Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1431ھ

ہ رسالہ

6 - 14
***
تمام مسائل کا صرف ایک حل
محترم محمد الیاس ندوی بھٹکلی
اس وقت ہمارے ملک میں شاید ہی کوئی ہفتہ ایسا خالی جاتا ہو جس میں کسی بھی ادارہ یا تنظیم کی طرف سے مسلمانوں کے موجودہ مسائل پر کوئی سمینار، کانفرنسس،سمپوزیم یا مشاورتی نشست نہ ہوتی ہو ،اسی طرح کوئی دن ایسا نہیں جاتا جس میں قومی سطح کے اخبار میں کسی مسلمان لیڈر، عالم دین یا دانشور کا انٹرویو شائع نہ ہوتا ہو، جس کو مسلمانوں سے ہمدردی ہواور اس کی گفتگو کا محور مسلمانوں کے موجودہ مسائل اور اس کا حل نہ ہو، ان سب کا خلاصہ ہم مندرجہ ذیل مسائل کی صورت میں بیان کرسکتے ہیں:
” مسلمانوں کا تعلیمی میدان میں پچھڑاپن،اقتصادی معاشی بدحالی، سرکاری ملازمتوں میں کمی،ملکی سطح پرسیاسی میدان میں کم ہونے والی نمائندگی اور پارلیمنٹ و اسمبلیوں میں ان کی گھٹتی تعداد، وقفہ وقفہ سے ہونے والے فسادات اور محکمہ پولیس کی طرف سے ہونے والی ہراسانی ، مسلم نوجوانوں کی آئے روز کی دھڑ پکڑ، بے بنیاد الزامات کے ذریعہ ان کی گرفتاری ،خود عدلیہ کی طرف سے مسلمانوں کے حق میں ہونے والی نا انصافی و غلط فیصلے اور ان کے عائلی مسائل یعنی پرسنل لاء وغیرہ میں آئے روز مداخلت وغیرہ وغیرہ“
ان سب مسائل کو سامنے رکھتے ہوئے ہم تھوڑی دیرکے لیے ٹھنڈے دل سے غور کریں کہ ان سب مسائل کے پیدا کرنے میں جن لوگوں کاہاتھ ہے وہ ہمیشہ اس طرح وقفہ وقفہ سے ہمیں کیوں پریشان کرنا اور دینی ، سماجی،سیاسی ، معاشی اور تعلیمی میدان میں ہمیشہ ہمیں زک پہنچانا چاہتے ہیں ، اس کے کیا محرکات اور اسباب ہیں اور ان کی اس ذہنیت کے پیچھے کیا عوامل کار فرماہیں؟
کیا اگرہم اپنی سیاسی طاقت کے زور پر یا احتجاج کے ذریعہ حکومت وقت کومجبور کرکے اپنے جائز مطالبات منوالیں ، اپنی منصوبہ بندی کے ذریعہ ملت کی ان اقتصادی و تعلیمی کمیوں کو دور کرلیں ، ہمیں اسمبلیوں میں اپنی آبادی کے اعتبار سے ریزرویشن یا الیکشن کے ذریعہ نمائندگی مل جائے یعنی ساڑھے پانچ سو ممبران پارلیمنٹ میں 28 کے بجائے سو مسلم ممبران پارلیمنٹ پہنچ جائیں ، حکومت 20 فیصد ریزرویشن سرکاری ملازمتوں اور ملکی اداروں میں ہمارے لیے مختص کر دے، مسلم تعلیمی تناسب 55 فیصد کے بجائے سو فیصد ہوجائے، مسلمان پورے ملک میں معاشی میدان میں ترقی کی آخری منزل کو پاجائیں اور ہماری پسماندگی کا خاتمہ ہوجائے، پورے ملک کی جیلوں سے ہمارے مسلم نوجوان رہا ہوجائیں اور عدالتوں میں ہمارے خلاف ہونے والے تمام فیصلوں کو حکومت پارلیمنٹ میں نیاقانون بناکر رد کر دے ، غرض یہ کہ بالفرض اگر ہمارے تمام معاشی، تعلیمی ، سماجی،سیاسی اور دینی مسائل حل ہو جائیں تو کیا آپ کو اور ہمیں اس بات کا اطمینا ن رہے گا کہ 6/5سال کے بعد ان فرقہ پرست ذہنیت کے حامل سرکاری افسران اور دیگر برادران وطن کی طرف سے دوبارہ ہمیں پریشان کرنے یا نقصان پہنچانے کی کوشش نہیں کی جائے گی یا پھر کسی اور چور دروازہ سے ہمارے عائلی قوانین میں مداخلت اور نئی مسلم نسل کو ذہنی طور پر پریشان کرنے اور سیاسی اور تعلیمی و معاشی میدان میں ہم کوپہلے سے زیادہ کمزور کرنے کی کوشش نہیں کی جائے گی؟
اس کا جواب یہی ہے کہ ہمارے ان سب مسائل کے حل ہونے کے باوجود ملک کے بڑے مناصب پر فائزہمارے فرقہ پرست یہ برادران وطن جن کے ہاتھوں درحقیقت ملک کی زمام ہے پہلے سے زیادہ ہمارے خلاف منصوبہ بنانے میں لگ جائیں گے اور ان کاغیظ وغضب ہمارے خلاف پہلے سے زیادہ ہو جائے گا،اس لیے کہ ان کو جس بنیاد پر ہم سے نفرت اور وحشت تھی اس کاازالہ نہیں ہوا اور جن عوامل کی وجہ سے وہ ہم سے بدظن سے تھے اس کا کوئی خاتمہ نہیں ہوا ،اس کی مثال ویسے ہی ہے جیسے کسی مریض کے سردرد یا بخار کو ختم کرنے کے لیے نیم حکیم یہ نہ معلوم کرے کہ مریض اس تکلیف میں کس وجہ سے مبتلا ہے اوروہ اس کے محرکات کو جانے بغیر صرف بخاریا سر درد کا علاج کردے ،نتیجہ یہ ہوگا کہ دوسرے دن سردرد ختم ہونے کے بعد پھرکمر میں درد شروع ہوگا ،بخار کے جانے کے بعد سردی اور زکام کا آغاز ہوگا،کامیاب حکیم وہی ہے جس کو اس نتیجے میں دیر نہ لگے کہ اس کے پیٹ کی خرابی کی وجہ سے ہی یہ سب بیماریاں اس کو لاحق ہورہی ہیں، اس لیے اس کا صحیح علاج یہی ہے کہ پیٹ کی خرابی کا ازالہ کیا جائے، تاکہ آنے والی تمام بیماریوں کا خاتمہ ہو سکے۔
اسی طرح آج ہمارا حال ہے کہ ہم مسائل کو تو حل کرنے پر اپنی توجہ مبذول کرر ہے ہیں، لیکن یہ مسائل جن عوامل اور اسباب کی بنا پر پیدا ہوئے ہیں اس کی طرف ہمارا ذہن نہیں جارہاہے۔
اس ملک میں ہمارے ان سب مسائل کا جو اس وقت ہمیں در پیش ہیں اگر سنجید گی سے تجزیہ کیا جائے تو اس کے پس پردہ صرف ایک محرک نظر آتا ہے اور وہ اسلام اور مسلمانوں کے تعلق سے ان کے دلوں میں موجود خدشات، شبہات اور غلط فہمیاں ہیں، اگر اس پر ہم سنجیدگی سے توجہ دیں اورایک کامیاب حکیم کی طرح اصل مرض کی تشخیص کرتے ہوئے اس کے ازالے کی کوشش کریں تو سرے سے ہمارے ان سب مسائل ہی کا خاتمہ ہو جائے ، اس لیے کہ عالمی سطح پراس وقت نا گفتہ بہ حالات کے باوجود دعوتی اعتبارسے دیگر خطوں، بلکہ اکثر مسلم ممالک کے مقابلہ میں ہندوستان کے حالات نہ صرف غنیمت بلکہ بہت بہتر ہیں، ہمیں اس کی قدر کرنی چاہیے اور دعوتی نقطہ نظر سے اس سے بھر پور فائدہ اٹھانا چاہیے،اس لیے کہ اب بھی الحمدللہ برادران وطن کی اکثریت اسلام کے تعلق سے بدظن ہونے سے محفوظ ہے اور ہماری تھوڑی سی کوشش سے ہی اسلام کے حق میں اس کے اچھے اثرات ظہور پذیر ہوسکتے ہیں۔
ہمیں جسم کی مختلف ظاہری بیماریوں کا علاج کرنے کے بجائے بدن میں پنپنے والے اس مرض کے ازالہ کی کوشش کرنی چاہیے جس کی وجہ سے آئے دن نت نئے امراض کی طرح امت مسلمہ کے سامنے اس طرح کے مسائل آرہے ہیں، ہمیں حکمت عملی ،خیرخواہی اور ہمدردی کے جذبہ کے ساتھ اپنے برادران وطن تک اس دعوت کو پہنچانا چاہیے جس میں خود ان کی ہمیشہ ہمیشہ کی کامیابی مضمرہے، جدید ترقیات کی روشنی میں اسلام کی حقانیت وابدیت کو ثابت کرنا اس وقت جتنا آسان ہے ماضی کی تاریخ میں کبھی اتنا آسان نہیں تھا، اسی طرح ہمیں دعوت کے میدان میں جدید وسائل واسباب کا بھی شرعی حدود کے اندررہتے ہوئے بھرپور استعمال کرناچاہیے اوراپنے ان برادران انسانیت تک بھی توحید ورسالت اور آخرت کے دلائل پہنچانے چاہئیں جو کسی وجہ سے نہ ہمارے پاس آرہے ہیں اور خاص حالات کی وجہ سے ہم بھی ان تک نہیں پہنچ پارہے ہیں، آپ کہیں گے کہ نہ ہم ان کے پاس جاسکتے ہیں اور نہ وہ ہمارے پاس آرہے ہیں پھر ان تک اپنی بات پہنچانے کا کونسا طریقہ رہ جاتا ہے ہم نے اعزاز دے کر اپنا پیغام سنانے کے لیے اپنے جلسوں میں ان کو مدعو کیا ،وہ نہیں آئے ،ہم نے ان تک قرآن پہنچانا چاہا، انہوں نے اس کو قبول نہیں کیا، ہم نے پیام حق ان کو سنانا چاہا، وہ سننے کے لیے تیار نہیں ہوئے، لیکن آپ کے ان سب دلائل کے باوجود ہمیں اس کا اعتراف کرنا پڑے گا کہ اس جدید ٹیکنالوجی کے دور میں ہم ان کے پاس گئے بغیر بھی ان تک اپنا پیغام پہنچا سکتے ہیں، ان کے نہ چاہتے ہوئے بھی اسلام کی حقانیت ان کی نظروں سے گذار سکتے ہیں اورغیر محسوس طریقہ پر بھی اللہ کا پیغام ان کو سننے پر مجبور کیا جاسکتا ہے ،مثلاًایک نئی جگہ ہم دوکان لگاتے ہیں ،کیا دوکان کے نہ چلنے پر دوتین ماہ کے اندر ہی اپنی دوکان بند کردیتے ہیں؟ نہیں، بلکہ ہم واقعی اگر تاجر ہیں تو پہلے مرحلے میں یہ سوچتے ہیں کہ ممکن ہے اسٹاف نااہل ہے، اس کو تبدیل کیا جاتا ہے، پھر بھی فائدہ نہیں ہوتا تو سوچتے ہیں شاید دوکان کا باہری منظر اور اندر کا فرنیچر گاہکوں کو ترغیب دلانے میں ناکام ہے ،اس کو بھی تبدیل کرتے ہیں،پھر بھی گاہک نہیں آتے تو دوکان کا سامان ہی بدل دیتے ہیں، سال بھر کی کوششو ں کے باوجود بھی جب مثبت اثرات نظر نہیں آتے تو دوکان ہی کو اس جگہ سے دوسری جگہ منتقل کردیتے ہیں ،ان سب کوششوں کا بھی جب اثر نظر نہیں آتا تو جدید اور نئے تشہیری اسباب اختیار کرتے ہیں، یہاں تک کہ ایک دن وہ آجاتا ہے کہ رزاق حقیقی آپ کے صبر و تحمل سے خوش ہوکر کاروبار میں اتنی ترقی سے نوازتے ہیں کہ آپ خود حیرت میں رہ جاتے ہیں، لیکن افسوس ہمارا یہی دماغ جو تجارت میں نت نئے تجربات کی تلاش میں سرگرداں رہتا ہے دعوت کے میدان میں پرانے تجربات کے علاوہ کچھ نئے تجربات اور حکمت کے ساتھ اس میدان میں کچھ نئے اسباب کو اختیار کرنے کے متعلق سوچنا بھی گوارہ نہیں کرتا ،اگر تجارت کی طرح ہمارا دل و دماغ بھی دعوت کے میدان میں استعمال ہونے لگے تو چند ہی سالوں میں ہمارے اس ملک کی جو فضا ہوگی وہ نہ صرف مسرت آمیز، بلکہ حد سے زیادہ خوش کن ہوگی ،برادران وطن کی نئی نسل کو جو اسکولوں اور کالجوں میں زیر تعلیم ہے ابھی سے منصوبہ بندی کے ساتھ اسلام سے قریب کرنے کی کوشش کی جائے تو صرف دس سال کے بعد اس برصغیر کی اسلام کے حق میں جو پرامن فضا ہوگی وہ تصور سے زیادہ حیرت انگیز ہوگی،اپنے اس دعوتی فریضہ کی ادائیگی کے بغیر ہمیں اس ملک میں اپنے برادران وطن کی طرف سے اپنے اوپر ہونے والے ناگہانی مظالم کے باوجود اللہ تعالی کی مدد و نصرت کی امید نہیں رکھنی چاہیے، اس لیے کہ انسانوں کی نظروں میں تو وہ ظالم اور ہم مظلوم ہیں، لیکن ان تک اسلام کی دعوت اور توحید کا پیغام نہ پہنچانے کی وجہ سے اللہ تعالی کے پاس وہ مظلوم اور ہم ظالم ہیں اور اس دعوتی فریضہ کی ادائیگی میں کوتاہی کی تلافی کے بغیر ہم اللہ رب العزت کی مدد کے مستحق نہیں بن سکتے۔

Flag Counter