Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1431ھ

ہ رسالہ

4 - 14
***
فریڈم فوٹیلاپر حملہ اور ترکی کا کردار
محترم ارشاد محمود
محصورینغزہ کے لیے امدادی سامان لے جانے والے بحری جہازوں کے قافلے پر اسرائیلی فائرنگ ،امدادی کارکنوں کی شہادت اور بعد ازاں ان کی حراست نے ایک بارپھر مسلم دنیا میں تہلکامچادیاہے۔ کافی عرصے سے یہ گمان کیا جارہا تھا کہ شاید کچھ لواور دو کے اصول پر فلسطین اور اسرائیل کے مابین کو ئی معاہدہ طے پاجائے۔ مسلمانوں اور مغرب کے مابین جاری موجودہ کشمکش کے پس منظر میں فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ روارکھا گیا سلوک اور اسرائیل کی غیر مشروط حمایت ایک بڑا محرک تصور کیا جاتا ہے۔بعدازاں کئی ایک اور مسائل بھی ابھرے ہیں، لیکن فلسطینی عوام کی سرزمین کی جس بے رحمانہ انداز میں بندربانٹ کی گئی اور انہیں دنیا بھر میں دربدر کیا گیا اس نے پوری دنیا کے انصاف پسند انسانوں کورُلادیا ہے۔
مسلم دنیامیں فلسطین کے کاز سے بھرپورہمدردی پائی جاتی ہے، لیکن یہ ممالک فلسطین کی حمایت کے لیے ایسے اقدامات اٹھانے کی پوزیشن میں نہیں ہیں جن سے اسرائیلی پالیسیوں میں کوئی تبدیلی آسکتی ہو یا پھر مغرب اسرائیلی کی زبانی کلامی مذمت سے اوپر اٹھ کر عملی اقدامات کرنے پر مجبور ہوجائے،لیکن حالیہ کچھ برسوں سے ترکی کی موجودہ حکومت نے ایسے اقدامات کیے ہیں جو اسرائیل کو علاقائی سطح پر مزید سفارتی تنہائی کا شکار کرتے جارہے ہیں۔جن میں تازہ ترین قدم فریڈم فوٹیلا کی غزہ روانگی ہے۔
روایتی طور پر ترکی اور اسرائیل کے مابین نہایت گرم جوش سفارتی اور عوامی سطح کے تعلقات رہے ہیں۔ترکی نے 1949ء ہی میں اسرائیل کو ایک جائز ریاست تسلیم کرلیا تھا ،حتی کہ ترکی کی مسلح افواج نے اسرائیلی فوج کی عسکری تربیت میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔دوسری جانب ترک فوج اسرائیل کے جدید ترین ہتھیاروں کی سب سے بڑی خرید ار بھی ہے۔محض دوبرس قبل پانچ لاکھ سے زائد اسرائیلی شہریوں نے سیاحت کی غرض سے ترکی کا رخ کیا۔ایک سروے کے مطابق اسرائیلی شہری سیروسیاحت کے لیے ترکی کو دیگر تمام ممالک پر ترجیح دیتے ہیں۔یہی نہیں بلکہ تین برس قبل اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے انقرا میں ترک پارلیمنٹ کے اجلاس سے بھی خطاب کیا، جسے ایک بہت بڑا بریک تھرو قراردیا گیا تھا۔پرویزمشرف کے دور حکومت میں اسرائیل اور پاکستان کے وزرائے خارجہ کے مابین بھی ملاقات ترک حکومت نے ہی ممکن بنائی تھی۔
انقرا سے روانہ ہونے والے بحری جہازوں کے قافلے فریڈم فوٹیلا پر سوار 13 ممالک کے امدادی کارکنوں ہی کو نہیں بلکہ ترک حکومت کو بھی یقین تھا کہ اسرائیل ترکی کے ساتھ اس کے قریبی دوستانہ تعلقات کا لحاظ کرتے ہوئے امدادی سازوسامان کو غزہ میں داخل ہونے دے گا ۔حالیہ کچھ ماہ کے دوران چھ بحری جہازوں کو امدادی سامان لے کر غزہ میں جانے کی اجازت دی گئی تھی۔لیکن جب اسرائیل نے فوجی کارروائی کے ذریعے ترک بحری جہازوں کو روک دیااور متعدد افراد کو شہید کردیا تو ترک حکومت ہی مشتعل نہیں ہوئی،بلکہ ترک عوام بھی سڑکوں پرنکل آئی۔ہزاروں ترک مظاہرین نے اسرائیلی سفارت خانے کا محاصرہ کیا اور اسرائیل کے ساتھ تجارتی تعلقات کے خاتمے کا مطالبہ کیا۔
گزشتہ سال جنوری میں ڈیواس میں حسب معمول ورلڈاکنامک فورم کے اجلاس میں جب اسرائیلی صدر شمعون پیریز نے غزہ کی ناکہ بندی کو جائز قراردیا تو ترک وزیراعظم طیب اردگان نے انہیں نہ صرف ٹوکا، بلکہ وہ کانفرنس سے احتجاجاً واک آؤٹ بھی کرگئے ۔ان کے اس اقدام کو نہ صرف عرب دنیا میں سراہا گیا، بلکہ واپسی پر ترکی میں ان کا ہیرو کی طرح استقبال کیا گیا۔ 
گزشتہ چند برسوں میں ترکی میں اسلامی شناخت پر اصرار کرنے والی کئی ایک رفاہی تنظیموں نے بھی معاشرے میں اہم مقام حاصل کیا ہے۔جو غیر سرکاری سطح پر آفت زدہ علاقوں میں ریلیف ،بحالی اور تعمیر نو کی خدمات سرانجام دیتی ہیں۔2005 ء میں جب پاکستان کے شمالی علاقوں اور آزادکشمیر میں تباہ کن زلزلہ آیا تو ہزاروں ترک امدادی کارکن نہ صرف اپنے سازوسامان کے ساتھ ان علاقوں میں آئے، بلکہ انہوں نے عالمی معیار کے تعلیمی اور طبی ادارے بھی قائم کیے۔یہی این جی او زغزہ میں ناکہ بندی کے سبب فلسطینی عوام کو درپیش مشکلات کم کرنے کے لیے سرگرم ہیں۔جن میں سے ایک آئی ایچ ایچ بھی شامل ہے، جو غزہ امدادی سامان لے جانے کا محرک بنی۔
87برس قبل جس سیکولر ترکی کی مصطفےٰ کمال اتاترک نے بنیاد رکھی تھی، وہ اب تیزی سے اپنی روایتی اسلامی شناخت کے احیا کی طرف لوٹ رہا ہے۔حکمران جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی ایک اسلامی سیاسی فکر کی حامل ہے ۔ وہ ترک معاشرے کو اپنے ماضی اور اسلامی شناخت سے جدا کرنے کے بجائے اسے برقرار رکھنا چاہتی ہے۔ 
کئی ایک مبصرین کی رائے ہے کہ ماضی کے برعکس اب ترکی علاقائی امور میں بھی قائدانہ کردار ادا کرناچاہتاہے۔ترکی وہ واحد علاقائی طاقت ہے جو بیک وقت پاکستان، ایران، افغانستان،شام اور مصر جیسے ممالک کے ساتھ شان دار سفارتی اور تجارتی تعلقات رکھتاہے۔گزشتہ برسوں میں پاکستان کے داخلی امور میں بھی ترک قیادت نے اپنا کردار ادا کرنے کی کوشش کی۔طیب اردگان فروری 2008 کے انتخابات سے قبل اسلام آباد تشریف لائے اور انہوں نے کئی ایک جماعتوں کے سربراہوں کے ساتھ ملاقاتیں کیں، تاکہ قومی سطح پر سیاسی مفاہمت کے عمل کو تقویت دی جاسکے۔ اسرائیل کے ساتھ وقتی طور پر ترکی کے تعلقات میں تناؤ پیدا ہوچکاہے، لیکن عین ممکن ہے کہ یہی کشیدگی کسی سفارتی بریک تھرو میں بدل جائے ،کیوں کہ اسرائیل کسی بھی صورت یہ نہیں پسند کرے گا کہ اسے ہر فورم پر ترکی کی مخالفت کا سامنا کرنا پڑے۔اسی طرح امریکی بھی یہ نہیں چاہیں گے کہ خطے میں ایران کے بعد ترکی بھی اسرائیل کے لیے ایک خطرہ بن جائے۔
آج مسلم دنیا کوقیادت کا زبردست بحران درپیش ہے ۔سعودی عرب،پاکستان، ایران،مصراور انڈونیشیا مسلم دنیا کی علامتی طور پر قیادت کر سکتے ہیں لیکن ترکی کو ان تمام ممالک پر کئی اعتبار سے فوقیت حاصل ہے۔وہ ایک جمہوری ملک ہے، جہاں تسلسل کے ساتھ انتخابات ہوتے ہیں۔عسکری اداروں نے بھی منتخب حکومت کی بالادستی کو قبول کرلیا ہے۔ ہمہ پہلو معاشی ترقی کے طفیل ایک متوازن ملک کے طور پر ابھرا ہے۔اس کے پاس قابل بھروسہ دفاعی نظام بھی ہے۔ پاکستان کے لیے یہ پہلو اطمینان بخش ہے کہ اس کے ترکی کے ساتھ دیرینہ دوستانہ تعلقات ہیں۔خطے میں اور عالمی سطح پر ترکی کا ابھرتاہوا کردارپاکستان کے مفادات سے ہم آہنگ ہے۔

Flag Counter