
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے بدر کے میدان میں جب اپنی 15,14 سال کی کمائی الله کے دین کی مدد کے لیے سامنے رکھ دی اور 313 کو ایک ہزار کے مقابلہ میں لاکھڑا کردیا تو زمین پر سر رکھ کر اپنے مالک سے یہی کہا تھا کہ ” اے الله! اگر تو اس مٹھی بھر جماعت کو آج ہلاک کر دینے کا فیصلہ فرماتا ہے تو قیامت تک تیری عبادت نہ ہو سکے گی ۔“
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے توحید کی جو صدا لگائی تھی اس سے دنیا کا کوئی مذہب ، کوئی فلسفہ او رکوئی دماغ غیر متاثر نہیں رہا، جب سے دنیا نے سنا کہ انسان کے لیے خدا کے سوا کسی اور کے سامنے جھکنا ذلت اور عار ہے ، خدا نے فرشتوں کو آدم کے سامنے اس لیے جھکایا، تاکہ سب سجدے اس کی اولاد پر حرام ہو جائیں ، وہ سمجھ لے کہ جب اس کا رخانہ قدرت کے کارندے ہمارے سامنے جھکا دیے گئے تو ہم کو اس دنیا کی کسی چیز کے سامنے جھکنا کب زیب دیتا ہے ؟ جب سے دنیا نے توحید کی حقیقت اور انسان نے اپنی یہ حیثیت سنی اس وقت سے شرک خود اپنی نگاہ میں ذلیل ہو گیا، اس کو احساس کمتری نے گھیر لیا، آپ کو بعثت محمد صلی الله علیہ وسلم کے بعد اس کے لہجہ میں فرق محسوس ہو گا، اب وہ اپنے عمل پر نازاں نہیں، وہ اس کی تاویل اور فلسفیانہ تعبیر کرتاہے ، یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ توحید کی آواز نے دل میں گھر کر لیا ہے ، پھر محمد رسول الله صلی الله علیہ و سلم نے اس علم ویقین کے ساتھ وہ طاقت بھی پیدا کرکے دکھا دی، جس میں ہزار پولیس، سینکڑوں عدالتوں اور بیسیوں حکومتوں سے زیادہ طاقت ہے ، یعنی ضمیرکی طاقت ، نیکی کی رغبت، گناہ سے نفرت اور نفس کا خود احتساب۔
یہ اسی طاقت کا کرشمہ تھا کہ ایک صحابی، جن سے ایک بڑا گناہ سر زد ہوجاتا ہے، وہ بیتاب ہو جاتے ہیں ، ضمیر چٹکیاں لینے لگتا ہے او روہ حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں آتے ہیں اور عرض کرتے ہیں ، حضور مجھ کو پاک کر دیجیے، آپ رُخ انور پھیر لیتے ہیں ، وہ اسی طرف آکر کھڑے ہو جاتے ہیں ، آپ دوسری طرف کر لیتے ہیں، وہ اس طرف آکر کھڑے ہو جاتے ہیں ، آپ تحقیق کرواتے ہیں کہ ان کی دماغی حالت خراب تو نہیں ؟ جب معلوم ہوتا ہے کہ وہ صحیح الدماغ آدمی ہیں، تو آپ ان کو سزا دلواتے ہیں، بتائیے کس چیز نے ان کو سزا پر آمادہ کیااو رکون سی چیز ان کو خود کھینچ کر لائی؟
آگے چلیے غامدیہ ایک ان پڑھ عورت تھیں، کسی دیہات کی رہنے والی، وہ ایک بڑے گناہ میں مبتلا ہو جاتی ہیں ، نہ کوئی دیکھنے والاتھا، نہ سننے والا، مگر ان کے دل میں ایک پھانس تھی، جوان کو چین نہ لینے دیتی تھی ، ان کو کھانے پینے میں مزانہ آتا تھا، وہ کھانا کھاتیں تو ان سے دل کہتا کہ تم ناپاک ہو ، پانی پیتیں تو ان کا دل کہتا کہ تم ناپاک ہو ، ناپاک کا کیا کھانا پینا؟ تمہیں پہلے پاک ہونا چاہیے ، اس گناہ کی پاکی سزا کے بغیر ممکن نہیں، وہ خود آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوتی ہیں اور تقاضا کرتی ہیں کہ ان کو پاک کر دیا جائے اوراس پر اصرار کرتی ہیں، یہ معلوم کرکے ان کے پیٹ میں بچہ ہے، آپ فرماتے ہیں کہ اس بچہ کا کیا قصور ، اس کی جان تمہارے ساتھ کیوں جائے، جب بچہ ہو جائے جب آنا، خیال کیجیے! ان کو ضرور اس میں کچھ عرصہ لگا ہو گا، کیا اس میں انہوں نے کھایا پیانہ ہو گا، کیا زندگی نے خود ان سے زندگی کا تقاضا نہ کیاہو گا ، کیا خود کھانے اور پینے کی لذت نے زندگی کی رغبت نہ پیدا کی ہو گی او ران کو یہ نہ سمجھا یاہو گا کہ وہ اب حضور صلی الله علیہ وسلم کے پاس جانے کا ارادہ فسخ کر دیں؟ مگر وہ الله کی بندی پکی رہی او رکچھ عرصہ کے بعد بچے کو لے کر آئی اور عرض کیا کہ حضور صلی الله علیہ وسلم میں اس سے بھی فارغ ہو گئی، اب میری طہارت میں کیوں دیر ہو ؟ فرمایا نہیں،نہیں ! یہ بچہ الله کی امانت ہے ،اس کو کون ماں کی طرح دودھ پلائے گا ابھی اس کو دودھ پلاؤ، جب وہ دودھ چھوڑے جب آنا۔ آپ کو معلوم ہے کہ اس کو دو برس ضرور لگے ہوں گے ، یہ دو برس کیسی آزمائش کے تھے؟ نہ پولیس تھی نہ نگرانی ، مچلکہ، نہ ضمانت، کتنے خیال اس کو آئے ہوں گے ، بچہ کی معصوم صورت اس کو جینے کی دعوت دیتی ہو گی ، اس کی مسکراہٹ زندگی کی خواہش پیدا کرتی ہو گی اور بچہ اپنی زبان بے زبانی سے کہتا ہو گا کہ اماں! میں تیری ہی گود میں پلوں گا اور تیری انگلی پکڑ کر چلوں گا، مگر اس کا ضمیر کہتاتھا تیری ماں ناپاک ہے ، اس کو سب سے پہلے پاک ہونا ہے ، دل کا یقین کہتاتھا کہ احکم الحاکمین کے یہاں جانا ہے ، وہاں کی سزا سخت ہے، وہ پھر حاضر ہوتی ہے، روٹی کا ٹکڑا بچے کے منھ میں ہے اور کہتی ہے یا رسول الله ! دیکھیے! اس بچہ کا دودھ بھی چھوٹ گیا اور وہ روٹی کھانے کے قابل ہو گیا ، اب میری پاکی میں کیا دیر ہے ؟ آخر خدا کی اسی سچی اور پکی بندی کو سزا دی جاتی ہے اور حضور صلی الله علیہ وسلم خوشنودی کاپروانہ عطا کرتے ہیں اور فرماتے ہیں کہ اس نے ایسی سچی توبہ کی ہے کہ اس اکیلی کی توبہ اگر سارے مدینہ پر تقسیم کر دی جائے تو سب کے لیے کافی ہو۔
وہ کیا چیز تھی جو بغیر ہتکڑی، بیڑی کے ، بغیر مچلکہ وضمانت کے ، بغیر پولیس کے اس کو کھینچ لاتی ہے اور سزا کے لیے اصرار کرواتی ہے ، آج ہزار ہاپڑھے لکھے قابل فاضل مرد اور عورتیں ہیں، جن کا علم اور نقصانات کا یقین ان کو غلط کام سے باز نہیں رکھ سکتا اور اچھے کام پر آمادہ نہیں کرسکتا۔
محمد رسول صلی الله علیہ وسلم نے دنیا کو یہی تینوں انمول موتی عطا کیے، علم صحیح، یقین کامل اور نیکی کا تقاضائے قلبی، دنیا کو نہ اس سے زیادہ قیمتی سرمایہ ملا، نہ کسی نے اس پر آپ سے بڑھ کر احسان کیا۔
دنیا کے ہر انسان کو فخر کرنا چاہیے کہ ہمارے نوعِ انسان میں ایک ایسا انسان پیداہوا، جس سے انسانیت کا سر اونچا او رنام روشن ہوا، اگر آپ صلی الله علیہ وسلم نہ آتے تو دنیا کا نقشہ کیا ہوتا او رانسانیت کی شرافت وعظمت کے لیے کس کو پیش کرتے ؟ محمد رسول صلی الله علیہ وسلم ہر انسان کے ہیں، محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے اس دنیا کی رونق اور نوع انسان کی عظمت ہے، وہ کسی قوم کی مِلک نہیں، ان پر کسی مُلک کا اجارہ نہیں ، وہ پور ی انسانیت کا سرمایہ فخر ہیں، کیوں کہ آج کسی ملک کا انسان فخر ومسرت کے ساتھ یہ نہیں کہتا کہ میرا اس نوع سے تعلق ہے ، جس میں محمد صلی الله علیہ وسلم جیسا انسان کامل پیدا ہوا۔
آج انسانوں کا کون سا طبقہ ہے جس پر آپ صلی الله علیہ وسلم کا براہ راست یا بالواسطہ احسان نہیں؟ کیا مردوں پر آپ کا احسان نہیں کہ آپ نے ہم کو مردانگی اور آدمیت کی تعلیم دی؟ کیا عورتوں پر آپ کا احسان نہیں کہ آپ صلی الله علیہ وسلم نے ان کو حقوق بتلائے او ران کے لیے ہدایتیں اور وصیتیں فرمائیں؟ آپ نے فرمایا کہ جنت ماؤں کے قدموں کے نیچے ہے ، کیا کمزوروں پر آپ کا احسان نہیں کہ آپ نے ان کے حقوق وفرائض بھی بتلائے او رحدود بھی بتلائے؟ او رانصاف کرنے والوں او رخدا سے ڈرنے والوں کو بشارت سنائی کہ بادشاہ منصف رحمت کے سایہ میں ہو گا، کیا تاجروں پر آپ کا احسان نہیں ہے کہ آپ نے تجارت کی فضیلت او راس پیشے کی شرافت بتلائی اور خود تجارت کرکے اس گروہ کی عزت بڑھائی؟ کیا آپ نے یہ نہیں فرمایا کہ میں اورراست گفتار اور دیانت دار تاجر قریب قریب ہوں گے ؟ کیا آپ کا مزدوروں پر احسان نہیں کہ آپ نے تاکید فرمائی کہ مزدور کی مزدوری پسینہ خشک ہونے سے پہلے دے دو؟ کیا جانوروں تک پر بھی آپ کا احسان نہیں ہے کہ آپ نے فرمایا کہ ہر وہ مخلوق جو جگر رکھتی ہے اور جس میں احساس وزندگی ہے اس کو آرام پہنچانا او رکھلانا پلانا یہ صدقہ ہے۔کیا ساری انسانی برادری پر احسان نہیں کہ راتوں کو اٹھ کر آپ شہادت دیتے تھے کہ خدایا! تیرے سب بندے بھائی بھائی ہیں؟ ”انا شھید ان العباد کلھم اخوة“ کیا ساری دنیا پر آپ کا احسان نہیں کہ سب سے پہلے دنیا نے آپ ہی کی زبان سے سنا کہ خدا کسی ملک، قوم، نسل اوربرادری کا نہیں، سارے جہانوں اور دنیا کے سب انسانوں کا ہے ؟ جس دنیا میں آریوں کا خدا، یہودیوں کا خدا، ایرانیوں کا خدا کہا جاتا تھا، وہاں الحمدلله ”رب العالمین“ کی حقیقت کا اعلان ہوا اور اس کو نماز کا جز بنا دیا گیا۔
ہماری آپ کی دنیا میں حکماء وفلاسفہ بھی آئے، ادباء وشعراء بھی، فاتح وکشور کشا بھی آئے، سیاسی قائد اور قومی رہنما بھی ، موجدین ومکتشفین (سائنٹسٹ) بھی، مگر کس کے آنے سے دنیا میں وہ بہار آئی جو پیغمبروں کے آنے سے، پھر سب سے بڑے محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم کے آنے سے آئی؟ کون اپنے ساتھ وہ شادابی، وہ برکتیں، وہ رحمتیں نوع انسانی کے لیے، وہ دولتیں او رانسانیت کے لیے وہ نعمتیں لے کر آیا جو محمد رسول الله صلی الله علیہ وسلم لے کر آئے؟ چودہ سو برس سے زائد کی انسانی تاریخ پورے وثوق کے ساتھ آپ کو خطاب کرکے کہتی ہے #
سر سبز سبزہ ہو جو ترا پائمال ہو
ٹھہرے جو اس شجر کے تلے وہ نہال ہو
(صلی الله علیہ وسلم)

Flag Counter