Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1431ھ

ہ رسالہ

10 - 14
***
نئے فضلاء کے لیے میدان ِعمل کا انتخاب کیسے اور کیوں؟
مولانا ساجد احمد صدوی، استاد تخصص فی الحدیث، جامعہ فاروقیہ کراچی
اِس وقت ملک بھر کے دینی تعلیمی اداروں میں معمول کے تعلیمی وتربیتی سلسلے انتہاء کو پہنچ چکے ہیں،تدریسی مصروفیات کے اختتام کے موقع پر ”ختم صحیح بخاری شریف“اور ”ختم مشکوة شریف “اسی طرح دیگرسالانہ جلسہ ہائے دستارِفضیلت وتقسیم اَسناد وغیرہا میں عوام وخواص، معاونین ومحبین ، غیور عوام اور طلبہ وفضلاء کے سرپرستوں کی جوق درجوق شرکت کے بارونق مناظراورپُروقار سلسلے بھی اللہ تعالی کے فضل وکرم سے بخیر وخوبی اختتام پذیر ہوچکے ہیں۔حالات کی خرابی ، مسائل و مشکلات کاجاوبے جا ذکر کیاجاتاہے، مدارس کے گر د گھیراتنگ کرنے کی باتیں کی جاتی ہیں، ملک وبیرون ملک اسی ہدف پر مستقل سوچنے والے اپنے مکروفریب کے تانے بانے بننے میں حسب سابق لگے ہوئے ہیں۔ ”اسلامی جمہوریہ پاکستان “کی غیو رعوام کو مغربی فکر وفلسفہ کی بنیادپر ”نئے شعور سے روشناس “ کرانے کی تدبیریں چل رہی ہیں؛ مگر اللہ تعالی کایہ فیصلہ بھی اپنی جگہ اٹل ہے کہ ”ان لوگوں نے حق کے خلاف تدبیریں کیں ، اللہ تعالی نے ان کومٹانے کی تدبیر کی ، اور اللہ تعالی کامیاب تدبیر کرنے میں سب سے بڑھ کر ہے۔ “ اللہ تعالی ہر سال اپنے اس وعدے کامشاہدہ کراتے ہیں، اورکھلی آنکھوں دکھاتے ہیں کہ دین اور دین سے وابستہ لوگوں کوکیسے مٹایا جاسکتاہے؟ انہیں کون ختم کرسکتاہے ؟ جب میرا ہاتھ ان کے اوپر ہو ؟ میری غیبی مدد ان کے شامل حال ہو؟
ملک بھر میں جہاں بھی اختتامی پر وگر ام ہوئے پہلے سے زیادہ لوگوں نے شرکت کی ، بڑھ چڑھ کر حصہ لیا، نئے نئے لوگ مدارس وجامعات کے نظام تعلیم و تربیت سے آگاہ ہوئے۔ انہوں نے بھی اس مبارک سلسلے کادست وبازوبننے کاعزم وعہد کرلیا۔ ہر پروگرام میں پہلے سے زیادہ رونق، چہل پہل رہی۔ بعض اداروں نے تونظم وضبط کے مسائل کی وجہ سے پر وگرام کی حتمی تاریخ اوروقت کوبھی مخفی رکھا ،مگراس کے باوجودپروگرام کا آغاز ہوتے ہی کسی اشتہار ،میڈیا کے تعاون کے بغیر عوام کی بہت بڑی تعداد امنڈکر آئی۔ اختتامی دعاوٴں میں شرکت کی ،ہزاروں لوگوں نے وقت کے اکابر ومشاہیر کی نصیحتیں سنیں، ان کی دعائیں لیں اوریوں پہلے سے زیادجوش و جذبے سے سرشارہوکرگھروں کی طرف لوٹے ۔
نامناسب رویوں کے مرکزی کردار
”اسلامی جمہوریہ پاکستان “کی عوام کو حق تعالی شانہ نے اپنے دین سے اور دین سے وابستہ افراد، شخصیات،اداروں اورجماعتوں سے غیرمعمولی تعلق ومحبت کی نعمت سے سرفرازفرمایاہے۔ عوام اوردینی قیادت میں اعتماد ، محبت اورتعلق کایہ رشتہ آخرت کی عظیم کامیابی کاضامن ہونے کے ساتھ ساتھ ملک وملت کی بقاء ،تحفظ اورتعمیر وترقی ،امن وسکون کابھی باعث ہے،دین کے نام پر ”نامناسب رویوں“ کووجود میں لانے کے اسباب اُن لوگوں نے پیداکئے ہیں جومغرب کی طوطارٹ زبان بولتے ہیں ، و ہ قومی شناخت ضرور رکھتے ہیں مگر ان کادل ودماغ قومی ،ملی نہیں،مغربی ہے۔ چناں چہ وہ صرف ذاتی مفادات کی خاطر جیتے ہیں،اسی کوزندگی کاحاصل سمجھتے ہیں، اس اونچے ہدف کے حصول کے لیے مغربی سوچ وفکرسے وابستگی اوران مغربی آقاوٴں کے ترتیب دیے گئے ایسے پروگراموں کوروبہ عمل لانے کوہی کامیابی کی” شاہ کلید“ سمجھتے ہیں۔
دنیاپرستوں کے اِس مغربی استقبال ،ترقی اوردولت کی ریل پیل کودیکھ کر چندایک خالص مذہبی لوگ بھی مغربی استعمارکی زبان بولتے ہوئے نظر آتے ہیں، ان کی باتوں،اور فکر کے زاویوں کوقریب سے دیکھنے سے مغرب کی بدبوصاف محسوس ہوتی نظرآتی ہے۔ انہوں نے بھی نام نہاددانشور،مفکر ،انقلابی اور ”وسیع الظرف“ بن کر ”ارکانِ دولت “کی طرح اینٹی بنیاد پرستی کی ”شاہ کلید“ کوخزانہ مغرب کھولنے کاآسان ذریعہ تصورکرلیاہے،وہ ایسے نئے پروگرام اور منصوبے تشکیل دیناچاہتے ہیں،جن کے ذریعہ مغرب کووفاداری اور تعلق داری کایقین دلایاجاسکے، ان سے داد ودہش وصول کی جاسکے، جس کے لیے فہمِ دین کی متوارث شکل وصورت کو ”روایتی مخصوص مذہبی سوچ“ قراردے کرغیرروایتی ،وسیع ترتناظرمیں دین کے نئے مفہوم، نئی تعبیر وتصور کو،رواداری،ڈائلاگ اور برداشت کے عنوانات کورواج دیا جائے تاکہ مغرب کے ساتھ” نئی مفاہمت “کاراستہ کھل جائے ، مشرق میں مغرب پر ”بے جاتنقید“ اور ”بداعتمادی “ کی فضاء کوختم کیاجائے ،مغرب کے ترقی یافتہ انسان کے ”اعلی انسانی کمالات اورخوبیوں“سے ” مشرقی روایت پسند“ یا”مذہبی روایت پرست“ استفادہ کرنے لگ جائے تاکہ ان کی تقلید کرکے مشرق کایہ بھولابسرا بھی” اقوام عالم“ میں اپنی شناخت قائم کرسکے ،جن کوقرآنی تعبیرمیں مغضوب علیھم ضالین اورکالانعام بل ھم أضل کہاگیاہے ۔
مگران کویادرہے کہ نام وعنوان، تعبیر واسلو ب بدل بدل کرپیش کرنے سے حقائق نہیں بدلے جاسکتے ،اگر اسلام کامسلمانوں کا دنیا میں غالب آنا ایک حقیقت ہے ، فرض منصبی اوربڑاہدف ہے، توہرغیرمسلم کااپنی تہذییب وثقافت ، تاریخ وتعمیرسمیت اللہ کی زمیں پر ذلت کے ساتھ رہنا بھی ایک حقیقت ہے، جس کومغرب کادانشور سمجھتاہے، اس ذلت کے خو ف کے مارے وہ اپنے ارگردمضبوط آہنی حصارقائم کرناچاہتاہے، خطرہ بننے والے غیورمسلمانوں کو،ان کی تہذیب وثقافت کو، ان کی تعلیم و تربیت کے نظام کو ،ان کے وسائل وذرائع کو ،قوت وسیادت سب کومٹانایا خطرناک حدتک گھٹادیناچاہتاہے، اور اس طویل ”اینٹی غیرت مند“ منصوبہ بندی میں شامل ایک بھاری خدمت نام نہاد”مسلم دانشوروں“ اور”جمہوری حکمرانوں“کے سپرد ہے،جس کویہ برابر انجام دے رہے ہیں مگران کوشاید احساس نہیں کہ اپنی سیاہ کاری ، ضمیر فروشی اورعلمی وفکری خیانت کی بھانت بھانت کاحساب بھی دیناہوگا،جوانہیں بڑا بھاری پڑے گا!
باہمی اعتمادکے رشتہ کوپائیدار بنانے کی ضرورت و اسباب
اگرایک طرف مدارس وجامعات پر اللہ تعالی کاخاص لطف وکرم ہے،اس کی نظرعنایت ہے،جس نے عوام کے دلوں کواس سے وابستہ کردیاہے، تودوسری طرف خود مدارس وجامعات کے منتظمین،مدرسین،کارکنان،طلباء بالخصوص نئے فضلاء کوبھی نہایت سنجیدگی سے اِ س بات پر غورکرناہوگاکہ محبت واعتماد کایہ رشتہ جس قدر بڑا اور وسیع ہے،اسی قدرنازک ،حساس اورمحترم بھی ہے،اس کے تقاضے اور مطالبے بھی ہیں،جس کوپوراکرنا،اُن کاخیال رکھنا بھی اس رشتہ ٴ محبت کوپائیدار بنانے کے لیے ضروری ہے۔
زیرتعلیم طلبہ وطالبات دورانِ تعلیم کس طرح اپنا وقت گزارتے ہیں؟ان کی تعلیمی مصروفیات کس قدراطمینان بخش ہیں؟ تکرار، مطالعہ ،اوردرس گاہ میں حاضر ی کی کیفیت کیاہے ؟ امتحانات کے حوالے سے اُن کی تیاری اور مستعدی کی رفتار کیاہے؟سالانہ نتیجہ کے تناظرمیں آئندہ کے لیے تعلیمی ، تربیتی نظام میں کیا کیا امور ضروری ہیں؟ رواں سال کی تعلیمی ، تربیتی اور نظم وضبط کے حوالے سے مختلف تبدیلیوں کے عمومی ماحول پر کیااثرات مرتب ہوئے ؟وہ کون کون سی مثبت تبدیلیاں ہیں ،جن کوباقی رکھاجائے ؟ اساتذہ کرام کی تعلیمی ، تربیتی کارگزاری کس قدر اطمینان بخش ہے ؟ مستقبل میں منتظمین اور اساتذہ کرام کوکس حوالے سے اپنی محنت وصلاحیت بڑھانی ہوگی؟ امسال ادارے کے منتظمین اوردیگر کارکنان ،اساتذہ کرام اورطلبہ کے دینی وروحانی اور علمی رشتے کس قدر حوصلہ افزاء رہے ؟ادارے کواپنے اردگرد دینی ماحول،فضاء بنانے میں کس قدر کامیابی حاصل ہوئی ؟کتنے نئے لوگ ادارے کے معاون، کارکن او رمحب بنے ؟سالانہ تعطیلات کے دوران دینی وقف ادارہ کیاکیا خیر کے کام انجام دے سکتاہے ؟ رمضان کے مبارک مہینہ میں عمومی تربیت واصلاح کے حوالے سے کیاکیاشکلیں ہوسکتی ہیں؟ ذکر ودعااورعبادت وتلاوت کی قوت کوکس طر ح بڑھایا جاسکتا ہے؟رمضان کے مہینہ میں عمومی دینی رجحان سے کیسے، کیونکر بیش ازبیش فائدہ اٹھایاجاسکتاہے؟ تاکہ دین سے وابستگی، فرائض کے اہتمام کی یہ کیفیت سارا سال باقی رہ سکے؟ فرائض سے غفلت کے نتیجہ میں ملک ،ملت ،افراد ،خاندانوں اورعلاقوں پر جوعذاب، مصیبت کی شکلیں آتی ہیں ،اس کے بجائے رحمتوں اور برکتوں کی شکلیں سامنے آئیں ؟طلبہ،طالبات ، اساتذہ اوراستانیاں سالانہ تعطیلات کوکس طرح گزاریں؟ اس کے لیے کیا کیا مناسب ومفید صورتیں ممکن ہیں ان باتوں پر غورکرکے بہتر سے بہترکارکردگی پیش کرنے کی امیدکی جاسکتی ہے ،تھوڑے وقت میں،کم وسائل کے ساتھ زیادہ سے زیادہ کام کیاجاسکتا ہے ، مدارس وجامعات سے عوام کی وابستگی و تعلق کواُس کاجائزحق اورمطلوبہ مقام وحیثیت دی جاسکتی ہے ،اسی میں دینی اداروں،منتظمین ،مدرسین ،عوام ، طلباء ،فضلاء اور ملک وملت سب کا بھلا ہے ۔
دینی اور مغربی نظام کے اداروں کے اہداف ا ور بنیاد ی خطوط میں فرق 
مدارس وجامعات سے اِن دنوں طلبہ وطالبات کی ایک بڑی تعداد سندفراغت حاصل کرکے عمومی معاشرہ میں قدم رکھنے جارہی ہے،کہیں آٹھ سال ،کہیں چھے اور چار سال کاعرصہ یکسوئی کے ساتھ دینی تعلیم کے حصول میں لگاکراب اس قابل قراردئے جاچکے کہ وہ دین کوسمجھیں، اوردوسروں کوبھی سمجھاسکیں،عوام کی صحیح رخ پر تربیت کرسکیں،ایک طرف مغربی ادارے اور ان کے افرادہیں، ان کے دور رس پروگرام ،ملمع سازمنصوبے ہیں،جوبرابرجاری وساری ہیں۔ تودوسری طرف دینی ادارے ہیں، ان کے افراد ہیں، جومغربیوں کے مقابلہ میں اللہ کانام بلند کرنے کاعظیم ہدف رکھتے ہیں، وہ انسانوں کوحیوانات، جمادات ، نباتات ، اورمصنوعات سے جوڑنے اوراُن کوأپنی شناخت کاذریعہ قراردینے کے بجائے اللہ تعالی اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ،اس کی شریعت وتعلیم سے لوگوں کووابستہ کرنے ،اسی کواپنی بنیادی شناخت اور فخر ومباہات کاذریعہ قراردینے کواپنامشن اورمقصد سمجھتے ہیں، وہ حیوانات، جمادات ،نباتات اورمصنوعات میں لگنے کو بشری فطری تقاضوں کی حدتک رکھناچاہتے ہیں، اُس میں بھی مخصو ص شرعی طریقہ کار کی پابندی کی تعلیم کوضروری سمجھتے ہیں، اِن چیزوں کومقصد حیات اورانسانوں کی بنیادی شناخت کاذریعہ تصور کرنے کوانسانیت کی پستی اور ذلت یقین کرتے ہیں،وہ انسانوں کومقصد ِحیات ،عبادت ِرب کے بنیادی مشن اورضروریاتِ معاش میں فرق کرنے کی تربیت دیتے ہیں،وہ کامیابی وناکامی کوانسانوں کی ترجیحات کی بنیاد پر نہیں سوچتے بلکہ اللہ تعالی کی طرف سے سچی،حتمی خبریں بیان کرنے والے رسولوں بالخصوص حضرت رسول کریم صلی اللہ علیہ وعلی سائر النبیین وسلم کے بتائے ہوئے اصولوں اورطریقہ کارکے مطابق سمجھتے ہیں،ان کے یہاں کامیابی وناکامی کامفہوم الہی پیغام کے مطابق ہے،جوخدا سے ناآشنا انسانوں کی ترجیحات اورقواعد و تعریفات سے یکسرمختلف ہے ۔
فضلاء سے الوداعی ملاقاتیں،واپس ملنے والا پیغام
نئے فضلاء کوگھروں کی طرف بھیجنے سے پہلے پہلے اُن کے خیالات وافکار،حتمی پروگرام اورتشکیل کرد ہ منصوبوں کے بارے میں ضرور پوچھ لیاجائے ؛اِس سے
جہاں ان کے مستقبل کے بارے میں ادارہ ،منتظمین اور اساتذہ کرام کواطمینان حاصل ہوگا، وہیں یہ آخری ،حتمی معلومات ہماری تعلیم وتربیت کے حوالے سے ایک غیر رسمی جائز ہ کا بھی کام دے گا ، جس سے ہم اپنے اداروں کے اندرپائے جانے والے نئے اثرات،نئے رجحات اور عمومی مزاج پر بھی بخوبی مطلع ہوسکیں گے؛ کیوں کہ ایک فارغ التحصیل ہونے والا اپنے اردگرد پائے جانے والے افکار،خیالات، زاوئیہ نگاہ، تعلیم وتربیت کی بنیادی ترجیحات ، ادراہ ،منتظمین اور اساتذہ کی سوچ کے زیر اثر رہ کرہی اپنے مستقبل کے بارے میں پروگرام طے کرتاہے ۔
یہ بات بھی سمجھنے کی ہے کہ جس طرح معاشرہ میں ہمارا نمائندہ بن کر جانے والے کسی طالب علم کاکوئی خاص پروگرام تشکیل دینا ،کوئی اہم منصوبہ، میدان ِعمل تجویز کرناہمیں ایک مثبت یامنفی پیغام دیتاہے،ہمیں اپنے رویوں، تعلقات ، ترجیحات اورطریقہ کارپر ازسرنوغورکرنے ،اسے بدلنے یا باقی رکھنے اوراس پرمستقیم رہنے کاپیغام دیتاہے ، اسی طرح ہمارے اداروں کے کسی نوسندیافتہ فاضل کاکوئی واضح ہدف نہ رکھنا،اپنے مستقبل کے حوالے سے حساس نہ ہونا،اپنے اردگرد کے ماحول پر نظرنہ رکھنابھی ہمیں واضح پیغام دیتاہے۔ یہ ایک تلخ پیغام ہے ، مگر یہ ہمارے ادارہ، انتظامیہ ،تدریسی وتربیتی عملہ سے بھی اپنے اپنے دائرہ کار، ذمہ داری کی حدود میں ازسرنوغوروفکر کرنے ،اس کابخوبی جائز ہ لینے کامطالبہ کرتاہے،اپنے بارے میں ہمارا تنقیدی و منفی جائزہ بھی مطلوبہ دیانت اور امانت کالازمی حصہ ہے،جس کوبہرصورت اختیار کرلیناچاہئے، اِس سے فرد اورنظام کی کمزوری دور ہونے میں بڑی مددملتی ہے۔مگردوسروں کوالزام دے کر اور انہی پر ذمہ داری ڈال کرہم خودمثبت تعمیری کردار اور خیر کا ذریعہ بننے سے محروم توہوسکتے ہیں،کسی خوبی اوربہتری کووجود میں نہیں لاسکتے ۔
دعوت وتبلیغ کے مبارک سلسلہ سے وابستگی کی اہمیت اورفوائد
اساتذہ کرام، طلباء اورفضلاء کی ایک بڑی تعداد سالانہ چھٹیوں میں اسی طرح تعلیمی دورانئے کی تکمیل پرحسب توفیق چلہ،عشرہ اورسال لگانے کے لیے جماعتوں کے ساتھ نکلتے ہیں، سارا سال اور عمر کاایک معتدبہ حصہ دینی تعلیم وتربیت میں لگاکرعمومی میدان میں کام کرنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، ان کایہ مجاہدانہ خروج اور قربانیوں کے ساتھ نکل کھڑاہوناجہاں ایک طرف عام مسلمانوں،اورخودجماعت میں ساتھ چلنے والوں کے لیے خیر وبرکت ،صلاح ورشد اور صحیح تربیت وتعلیم پانے کاذریعہ بنتاہے ،وہیں خود ان خادمانِ دین کے لیے بھی علمی ،ایمانی ، روحانی ،عملی قوت وترقی کاباعث بنتاہے ، جماعت کے ساتھ نکل کر انسا ن بہت کچھ سوچنے پر اپنے آپ کومجبور پاتاہے ،جس کے لیے وہ پہلے اپنے کوفارغ نہیں دیکھتا ،اسی طرح امت مسلمہ کی دینی ،عملی حالت کوبہت قریب سے دیکھنے، پڑھنے، اورسمجھنے کاموقع مل جاتاہے۔یہ خروج اصلاح ِنفس کی ان کوششوں کاتسلسل بھی ہے،جس کی ہمارے بزرگوں کے یہاں روایت تھی ،و ہ رسمی تعلیم کے دوران اور اس کی تکمیل کے فوراً بعد اپنے وقت کے معتمد ومسلّم اہل اللہ کی خدمت میں حاضری دیتے ، اُن کے ہاتھ میں ہاتھ دیتے اور روحانی فیض پاتے، اس طرح علم کو عمل کے ساتھ جوڑنے، معرفت وقربِ خداوندی کاخاص مقام پانے ،شریعت وسنت کے اہتمام کے سانچے میں ڈھلنے کی صورتیں پیداہوتیں،جذبات بیدار ہوتے ،حوصلے بڑھ جاتے،ہمتیں بلند ہوجاتیں ، اور یوں علمِ ظاہری کے ساتھ باطنی کیفیات میں بھی ترقی حاصل کرلیتے ۔
فتنوں، آزمائشوں اوراعجاب کل ذی رأی برأیہ کے اس دورمیں دعوت وتبلیغ والی مخصوص ترتیب اور معمولات کاحصہ بننا،اس میں شمولیت اختیارکرنا ، عقیدہ و نظریہ کی حفاظت ، سلف کے متوارث طریقہ کارکے ساتھ جڑے رہنے ،علمی ، دینی عنوانات رکھنے والے فتنوں سے حفاظت کابھی آسان ذریعہ ہے ،جواِس وقت دوسرے عام مسلمانوں کی طرح دینی مدارس و جامعات کے اساتذہ ،طلبہ اورنوسندیافتہ فضلاء کے لیے بھی بڑا مسئلہ بنے ہوئے ہیں،چناں چہ ان مقتدالوگوں کا کسی غلط عقیدہ ،پست نظریہ کاشکارہوجانا، مغربیت کے سیلاب میں بہہ پڑنا ،وقتی مصلحت کوشی کوخدمتِ دین کاصحیح تصور باورکرانادین کے” بنیادی متوارث مفہوم“ میں رخنہ پڑجانے اوربے شمار دیگر خرابیوں کاباعث بن جاتاہے ۔
رسمی فراغت کے بعدمزید تعلیم وآگاہی کے سلسلے اورخدشات
نئے فضلاء کی ایک بڑی تعداد اگلے مراحل میں بھی اپناتعلیمی سلسلہ جاری رکھناچاہتی ہے ،وہ اپنی کسی علمی یافنی کمزور ی کوپوراکرناچاہتی ہے ،یاکوئی نیاعلمی وفنی ہدف حاصل کرکے مزید ترقی کرناچاہتی ہے ، یہ فضلاء ہمارے لیے بڑی اہمیت کے حامل ہیں،بالخصوص جو کوئی بڑا ہدف رکھتے ہیں اور بہتر طورپرخدمات انجام دیناچاہتے ہیں، اس لیے مزید تیاری کرکے اورخوب ہرطرح سے لیس ہوکرمیدان میں کودناچاہتے ہیں۔ایسوں کی صحیح اوربروقت راہنمائی بھی بہت بڑاعنوان ہے ،جس کے لیے سنجیدگی کے ساتھ ہرپہلوپرغورکرکے مشورہ دینے کی ضرورت ہوتی ہے۔چلتے چلتے کوئی عامیانہ سامشورہ دینا ہمارے قابل جوہرکے چمکنے میں رکاوٹ بن سکتا ہے ،اس واسطے ہمارے پاس مختلف موضوعات میں تخصص اورامتیازی مقام پانے کے لیے قائم باقاعدہ تربیت گاہوں کی تفصیل ،اُن کے اہداف ،طریقہ کار،نتائج کااوسط ، مختلف اداروں میں رائج تخصص فی العلوم کے نصاب ونظام اور داخلوں کے طریقہ کار،شرائط وضوابط ،بنیادی ضروری استعداد کے حوالے سے خوب معلومات ہونی چاہئیں تاکہ ہم اپنے فضلاء کواُن معلومات کی روشنی میں بہتر راستہ منتخب کرنے میں بروقت مدد فراہم کرسکیں۔
مختلف دورانیوں پرمشتمل کورسز، تعلیمی اور تربیتی پروگرام، کمپیوٹر،انٹرنیٹ،مغربی تہذیب وثقافت اورمختلف عجمی زبانوں کے کورسزکا اہتمام کرنے والے اداروں ا وراُن کے منتظمین کے مسلک ومزاج،ماحول وگردوپیش،مستقبل کے اہدا ف اورا ند ازِتعلیم وتربیت کے حوالے سے ہم باخبرہوں۔ مبادا ہمار اکوئی قابل جوہر دشمنوں کے پھیلائے ہوئے جال کاشکارنہ بنے۔ہماری صلاحیت ،اورتربیتی،تعلیمی کوششوں کامظہر اہل حق کے خلاف استعمال نہ ہو۔ ایسے ادارے اورافراد موجودہیں، جو ہمارے دینی مدارس کے ذہین اور فطین نوسندیافتہ فضلاء کی تاک میں رہتے ہیں،وہ ان کی قدروقیمت اورچھپی ہوئی صلاحیتوں سے خوب واقف ہیں،اپنے مخصوص مقاصد کے لیے ان کودینی مدارس کے فضلاء سے زیادہ موزوں افراد میسر نہیں آتے،جوجفاکش بھی ہوتے ہیں، محنت کے عادی بھی ، اور اپنے مقصد وہدف کے دھنی بھی۔
اداروں کے منتظمین اور اساتذہ کرام کواِن شکاریوں اور ان کے طریقہ ء واردات پرگہری نظر رکھنی ہوگی، عصری اداروں میں جانے کے لیے کس کاجانامناسب ہے،کس کانہیں؟ یہ بھی پہلے سے طے کرناہوگا، عصری تعلیمی وتربیتی اداروں میں جانے والوں کے لیے کیاکیاہدایات ہونی چاہئیں؟ ان کے اہداف کیاہوں ؟ وہ کس طرح وہاں کے ماحول پر مثبت اثرات مرتب کرکے ان کے متوقع شرسے بچ سکتے ہیں ؟یہ سوچناہوگا،کیوں کہ جس قدر اعتماد اور محبت کارشتہ بڑا ،مضبوط اور دوررس نتائج کاحامل ہے، اسی قدر اس کے مطالبے اورتقاضے بھی ہیں !
نئے مواقع کی تلاش وجستجو
کئی فضلاء کویہ خیال آنے لگتاہے کہ انہیں کام کے مواقع ہی دستیاب نہیں۔ہرجگہ ضروت پوری ہے ،گنجائش نہیں ۔یہ سوچ،خیال بعض دفعہ ُان کے خاندانی اورتعلیمی سرپرستوں کوبھی آنے لگتاہے ،اوربڑی شدت کے ساتھ وہ اس کومحسوس کرتے نظرآتے ہیں،اِس نقطے پر آکروہ پریشان سے ہوجاتے ہیں مگرجس عظیم مقصد کے پیش نظران فضلاء کوتربیت، تعلیم دی گئی ہے اور اس طویل تربیتی دورانئے میں اس کے لیے تیاری کرائی جاتی رہی ہے، اُ س کوسامنے رکھتے ہوئے یہ کیسے کہاجاسکتاہے کہ کام کے مواقع ہی نہیں!
بہ الفاظ دیگرسارے مسلمان ضروری دینی امور سے روشناس ہوچکے ،اسلام اور اُس کے سچے پیروکاروں کوغلبہ حاصل ہوگیا!ہرہربستی، محلہ، گلی میں مسلمان بچوں، بچیو ں، مردوں، عورتوں اور جوان، بوڑھوں سب کے لیے ضروری دینی تعلیم وتربیت کاانتظام ہوگیا،اپنے خالق حقیقی سے نا آشنا،روٹھی ہوئی مخلوق کاجوق درجوق اسلام میں داخلہ شروع ہوگیا، انہیں ہر طرح سے سنبھالنے کاانتظام بھی ہوگیا۔کیادیہات کیاشہر؟ ہر جگہ نومسلموں کی دینی تعلیم و تربیت اورضروری معاش و معاملات کاخوب خیال رکھنے کابندوبست کیاجاچکا ! اسلامی علوم وفنون کی عصر حاضرمیں جس جس شکل وصورت میں خدمت ،تدوین وترتیب اورنشرواشاعت کی ضرورت تھی،اُس کے امکانات تھے وہ بھی ہوچکے۔شہروں سے لے کر دوردیہات ، ویرانوں، صحراوٴں ، پہاڑی دروں تک سب جگہ دینی تعلیم وتربیت کے سلسلے بخوبی جاری ہوچکے، ملک کے اندردوردراز کے علاقوں کوڈھونڈ نکال کر وہاں،مسجد،مکتب قائم کرکے،ویران مسجدوں ،مکتبوں ،خانقاہوں کوآباد کرکے سلسلے شروع کئے جاچکے ۔
بیرون ملک بسنے والی کروڑوں کی تعدادپر مشتمل مسلم آبادی اور اربوں غیر مسلم آبادی کے لیے بھی جوکچھ کیاجاناچاہئے تھا، جوشرعی، دینی، اخلاقی ذمہ داریاں تھیں،اس کے لیے جوجوطریقے،اسلوب اوراندازممکن تھے، سب روبہ عمل لائے جاچکے، عیسائیت سازوں،مادہ پرستوں اورعیش کوشوں کی جانب سے اسلام ،مسلمانوں ،بالخصوص ان کی نئی نسلوں کوجس جس طرح کے خطرات،اندیشے لاحق تھے ،وہ سب دورہوچکے ۔مظلوم،کسمپرس، فاقہ کش افریقی صحراوٴں اور روس کے پہاڑوں ،گلیشیروں کے پاس بسیراکرنے والے مسلمانوں کے جودینی ،تعلیمی مسائل تھے،معاش وگزر اوقات کی پریشانیاں تھیں،اس کے لیے انتظامات کئے جاچکے۔غیرمسلموں کے ہاتھوں ظلم وستم کی چکی میں پسنے والے عرب وعجم کے بے کس وبے سہارا مسلمانوں کوکفار کے پنجوں سے نکالاجاچکا۔اُن کی عزت وناموس سے کھیلنے والوں کو لگام دی جاچکی۔
مسلمانوں کی مال ودولت ،زمین وجائدادیں،معدنیات وذخائر،عزت وناموس،شریعت کی پابندپرسکون زندگی،ان کی حکومت واقتدار،حال ومستقبل کے وسائل وسہولیات پر مختلف نام اورعنوان سے ڈاکا ڈالنے والوں کوپکڑا جا چکا۔ انہیں انصاف کے کٹہرے میں پیش کیاجاچکا۔غیرت مندمسلمانوں کے خلاف فوج کشی کرنے والوں کازور توڑاجاچکا۔انہیں بھاگنے پر مجبورکیاجاچکا۔ظلم وزیادتی کی چکی میں پسنے والے قیدیوں کوجوملک،بیرون ملک ،شہروں،دیہاتوں اورجنگلات ،پہاڑوں کے اندر ،سمندروں اور فضاوٴں میں صرف دین دوستی ،اوراسلام پر مرمٹنے کے عظیم جذبات کے” نئے خودساختہ ستمبری جرم “کی پاداش میں انتہائی دلدوز،شرمناک اور انسانیت سوزمظالم کے شکارہیں،انہیں انسان نمادرندوں کے پنجوں سے چھڑایا جاچکا۔انہیں پکڑنے والوں اورپکڑوانے والوں کواپنے انجامِ بد تک پہنچایاجاچکا ۔
اسلامی علوم وفنون کی رواں چلتی علاقائی اوربین الاقوامی زبانوں میں مناسب تعبیر وتشریح کاکام کیاجاچکا۔اکابر واسلاف کے مرتب کردہ عظیم علمی ذخائرکی حفاظت کی جاچکی۔انہیں اسلوبِ زمانہ کی رعایت کے ساتھ تحقیق وتصحیح کے ساتھ پیش کیاجاچکا۔ ہزاروں ،لاکھوں قیمتی قلمی ذخیروں کی بحسن وخوبی حفاظت کے انتظامات کئے جاچکے۔ سلف کے ان عظیم قیمتی ذخائرکومٹی کاساروپ دھارلینے سے بچایاجاچکا! پڑھی لکھی مسلم دنیاکی اِس عظیم دولت کو”روایتی ان پڑھ غیرمسلم دنیا“ میں لے جائے جانے سے روکاجاچکا۔ اِن عظیم علمی ،فنی ذخیروں پر اُن کی شان کے مناسب تحقیق وتدوین کے مسلّمہ اصولوں کے مطابق کام کئے جاچکے۔انہیں اصولی اور فنی طریقہ پر تحقیق وتخریج کے لیے منتخب کرکے خدمت کی جاچکی۔فصیح عربی زبان وادب کی تعلیم ،نشرواشاعت کامعقول انتظام کیاجاچکا۔ دنیاکے ہربڑے ائرپورٹ، ریلوے اسٹیشن، بس اسٹینڈ، مسافرخانے ، تفریح گاہ ، بری وبحری راستوں پر عربی ،اردوزبان میں راہنمائی کاانتظام کیاجاچکا۔وہاں عربی اور اردو کی خیر مقدمی ترکیبیں سجائی جاچکیں۔
مسلم ممالک بالخصوص ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ میں علوم وفنون کی اعلی تعلیم وتربیت حاصل کرنے کے لیے غیرمسلموں کے قافلوں کے قافلے، جوق درجوق یورپ ،امریکااورروس سے آمد شروع ہوچکی!مسلم ہسپانیہ کی تاریخ دہرائی جاچکی۔قرطبہ ،طلیطلہ ،سسلیہ ،بخارا ،سمرقند اورترمذ کی درس گاہیں،مسجدیں،خانقاہیں اور رصدگاہیں آباد کی جاسکیں! دنیا بھر کے بڑے بڑے تعلیمی اداروں کی طرف سے” وفاق المدارس العربیہ پاکستان“ کے زیرانتظام مدارس وجامعات سے الحاق کاشرف پانے کے لیے بھجوائی جانی والی درخواستوں کو نااہلی کی بناپر مسترد کیاجاچکا! مفتوحہ ممالک امریکہ ،یورپ وغیرہا سے فاتح ممالک بالخصوص ”اسلامی جمہوریہ پاکستان“ آنے کے خواہشمندہزاروں افراد کو صحیح عربی اوراردو کی تعلیم وتربیت دینے کے لیے ”حکومت پاکستان “ کے خرچ پر قائم ہزاروں عربک ،اردوسینٹروں کے لیے مناسب افراد مہیاکئے جاچکے ؟
قرآن،حدیث ،فقہ ،اصول،علوم ِعربیت ،فنونِ ضرورت ومعاش کے حوالے سے جوجوکام ہمارے ذمہ تھے ،انہیں جس جس طور وطریقہ پر کیاجاناتھا،وہ سب ہوچکا ؟ ہربستی ،گاوٴں،دیہات میں،ہرمحلہ،گلی میں،ہرمسجد،مکتب کے پاس ضروری دینی کتابوں اور علمی،تربیتی موادپرمشتمل لٹریچرکے لیے لائبریری ،کتب خانہ ،اور اس کے لیے مناسب وموزوں افراد کاانتظام کیاجاچکا؟لغت ،ڈکشنری کی طرح ہر کتب خانے کے آس پاس میں ایسے صاحبِ تحقیق ونظر شخصیت کاانتخاب بھی کیا جاچکا ،جس کے پاس جاکر لوگ دوران مطالعہ پیش آنے والے اشکالات کوحل کرسکیں،غلط فہمیوں کاازالہ کرسکیں ؟لحنِ جلی کے عادی أئمہ مساجد کی اصلاح کی جاچکی!بہتر متبادل کاانتظام کیاجاچکا!
معاصی ،جرائم کاسلسلہ رک گیا؟چوروں ، لٹیروں اورڈاکوٴوں نے توبہ کرکے ساری لوٹی ہوئی چیزیں ان کے مالکوں سے معافی مانگ کرواپس کردیں،اس کا معاوضہ دیدیا،بدکاری،شراب خوری،جھوٹ ،فریب دھوکہ ،غیبت ،چغل خوری،حسد ،کینہ ،ظلم وزیادتی ،خیانت کاسلسلہ رک گیا،لوگوں نے اِن حرکتوں سے توبہ کرلی؟ سب لوگ اللہ تعالی کی رضاوالے اعمال میں لگ گئے ؟ناراضگی کے اسباب سے لاتعلق ہوگئے ؟
توہین رسالت ،توہین صحابہ اورسلف صالحین سے بیزاری کاسلسلہ تھم گیا؟ اس گھناوٴنے جرم کاارتکاب کرنے والوں کوانجام ِبد تک پہنچایاجاچکا!انہیں عبرت ناک سزادے کردبایاجاچکا!جھوٹے نبیوں کاپرچارکرنے والوں کاراستہ روکاجاچکا!شکل وصورت، لباس وپوشاک، صلاحیت واستعداد کے حوالے سے عامیانہ اورجاہل لوگوں کاعلماء کی مسند پر براجمان ہونے کاسلسلہ رک گیا! ایسے جاہلوں کوتنبیہ کردی گئی جوحصولِ علم اورروحانی تربیت کے صحیح متوارث طریقہ کواختیارکئے بغیردرسِ قرآن ، درسِ حدیث،درسِ فقہ وافتاء دیتے ہیں!اپنے تئیں علمی ،تربیتی مجالس قائم کرتے ہیں،تحریکیں اورانجمنیں بناتے،بگاڑتے رہتے ہیں۔
اسلامی شریعت ،تاریخ ،مسائل ،علوم وفنون پر جاہلانہ خامہ فرسائی کرنے والے لکھاریوں،کالم نگاروں اورخبر فروشوں ، کتاب ساز لوگوں کاناطقہ بند کیا جاچکا! ان کی تحریروں پر پابندی عائد کی جاچکی! مستشرقین، مستغربین کے غلط خیالات وافکارکی بیخ کنی کی جاچکی! اُن کی جہالت ،بے وقوفی اور تعصب وزیادتی کودنیا کے سامنے آشکارا کیاجاچکا!
فرد،خاندان،معاشرہ،زندگی کے تمام معاملات،مسائل میں شریعت کااطلاق ہونے لگا؟ سارے ادارے ،دفاتر وہاں کاعملہ،طریقہ کار،ان کارخ وانداز ، تحریر وضابطے سب شرعی اصولوں کے پابند ہوچکے !ہرجگہ اللہ تعالی کی حاکمیتِ اعلی،شریعت کی برتری وتفوق اور اُس کابنیادی مقصد ِحیات وکامیابی کے ضامن کے طور پرواضح ،غیرمبہم تصورمحسوس کیاجاچکا !
ملک بھرمیں قائم علوم وفنون کی عصری درس گاہوں،وہاں کے نظام تعلیم وتربیت ،عملہ وکارکنان ،تربیت پانے والے سب کے رخ ،اندازکودرست کیاجاچکا! انہیں صحیح اسلامی خطوط کے مطابق آگے بڑھنے کاراستہ بتلایاجاچکا!اس کاپابند بنایاجاچکا!تحقیقی وفنی اداروں کااختیارکردہ مغربی قبلہ درست کیاجاچکا!
کتنے عنوانات،موضوعات اوران گنت میدان ہیں جہاں ہمارے تربیت یافتہ فضلاء کام کرسکتے ہیں، کام کاصحیح رخ بتاسکتے ہیں، کام کرنے والوں کے ساتھ علمی، فنی ،نظریاتی تعاون کرسکتے ہیں، انہیں توجہ دلاسکتے ہیں، وہاں تبدیلیوں کاذریعہ بن سکتے ہیں، خیر وبرکت کاباعث بن سکتے ہیں،فتنوں،معاصی اورشرور کاراستہ روک سکتے ہیں،حق کابول بالا کرسکتے ہیں،باطل پر محسوس وغیر محسو س دونوں طریقوں سے کار ی ضرب لگاسکتے ہیں،انہیں اِقدام کے بجائے دفاع پر مجبورکرسکتے ہیں،باطل کے خودکاشتہ پودوں کی بیخ کنی کرسکتے ہیں، انہیں احساس کمتری میں مبتلاکرسکتے ہیں،ان کواپنے تحفظ اوروجود وبقاء کے حوالے سے پریشان وسرگردان کرسکتے ہیں،اُن کی راہ میں روڑے اٹکاسکتے ہیں،انہیں لگام دے سکتے ہیں، ویران مسجدوں ،خانقاہوں اور اجڑی ہوئی بستیوں کوآبادکرسکتے ہیں،لوگوں کوفرائض کی طرف لاسکتے ہیں،انہیں دینی مراکز،مدارس ومساجدسے وابستہ کرسکتے ہیں، بچوں،جوانوں اوربوڑھوں میں کام کرسکتے ہیں،علوم وفنون کی کتابوں کی خدمت کرسکتے ہیں،انہیں نئے طوروانداز پر قارئین کے سامنے پیش کرسکتے ہیں،دنیابھرکے مظلوم ومقہور مسلمانوں کے نام حوصلہ افزائی ،تسلی اوردعاوٴں پر مشتمل پیغامات بھیج سکتے ہیں،انہیں باطل کے مقابلہ میں ڈٹ جانے پر ہمت دلاسکتے ہیں،ان کواپنے تحفظ ،دفاع اوراقدام کے نئے نئے طوروطریقے بتاسکتے ہیں!
معاشی بندوبست کے نئے ذرائع پرغوروفکرکی ضرورت 
اسباب کی حدتک معاشی ضروریات کاظاہری بندوبست جن دینی کاموں سے وابستہ ہے،جس کی ہمارے ماحول ومعاشرہ میں ایک بہترین روایت چل رہی ہے کہ لوگ مخصوص طریقہ پر کسی دینی خدمت میں مصروف آدمی کے ساتھ کسی قدر تعاون پر آمادہ ہوتے ہیں ،اُن مخصوص عنوانات کے علاوہ بھی تعاون اورحوصلہ افزائی کورواج دینے کی شدید ضرورت ہے،مگرتاوقتیکہ دین کی خدمت کے دوسرے عنوانات پر کوئی حوصلہ افزائی کی شکلیں نہیں بنتیں ،کام کے خواہشمند بالخصوص وہ باہمت فضلاء جوکسی ایک یا کئی نئے میدانوں میں آگے بڑھ سکتے ہیں،اُن کوچاہئے کہ قناعت اورسادگی کواپناتے ہوئے معاشی سلسلہ کے لیے مختصر متبادل انتظام پربھی غورکرلیں تاکہ ان کو اختیار کرکے دین کی خدمت کے اُن عنوانات کوہاتھ لگانے کورواج دیاجاسکے جس کواختیارکرنے والے ہی نہیں یاہیں توصحیح ؛مگر بہت کم!،بڑوں سے بھی ضرور مشورہ کرلیں،اس کی روشنی میں دوسرے مناسب،موزوں ،مختصر اورآسان ذرائع کورواج دیاجائے جن کی وجہ سے جاری تدریسی ،تصنیفی، دعوتی واصلاحی سلسلوں، دنیا سے بے رغبتی کے جذبات،غریبوں ،کسمپرسوں سے محبت تعلق اوردنیاداروں سے عدم تأثرکی کیفیت کوکسی قسم کاخطرہ ،اندیشہ لاحق نہ ہو ۔
معاشی ترقی کی دوڑ میں شامل ہوجانے کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاسکتی،کئی نئے فضلاء اس کابھی شکار ہوجاتے ہیں ،وہ خالص دینی کام میں لگ سکتے ہیں،اُن کے اندربڑی صلاحیت ہوتی ہے ؛ مگر معاشی مسائل،پریشانیوں اور ضرورت کے نا م پر وہ دوسرے معاشی ذرائع اختیار کرلیتے ہیں،مگر بالآخر وہ بھی دنیاداروں کی طرح مقابلہ کی فضاء میں گھومتے ہوئے نظر آنے لگتے ہیں ؛ حالانکہ یہ ان کا ہدف نہیں تھا،کئی کی حالت توبہت ہی ناگفتہ بھی ہوجاتی ہے، جوبالکل نامناسب طرزعمل ہے۔ ہمارے فضلاء کوتوصبر ،شکر ، قناعت اوردنیاسے بے رغبتی کی تعلیم دلائی گئی ہے ،انہیں اسباب پریقین رکھے بغیر اسباب کواختیارکرنے کاسبق سکھلایاگیاہے،انہیں دعاوٴں اورمسنون اعمال کے ذریعہ اپنی حاجتیں اللہ تعالی سے پوراکرانے کازود اثر طریقہ بتلایاگیاہے، کام کے عنوانات بہت ہیں ؛ مگر جب ہم اپنی معاشی ضرورت کواس کے ساتھ جوڑکر دیکھتے ہیں،توکوئی میدانِ عمل نظرنہیں آتا،اس مسئلے پر اتناہی لکھدیناہرگزکافی نہیں،یہ دین کے بہت سارے کاموں اور عنوانات کے سردخانے کی نذرکئے جانے کابنیادی سبب ہے،اس پراُتناہی سوچاجاناچاہئے جس قدرنصاب ونظام تعلیم پر غوروخوض کیاجاتاہے ،اوراس کے لیے دوررس نتائج کے حامل پروگرام تشکیل دیئے جاتے ہیں ۔
تخصصات کے سلسلوں سے وابستگی اور آگاہی کی ضرورت 
اس وقت ملک بھر کے بڑے جامعات میں تخصص فی علوم الحدیث کے دوسالہ ،تخصص فی الافتاء کے تین سالہ اوردوسالہ اسی طرح تخصص فی الأدب العربی کے دوسالہ کورس جاری ہیں،جس میں مناسب استعداد ومزاج رکھنے والے،علمی و فنی ترقی کے خواہشمندفضلاء حصہ لیتے ہیں،مقابلے کے امتحانات میں کامیاب ہونے والے اپناعلمی سفرجاری رکھتے ہیں،نئی نئی معلومات، خدمت وکارکردگی کے عنوانات اورعلم وعمل کے میدانوں سے واقف ہوتے چلے جاتے ہیں،یوں کسی ایک یاکئی علوم میں امتیازحاصل کرلیتے ہیں،پھر ذوق وصلاحیت کے جوہر دکھانے والوں کی ہرجگہ مانگ اورطلب ہوتی ہے ، ایک دنیااُن سے مستفید ہوتی ہے ۔
مذکورہ بالاعنوانات کے علاوہ ردِّقادیانیت ،ردِّ فرق باطلہ ،اوردیگر مناظرہ ومقابلہ کے کورس ،عربی حوارکے یک سالہ ، تجویدوقراء ت کے مختلف کورس ،قضاء وافتاء کے یکسالہ کورس، اقتصادیات کے کورس ،صحافت ومغربی زبانوں کے مختلف دورانیوں پرمشتمل کورس بھی کروائے جاتے ہیں،یہ تمام کورس بھی متعلقہ فن وعنوان سے مناسبت رکھنے والے ،اور مذکورہ میدانوں میں کام کرنے کے خواہشمندوں کے لیے بڑے مفید ثابت ہوتے ہیں،اور اس کے نتیجہ میں بڑے فوائد سمیٹے جاسکتے ہیں۔بعض علاقوں کے مخصوص ماحول اورمسائل کی وجہ سے بھی فضلاء کوکسی ایک میدان میں امتیاز حاصل کرنے کی ترغیب دی جاسکتی ہے، جس کے نتیجہ میں بڑے بڑے فوائد اور خیر وبر کت کی امید کی جاسکتی ہے ۔ 
باصلاحیت افراد کے لیے مناسب اورموزوں میدانوں کا انتخاب 
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہرمیدان کاانتخاب ضرورت واہمیت ،فنی استعداد ومناسبت اورسہولت وفراغت کے پیش نظر ہو،کیوں کہ مناسبت اوریکسوئی کے بغیر کسی فن میں درجہ اختصاص حاصل نہیں کیاجاسکتا، جلدی جلدی کر گزرنے کا مزاج رکھنے والاکسی بھی فن میں اختصاص تک نہیں پہنچ سکتا، نہ ہی اس کواختصاص کی تمنارکھنی چاہئے ، صرف نام ولقب پڑجانا کمال کی دلیل ہرگز نہیں ،نہ اِس پر خوش ہوناچاہئے ،نہ ہی بے جا اختصاص کے دعووٴں اور عنوانات کی حوصلہ افزائی کی جانی چاہئے ،اس سے علوم وفنون کی تحصیل کااونچا معیار متأثر ہوجاتا ہے ،بلکہ بسااوقات یہ جعلی اَسناد کے قبیل کے کاموں کی ایک صورت بن جاتی ہے ، جس کی شرعاگنجائش نظر نہیںآ تی !
جس طرح کسی کمزور ونامناسب استعداد والے کوکوئی بڑا علمی ہدف نہیں دیاجاسکتا،نہ ہی ایساکرنامفید ہے ،اِسی طرح کسی بہتراور ممتاز استعدادرکھنے والے کو کوئی چھوٹاہدف بتانابھی خیانت کے قبیل سے ہے، کتنے علوم وفنون اورعنوانات وموضوعات مناسب،بہتر اورممتاز استعداد وصلاحیت رکھنے والوں کے منتظر ہیں ؟ ! جولوگ اُس متعلقہ میدان سے کسی طرح وابستہ ہیں،اُن کی وابستگی رسمی اندازکی ہے ، وہ کام کرنے کی خواہش ضروررکھتے ہیں ؛ مگر مطلوبہ صلاحیت واستعداد نہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ مطلوبہ ضرورت وحاجت پوری ہوتی نظر نہیں آتی ، دسری طرف اُس کام وعنوان کے لیے نہایت موزوں،مناسب استعداد رکھنے والے افراد ایسے دوسرے کاموں میں مگن ہیں ، جن کو انجام دینے کے لیے بیسیوں لوگ بہ آسانی دستیاب ہوجاتے ہیں،وہ اپنی دینی خدمت پر خوش ہیں؛ مگراللہ تعالی نے جواُن کوامتیاز بخشاتھا،اُس کایہ حق ہرگزنہیں،کہ چلتے ہوئے کاموں کاسہارابنیں !
اُن کوچاہئے تھاکہ متروک کاموں ، غیر مدروس عنوانات کوہاتھ لگاتے، اُس میں اپنی صلاحیت کے جوہر دکھاتے، تاکہ وہ خدمت کرلیتے جوانہی کی وجہ سے ہو سکتی ہے،کسی دوسرے کی وجہ سے نہیں، اردگرد کے ماحول میں یہی دیکھنے میں آرہاہے کہ باصلاحیت أفراد کوجاری ، مدروس کاموں میں،یااانتظامی امور میں جھونک دیا جاتا ہے ،جس کی وجہ سے اُن کی صلاحیت واستعداد کومناسب عنوان نہیں ملتا،نہ اُن کواپنی صلاحیت کی کماحقہ قدرہے،نہ سرپرستوں کوخیال ہے،جوبالکل نامناسب رویہ ہے۔
قوت وصلاحیت کے اعتبار سے ہرشخص کااپناایک دائرہ کارہے، جس میں اس کوآناچاہئے ورنہ یہ اُس نعمت کی ناقدری کہلائی جائے گی ،جواللہ تعالی نے خاص طورسے اس کوعنایت کی ہے ،باصلاحیت افراد پوری قوم اور ملت کامشترکہ ورثہ ہوتے ہیں، اُن کومناسب میدان فراہم کیاجائے توپوری قوم ، ملت کوفائدہ پہنچے،اور علوم وفنون کی ترقی ہو،تعلیمی ، تربیتی معیار واسلوب میں نمایاں تبدیلی آئے ،اس کے بجائے اُن کوچلتے ہوئے کاموں میں لگایاجائے ،توخیر کے کام سے رسمی وابستگی کے باوجود اپنے فرض منصبی سے وابستگی نہیں کہلائی جاسکتی ،وہ کم استعداد رکھنے والوں کی مسند پر بیٹھ جاتے ہیں؛جس کی وجہ سے اُن کوبھی کام کے مطلوبہ مواقع فراہم ہونے میں دشواری ہونی لگتی ہے،کمزور استعدادوالے کسی نئے کام کابیڑا نہیں اٹھاسکتے،وہ چلتے ہوئے کاموں میں ہی بہترسہارا بن سکتے ہیں۔
مگرکوئی بڑی ذمہ داری کمزوروں کی سپرد کی جائے ،اس کے برخلاف مناسب وموزوں افراد کو نظرانداز کیاجائے، کیوں کہ ان میں دوسروں کی طرح انکساری اورچل چلاوٴکی عادتیں نہیں ہوتیں،وہ رک رک کر دیکھتے، سنتے اورچلنے لگتے ہیں،تویہ بھی صحیح رویہ نہیں ؛کیوں کہ ہم شرعااس بات کے پابند ہیں کہ ہرکام کے لیے مناسب آدمی کی تعیین کریں ،ذاتی، طبعی مناسبتوں کوشریعت کاحصہ نہ قراردیں ،اس بات کا خیال رکھنا چاہئے ۔

Flag Counter