Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1431ھ

ہ رسالہ

2 - 14
***
آپ اُستاد ہیں
شیخ الحدیث حضرت مولانا سلیم الله خان صاحب مدظلہ، بانی ومہتمم جامعہ فاروقیہ کراچی وصدر وفاق المدارس العربیہ پاکستان
الحمدلله وکفیٰ وسلام علی عبادہ الذین اصطفیٰ اما بعدٰ
اعوذ بالله من الشیٰطن الرجیم0 بسم الله الرحمن الرحیم0 لقد من الله علی المؤمنین اذ بعث فیھم رسولاً من انفسھم یتلو علھیم آیاتہ ویزکیھم ویعلمھم الکتاب والحکمة وان کانوا من قبل لفی ضلالٍ مبین․
وقال رسول الله صلی الله علیہ وسلم انما بعثت معلماً․ وقال: العلماء ورثة الانبیاء وانما الانبیاء لم یورثوا دینارا ولا درھما انما ورثوا العلم فمن اخذہ اخذ بحظ وافرٍ․
حضرات علماء کرام آپ مختلف علماء کے بیانات سے مستفید ہوتے رہے ہیں الله تبارک وتعالی اس استفادہ کو آپ کے لیے خیر اور فلاح کا ذریعہ بنائے۔ مجھے مکلّف کیا گیا ہے کہ میں آپ کے سامنے کچھ گزارشات پیش کروں۔ تو بحیثیت معلم او رمدرس میں اپنے تجربات کی روشنی میں بعض امور آپ کے سامنے پیش کروں گا۔ الله تبارک وتعالیٰ مجھے اچھی نیت کے ساتھ ان باتوں کو کہنے کی توفیق عطا فرمائیں۔ او رپھر اس کا فائدہ مجھے اور آپ کو عطا ہو۔
جہاں تک تعلق ہے معلم کے فرائض کا اور اس کی ذمہ داریوں کا تو اس سلسلے میں ایک بات تو میں اپنے تجربے کی بنا پر آپ سے یہ عرض کروں گا کہ طلبہ جو مدارس کے اندر علم حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں ان کی تعلیم کے ساتھ ساتھ تربیت کا اہتمام بے حد ضروری ہے او رمیں نے یہ دیکھا ہے کہ آنے والے طالب علم اپنے ماضی کے اعتبار سے خواہ کیسے بھی رہے ہوں لیکن مدرسے میں آنے کے بعد جب ان کو اچھا ماحول نصیب ہوتا ہے۔ اور اچھی تربیت ان کے لیے فراہم کی جاتی ہے۔ تو ان کی زندگی ہمیشہ کے لیے قابل رشک نہیں، انتہائی قابل رشک بن جاتی ہے ۔ میں نے اس کا کئی مرتبہ مشاہدہ کیا ہے ، اس لیے مدارس میں جہاں تعلیم کا اہتمام ہے وہاں تربیت کا اہتمام بھی ہونا چاہیے۔ تربیت کا مطلب یہ نہیں کہ آپ ڈنڈا لیے ہوئے اس کے پیچھے پیچھے پھرتے رہیں۔ ان کو مرعوب کرنے کے لیے خوف زدہ اور دہشت زدہ نہ بنائیں بلکہ شفقت غالب ہونی چاہیے۔ کہیں ضرورتِ شدیدہ کے پیش نظر اگرتادیب کی ضرورت ہو تو کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن عمومی احوال میں اور اکثر اوقات میں تربیت کے لیے شفقت کے پہلو کو غالب رکھا جانا چاہیے۔
دوسری ایک بات میں یہ سمجھتا ہوں کہ اچھے معلم او رمدرس کی پہچان یہ ہے کہ طلبہ اس کے سبق کو اتنی اہمیت دیں کہ وہ کسی قیمت پر اس سبق کو ناغہ کرنے کے لیے تیار نہ ہوں اور اس استاذ کے سبق کو یاد کرنے میں وہ مبالغہ کی حد تک کام لیں۔
اگر کوئی استاد ایسا ہے کہ طالب علم اس کے سبق میں کبھی آتا ہے کبھی نہیں آتا اس کے سبق کو یاد کرنے کا اہتمام نہیں کرتا، تو وہ استاد ناکام ہے۔ وہ کامیاب استاد نہیں کہلائے گا۔ کامیاب استاد وہی کہلائے گا کہ جس کے سبق کے ساتھ طلبہ کو شغف ہو اور وہ اس کو ناغہ کرنے کے لیے تیار نہ ہوں اور اس کو یاد کرنے کا پورا اہتمام کریں ۔ یہ کب ہو گا؟ یہ جب ہو گا جب کہ استاذ سبق کی ایسی تیاری کرکے آئے کہ وہ سبق اس کو زبانی یاد ہو مختلف عنوانات سے وہ طلبہ کو سمجھانے پر قادر ہو۔
ایسا نہ ہو کہ کتاب کے تابع ہو کر وہ بات کر رہا ہے کتاب ہٹا دی جائے تو وہ سبق کے بیان کرنے سے قاصر ہو ، نہیں نہیں ۔ پورا سبق استاد خود اپنے ذہن میں پورے طریقے سے محفوظ کرے اور پھر درس گاہ میں آئے اور سبق کی تقطیع کرکے پھر اس کوسمجھائے۔ یہاں سے لے کر یہاں تک یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے اور یہاں سے لے کر یہاں تک یہ مسئلہ بیان کیا گیا ہے اور اس کے بعد پھر اس جزء اول کا خلاصہ بھی نہایت آسان عنوان سے بیان کرے اور دوسرے جزء کا خلاصہ بھی نہایت آسان عنوان سے بیان کرے۔ اور پھر اس کے بعد کتاب پر منطبق کرے۔ اگر یہ طریقہ اختیار کیا جائے تو طالب علموں کو بہت سہولت اور آسانی ہوتی ہے۔
ہم نے اپنے بعض اساتذہ کو دیکھا کہ ان کو سبق پڑھانے کے لیے کتاب کی ضرورت نہیں ہوتی تھی ۔ میں نحو میر اور ہدایت النحو کی بات نہیں کر رہا۔ بلکہ بیضاوی شریف اور اسی طریقے سے توضیح تلویح اور اسی طریقے سے خیالی جیسی مشکل کتابیں استاد کتاب سامنے رکھے بغیر پڑھاتے تھے اور طالب علموں کو نماز میں وسوسے آسکتے ہیں ، دعا کے وقت وسوسے آسکتے ہیں ، لیکن ان کے سبق میں وسوسہ بالکل نہیں آتا تھا۔ ایسی وہ طالب علموں پر اپنی گرفت قائم کر لیتے تھے۔ تو اس کا نتیجہ یہ تھاکہ ان کے سبق کو خوب یاد کرتے تھے۔ اور ان کے سبق میں حاضری کا بڑا اہتمام ہوتا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ استاد کو اس بات کی بہت رعایت کرنی چاہیے کہ وہ طلبہ جو جماعت میں کمزور ہیں۔ ان کو پیش نظر رکھ کر سبق پڑھایا جائے۔
مختلف استعداد کے لڑکے ہوتے ہیں ، بعض وہ ہوتے ہیں جو مطالعہ میں خود ہی کتاب کو حل کرکے لاتے ہیں ۔ بعض وہ ہوتے ہیں جو استاد کی بات سن کر کتاب کو بہت آسانی سے سمجھ جاتے ہیں ۔ بعض بیچارے ایسے ہوتے ہیں کہ ان کو ایک مرتبہ بیان سے سبق سمجھ میں نہیں آتا۔ تو ان کے لیے عنوان بد ل کر آسان طریقے سے سمجھانے کی کوشش کی جائے۔ اس سے بے نیاز ہو کر کہ سمجھ میں آرہا ہے یا نہیں آرہا ہے ( ایسے ہی ) پڑھانا، یہ کام درست اور صحیح نہیں۔
طلبہ کو سبق میں سوال کی اجازت بھی ہونی چاہیے بعض لوگوں کو دیکھا کہ ان کے سبق میں اگر کسی طالب علم نے سوال کر لیا تو اس پر ناراض ہو جاتے ہیں۔ یہ طریقہ غلط ہے۔ یا الزامی جواب دے کر اس کو خاموش کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ یہ بھی غلط ہے ۔ بلکہ طالب علم کے سوال کا منشا سمجھنے کی کوشش کرنی چاہیے او راس کو حل کرنے کے لیے اور طالب علم کو مطمئن کرنے کے لیے اطمینان بخش جواب دینا چاہیے۔
اسی طریقے سے یہ بھی ضروری ہے کہ طالب علم او راستاد کے درمیان مرتبے کا فرق برقرار رہے۔ بعض استاد طلبہ سے اتنے بے تکلف اور فری ہو جاتے ہیں کہ استاد اور شاگرد کے مرتبے کی رعایت باقی نہیں رہتی، یہ بھی بالکل غلط ہے۔ بعض ایسے عبوساً قمطریر ابن کر رہتے ہیں کہ طالب علم کو استاد سے دریافت کرنے کی جرات اور ہمت نہیں ہوتی، یہ باتیں غلط ہیں۔آپ کو اس بات کا اہتمام کرنا چاہیے کہ فرق مراتب بھی برقرار رہے اور طلبہ کو اپنا سوال پیش کرنے میں کسی طرح کی الجھن اور تکلف نہ ہو۔
اس کے علاوہ عام طور پر ہمارے مدارس کے اندر جو طلبہ پڑھنے کے لیے آتے ہیں ان کی ذہن سازی اس نکتہٴ نظر سے بے حد ضروری ہے کہ وہ تعلیم حاصل کرنے کے بعد اپنے آپ کو دین کی خدمت کے لیے وقف کر دیں۔
یعنی میرے کہنے کا منشا یہ ہے کہ بہت سے لوگ تعلیم تو حاصل کر لیتے ہیں اور تعلیم حاصل کرنے کے بعد پھر تجارت کا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں یا صنعت کا پیشہ اختیار کر لیتے ہیں یا اسی طریقے سے کوئی اور ذمے داری اختیار کر لیتے ہیں اور دس پندرہ سال میں جو علم انہوں نے حاصل کیا ہے ، اس سے نہ وہ خود مستفید ہوتے ہیں اور نہ خلق خدا کو مستفید کرنے کے لیے کوئی منصوبہ بناتے ہیں۔ تو اس بنا پر یہ بات بے حد ضروری ہے۔
میں نے بہت سے مولویوں کو دیکھا انہوں نے پڑھا ہے، پڑھنے کے بعد عالم فاضل ہو گئے او رکئی میری نظر میں ایسے ہیں کہ جن کی استعداد بہت اعلیٰ اور بہت عمدہ اور بہت بہترین تھی لیکن یہ کہ وہاں سے آنے کے بعد انہوں نے پیشہ اختیار کیا تو تعلیم وتدریس کا پیشہ اختیار نہیں کیا۔ کسی نے کہیں گاڑی چلانا شروع کر دی، کسی نے فوج کے اندر نو کری شروع کر دی، کسی نے کارخانہ لگا لیا تو اس طرح کے کام (یعنی) کارخانہ لگانے والے یا فوج کی نوکری کرنے والے کچھ کم تھوڑیٴ ہیں، یہ لوگ لاکھوں کروڑوں میں سے سینکڑوں کی تعداد میں نہایت کم مقدار میں علم دین حاصل کرنے کے لیے آتے ہیں۔ یہ اگر علم دین کی اشاعت کے لیے اپنے آپ کو مختص نہ کریں تو یہ بہت بڑے افسوس کی بات ہے۔ میں تو یہ کہا کرتا ہوں کہ ان مولویوں نے علم حاصل کرنے کے بعد اپنی اولاد کو جو دوسرے شعبہ سے متعلق کر دیا اور علم دین کے لیے انہوں نے اپنی اولاد کاانتخاب نہیں کیا، وہ اپنے عمل سے یہ تاثر دینا چاہتے ہیں کہ ہم تو بد قسمت تھے۔ جو ہم نے علم دین حاصل کیا ہم اپنی اولاد کو بد قسمت نہیں بنائیں گے۔
تو کئی لوگ ایسے ہیں اپنی اولاد کو عالم نہیں بناتے ، خود عالم بنے، علم کو رواج دینے کے لیے انہوں نے اپنے آپ کومختص نہیں کیا اور اپنی اولاد کو بھی علم دین کے لیے مدارس میں داخل نہیں کیا۔ ایسے لوگ الله معاف فرمائے ہماری نظر میں دین کی بدنامی کا سبب بنتے ہیں… الله تبارک وتعالیٰ کے اس دین کی حفاظت کے لیے فراستِ نبوت کو نظر انداز کرکے دوسرے طریقوں کو خود اپنے لیے اختیار کرنا اور اپنی اولاد کے لیے اختیار کرنا یہ انتہائی ناشکری کی بات ہے۔
بہرحال آپ حضرات، حضرات ِ علمائے کرام کے بیانات سنتے رہے ہیں۔ میری دعا یہ ہے کہ الله تبارک وتعالیٰ آپ کو علم دین کی خدمت کے لیے قبول فرمائے۔ اور آپ کی تمام توانائیاں اور آپ کی تمام صلاحیتیں وہ علم دین اور علمِ شریعت کی اشاعت اور اس کو عام کرنے کے لیے قبول فرمائے۔ الله تبارک وتعالیٰ مجھے بھی اس کی توفیق عطا فرمائیں آپ کو بھی اس کی توفیق عطا فرمائیں۔ آمین

Flag Counter