Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1431ھ

ہ رسالہ

4 - 12
***
کیا فرماتے ہیں علمائے دین؟
دارالافتاء جامعہ فاروقیہ کراچی
کمپنی سے دو ر شہر کے ڈسٹری بیوٹر کےنام سے مال منگوا کر قریبی شہر میں اُتارنا
سوال… کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام درج ذیل مسائل کے بارے میں!
میں سیمنٹ کے کاروبار سے وابستہ ہوں، پاکستان کی بہت ساری کمپنیاں جیسے پاکستان سیمنٹ مینو فیکچر، سونا یوریا، اینگرویوریا اور پاکستان اسٹیٹ آئل سرکاری وغیر سرکاری ادارے اپنی مصنوعات ملک کے تمام شہروں میں تقریباً یکساں نرخ پر پہنچاتی ہیں یعنی پہنچانے کا کرایہ کمپنی کے ذمہ ہوتا ہے دور کے علاقہ کے لیے زیادہ اور نزدیک کے لیے کم کرایہ دینا پڑتا ہے۔
کمپنی کے ہر شہر میں ایک یا ایک سے زیادہ ڈسٹری بیوٹر ہوتے ہیں تاکہ کمپنی اپنیمصنوعات کو ہر علاقہ اور شہر میں مناسب ریٹ پر پہنچاسکے اور نزدیک کے علاقہ یا شہر میں بیچنا کمپنی کے لیے زیادہ سود مند ہے، کیوں کہ اس صورت میں کمپنی پر کرایہ کا خرچ کم پڑتا ہے، دور کے شہر کا ڈسٹری بیوٹر دور کے شہر کے ریٹ پر بکنگ کرتا ہے اور بکنگ کے بعد بعض اوقات مال کمپنی سے ملحقہ شہر یا علاقہ میں اُتارتا ہے، اس سے یہ ہوتا ہے کہ نزدیک کے شہر یا علاقہ میں مال بنسبت فیکٹری کے ریٹ سے کم ریٹ پر پہنچتا ہے کیوں کہ دور کے شہر کا ڈسٹری بیوٹر کمپنی سے زیادہ کرایہ لیتا ہے جب کہ نزدیک کے شہر یا علاقہ میں کم کرایہ ادا کرتا ہے۔
مثال کے طورپر !
1. لکی سیمنٹ ضلع لکی ڈیرہ اسماعیل خان کے سنگم پر واقع ہے فیکٹری کا ڈیرہ اسماعیل خان اور لاہور کا یکساں ریٹ ہوتا ہے کمپنی لاہور کے لیے زیادہ جب کہ ڈیرہ اسماعیل خان کے لیے کم کرایہ ادا کرتی ہے اب جب کہ لاہور کا ڈسٹری بیوٹر فیکٹری سے مال نکالنے کے بعد ڈیرہ اسماعیل خان میں اتارتا ہے تو ڈیرہ اسماعیل خان کے ریٹ سے یہ مال کم ریٹ پر پڑتا ہے حالاں کہ کمپنی سے اس چیز کی اجازت نہیں اور اگر کمپنی کے متعلقہ افسران کو اس بات کا پتہ چل جائے تو کچھ دنوں کے لیے ڈسٹری بیوٹر کا مال بند کردیتے ہیں۔
2. بعض اوقات یوں بھی ہوتا ہے کہ نزدیک کے علاقہ یا شہر میں جو دکان دار مال اتارتا ہے وہ اس کمپنی کا ڈسٹری بیوٹر نہیں ہوتا جب کہ شہر میں کمپنی کا ڈسٹری بیوٹر موجود ہوتا ہے لیکن دور کے شہر کے ڈسٹری بیوٹر سے مال اس لیے منگواتا ہے کہ کم ریٹ پر پہنچتا ہے یعنی مال اتارنے والے دکان دار پر کمپنی کے اصول لاگو نہیں ہوئے لیکن مال دینے والے پر لاگو ہوتے ہیں۔
3. بعض علاقوں یا شہروں میں ڈسٹری بیوٹر نہیں ہوتا اس کے لیے دکان دار جہاں سے چاہیں مال منگوالیتے ہیں۔
4. بعض اوقات کمپنی والے ڈسٹری بیوٹر کو جو ریٹ دیتے ہیں وہ وقتی طور پر زیادہ ہوتا ہے جسمیں ہمیں کچھ نفع نہیں ہوتا کہ ایسی صورت میں ہم دور والے ڈسٹری بیوٹر کا مال خرید کر نفع کماسکتے ہیں؟
اب آپ حضرات سے درج ذیل امور قابل دریافت ہیں:
1. کیا نزدیک کا دکان دار یا ڈسٹری بیوٹر دور کے شہر یا علاقہ کے ڈسٹری بیوٹر سے مال اتار سکتا ہے؟ اگر نہیں تو کیوں؟
2. جس کمپنی کا ہمارے شہر میں ڈسٹری بیوٹر نہ ہو تو کیا میں جہاں سے چاہوں مال منگوا سکتا ہوں؟
3. اگر کسی کمپنی کا مال میں منگوانا چاہتا ہوں جب کہ میں اس کمپنی کا ڈسٹری بیوٹر نہیں ہوں حالاں کہ اس کمپنی کا ڈسٹری بیوٹر پہلے سے ہمارے شہر میں موجود ہے تو کیا میں ڈسٹری بیوٹر نہ ہونے کے باوجود اس کمپنی کا مال منگوا سکتا ہوں؟
4. جس وقت کمپنی کا ریٹ وقتی طور پر زیادہ ہوتا ہے تو کیا اس وقت میں کمپنی کے دور کے ڈسٹری بیوٹر سے مال وقتی طور پر منگواسکتا ہوں؟
اس سلسلے میں بعض احباب سے رابطہ ہوا تو کسی نے جائز کسی نے مکروہ اور کسی نے تقویٰ کے خلاف بتایا ہے۔ برائے مہربانی جواب کو دلائل کے ساتھ بعجلت ممکنہ حل فرماکر احسان فرمائیں تاکہ آپ حضرات کے علم سے ہمارے کاروبار شرعی اصولوں پر گامزن ہو سکیں۔
جواب… 1، 4 کسی قریبی دکان دار یا ڈسٹری بیوٹر (گاہک) کا دور شہر کے ڈسٹری بیوٹر کا مال مذکورہ صورت میں اتارنا جائز نہیں۔
اولاً اس لیے کہ کمپنی کا دیا ہوا کرایہ اس کی رضا مندی کے بغیر آپس میں تقسیم کیا جاتا ہے جب کہ کسی کی رضا مندی کے بغیر اس کامال لینا حرام ہے ۔
ثانیاً اس لیے کہ جب کمپنی والے خود کسی ٹرک والے سے مال بھجواتے ہیں، تو اس ٹرک والے کے قبضہ کرنے سے چوں کہ ڈسٹری بیوٹر کا قبضہ متحقق نہیں ہوتا اس لیے جب یہ دور کا ڈسٹری بیوٹر کسی نزدیک شہر کے ڈسٹری بیوٹر کے پاس مال اتارتا ہے اور بعد میں اس سے اس مال کے پیسے لیتا ہے ، تو یہ بیع قبل القبض ہوئی جو کہ جائز نہیں۔
ہاں! اگر ڈسٹری بیوٹر خود کسی گاڑی والے کو بھیج کر اپنا مال منگواتا ہے تو ٹرک والے کے قبضہ کرنے سے اگرچہ ڈسٹری بیوٹر کا قبضہ ہو جاتا ہے لیکن نزدیک والے ڈسٹری بیوٹر کے پاس مال اتار کر بقیہ کرایہ آپس میں تقسیم کرنے پر کمپنی والوں کی رضا مندی اب بھی نہیں پائی جاتی۔
لہٰذا بہرحال اس طرح کرنا جائز نہیں۔
اور یہ عدم جواز کا حکم ہر صورت میں ہے یعنی خواہ کمپنی وقتی طور پر مہنگا دے رہی ہو یا سستا دے رہی ہو۔
2، 3 عقد بیع میں متعاقدین کی رضا مندی پائی جائے اور دیگر شروط فاسدہ نہ ہوں تو بیع جائز ہوتی ہے لہٰذا مذکورہ صورت میں بھی جب یہ شرط پائی جائے تو جہاں سے چاہیں آپ مال منگوا سکتے ہیں، خواہ شہر میں کوئی اور ڈسٹری بیوٹر ہو یا نہ ہو اور آپ خود کمپنی کے ڈسٹری بیوٹر ہوں یا نہ ہوں، بشرطیکہ یہ مال منگوانا مذکورہ بالا ناجائز صورت میں نہ ہو۔
مقروض کا قرض کی ادائیگی میں ٹال مٹول کرنا
سوال…1. ہماری مارکیٹ میں لوگ مال اُدھار پر خرید کر لے جاتے ہیں پھر وقت مقررہ پر ادائیگی میں ٹا ل مٹول کرتے ہیں، مثلاً: ایک آدمی نے تین لاکھ روپے کا مال لیا اور تین ماہ بعد رقم دینے کا وعدہ کیا، لیکن تین ماہ گزر جانے کے بعد وہ رقم ادا نہیں کرتا اور عا م طور سے یہ وجوہات بتائی جاتی ہیں۔
(الف) مال بکا نہیں ہے بکے گا تو رقم دے دیں گے۔
(ب) آگے سے پیمنٹ نہیں ملی ہے ، پیمنٹ ملے گی تو رقم دیں گے۔
(ج) فی الحال ہم رقم دینے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
حالاں کہ عام طور پر وہ وجوہات خلافِ حقیقت ہوتی ہیں یعنی جھوٹ ہوتا ہے۔
پھر جب نئے ڈیزائنوں والا نیا مال آتا ہے تو دیگر لوگوں کے طرح یہ مقروض بھی مال کا مطالبہ کرتے ہیں، اب اگر ان کونہ دیا جائے تو اس کامطلب یہ ہے کہ پرانے تین لاکھ ڈوب گئے، اس لیے مجبوراً ان کو مال دینا پڑتا ہے تاکہ گزشتہ پیمنٹ بھی وصول کی جاسکے، مثلاً:25 ہزار کا مال دیتے ہیں تو یہ 50 ہزار رقم دیں گے۔25 ہزار اس کے 25 ہزار گزشتہ کے۔
بعض لوگ بہت زیادہ ٹال مٹول کرتے ہیں ان کے لیے بعض لوگ کہتے ہیں کہ پنچایت بٹھا لو۔ پنجایت والے 25 فی صد پر یا50 فی صد پر فیصلہ کرتے ہیں۔
گویا کہ یہ حضرات( ہم بھی اس میں شامل) دوسرے لوگوں کے پیسے روک کر اپنا کاروبار بڑھانا چاہتے ہیں۔
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ:
1. دوسرے کے پیسے روک کر اپنے کاروبار کو وسعت دینے کا کیا حکم ہے ۔
2. دوسرے کے پیسے سے جوکاروبار ہو گا اس کے منافع کا کیا حکم ہو گا؟ کیا وہ منافع حلال ہوں گے یا حرام یا مکروہ؟
3. اسی طرح بسا اوقات پیسے روک کر عمرہ کرنے چلے جاتے ہیں فیملی کے ساتھ یا نفلی حج کر لیتے ہیں اس کا کیا حکم ہے؟
4. ہم لوگ3 پارٹنر ہیں ہم نے مارکیٹ سے مال خریدا ہے اب وہ لوگ ہم سے 2 کروڑ روپے مانگ رہے ہیں ہم نے 50 لاکھ کی مشین خریدی ہیں یا بیٹے کو 10 لاکھ سے دکان بنوا دی ہے یا بچے کی شادی میں رقم لگ گئی ہے۔ جس کی وجہ سے ہم جو ماہانہ قسط دیتے تھے ان مذکورہ اخراجات سے اس قسط میں کمی آگئی ہے کیا یہ گناہ کبیرہ تو نہیں ہے کہ ہم دوسروں کا مال روک کر بچے کی شادی کر دیں یا مشینیں خریدیں یا بچوں کو دکان بنوا دیں؟
جواب… صورت مسئولہ میں اگر وہ مقروض مال دار ہے اوراس کے پاس قرض واپس کرنے کی گنجائش بھی ہے ، مگر پھر بھی وہ اس کی واپسی میں ٹال مٹول کرتا ہے تو اس کی وجہ سے وہ گنہگار ہو گا، اور اس سے متعلق حدیث شریف میں بہت سخت وعید آئی ہے، حدیث شریف میں موجود ہے : ” مال دار کا ٹال مٹول کرنا ظلم ہے“ لہٰذا ان کو قرض کی ادائیگی میں تاخیر نہیں کرنی چاہیے۔
او راگر مقروض تنگ دست ہے او راس کے پاس ابھی قرض ادا کرنے کی گنجائش نہیں ، تو اس کے قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرنے سے وہ گنہگار نہیں ہو گا، تاہم وہ اس صورت میں اپنے قرض خواہ سے بات کرکے ادائیگی کی مدت کو بڑھالے۔
2. قرض لینے کے بعد مقروض قرض کا مالک بن جاتا ہے ، لہٰذا اس کا جو کاروبار کرے گا، وہ حلال ہے اور اس کی کمائی بھی حلال ہو گی ، البتہ وسعت کے باوجود قرض کی ادائیگی میں تاخیر کرنے کا گناہ ہو گا۔
3. مذکورہ صورت میں اس کا حج اور عمرہ کے لیے جانا کراہت سے خالی نہیں ۔
4. چوں کہ قسط ادا کرنا بائع اور مشتری کا آپس میں ایک قسم کا وعدہ ہے ، لہٰذا صورت مسئولہ میں اگر اپنی ضرورت کی اشیاء کے خریدنے کی صورت میں قسطوں کی ادائیگی میں تاخیر ہو گئی ہو ، تو اس کے لیے ان سے اجازت لے لی جائے کہ ہم کچھ تاخیر سے قسط ادا کریں گے ،اگر اجازت دیں تو ٹھیک بشرطیکہ وہ قسط کی ادائیگی کی تاخیر کے بدلے کچھ اضافہ نہ کریں ، اگر اضافہ کریں تو وہ سود کے زمرے میں آتا ہے ، جو کہ حرام ہے اور اگر وہ اجازت نہ دیں تو اس صورت میں وعدہ خلافی ہو گی اور اس کا گناہ ہو گا۔
عورت کی دیت کتنی ہے
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں کہ:
1. مرد اور عورت کی دیت میں مساوات ہے یا عورت کی دیت نصف اس زمانہ میں بھی تصور کی جائے گی اور احادیث میں بظاہر جو تعارض سا معلوم ہوتا ہے ، برائے کرم اس تعارض کو رفع فرماکر ممنون فرمائیں۔
2. عاقلہ سے کون مراد ہیں اور آج کے دور میں عاقلہ کا اطلاق کن پر ہو گا؟
جن عاقلہ کی حدیث میں تصریح ہے وہی مراد ہوں گے یا کوئی اور بھی حالات کے بدلنے سے مراد لے سکتے ہیں۔
جواب… عورت کی دیت مرد کی دیت کا نصف ہے ، اس پر صحابہٴ کرام، فقہائے عظام او راہل علم حضرات کا اجماع چلا آرہا ہے ، اس کے خلاف دوسرا قول ( مرد اور عورت کی دیت کے برابر ہونے کا) شاذ اور مخالف اجماع ہے، اس دوسرے قول کی تائید میں عام طور پر جو حدیث پیش کی جاتی ہے: ”المسلمون تتکافأد مائھم“ اس سے مراد یہ ہے کہ قصاص ودیت کے معاملہ میں تمام مسلمانوں کا حکم برابر ہے اور قتلِ عمد کی صورت میں قاتل کو قتل کیا جائے گا خواہ وہ کوئی بھی ہو اور کسی بھی حیثیت کا حامل ہو اور قتل خطا کی صورت میں دیت لی جائے گی۔
مقصد یہ ہے کہ قصاص ودیت کے معاملہ میں مسلمانوں کے درمیان برابری کی جائے گی او رکسی کو اس سے مستثنیٰ قرار نہیں دیا جائے گا ، یہ مقصد نہیں ہے کہ سب کی دیت کی مقدار بھی برابر ہو گی ، یعنی اس حدیث میں دیت کی مقدار کا ذکر نہیں ہے بلکہ یہ بیان کیا گیا ہے کہ قصاص ودیت کا قانون بلا امتیاز سب پر لاگو ہو گا۔
اس کے علاوہ چند اور دلائل جن میں عمومی الفاظ میں دیت کے واجب ہونے کا ذکر ہے ان سے بھی عورت او رمرد کی دیت کے برابر ہونے پر استدلال کرنا درست نہیں ہے، کیوں کہ ان میں صرف اجمالاً وجوب دیت کا ذکر ہے اور اس اجمال کی تفصیل اور دیت کی مقدار دوسری احادیث میں مذکور ہے جہاں صراحةً عورت کی دیت کو مرد کی دیت کا نصف قرار دیا گیا ہے ، لہٰذا احادیث میں در حقیقت کوئی تعارض نہیں بلکہ بعض میں اجمال اور بعض میں تفصیل ہے۔
2. عاقلہ سے وہ لوگ مراد ہیں جو پیشہ، ملازمت، خاندان، قبیلہ یا کسی او راعتبار سے ایک دوسرے کے ساتھ شریک ہوں اور اس حیثیت سے ان کے نام کسی محکمہ یا ادارے کے ریکارڈ میں موجود ہوں ، موجودہ دور میں بھی اسی معیار کو سامنے رکھ کر عاقلہ کی تعیین کی جاسکتی ہے ، مثلاً ریلوے کے محکمہ والوں کو ایک دوسرے کے لیے اور بجلی کے محکمہ والوں کو ایک دوسرے کے لیے عاقلہ قرار دیا جاسکتا ہے ، اسی طرح تمام خاندانوں کا حکومت کے پاس ریکارڈ ہوتا ہے لہٰذا کسی شخص کے خاندان کو بھی اس کے لیے عاقلہ قرار دینا درست ہے۔
بایں ہمہ یہ بات پیش نظر رہنی چاہیے کہ عاقلہ پر وجوب دیت کی وجہ صرف اس کا عاقلہ ہونا ہی نہیں ، بلکہ اس کا مدار باہمی تعاون وتناصر کے پائے جانے پرہے ، پس جن لوگوں کا آفات ومصائب کے وقت ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کا معمول ہو ان ہی پر بطور عاقلہ دیت کو واجب سمجھا جائے گا اگرچہ وہ اصطلاحاً عاقلہ کی تعریف میں نہ آتے ہوں او راگر کسی جگہ باہمی تناصر کا بالکل رواج نہ ہو تو قاتل پر خود اپنے مال سے دیت ادا کرنا لازم ہو گا، اس سے یہ بھی معلوم ہو گیا کہ وجوب دیت کے اعتبار سے عاقلہ صرف حدیث میں مصرح لوگوں کے ساتھ خاص نہیں ہے بلکہ حالات کے بدلنے سے اس میں تبدیلی آجاتی ہے۔

Flag Counter