Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1431ھ

ہ رسالہ

10 - 12
***
وقت اور اس کے قدردان
مولانا محمد سلیم دھورات
”آدمی کے اسلام کی اچھائی میں سے اس کا لا یعنی اور بے فائدہ کاموں کا چھوڑ دینا ہے ۔“ ( الترمذی)
ذخیرہٴ احادیث میں اس ارشادِ نبوی کا بڑا اونچا مقام ہے ۔ الله تعالیٰ ہم سب کو اس ارشادِ نبوی پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائیں ، آمین۔ امام ابوداؤد رحمة الله علیہ جن کا نام نامی سلیمان بن اشعث السجستانی ہے، مشہور محدث گزرے ہیں اور احادیث کی مشہور ترین کتابوں میں اُن کی کتاب سنن ابوداؤد بھی شامل ہے۔ یہ بڑے جلیل القدر محدث ہیں، محدث موسیٰ بن ہارون رحمة الله علیہ فرماتے ہیں : امام ابوداؤد رحمة الله علیہ کی پیدائش دنیا میں حدیث کی خدمت کے لیے اور آخرت میں جنت میں داخلہ کے لیے ہوئی ہے۔ محدث محمد بن اسحاق صاغانی او رمحدث ابراہیم حربی رحمة الله علیہما کے پاس جب امام ابوداؤد رحمة الله علیہ کی سنن پہنچی تو اسے دیکھ کر انہوں نے فرمایا: امام ابو داؤد رحمة الله علیہ کے لیے الله تعالیٰ نے فن حدیث کو ایسا آسان کر دیا ہے جیسا کہ حضرت داؤد علیہ السلام کے لیے لوہے کو نرم کر دیا تھا۔ سہل بن عبدالله تستری رحمة الله علیہ اکابر اولیاء میں سے گزرے ہیں، انہیں حضرت ذوالنون مصری رحمة الله علیہ کی صحبت بھی نصیب ہوئی ہے ، ایک مرتبہ آپ امام ابوداؤد رحمة الله علیہ کے پاس آئے اور فرمانے لگے ، میں آپ کی خدمت میں ایک ضرورت لے کر حاضر ہوا ہوں۔ امام ابوداؤد رحمة الله علیہ نے فرمایا: ارشاد فرمائیے، انہوں نے فرمایا: اگر آپ میری ضرورت کو پورا کرنے کا وعدہ فرمائیں، تب بتلاؤں، امام ابوداؤد رحمة الله علیہ نے فرمایا: اگر میرے بس میں ہو گا تو ضرور کروں گا، تو انہوں نے فرمایا:
آپ اپنی وہ مبارک زبان نکالیے جس سے آپ رسول صلی الله علیہ وسلم کی احادیث بیان فرماتے ہیں، تاکہ میں اس کوچوموں! اس پر امام ابوداؤد رحمة الله علیہ نے اپنی زبان نکالی او رانہوں نے بوسہ لیا۔ یہ ہے امام ابوداؤد رحمة الله علیہ کامقام۔
امام ابو داؤد رحمة الله علیہ کی پسندیدہ احادیث
انہوں نے حدیث نبوی کو محفوظ کرنے کے لیے محنت کی جو الله تعالیٰ کے فضائل سے بار آور ہوئی ، وہ فرماتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم کی پانچ لاکھ حدیثیں جمع کیں، جن میں سے چار ہزار آٹھ سو کا انتخاب اپنی سنن کے لیے کیا اور آگے فرماتے ہیں : انسان کو اس پورے ذخیرہ میں سے دین دار بننے کے لیے چار حدیثیں کافی ہیں ۔ اگر کوئی شخص ان چار حدیثوں پر عمل کرلے گا وہ دین دار ہو جائے گا۔ وہ چار حدیثیں یہ ہیں : اعمال کا دار ومدار نیتوں پر ہے۔ آدمی کے اسلام کی اچھائی میں سے اس کا چھوڑ دینا ہے بے فائدہ کاموں کو۔ آدمی اس وقت تک کامل مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک وہ اپنے بھائی کے لیے وہ پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے۔ حلال واضح ہے اور حرام بھی واضح ہے اوران دونوں کے درمیان مشتبہ چیزیں ہیں ۔ اگر غور کیا جائے تو ان چار حدیثوں میں پورے دین کا خلاصہ ہے ۔ شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ الله علیہ فرماتے ہیں : پہلی حدیث عبادت کی درستگی کے لیے کافی ہے ، دوسری حدیث زندگی کی قیمتی ساعات کی حفاظت کے لیے بہت ہے ، تیسری حدیث حقوق العباد کی ادائیگی کے لیے بنیادی حیثیت رکھتی ہے اور چوتھی حدیث مشتبہ امور سے بچ کر تقویٰ اور پرہیز گاری کے لیے بنیاد ہے ۔
امام اعظم رحمة الله علیہ کا حسن انتخاب
سراج الائمہ امام اعظم ابوحنیفہ رحمة الله علیہ کے فضائل ومناقب سے کون واقف نہیں؟ حضرت امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ نے اپنے صاحب زادے حماد رحمة الله علیہ سے فرمایا تھا : ” میں نے پانچ لاکھ احادیث کے ذخیرہ میں سے صرف پانچ حدیثوں کو منتخب کیا ہے ، جو انسان کے لیے کافی ہیں۔“ چار تو وہی اوپر ولی احادیث ہیں اور پانچویں حدیث : ”سچا پکا مسلمان وہ ہے جس کی زبان سے اورہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ رہیں ۔“ یہ حدیث بھی نہایت جامع اور مہتم بالشان ہے ، عالم میں امن وسکون کی فضا برقرار رکھنے کی ضمانت ہے ۔ ایسا معلوم ہوتا ہے کہ شاید امام ابوداؤد رحمة الله علیہ نے حضرت امام عظیم رحمة الله علیہ کے انتخاب کو سامنے رکھ کر ہی اپنا انتخاب کیا ہے، اس لیے کہ وہ امام صاحب رحمة الله علیہ کی وفات کے 52 سال بعد پیدا ہوئے اور وہ امام صاحب کے فضل وکمال او ران کے امام ہونے کے معترف تھے ، چناں چہ وہ فرماتے ہیں : الله تعالیٰ امام ابوحنیفہ رحمة الله علیہ پر رحم فرمائیں کہ وہ واقعی امام تھے ۔ 
اس تمہید سے آپ حضرات کو مذکورہ احادیث کی اہمیت معلوم ہو گئی ہو گی، ابھی ابھی جس حدیث کو پڑھنے کی سعادت حاصل ہوئی ، وہ انہیں حدیثوں سے میں سے ایک ہے اور آج اس کو بنیاد بنا کر کچھ عرض کرنے کی کوشش کی جائے گی ان شاء الله تعالیٰ۔ ارشاد نبوی ہے : آدمی کے اسلام کی خوبیوں اور اچھائیوں میں سے اس کالا یعنی کو چھوڑ دینا ہے۔ یعنی ایک مسلمان کے اچھا مسلمان ہونے کی نشانی یہ ہے کہ وہ لایعنی میں مبتلا نہیں ہوتا۔
لایعنی کسے کہتے ہیں 
اب سوال یہ ہے کہ لایعنی کسے کہتے ہیں؟ لایعنی فضول او رلغو کو کہتے ہیں اور فضول اور لغو ہر وہ کام ہے جس میں نہ دنیا کا فائدہ ہو ، نہ آخرت کا۔ اب امام اعظم رحمة الله علیہ او رامام ابوداؤد رحمة الله علیہ کے انتخابات وارشادات کا مطلب یہ ہوا کہ آدمی کے دین دار بننے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ ہر اس بات کو بولنے سے اور ہر اس کام کو کرنے سے رک جائے جس کا نہ دنیا میں کوئی نفع ہو نہ آخر ت میں تو لایعنی ہر اس عمل کو کہتے ہیں۔ جس کا نہ دنیا میں کوئی فائدہ ہو اور نہ آخرت میں۔
لایعنی میں مشغولی قیمتی لمحات کی بربادی
اب ظاہر ہے کہ جو شخص ایسے عمل میں مشغول ہو گا جس کا دنیا اور آخرت کسی میں فائدہ نہیں تو وہ الله کی دی ہوئی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کر رہا ہے ۔ اور جو شخص اپنی زندگی کے قیمتی لمحات کو ضائع کر رہاہو وہ کتنے خسارہ میں رہے گا۔ اس لیے کہ یہ ایسی دولت ہے جو ضائع ہونے کے بعد دوبارہ حاصل نہیں ہو سکتی۔
وقت کی قیمت دنیا داروں کی نظر میں
دیکھیے! دنیا میں ہر شخص کا کوئی نہ کوئی مقصد ہوتا ہے ، تاجر کا مقصد تجارت ، حکمران کا مقصد حکومت، دنیادار کا مقصد دنیا او رایک مسلمان کا بحیثیت مسلمان ہونے کے زندگی کا نصب العین اور سب سے اہم مقصد آخرت ہے ۔ اب آپ کسی بھی شخص کو دیکھ لیجیے، وہ اپنے متعین مقصد میں مشغولی کے وقت کسی اور کام کی طرف بالکل توجہ نہیں کرتا، جس سے اس کے مقصد میں خلل پیدا ہو سکتا ہو ، وہ اپنے مقصد میں کامیابی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتا اور ایک لمحہ کے لیے بھی وہ اپنے مقصد سے غافل نہیں رہتا اور عقل کا تقاضا بھی یہی ہے ۔ ایک تاجر اپنی تجارت کے اوقات میں کسی کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا پسند نہیں کرتا، اس لیے کہ اسے اپنا نقصان نظر آتا ہے جسے وہ کسی بھی قیمت پر گوارا کرنے کے لیے تیار نہیں ۔ یہ لوگ اپنے مقصد کی حد تک کتنے عقل مند اور ہوشیار نکلے کہ وہ اپنے مقاصد کو سامنے رکھ کر اپنے وقت کی قدر کرتے ہیں او رمحنت میں صرف کرتے ہیں، جس کی وجہ سے وہ اپنے مقاصد میں ترقی کی معراج کو پہنچ گئے۔
مسلمانوں کا حال
او راس کے برعکس مسلمانوں کا حال بہت ہی عجیب ہے ، بحیثیت ایک مسلمان کے اس کی زندگی کا کیا مقصد ہے وہ بے چارہ اس سے بے خبر ہے ، زندگی کے سینکڑوں قیمتی لمحات ضائع ہو رہے ہیں، حالاں کہ ایک ایک لمحہ او ر ایک ایک سیکنڈ اسے آخرت اور اس کے حساب کے قریب کرتا چلا جارہا ہے، مگر یہ غفلت کی نیند سو رہا ہے، لایعنی اور فضولیات میں اپنا وقت برباد کر رہا ہے ، قرآن کی اس آیت کا مصداق بنا ہوا ہے:” نزدیک آگیا لوگوں کے لیے ان کے حساب کا وقت اور وہ غفلت میں پڑے ہوئے ہیں ، اعراض کر رہے ہیں ۔“ بھائیو! افسوس ہے کہ آج ہم اپنے محبوب پیغمبرا کی قیمتی تعلیمات سے بہت دور ہو گئے ، دین ہمارے نزدیک چند رسمی کاموں کا نام ہو کر رہ گیا ہے #
رہ گئی رسم اذاں روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالی نہ رہی
وضع میں تم ہو نصاریٰ تو تمدن میں ہنود
یہ مسلماں ہیں جنہیں دیکھ کے شرمائیں یہود
تکبیر تو اب بھی ہوتی ہے مسجد کی فضا میں اے نور
جس ضرب سے دل ہل جاتے تھے وہ ضرب لگانا بھو ل گئے
آج ہم تعلیمات نبوی سے بے خبر او راگر کسی کو کچھ واقفیت ہے تو عمل سے بیزار۔ اسی بے پرواہی کی وجہ سے ہم خسارہ میں ہیں اور ذلت کی زندگیاں گزار رہے ہیں ، ہماری ترجیحات بدل گئیں ، ہمیں لغویات میں مشغولی مرغوب ہے ، جس کی وجہ سے ہمارے اوقات لہو اور فضول کاموں میں ضائع ہو رہے ہیں ۔ آج مسلمان اپنی زندگی کے سینکڑوں قیمتی لمحات ایسے کاموں میں صرف کر رہا ہے جن میں نہ آخرت کا نفع ہے نہ دنیا کا۔ فضول قصے کہانیاں، سیاسی امور پر بحث، اخبار بینی، کسی کا بے فائدہ ذکر وغیرہ بے شمار کام ہیں، جن میں اوقات برباد ہو رہے ہیں۔
فٹ بال اور کرکٹ 
فٹ بال اور کرکٹ وغیرہ کھیل کود کا خوب رواج ہے ، لوگوں کا جنون دیکھ کر حیرت ہوتی ہے، ایک مسلمان اس قسم کے بے فائدہ کاموں کے پیچھے اپنے اوقات کو کیسے برباد کر سکتا ہے ؟ بھائیو! خون کے آنسو رونے کا مقام ہے کہ مسلمان جو پوری دنیا کو جینے کا سلیقہ سکھانے کے لیے آیا تھا وہ اپنی زندگی کا قیمتی سرمایہ فٹ بال کے پیچھے ، کرکٹ کے پیچھے اور ہاکی کے پیچھے خرچ کر رہا ہے ۔ زندگی کے سینکڑوں گھنٹے ٹی وی پر گزر رہے ہیں، ریڈیو پر کمنٹری سننے میں صرف ہو رہے ہیں ۔ میں ان سے پوچھتا ہوں کہ کیا یہ مشغلہ الله کی یاد سے غفلت میں ڈالنے والا نہیں ہے ؟ کیا اس میں مشغولی کے وقت کسی لمحہ الله کی یاد بھی آتی ہے؟
افسوس صدافسوس! نماز کی جماعت، بلکہ نماز ہی چھوٹ جاتی ہے۔ اگر مسجد میں آبھی گئے اور نماز پڑھ بھی لی، تو مسجد میں ہی بلکہ نماز کے دوران بھی اسی کا خیال ۔ جمعہ کے وقت اگر کوئی میچ کھیلا جارہا ہے تو نماز جمعہ میں شرکت ہمارے لیے بوجھ بن جاتی ہے ، نہ خطبہ سننے کا اہتمام اور یہی مصیبت کیا کم تھی کہ اس پر مزید کھیلنے والوں کی محبت سے دل سرشار۔ رفتار، گفتار اور لباس ہر چیز میں ان کی نقل اتاری جاری ہے ، کیا کفار اور فساق وفجار کی اس درجہ محبت کی مسلمان کے لیے گنجائش ہو سکتی ہے ؟ کیا ہمارا مذہب نماز ، الله کی یاد اور حقوق کی ادائیگی سے غافل کرنے والی مشغولی کی اجازت دیتا ہے ؟ بھائیو! زندگی کی وہ گھڑیاں کس کام کی جو دنیا اور آخرت میں نفع نہ لاسکے۔ یاد رکھو! وقت کو ضائع کرنا زندگی کو ضائع کرنا ہے او روقت کو کار آمد بنانا زندگی کو کار آمد بنانا ہے ۔
مفید کام میں وقت کا خرچ
جو شخص اپنے وقت کی قدر کرتا ہے اور اس کو کسی مفید کام میں خرچ کرتا ہے تو دنیا اور آخرت کے عظیم منافع حاصل کر لیتا ہے ، کچھ لمحات اگر تلاوت کلام پاک میں گزار لے تو نیکیوں کا انبار لگ جائے ، چند گھڑیاں الله کی یاد میں گزر جائیں تو بے حساب ثواب حاصل ہو جائے۔ ایک مرتبہ الحمدلله کہنے پر اتنا اجر ملتا ہے کہ میزان بھر جاتا ہے، سبحان الله اور الحمدالله کا ثواب آسمان اورزمین کی خالی جگہ کو بھر دیتا ہے ۔ جو شخص بھی وقت کی قدر دانی کرتا ہے وہ ترقی کی منزلیں طے کرتا چلاجاتا ہے۔
ہمارے اسلاف اور وقت
ہمارے اسلاف کے یہاں وقت کی کتنی قدر تھی، اس کا اندازہ اس سے لگائیے، حضرت داؤد طائی رحمة الله علیہ جو ایک زبردست ولی ہیں ، ان کی عادت یہ تھی کہ جب بھی کھانے کے لیے بیٹھتے تو جلدی جلدی روٹی کے ٹکڑے کرکے پانی میں بھگو دیتے اور اپنے کام میں لگ جاتے، پھر جب وہ بھیگ جاتے تو تناول فرمالیتے، کسی نے پوچھا کہ آپ روٹی دوسروں کی طرح سالن کے ساتھ نہیں کھاتے؟ انہوں نے فرمایا کہ میں نے سالن کے ساتھ روٹی کھانے کا اورپانی میں ٹکڑے کرکے بھگو کر یونہی تناول کرنے کا حساب لگایا تو مجھے پچاس آیتوں کی تلاوت کا نفع معلوم ہوا، اس وقت سے میں نے یہ معمول بنا لیا تاکہ پچاس آیتوں کی تلاوت کرنے کا نفع اور فائدہ حاصل کرسکوں۔ حضرت سری رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت جرجانی رحمة الله علیہ کو دیکھا کہ ستوپھانک رہے ہیں ، میں نے پوچھا کہ خشک ہی پھانک رہے ہو ؟ کہنے لگے کہ میں نے روٹی چبانے اور ستو پھانکنے کا حساب لگایا تو چبانے میں اتنا وقت زیادہ خرچ ہوتا ہے کہ اس میں آدمی ستر مرتبہ سبحان الله کہہ سکتا ہے، اس لیے میں نے چالیس بر س سے روٹی کھانا چھوڑدی ، ستو ہی پھانک لیتا ہوں۔ پانچویں صدی کے ایک بزرگ عالم شیخ سلیم رازی رحمة الله علیہ اور اسی طرح شارح صحیح بخاری ، حافظ ابن حجر عسقلانی رحمة الله علیہ کا قلم جب لکھتے لکھتے گِھس جاتا اور قلم کو درست کرنے کی ضرورت پیش آتی تو وہ درست کرتے کرتے ذکر میں مشغول ہو جاتے، تاکہ یہ وقت صرف ایک ہی کام میں نہ گزرجائے۔ ظاہر ہے کہ قلم درست کرنا بھی عبادت ہے ، اس لیے کہ وہ علم ہی کے لیے تھا، مگر وقت کی قدروقیمت کا انہیں اتنا احساس تھا!
دوسرے کاموں کی کب فرصت
اور یہ احساس بھی الله کا ایک انعام ہے، جو ہر کسی کو نہیں ملتا۔ یہ اسے ملتا ہے جسے آخرت کی فکر اور الله تعالیٰ کی محبت کی مٹھاس حاصل ہو جاتی ہے اور پھر اس کے پاس دوسرے کاموں کے لیے فرصت نہیں رہتی۔ حضرت تھانوی نے مشہور بزرگ حضرت ابراہیم بن ادہم رحمة الله علیہ کا عجیب واقعہ بیان فرمایا ہے ، حضرت خضر، حضرت ابراہیم بن ادہم رحمة الله علیہ سے ملنے آئے، سلام ومصافحہ کے بعد حضرت ابراہیم بن ادہم رحمة الله علیہ پھر ذکر الله میں مشغول ہو گئے، حضرت خضر نے بڑا تعجب کیا کہ یہ تو بڑے بے فکرے ہیں ، فرمایا کہ بھائی تم تو بڑے بے فکرے ہو ، لوگ تو برسوں میرے ملنے کی تمنا میں رہتے ہیں، لیکن ملنا نصیب نہیں ہوتا ،تم سے میں خود ملنے آیا، لیکن تم نے میری طرف توجہ بھی نہیں کی، حضرت ابراہیم بن ادہم رحمة الله علیہ نے فرمایا: آپ سے ملنے کی تمنا وہ کرے جسے خدا سے ملنے سے فرصت ہو۔
ہم لوگ فرصت ہی فرصت میں ہیں، اس لیے وقت کی قدر نہیں ، کاش کے ہمیں وقت کی قیمت معلوم ہوتی!
زندگی نہیں تو کچھ نہیں
بھائیو! یہ ایک مسلم حقیقت ہے کہ الله کی دی ہوئی تمام نعمتوں میں سب سے قیمتی نعمت ایمان ہے ۔ مگر ایک حیثیت سے وقت ایمان سے بھی زیادہ اہم ہے ، اس لیے کہ وقت نہ ہوتا تو زندگی نہ ہوتی اور زندگی نہ ہوتی تو ہمارا وجود نہ ہوتا اور بغیر وجود کے ہم ایمان کی سعادت سے سرفراز نہ ہو سکتے ۔
میرے عزیزو! زندگی کی نعمت کے بغیر نہ ہم ایمان کی دولت حاصل کر سکتے ، نہ نماز پڑھ سکتے ، نہ روزہ رکھ سکتے ، نہ الله سے مناجات کرسکتے ، نہ مقام ولایت حاصل کر سکتے ، نہ جنت میں جاسکتے ، نہ الله کا دیدار کر سکتے۔ یہ وقت کا کرشمہ ہے کہ ہمیں دنیا اور آخرت کی بے شمار نعمتوں سے فائدہ اٹھانے کا موقع ملا ہے ۔ اگر وقت کے وہ لمحات نہ ہوتے جن سے زندگی بنتی ہے تو ہم ان تمام نعمتوں سے کیسے فائدہ اٹھاتے؟ پتہ چلا کہ وقت بہت ہی قیمتی سرمایہ ہے اور جوشخص لایعنی میں مشغول ہو کر اس سرمایہ کو برباد کرتا ہے وہ اپنے عمل سے یہ اعلان کر رہا ہے کہ میری نظر میں سب سے زیادہ بے قیمت چیز وقت ہے ۔
وقت کی قدر احادیث کی روشنی میں 
آپ صلی الله علیہ وسلم کے ایسے سینکڑوں ارشادات ملتے ہیں جو زندگی کے لمحات کو ضائع کرنے کے بجائے قیمتی بنانے کی طرف متوجہ کرتے ہیں ۔ آپ ا ارشاد فرماتے ہیں : تم میں سے بہترین لوگ لمبی لمبی عمر والے اوراچھے اچھے اعمال والے ہیں ۔ بہترین شخص وہ ہے جس کی عمر طویل ہو اور اعمال اچھے ہوں ۔ یعنی عمر طویل پائے او راپنی عمر کے لمحہ لمحہ کو اچھے عمل میں صرف کرے۔ مزید فرمایا پانچ چیزوں کے آنے سے پہلے پانچ چیزوں کو غنیمت جانو : بڑھاپے سے پہلے جوانی کو ، بیماری سے پہلے صحت کو ، فقر سے پہلے خوش حالی کو ، مشاغل سے پہلے فارغ وقت کو اور موت سے پہلے زندگی کو ۔ مزیدارشاد فرماتے ہیں: : دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ خسارے میں رہتے ہیں ، وہ ہیں صحت اور فراغت ۔ ان تمام ارشادات سے یہ اندازہ لگانا مشکل نہیں کہ آں حضرت ا ہمیں وقت کی قدر کرنے کی کتنی تاکید فرما رہے ہیں ۔ آپ اکا منشائے مبارک یہ ہے کہ ہم اپنی عمر عزیز کے ایک لمحہ کو بھی بے فائدہ کاموں میں خرچ نہ کریں۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ مہربان
حضور ا ہم پر ماں سے زیادہ مہربان او رباپ سے زیادہ شفیق ہیں، آپ ا نے ہمیں وہ ساری باتیں بتلا دیں جو ہمیں جنت کے قریب کرنے والی ہیں، تاکہ ہم انہیں اختیار کریں اور وہ تمام باتیں بھی بتلا دیں جو جہنم میں لے جانے والی ہیں، تاکہ ہم ان سے دور رہیں۔ ارشاد فرماتے ہیں : اے لوگو! میں نے تمہیں ہر اس چیز کا حکم کیا ہے جو تمہیں جنت کے قریب اور جہنم سے دور کرے اور ہر اس چیز سے روکا ہے جو تمہیں جہنم کے قریب اورجنت سے دور کرے۔ ہمارے پیارے نبی صلی الله علیہ وسلم کا کتنا بڑا احسان ہے کہ دوزخ کے عذاب سے حفاظت اور جنت کی ابدی سعادت کے حصول کا صاف شفاف راستہ اپنی تعلیمات کے ذریعے متعین کر دیا ،اب ہم میں سے ہر شخص کو ہر کام سے پہلے یہ سوچنا چاہیے کہ میرا یہ کام میرے نبی ا کی تعلیمات کے مطابق ہے یا نہیں ؟ اگر نہیں تو یہ لایعنی ہے ، لغو ہے اور فضول ہے اور بحیثیت مسلمان میرے لیے اس میں مشغول ہونا کسی طرح مناسب نہیں ، اس لیے کہ زندگی کے قیمتی لمحات کو ایسے کام میں ضائع کرنا جو بے فائدہ ہو ، نقصان عظیم ہے ۔ ایک شخص ایک لاکھ پاؤنڈ خرچ کرکے بے قیمت پتھر خریدتا ہے، جس کا نقصان کوئی نہیں، مگر ہر عقل مند انسان اسے عظیم نقصان قرار دے گا، اس لیے کہ پیسے ایسی چیز پر خرچ کیے جو بے قیمت تھی ۔ اسی طرح اگر کوئی زندگی کے قیمتی لمحات کسی ایسے مباح لایعنی کام میں خرچ کرتا ہے جو نقصان دہ نہیں، مگر تب بھی ہر عقل مند اسے نقصان عظیم کہے گا، اس لیے کہ متاع وقت ایسے کام میں خرچ ہوا ،جو نہ دنیا میں نفع لا سکا، نہ آخرت میں۔ ( ہے جاری)
Flag Counter