Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی ذوالقعدہ 1431ھ

ہ رسالہ

3 - 12
***
رسم بسم اللہ اور معلمین قرآ ن سے متعلق ایک روایت کی تحقیق محدثین کا ناقدانہ کلام
سرفراز خان، متخصص فی علوم الحدیث،جامعہ فاروقیہ کراچی
بدیہی بات ہے کہ ہرعلم وفن کااپنا ایک دائرہ اثر ہوتاہے ،جب اس کی گرم بازاری ہوتی ہے ،درس وتدریس ،تحقیق وتالیف کے سلسلے ہوتے ہیں،اس کے پڑھنے پڑھانے والوں کاماحول قائم ہوتاہے ،تولازمی طورپر اس کے اثرات بھی محسوس کیے جاتے ہیں،احادیث کی حفاظت ،نقل وحمل ،اس کے اصول وآداب،ناقلین کی پہچان وتمیزاوردیگراحوال وامورسے متعلق امت مسلمہ کے ایک بڑے علمی طبقہ نے جومحیرالعقول فنون کی داغ بیل ڈالی تھی،علوم حدیث،اسماء الرجال اورجرح وتعدیل کے مختلف عنوانات سے بیش بہاذخیرے تیارکرچکے تھے ،چلتی روایت کے مطابق دوسرے بیسیوں علمی عنوانات کی طرح وہ بھی سردمہری کے شکار ہوگئے ،جن علوم وفنون کی وضع وتدوین پرامت مسلمہ کوبجاطور پرفخر کاحق حاصل تھا،اقوام عالم پرجس کارعب ودبدبہ تھا،جن بنیادی خطوط کی وجہ سے تمام اسلامی علوم وفنون اور تاریخ وثقافت محفوظ ہوگئی،تحقیق وتنقید کے مخصوص اسلوب واندازکورواج ملا،اسی سے بے اعتنائی برتی جانے لگی،اسی کی ضرورت واہمیت کااحساس جاتارہا ! حالاں کہ زندہ قومیں کبھی ایسی چیز سے غفلت نہیں کرسکتیں جن سے ان کے امتیاز وتفاخر کوتعلق ہو،جن سے اُن کی شناخت قائم ہو۔
مذکورہ بالاگراں قدر علوم وفنون سے بے اعتنائی اوربے توجہی کی بناپرروایت بیانی میں بیسیوں کمزوریاں درآئی ہیں؛ حالاں کہ حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روایت بیانی میں غفلت اور کمزورطرز اختیارکرنے سے نہایت سختی کے ساتھ روکاتھا، کیوں کہ بنی اسرائیل کے آسمانی مذاہب کواسی افترا،کذب اورکمزور طریقہ کار نے ناقابل تلافی نقصان پہنچایاتھا۔
اس زمانہ میں بھی بہت ساری ایسی روایات سننے میں آتی ہیں؛بلکہ کتابوں میں بھی نظر سے گزر جاتی ہیں، جن کا تعلق رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم سے نہیں ہوتا،ان کی نسبت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنادرست نہیں ہوتا،محدثین نے اس کی کڑی گرفت کی ہوتی ہے ،حسب ضابطہ اس کے بیان کرنے پرپابندی عائد کی ہوتی ہے ؛ مگرغفلت اور تغافل کی وجہ سے پھربھی ان کی نسبت آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کی جاتی ہے ،بڑے بڑے مجمعوں میں اس کوبیان کیاجاتاہے ؛ حالاں کہ یہ معاملہ بہت سنگین ہے ،یہ نسبت اس قدر معمولی نہیں کہ کسی بھی شخص کے کہنے پراعتبارکرکے درست تسلیم کرلی جائے، ایسی روایات کو بیان کرنا، یا قیدِ تحریر میں لانے سے اجتناب کرنانہایت ضروری ہے؛ کیوں کہ اس سے دین کا حلیہ بگڑ جاتا ہے اور دین کی اصل ،صحیح تعلیمات خلط ملط ہوجاتی ہیں،اس کو معلوم کرنا ہی دشوار ہوجاتاہے۔
جب کبھی رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کی ذاتِ اطہر کی طرف کسی قول یا فعل کی نسبت کرنی ہو تو اصولی بات یہ ہے کہ اس قول وفعل کویا توازخود تمام تر جوانب سے دیکھا جائے، اس کی سند کے راویوں کو دیکھا جائے، اس روایت کے بارے میں متقدمین اور متاخرین محدثین کی آرا کوسامنے رکھاجائے،یاپھرایسی شخصیت یاکتاب پراعتمادکرکے نسبت کی جائے، جس شخصیت کتاب کوفنی لحاظ سے اعتماد کادرجہ حاصل ہو،مشہوراصحاب فن نے اس کی شہادت دی ہو،اُس کاحوالہ دے کربیان کیاجائے ،اِس کے بغیرنسبت کرنے کی کوئی جائزصورت نہیں ۔
کوئی بھی اچھاخطیب ،مقرریااردوعربی کی تحریرحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نسبت کرنے میں آ خری حوالہ نہیں ہوسکتی،اصحاب فن کی شہادت کے بغیراعتماد کادرجہ نہیں پاسکتی ، فنی شہادت و اعتماد کامقام معلوم کرنے کے لیے ضروری علوم وفنون کوسردخانے کی نذرکرنے کی وجہ سے کئی غلط فہمیا ں پیداہوچکی ہیں ، اصحاب فن کی صحبتوں میں بیٹھنے سے ہی اس کا بہتراِزالہ کیاجاسکتاہے ،جیسے کچھ لوگوں کو یہ خیال گزرنے لگتاہے کہ یہ روایت توشیح المشائخ سیدنا عبد القادر جیلانی المتوفی561ھ رحمہ اللہ تعالی کی کتاب”غنیة الطالبین“ میں ہے، یا حجة الاسلام امام غزالی المتوفی 505ھ، رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ”إحیاء علوم الدین“ یافقیہ ابو اللیث سمرقندی373ھ رحمہ اللہ تعالی کی کتاب ”تنبیہ الغافلین“ میں ہے، یہ کیسے موضوع ہو سکتی ہے؟ اس قسم کی ایک غلط فہمی کا ازالہ کرتے ہوئے یگانہ روزگارمحقق علامہ عبد العزیز پرہاڑوی صاحب ِ”النبراس“المتوفی 1239ھ رحمہ اللہ تعالی اپنی بے نظیر کتاب ”کوثر النبی وزلال حوضہ الروی“ میں لکھتے ہیں:
بسااوقات متکلمین، مفسرین اور فقہاء کے بڑے بڑے مشائخ اسی طرح کاملین صوفیائے کرام کی کتابوں میں من گھڑت روایتیں در آتی ہیں، جیسے تفسیر کشاف، تفسیر بیضاوی، تفسیر امام زاہدی اور تفسیر ثعلبی، ایسا ہی حجة الاسلام امام غزالی رحمہ اللہ تعالی کی ”إحیاء علوم الدین“ اور اس کی منتخب ”عین المنتخب“، اسی طرح” شرعة الاسلام“،” کفایہ شعبیہ“ اور ”غنیة الطالبین“ بھی، جس کی نسبت سیدناومرشدناحضرت غوث اعظم قدس سرہ کی طرف کی جاتی ہے اگرچہ یہ نسبت درست نہیں اورایسی ہی اوراد کی کتابیں جو بڑے صوفیائے کرام کی طر ف منسوب ہیں، ان تمام کتابوں میں بکثرت موضوع روایتیں درآئی ہیں۔(1) 
حضرت علامہ پرہاڑوی رحمہ اللہ تعالی خود اونچے درجہ کے روحانی مقام پر فائز تھے ،سلسلہ چشتیہ میں حضرت نورمحمد مہاروی رحمہ اللہ تعالی کے خلیفہ حضرت حافظ شاہ جمال اللہ ملتانی رحمہ اللہ تعالی سے ارادت وخلافت کاشرف رکھتے تھے ؛مگراس کے ساتھ وہ بلندپایہ محقق بھی تھے اورحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کسی بات کی نسبت کوبہت گرا ں بار سمجھتے تھے ،جس کااظہار موصوف کی تعبیرات سے ہوتاہے ،مذکو رہ بالابلندپایہ کتابوں اور اسی طرح سلف صالحین کی دوسری عظیم الشان کتابوں میں موضوع روایات درآنے کے کئی اسباب ، وجوہات ہیں ،چند ایک کوعلامہ پرہاڑوی رحمہ اللہ تعالی نے بھی بیان کیا ہے ،چناں چہ موصوف ر قم طراز ہیں:
(موضوعات درآنے کی ایک ) وجہ یہ ہے، کہ خاص فنِ حدیث میں ان حضرات کا اشتغال کم تھا،(دوسری وجہ) یہ کہ انہوں نے مسلمان بھائی پر(حسن ظن کرنے کے شرعی قاعدہ واصول کاسہارا لے کر)ازراہ حسن ِ ظن اُن کی زبان زد روایتوں پر اعتماد کیا،(تیسری وجہ ) یہ کہ ان حضرات ِ صدق وصفا کورطب ویابس سے بھرپور غیر منقح کتابوں سے دھوکہ لگا،(چوتھی وجہ ) یہ کہ ان مشائخ تک روایتِ حدیث کے معاملہ میں تساہل سے کام لینے پر جو وعیدیں منقول ہیں نہ پہنچ سکیں، (پانچویں وجہ یہ) یہ کہ ان میں سے بعض حضرات کی حالت یہ تھی کہ وہ ہر اُس روایت پراعتماد کربیٹھتے جوسند کے ساتھ بیان ہوتی ،اُس کے راویان میں جرح وتعدیل کی( زیادہ )ضرورت نہیں سمجھتے۔(شایداُ س بات سے دھوکہ کھاگئے جس کاذکرحافظ صاحب نے کیاہے )
حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں کہ دوسری صدی سے اب تک اکثر محدثین جب روایت کو سند کے ساتھ ذکرکر لیتے ہیں، تو وہ اپنے کو بریٴ الذمہ سمجھتے ہیں(کہ انہوں نے بیان کرنے والوں کے نام بتاکرگلوخلاصی کرلی ،عمل کرنے والاخودہی چھان بین کرلے )۔(2)
خلاصہ کلام یہ ہے، کہ ان حضرات کااپنی کتابوں میں موضوع روایات کو لانااِن کی اجتہادی غلطی ہے (اوراجتہادی غلطی پر اللہ تعالی کی طرف سے مواخذہ نہیں ہوتا) اجتہادی غلطی ہوجاناکوئی عجیب اور ناقابل توقع بات نہیں اور نہ ہی قابل جرح وقدح۔
علامہ پرہاڑوی رحمہ اللہ تعالی کے بیان کے مطابق یہ ایک اجتہادی غلطی ہے ،جس پر زیادہ گرفت نہیں ہوتی ، مگر کسی کے لیے یہ ہرگزدرست نہ ہوگا کہ وہ ثابت شدہ اجتہادی خطا کی اتباع وتقلید کرنے لگ جائے ،مذکورہ وجوہات کے علاوہ ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ ِان روایات کا موضوع ہونا ان کے علم میں نہیں ہو گا۔
اکابرعلمائے دیوبند جمہوراہلسنت والجماعت کے ترجمان تھے، انہوں نے کسی موڑپر ان کی روش سے ہٹ کرکوئی راستہ قبول نہ کیا،موضوعات کے حوالے سے ان کا موقف علمی اور تحقیقی ہے ،وہ بات بات پرضعیف وموضوع کا رٹا نہیں لگاتے پھرتے ،نہ ہی بزرگوں کی شطحیات کوقابل تقلید وعمل سمجھتے ہیں،دلیل سے بات کرتے ہیں اورجمہورعلمائے امت کے طرزواندازپر مدلل بات کوپسندکرتے ہیں،قبول کرتے ہیں،جب کبھی کسی روایت کاموضوع ہونا ثابت ہوچکااوراصولی طورپراس کوقبول کرناچاہیے تھا،انہوں نے تسلیم کرنے میں دیر نہ کی ،حکیم الامہ حضرت تھانوی رحمہ اللہ تعالی نے زبان زدعوام وخواص کئی روایات پراپنی آخری کتاب ”بوادر النوادر“ میں ناقدانہ کلام کیا ہے۔
بہرحال دوسرے پختہ کارمحدثین کی تصریح کے بعد کسی موضوع روایت کو بعض بزرگوں کے محض عمل کی بناپرسہارا نہیں دیاجاسکتا،جب کہ خود اُن بزرگوں کے طرزعمل میں مذکورہ بالاکئی توجیہات ہوسکتی ہیں ،ہمارے زمانہ میں چوں کہ علوم حدیث کے فنی تقاضوں سے بے گانگی اوراجنبیت کافی بڑھ گئی ہے، اس لیے تنبیہ کیے بغیر کوئی ایسی روایت بیان کرنایاقید تحریر میں لانادرست نہ ہوگا، جس کے لیے قابل اعتمادفنی سہارا موجود نہ ہو،کیوں کہ اب سننے والوں یاپڑھنے والوں سے یہ توقع رکھناکوئی معنی نہیں رکھتاکہ وہ خودسے تحقیق کرلیں گے۔
علامہ پرہاڑوی رحمہ اللہ تعالی ان لوگوں کی روش پر تعجب کا اظہار کرتے ہیں، جو فنی لحاظ سے اپنی جہالت کااقرارکرنے کے بجائے پختہ کار محدثین ہی کی رائے سے روگردانی کرنے لگتے ہیں، فرماتے ہیں:
ان لوگوں کی روش پر تعجب ہے، جو علومِ حدیث سے بالکل ناواقف ہیں ،(اس کے باوجود حدیث کے معاملہ میں محدثین کاسہارالینے کے بجائے)ان کے ساتھ تعصب کارویہ رکھتے ہیں،( جس کااثریہ ہے) کہ وہ موضوع روایات بیان کرنے میں مبتلا ہوتے ہیں ،اس کی وجہ سے احادیث نبویہ میں وارد بہت بڑی وعید کے مستحق بن جاتے ہیں؛ حالاں کہ ہم نے حق وباطل کوالگ الگ سمجھادیاہے ، اس کے بعدبھی یہ اپنے (جاہل) آباء واجداد کے غلط طرزعمل کی پیروی کرنے سے چھٹکارہ نہیں پاتے،(ایسے ہی لوگوں کی ایک نوع کے بارے میں ارشادربانی ہے ):اور جب ان سے کہا جاتا ہے، کہ تم لوگ اللہ تعالی کے نازل کیے ہوئے احکامات کی پیروی کرو، تو یہ لوگ جواب میں کہنے لگتے ہیں: نہیں، بلکہ ہم تو اس رسم ورواج کی پیروی کریں گے،جن پر ہم نے اپنے آباوٴ اجداد کو دیکھا تھا،(یہ لوگ ایساکرنے پربضد ہیں) اگر چہ ان کے آباوٴ اجداد کچھ نہ سمجھتے تھے اور نہ ہی راہ راست پرتھے۔(3)
روایات کاایک بڑا ذخیرہ ہے جوآج بھی زبان زدعوام وخواص ہے، جس کے بارے میں محدثین نے تصریح کردی ہے ،کہ اس کوبیان کرنے سے اجتناب کیاجائے ؛ مگرکسی فنی دلیل کاسہارا لیے بغیر اسے بیان کیاجاتاہے ، قید تحریر میں لایاجاتاہے،جوحضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نہایت موٴکد تعلیم وتنبیہ کے سراسر خلاف ہے ۔ ہرزمانے میں اصحاب ِ فن نے اس حوالے سے اپنی خدمات پیش کی ہیں،اور موضوع،منگھڑت روایات کی نشان دہی کرکے امت مسلمہ کوخبردار کیاہے ،ہندوستان کے اکابر علماء بھی اس میدان میں اترکراپناحصہ ڈال چکے ہیں،گیارہویں صدی ہجری کے محدث علامہ محمد طاہرپٹنی صاحب ِ”تذکرة الموضوعات“ اور ”قانون الموضوعات“ اسی طرح تیرویں صدی ہجری کے علامہ عبدالعزیزپرہاڑوی متوفی 1239 صاحبِ ”کوثرالنبی وزلال حوضہ الروی“اورعلامہ جعفرسندھی بوبکانی متوفی ایسے ہی علامہ عبد الحی لکھنوی متوفی 1304ھ سرزمینِ ہند وسند کی ان نامور شخصیات میں سے ہیں،جنہوں نے اِس ضرورت کاشدت سے احساس کرتے ہوئے موضوع ومنگھڑت روایات کی اپنے طور سے نشان دہی کی کوشش کی اور اس سے اجتناب اختیارکرنے کی صدابلند کی۔
مختلف ادوار میں گوناگوں مقاصد کے تحت ایسی روایتیں پھیلائی جاتی رہی ہیں، جن کی کوئی اصل نہیں تھی ،کبھی دشمنان دین اسلام اور مسلمانوں کی شان وشوکت ،رعب ودبدبہ ،قوت وسیادت کودیکھ کر ایسے اپنے نبی صلی اللہ علیہ والہ وسلم سے غیر معمولی تعلق ،محبت کوجان کردلی کینہ ،بغض کااظہارکرنے کے لیے بے سروپا باتیں مشہور کرنے لگتے،کبھی کوئی دل درمندرکھنے والاسادہ لوح لوگوں کی بے رغبتی اورسستی کومحسوس کرکے اپنی طر ف سے ترغیب وترہیب کے جملے حدیث نبوی کہہ کربیان کرتا،یہ خیال کرکے کہ وہ لوگوں کوبھلائی کی دعوت دے رہاہے ،اس طرح دوسرے لوگ ان کی دین داری،وضع قطع سے متاثر ہوکرا ن کے اعتمادپروہ روایتیں بیان کرنے لگ جاتے،کبھی کسی صحیح روایت کاحلیہ بگڑ کرایک نئی خودساختہ روایت کی شکل میں بدل جاتا،کبھی کسی کاکلام کسی اور کی طرف منسوب ہوجاتا،اس طرح کی اوربھی شکلیں ،صورتیں تھیں،جن کے لبادے میں موضوعات ومنگھڑت روایات کاسلسلہ چل رہاتھا؛مگرامت مسلمہ اِس امتحان ،آزمائش میں ناکام نہ ہوئی،بنی اسرائیل کی طرح وہ باتیں دین کاحصہ قراردے کر مطمئن نہ ہوئی ؛ بلکہ ایک ایک کرکے وضاع وکذاب لوگوں کاپتہ لگوایا،ان کی روایات کونشان زد کیا،دشمنوں کووہ کیاموقع دیتے جنہوں نے اپنوں کوبھی معا ف نہ کیا،ان کی معمولی معمولی غلطی ، کوتاہی ،بشری لغزشوں کوچلنے نہیں دیا، کیوں کہ معاملہ بڑا سنگین تھا،ذمہ داری بہت بڑی تھی، نبوی تاکید بڑی سخت تھی ۔
چناں چہ ایک روایت زبان زد عوام وخواص ہے،جس میں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زبانی مکتب کے معلمین کی فضیلت وارد ہے ، ایسے ہی جب وہ بچے کوبسم اللہ کی تعلیم شروع کراتاہے تو اس موقع کے لیے ایک خاص فضیلت کاذکر ہے ،؛ شاید اس جیسی روایات کی وجہ سے ”رسم بسم اللہ“نامی اصطلاح کارواج پڑا ہو ۔
اللہ تعالی کی ذات عالی شان سے کسی کوبڑھیا بنا سے بڑھیا دینا کوئی تعجب خیز ہرگزنہیں؛ مگراس کے لیے جھوٹی باتیں حضرت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کرکے بیان کرنابجائے خود بہت بڑا جرم ہے،کوئی ادنی انسان ان کہی بات کی نسبت اپنی طرف کرنے کوبرداشت نہیں کرتا ،چہ جائیکہ کائنات کی سب سے برگزیدہ شخصیت ،اللہ تعالی کے لاڈلے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،فداہ أبی وأمی!
یہ روایت ہمارے یہاں غالبا بعض تفاسیرمیں مذکور ہونے کی بناپرزبان زدعوام وخواص ہوچکی ہے ، مختلف کتابوں میں یہ روایت موجود ہے ، پانچویں صدی ہجری کے مشہور مفسرامام أحمد بن محمد بن إبراہیم ثعلبی المتوفی 427ھء رحمہ اللہ نے سند کے ساتھ اپنی تفسیر”الکشف و البیان عن تفسیر القرآن “ میں اس کونقل کیاہے ،جس کی تفصیل یہ ہے۔
موصوف لکھتے ہیں:
حدّثنا أبو عبد اللّہ محمد بن علي، حدّثنا أحمد بن سعید، حدّثنا جعفر بن محمد بن صالح، وحدّثنا محمد بن القاسم الفارسي، حدّثنا أبو محمّد عبد اللّہ بن أحمد الشیباني، أخبرنا أحمد بن کامل بن خلف، حدّثنا علي بن حماد بن السکن، أخبرنا أحمد بن عبد اللّہ الہروي، (حدثنا)
(4)
(ہشام)
(5) بن سلیمان المخزومي، عن (ابن)
(6) أبی ملیکة، عن ابن عباس رضی اللّہ عنہ، قال: سمعت النبي صلی الله علیہ وسلم، یقول: خیر الناس وخیر من یمشي علی جدید الأرض المعلّمون؛ فکلما خُلِق الدین جدّدوہ، أعطُوہم، ولا تستأجِروہم، فتحرجوہم؛ فإن المعلّم إذا قال للصبي: قل: بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ، فقال الصبي:بِسْمِ اللَّہِ الرَّحْمنِ الرَّحِیمِ کتب اللّہ براء ة للصبي، وبراء ة لأبویہ وبراء ة للمعلّم من النار(7)․
چوں کہ اس روایت کی سندمیں محدثین کاشدیدکلام ہے،اوراسی پرآگے فنی گفتگوکی گئی ہے؛ اس لیے پوری سندسمیت ترجمہ درج کیاجاتاہے․
ترجمہ:ہم سے روایت بیان کی ابوعبد اللہ محمدبن علی نے،انہوں نے کہا : ہم سے روایت بیان کی احمدبن سعید نے ،انہوں نے کہا:ہم سے روایت بیان کی جعفربن محمد بن صالح نے(دوسری سند)اورہم سے روایت بیان کی محمدبن القاسم فارسی نے،انہوں نے کہا:ہم سے روایت بیان کی ابومحمد عبد اللہ بن احمدشیبانی نے،انہوں نے کہا:ہم سے روایت بیان کی احمد بن کامل بن خلف نے(جعفر اوراحمد)انہوں نے کہا: ہم سے روایت بیان کی علی بن حماد بن السکن نے،انہوں نے کہا: ہم سے روایت بیان کی احمدبن عبد اللہ الہروی نے،انہوں نے کہا: ہم سے روایت بیان کی ہشام بن سلیمان مخزومی نے،حضرت ابن ابی ملیکہ سے ،انہوں نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ۔
انہوں نے فرمایا:میں نے حضرت نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم کویہ ارشاد فرماتے ہوئے سنا:کہ لوگوں میں(بلکہ)روئے زمین پر تمام چلنے والوں میں بہترین لوگ معلمین(قرآن مجیدسکھانے والے) ہیں؛ کیوں کہ جب بھی دین پرانا ہوجاتاہے ،(لوگ پڑھاپڑھایابھول جاتے ہیں )تویہی معلم لوگ اس کوتازہ کردیتے ہیں ۔(چوں کہ ان کابڑا مقام ہے؛ اس لیے) ان کوویسے ہی دے دیا کرو اور ان کو اجرت پر نہ رکھو؛ ورنہ تم ان کو حرج،(تنگی) میں ڈا ل دو گے؛ (ان کابڑا مرتبہ ہے )جب معلّم بچے سے کہلواتاہے: بسم اللہ الرحمن الرحیم پڑھو !، بچہ(اس کے جواب میں) بسم اللہ الرحمن الرحیم کہہ لیتا ہے، تو اللہ تعالی(اس عمل کی وجہ سے) بچہ ، اس کے والدین اور معلّم تینوں کے لیے جہنم کی آگ سے براء ت(خلاصی کاپروانہ ) لکھ دیتے ہیں۔
اس روایت کو امام ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی نے اپنی کتاب ”کتاب الموضوعات“(8)، اور حافظ سیوطی رحمہ اللہ تعالی نے ”اللآلی المصنوعة في الأحادیث الموضوعة“(9) میں حافظ ابن مردویہ کے طریق سے ذکر کیا ہے۔
تفسیرثعلبی کی طرح مذکورہ بالادوکتابوں کی سندیں بھی اوپر سند میں مذکور احمد بن کامل پرمشترک ہو جاتی ہیں۔
ضروری وضاحت - تین نکات
1. مذکورہ سند اما م ثعلبی کی تفسیر ”الکشف والبیان“ سے نقل کی گئی ہے،ہمارے پیش نظرجونسخہ ہے اس میں یہ لفظ”أبي ملیکة“ لکھا ہواہے ؛ مگرہزاروں علمی،عربی مصادر،مراجع کی طرح”الکشف والبیان“پر بھی تحقیق وتدوینِ متن کانہایت ضروری کام نہیں ہوا ہے؛ جس کی وجہ سے موجودہ نسخہ کے متون اور اسانید میں بہت سی سقطات (کلمات اور راویان کا عبارت میں حذف ہونا) اورتصحیفات (تبدیلی) واقع ہوئی ہیں،جس کی وجہ سے تحقیقی کام میں بڑی دشواری پیش آتی ہے،امام ثعلبی کی لکھی ہوئی عبارات کی صحیح تعیین محدثانہ کلام سے ہٹ کربجائے خودایک کام بن جاتاہے اوریہ قصہ ہزاروں کتابوں کے ساتھ درپیش ہے ،جولوگ تحقیق کے میدان سے کچھ وابستگی رکھتے ہیں،ان کوقدم قدم پراس پریشانی کاسامناکرناپڑتاہے۔
یہاں بھی یہی خامی موجود ہے؛ کیوں کہ یہ راوی”أبو ملیکة“ نہیں ہے؛ بلکہ ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نقل کرنے والے مشہور راوی ”ابن أبي ملیکة“ ہیں، جیسا کہ امام جوزی کی ”کتاب الموضوعات“،حافظ سیوطی کی کتاب ”اللآلی المصنوعة“ اور ابن أبی الہادی کی ”تنقیح التحقیق“ میں ہے۔
2. ایسا ہی ”الکشف والبیان“ میں ”حسام بن سلیمان المخزومي“ ہے، اور ”کتاب الموضوعات“ اور حافظ سیوطی رحمہ اللہ تعالی کی ”اللآلي“، ابن أبی الہادی کی ”تنقیح التحقیق“میں” ہشام بن سلیمان المخزومي“ ہے اور درست بھی یہی ہے، لیکن ”ہشام بن سلیمان المخزومي“کے شیوخ میں سے ”ابن أبي ملیکة“ نام کا کوئی شیخ نہیں ملا، اس لیے یہاں پرسقط ہے، جس کو شمس الدین محمد بن احمد ابن ابی الہادی الحنبلی المتوفی 744 نے اپنی کتاب ”تنقیح التحقیق في أحادیث التعلیق“ میں مذکورروایت کے تحت امام ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی کا کلام ذکر کرکے تصریح کی ہے، عبارت ملاحظہ ہو:
ہذا الحدیث موضوعٌ، وقد سقط بین ہشام وابن أبي مُلَیْکة رجلٌ، إمَّا ابن جریج أو غیرہ.والجُوَیْبَاريُّ: دجَّالٌ(10)․
یہ روایت من گھڑت ہے، ہشام اور ابن أبی ملیکہ کے درمیان ایک راوی ساقط ہے، وہ یا تو ابن جریج (عبد الملک بن جریج) ہیں یا کوئی اور؟ اور جویباری دجال (شدید کلمہٴ جرح) ہے۔
ہشام بن سلیمان کے شیوخ کی فہرست میں عبد الملک بن جریج کا نام موجود ہے، جس کو”تہذیب الکمال “ میں دیکھا جاسکتا ہے۔
3. تفسیر ”الکشف والبیان“ میں احمد بن عبد اللہ الہروی کے بعد کوئی صیغہ تحدیث(حدثنا)، إخبار(أخبرنا) اور عنعنہ(عن) کا نہیں ہے، یہاں بھی سقط ہے، جب کہ ”کتاب الموضوعات“میں(قال: حدثنا) ”اللآليالمصنوعة“ میں(حدثنا) اور ”تنقیح التحقیق“ میں مخفف صیغہ(ثنا) ہے۔ 
اس روایت کے بارے میں امام ابن الجوزی، حافظ ذہبی، حافظ سیوطی، علامہ محمد طاہر پٹنی، علامہ ابن عراق، علامہ شوکانی اور علامہ عبد العزیز پرہاڑوی رحمہم اللہ تعالی ان سب محدثین نے کلام کیاہے اور اس کو جویباری کذاب کی وجہ سے موضوع قرار دیا ہے، ذیل میں ان محدثین کرام کے اقوال لکھے جاتے ہیں۔
روایت پر آئمہ حدیث کا کلام
امام ابن الجوزی المتوفی 597ھ رحمہ اللہ تعالی کا کلام امام ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی رقمطراز ہیں:
یہ روایت ہروی کی وضع کردہ ہے، اس پر جرح کا ذکر پہلے ہوچکا ہے، اور یہ کذاب ووضاع راوی ہے۔(11)
حافظ ذہبی رحمہ اللہ تعالی نے علامہ ابن الجوزی رحمہ اللہ تعالی کی تقریر وتصدیق ان الفاظ میں کی ہے:
فیہ الجویباري کذاب(12)․
اس روایت کی سند میں ”الجویباری“ ہے ، جو کہ کذاب ہے۔
حافظ سیوطی المتوفی 911ھ رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
وضعہ الہروي، وہو الجویباري(13)․
ہروی نے اس کو گھڑاہے اور وہ جویباری ہے۔
علامہ محمد طاہر پٹنی المتوفی 986ھ رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
موضوع(14)․
یہ روایت موضوع ہے۔
علامہ ابن عراق المتوفی 963ھ رحمہ اللہ تعالی کا کلام:
من حدیث ابن عباس، وفیہ الجویباري(15)․
ابن عباس رضی اللہ عنہ کی طرف منسوب روایت ہے اور اس میں جویباری ہے۔
تنبیہ: علامہ ابن عراق رحمہ اللہ تعالی کااسلوب یہ ہے کہ جب وہ کسی راوی کے بارے میں اس طرح کا کلام کرتے ہیں، تو موصوف کے نزدیک یہ اس راوی پر شدید جرح شمار ہوتی ہے۔
علامہ شوکانی رحمہ اللہ تعالی ”الفوائد المجموعة“ میں لکھتے ہیں: 
ہو موضوع(16)․
یہ روایت من گھڑت ہے۔
علامہ عبد العزیز پرہاڑوی المتوفی1239ھ کی رائے:
فی ”اللآلي“موضوع(17)․
”اللآلي“ میں ہے کہ یہ روایت موضوع ہے۔
سند میں متکلم فیہ راوی پر کلام
اب تک نفسِ ر وایت پر محدثین کا کلام تھا، محدثین نے اس روایت کو أحمد بن عبد اللہ بن خالد بن موسی بن فارس بن مرداس بن نہیک التمیمی العبسی الہروی، أبو علی الجوباری یا الجویباریکذاب کی وجہ سے موضوع قرار دیا ہے، مناسب معلوم ہوتاہے، کہ ذیل میں موصوف کے بارے میں محدثین کے اقوال نقل کیے جائیں۔
تنبیہ :احمد بن عبد اللہ الہروی کے نام کے ایک دوسرے راوی بھی ہیں، جن کا پورا نام أحمد بن عبد اللہ بن أیوب الحنفي، أبو الولید بن أبی الرجاء الہرويہے، یہ ثقہ ہے، ”الصحیح للبخاري“کا راوی ہے، مذکورہ سند میں یہ ثقہ راوی مراد نہیں، بلکہ احمد بن عبد اللہ جویباری، جو مشہور کذاب ہے، وہ مراد ہے، یہی وجہ ہے کہ محدثین اس کا ترجمہ لکھتے ہوئے دونوں میں فرق کے لیے ”ہو الجویباري“ لکھتے ہیں۔
احمد بن عبد اللہ بن خالد الہروی الجُوَیْباری کے متعلق محدثین کا کلام
امام ابو عبد الرحمن احمد بن شعیب نسائی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب ”کتاب الضعفاء والمتروکین“ میں رقمطراز ہیں:
أحمد بن عبد اللہ الجوباري الہروي، کذاب، (لیس بثقة)
(18)
(19)․
احمد بن عبد اللہ جوباری ہروی کذاب ہے، ”لیس بثقة“(کلمہ جرح) ہے۔
امام حافظ محمد بن حبان بن أحمد أبی حاتم تمیمی بستی لکھتے ہیں:
أحمد بن عبد اللہ ہروی ”دجال من الدجاجلة“ (شدید کلمہٴ جرح) ہے، کذاب ہے، ابن عیینہ ، وکیع، أبو ضمرہ وغیرہ ثقہ محدثین سے روایت کرتا ہے، اور ان کی طرف اپنی طرف سے ایسی روایتیں گھڑ کر منسوب کرتا ہے،جو انہوں نے بیان نہیں کی ہوتیں ، ان ائمہ حضرات سے ہزاروں ایسی روایات بیان کرتا ہے، جس میں انہوں نے کچھ بھی بیان نہیں کیا ہوتا ہے،موصوف یہ روایتیں ان کے نام پر گھڑا کرتا، کتابوں میں صرف جرح کے طور پر ہی اس کاذکرکرنا جائزہے۔(20)
امام حافظ ابو الحسن علی بن عمر دارقطنی بغدادی رقمطراز ہیں:
أحمد بن عبد اللہ الجوباری ہروی کذاب(21)․
أحمد بن عبد اللہ الجوباری ہروی کذاب ہے․
حافظ ابو احمد عبد اللہ بن عدی الجرجانی رحمہ اللہ تعالی لکھتے ہیں:
حدث عن جریر والفضل بن موسی وغیرہما بأحادیث وضعہا علیہم، وکان یضع الحدیث لابن کرام علی ما یریدہ، وکان ابن کرام یضعہا في کتبہ عنہ، ویسمیہ أحمد بن عبد اللہ الشیباني،إنہ یضع الأحادیث(22)․
موصوف جریر اور فضل بن موسی وغیرہما کی طرف منسوب کرکے ایسی روایتیں بیان کرتا، جو خود انہوں نے گھڑ رکھی تھیں، (گمراہ فرقہٴ مجسمہ کا سرغنہ) ابن کرام کی چاہت کے مطابق اس کے لیے روایتیں وضع کیا کرتاتھا، اور ابن کرام ان کو اپنی کتابوں میں اس کی طرف منسوب کرکے لکھ لیتا اور (تدلیس وخیانت) کرتے ہوئے اس کا نام احمد بن عبد اللہ شیبانی لیتا تھا، موصوف کاکام حدیثیں گھڑنا تھا۔ 
حافظ ابن حجر عسقلانی المتوفی852ھ رحمہ اللہ تعالی ،امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی کا کلام ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی فرماتے ہیں: یہ جو جویباری ہے اس کو میں اچھی طرح جانتا ہوں، یہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم پر روایتیں گھڑتاہے، اس نے ہزار سے زیادہ روایتیں گھڑرکھی ہیں۔
(امام بیہقی رحمہ اللہ تعالی یہ بھی فرماتے ہیں:) کہ میں نے امام حاکم رحمہ اللہ تعالی کو فرماتے ہوئے سنا، کہ وہ کذاب ، خبیث (شدید کلمہٴ جرح) ہے، اس نے اعمال کے فضائل کے متعلق بہت روایتیں گھڑی ہیں، اس کی روایت کو نقل کرنا کسی صورت میں بھی جائز نہیں ہے، (آگے فرماتے ہیں:) میں نے امام حاکم کو یہ بھی فرماتے ہوئے سنا: کہ لوگوں میں اختلاف ہوا، کہ حسن بصری کاسماع حضرت أبو ہریرة رضی اللہ عنہ سے ثابت ہے یا نہیں؟ہم سے بیان کیا گیا ہے، کہ جب اس اختلاف کا ذکر جویباری کے سامنے کیا گیا، (تو اسی وقت روایت کو وضع کرکے) اپنی سند سے بیان کی، کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: کہ حسن بصری کو حضرت أبو ہریرة رضی اللہ عنہ سے سماع ہے۔(23)
امام ابن الجوزی کا کلام
امام ابن جوزی رحمہ اللہ تعالی اپنی کتاب ”الضعفاء والمتروکین“ میں ”محمد بن کرام أبو عبد اللہ السجزي“ کے ترجمہ کے تحت امام ابن حبان کے حوالہ سے لکھتے ہیں۔
ثم جالس الجویباري ومحمد بن تمیم السعدي، ولعلہما قد وضعاعلی رسول اللہ ﷺ وعلی الصحابة والتابعین مئة ألف حدیث(24)․
محمد بن کرام أبو عبد اللہ سجزی، جویباری اور محمد بن تمیم سعدی کے پاس ہم نشینی اختیار کی اورصرف ان دوبدبختوں (جویباری اور محمد بن تمیم سعدی) نے اکیلے حضرت رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم، حضرات صحابہ اور تابعین کے نام پرتقریباً ایک لاکھ روایتیں گھڑ رکھی ہیں۔
حافظ شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان الذہبی رحمہ اللہ تعالی ”المغنی فی الضعفاء“ میں رقمطراز ہیں:
کذاب، جبل(25)․
أحمد بن عبد اللہ جویباری ”کذاب، جبل“ (شدید کلمہٴ جرح) ہے۔
حافظ ذہبی رحمہ اللہ تعالی کا کلام ”میزان الاعتدال“ میں:
الجویباري ممن یضرب المثل بکذبہ(26)․
جویباری ان کذابین راویوں میں سے ہے، جن کا احادیث مبارکہ میں جھوٹ بولنا ضرب المثل ہے ۔ 
حافظ ابن حجر رحمہ اللہ تعالی ابو سعید النقاش کا قول ذکر فرماتے ہیں:
قال أبو سعید النقاش: لا نعرف أحداً أکثر وضعاً منہ(27)․
أبو سعید نقاش فرماتے ہیں: جویباری سے زیادہ حدیثیں گھڑنے والا کوئی ہم کو معلوم نہیں۔
خلاصہٴ کلام
ان محدثین کے اقوال سے روزِ روشن کی طرح واضح ہوا، کہ یہ روایت من گھڑت ہے، جس کو احمد بن عبد اللہ بن خالد الجویباری نے وضع کیا ہے، اس روایت کو بیان کرناجائز نہیں ۔
حوالہ جات اور مآخذ
(1) کوثر النبي وزلال حوضہ الروي: (ص:108)،العلامة عبد العزیز الفرہاروی المتوفی 1239ہ مخطوط، ناسخ: عبد اللہ الولہاري)․
(2) المصدر السابق․
(3) المصدر السابق․
(4) بریکٹ میں لفظ ”حدثنا“ تفسیر ”الکشف والبیان“ میں نہیں ہے، بلکہ اس کو ”کتاب الموضوعات“ ، ”اللآلي المصنوعة“اور ”تنقیح التحقیق في أحادیث التعلیق“ سے بڑھایاہے۔
(5) کتاب الموضوعات، اللآلي المصنوعة، اور تنقیح التحقیق میں ایسا ہی ہے اور یہی صحیح ہے، ورنہ تفسیر ”الکشف والبیان“میں ”حسام“ لفظ ہے، جو مصحف ہے۔
(6) بریکٹ میں لفظ ”ابن“ ”کتاب الموضوعات“، ”اللآلي المصنوعة“ اور ”تنقیح التحقیق“ سے بڑھایاہے، یہ لفظ تفسیر ”الکشف والبیان“ سے ساقط ہواہے۔ 
(7) الکشف والبیان عن تفسیر القرآن: (سورة الفاتحة،في فضل التسمِیة،21/1)، الإمام أحمد بن محمد بن إبراہیم الثعلبي، المتوفی428 ہ، ناشر: دار الکتب العلمیة، بیروت - لبنان، الطبعة الأولی 1420 ہ․
(8) کتاب الموضوعات: (220/1، باب ثواب المعلمین)، الإمام أبو الفرج عبد الرحمن بن علي ابن الجوزی المتوفی 597ہ، تخریج آیات وأحادیث: توفیق حمدان ، ناشر: دار الکتب العلمیة، بیروت - لبنان، الطبعة الثانیة:1424 ہ- 2003 م․
(9) اللآلي المصنوعة في الأحادیث الموضوعة:(180/1، کتاب العلم)،الإمام جلال الدین السیوطی، المتوفی 911ہ، خرج أحادیثہ وعلق علیہ: محمد عبد المنعم رابح، ناشر: دار الکتب العلمیة، بیروت - لبنان، الطبعة الثانیة:1428ھ - 2007م․
(10) تنقیح التحقیق في أحادیث التعلیق: (187/4 - ترجمة:2530، مسألة 562، لا یجوز أخذ الأجرة علی القرب کتعلیم القرآن، والأذان والصلاة وتعلیم الفرائض وروایة الحدیث)، الحافظ شمس الدین محمد بن أحمد بن عبد الہادی الحنبلي، تحقیق: سامي بن محمد بن جاد اللہ وعبد العزیز بن ناصر الخیاني، ناشر: أضواء السلف - الریاض، الطبعة الأولی:1428ھ - 2007م․
(11) کتاب الموضوعات: (1/220، باب ثواب المعلمین)․
(12) تلخیص کتاب الموضوعات: (58 - رقم:115، العلم)، الإمام شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان الذہبي المتوفی 748ہ، دراسة وتحقیق: أبو تمیم یاسر بن إبراہیم بن محمد، ناشر: مکتبہ الرشد، الریاض، الطبعة الأولی:1419ہ - 1998م․
(13) اللآلی المصنوعة في الأحادیث الموضوعة:(180/1، کتاب العلم)․
(14) تذکرة الموضوعات: (80، باب فضل القرآن والنظر فیہ والسور وتعلم الصبي التسمیة، ورفع ورقتہا، وأنہ غیر مخلوق…)، کتب خانہ مجیدیہ، بیرون بوہڑ گیٹ، ملتان (پاکستان)․
(15) تنزیہ الشریعة المرفوعة عن الأحادیث الشنیعة: (1/252- رقم الکتاب:6، کتاب العلم، الفصل الأول)، ابو الحسن علي بن محمد بن عراق الکناني المتوفی 923ھ، تحقیق وتعلیق:عبد الوہاب عبد اللطیف وعبد الله محمد الصدیق، ناشر: دار لکتب العلمیة، بیروت - لبنان، الطبعة الثانیة:1401ھ - 1981م․
(16) الفوائد المجموعة فی الأحادیث الموضوعة: (276 - رقم الکتاب:14، کتاب الفضائل، الأول: في فضائل العلم وما ورد فیہ مما لم یصح)، محمد بن علي الشوکاني المتوفی 1250، تحقیق: عبد الرحمن بن یحیی المعلمي الیماني، ناشر: دار الکتب العلمیة، بیروت - لبنان، الطبعة: 1416ہ - 1995م․
(17) کوثر النبي وحوضہ الروي: (126، فن معرفة الموضوعات) مخطوط، ناسخ: عبد الله الوہاري․
(18) لفظ ”لیس بثقة“ ”کتاب الضعفاء المتروکین“ کے مصور نسخہ میں بریکٹ کے اندرہے اور حاشیہ میں محقق نے اس کی وضاحت کی ہے، کہ اس لفظ کو کسی دوسرے نسخہ سے بڑھاچکے ہیں۔ 
(19) کتاب الضعفاء والمتروکین: (ص:59 - ترجمة:69، باب الألف)، الإمام أبوعبد الرحمن أحمد بن شعیب النسائي المتوفی 303ہ، تحقیق: بوران الصناوي، کمال یوسف الحوت، ناشر: موٴسسة الکتب الثقافیة، بیروت - لبنان، الطبعة الأولی: 1405ہ - 1985م․
(20) کتاب المجروحین من المحدثین والضعفاء والمتروکین: (142/1، أحمد بن عبد الله بن خالد)، الإمام محمد بن حبان بن أحمد بن حبان التمیمي البستي المتوفی 354ہ، تحقیق: محمود إبراہیم زاید، ناشر: دار المعرفة، بیروت - لبنان، الطبعة:1412ہ - 1992م․
(21) الضعفاء والمتروکون: (114 - ترجمة:37، أبواب الألف، باب أحمد)، الإمام الحافظ أبو الحسن علی بن عمر الدارقطني البغدادي المتوفی385ہ، دراسة وتحقیق: موٴفق بن عبد الله بن عبد القادر، ناشر: مکتبہ المعارف، الریاض، الطبعة الأولی: 1404ہ - 1984م․
(22) الکامل في ضعفاء الرجال: (291/1 - ترجمة:17، أحمد بن عبد الله الہروي یعرف بالجویباري)، الإمام الحافظ أبو أحمد عبد الله بن عدی الجرجانی المتوفی365ہ ، تحقیق وتعلیق: الشیخ عادل أحمد عبد الموجود، الشیخ علي محمد معوض، ناشر: دار الکتب العلمیة، بیروت - لبنان، الطبعة الأولی:1418ہ - 1997م․
(23) لسان المیزان: (495/1، 496- ترجمة:566، من اسمہ أحمد، أحمد بن عبد الله بن خالدالجوَیباري)، الإمام الحافظ أحمد بن علی بن حجر العسقلاني المتوفی 852ہ، تحقیق: عبد الفتاح أبو غدة، ناشر: دار البشائر الإسلامیة، بیروت - لبنان، الطبعة الأولی: 1423ہ - 2002م․
(24) کتاب الضعفاء والمتروکین: (95/3 - ترجمة:3170، من اسمہ محمد، محمد بن کرام، أبو عبد اللہ السجزي)، الإمام ابن الجوزي البغدادي المتوفی 597ہ، تحقیق:أبو الفداء عبد اللہ القاضي، ناشر: دار الکتب العلمیة، بیروت - لبنان، الطبعة الأولی 1406ہ- 1986م․
(25) المغني في الضعفاء: (72/1 - ترجمة:322، أحمد بن عبد اللہ بن خالد الجوباري، حرف الألف)، الإمام شمس الدین محمد بن أحمد بن عثمان الذہبي المتوفی 748ہ، تحقیق: أبو الزہراء حازم القاضي، ناشر: دار الکتب العلمیة، بیروت - لبنان، الطبعة الأولی:1417ہ - 1997م․
(26) میزان الاعتدال: (106/1 - ترجمة:421، أحمد بن عبد اللہ الہروي)، الإمام لذہبي المتوفی 748ہ، تحقیق: علي بن محمد البخاوي، ناشر: دار المعرفة - بیروت - لبنان․
(27) لسان المیزان: (496/1 - ترجمة:566، من اسمہ أحمد، أحمد بن عبد اللہ بن خالدالجوَیباري)

Flag Counter