Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1431ھ

ہ رسالہ

13 - 14
***
علماء کا معاشرے میں کردار
محترم یرید احمد
”مدرسہ کا کام یہ ہے کہ وہ ایسے باضمیر،باعقیدہ ،باایمان،باحوصلہ اورباہمت فضلاء پیداکرے، جو اس ضمیر فروشی ،اصول فروشی اور اخلاق فروشی کے دور میں روشنی کے مینا رکی طرح قائم رہیں کہ وہ کہیں نہیں جاتا، اپنی جگہ پر کھڑا رہتاہے،راستہ بتاتاہے ۔جیسے ”قبلہ نما“کہ آپ کہیں ہوں وہ آپ کو قبلہ بتادے گا۔ہندوستان میں بتائے گا، پاکستان میں بتائے گا، دوسرے ملک میں بتائے گا،پہاڑپر رکھیں تو بتائے گا،پل پر رکھیں تو بتائے گا۔یہ ”عالم“کا کام ہے کہ وہ ہر زمانے میں ہر جگہ ”قبلہ نما“بنارہے۔“
قارئین!درج بالا اقتباس مفکر اسلام ابوالحسن علی ندوی رحمہ اللہ کی ایک تقریر سے اخذ کیا گیاہے۔شومئی اعمال جب سے ذرائع ابلاغ واعلام پر باطل قوتوں اور یہودی دماغوں کا تسلط ہوا،تب سے سچ کو جھوٹ ،جھوٹ کو سچ کہنے ،مکروفریب کو دیانت وامانت کے پیرھن میں پیش کرنے اور نیک کو بد،بدکو نیک کے روپ میں ملفوف کرنے کا گورکھ دھندا روزافزوں ترقی پر ہے۔اس غلط پروپیگنڈے اور تزویری ڈھنڈورے کا ہی نتیجہ ہے کہ آج ”راہنمایان ملت وقوم“ کی کردار کشی اور ان کی خدمات جلیلہ ومفیدہ سے صرف نظر کرکے ان کے وجود مسعود پر انگشت نمائی کا سلسلہ جاری وساری ہے۔ امرواقعہ یہ ہے کہ ان حضرات کی نسبتی کڑیاں اور لڑیاں اس نبی آخرالزماں سے جاملتی ہیں جن کی آمد کی خبر پاکرظلمتوں کواجالوں کی کرن ملی۔جو اپنے بعد نورتوحید کی ضیا پاشی کے لیے ”نفوس قدسیہ“کی ایسی کھیپ وجماعت تیار کرگئے ،جن کے علم کی قندیلوں سے قندیلیں روشن ومنور ہوتی رہیں،جن کے دم سے جہالت کی شب تاریک کے افق پر معرفت کی صبح صادق طلوع ہوتی رہی۔ان کا وجود ہردورمیں ﴿انا نحن نزلنا الذکر وانا لہ لحافظون﴾کا مظہر رہا۔
قرآن مجید کے الفاظ کی تلاوت ،اس کے معنی کا فہم اور نفوس کا تزکیہ یہ وہ بنیادی اوصاف ہیں جنہیں ”کتاب حق“نے نبی خاتم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت مبارکہ کے بنیادی اور کلیدی مقاصد میں سے گردانا ہے۔آپ کی وساطت وتوسط سے یہ ذمہ داری خیر امت کے ”راسخون فی العلم“کے سپرد کی گئی۔اس چشمہ صافی سے نکلنے والی تشنہ سیرنہروں نے اپنے آب شیریں سے چاردانگ عالم کو سیراب کیا۔پیاسوں کو تشنگی کاسامان،بھٹکے ہوؤں کو منزلوں کاپتااور ضلالت کی تاریکیوں میں شب بسرکرنے والوں کو نورہدایت کی نوید ملی۔”کام “کی اسی ہم آہنگی ویک آہنگی کی وجہ سے”مدینة العلم “صلی اللہ علیہ وسلم نے شہر علم وآگہی کے” خوشہ چینوں“کو اپنا نائب ووارث قراردے کر امت کے بقیہ طبقات پر ان کی فوقیت وفضیلت کی مہر استناد نقش فرمادی۔
تاریخ سے معمولی شد بد رکھنے والے فرد پر یہ امر مخفی نہیں ہے کہ خلافت بنو امیہ وبنو عباس کے عہد حکمرانی میں ہونے والی اسلامی فتوحات کا سبب جہاں محمدبن قاسم ،عقبہ بن نافع ،موسی بن نصیر اور طارق بن زیادجیسے جرات،بہادری اور غیرت ایمانی کا استعارہ بن جانے والے جرنیل بنے،وہاں ان مفتوحہ ملکوں اور علاقوں میں اسلام کو مکمل نظام حیات کے طور پر منوانے کا سہرا ان مجتہدین اور علمائے ربانیین کے سر جاتاہے ،جن کی نتیجہ خیز کوششوں اور کاوشوں نے دین اسلام کی ابدی ودائمی صداقت پر مہرتصدیق ثبت کی۔ابوحنیفہ ،احمدبن حنبل ،مجدد الف ثانی اور شیخ الہنداسی چمنستان معرفت وآگہی کے وہ گل سرسبد تھے،جنہوں نے اپنے اپنے معاشروں اورادوار میں پائے جانے والے عقائد ورسوم کے مابین حق وباطل ،صدق وکذب اور کھرے وکھوٹے کا فرق وامتیاز لیل ونہار کے تضاد کی طرح دنیاکے سامنے آشکاراکیا۔
آپ صرف برصغیر کے ماضی پر طائرانہ نظر ڈالیں تو اس بت کدہ سرزمین پر اسلام کا پھریرا بلند کرنے والے محمد بن قاسم سے لے کر شاہ ولی اللہ محدث دہلوی تک اور مولانامحمدقاسم نانوتوی سے لے کر مفتی اعظم پاکستان مفتی محمد شفیع تک، علماء وصلحاء،مفسرین ومحدثین ،مجاہدین و مبلغین اور فقہاء ومفتیین کی صورت میں ناموں اور کاموں کی ایک ایسی طویل فہرست نظرآئے گی جن کے ایمان وایقان،اخلاص وللہیت،حریت فکراوریقین محکم کی بدولت دنیا بھر میں سینکڑوں مسلمان آج بھی دین و مذہب سے جڑے ہوئے ہیں۔یہ اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل مساجد ومدارس اور ارباب خانقاہ اپنے اوپر عائد ہونے والی پیغمبرانہ نیابت کی ذمہ داریوں کا نہ صرف کما حقہ ادراک رکھتے ہیں، بلکہ اپنی عملی،علمی اور فکری صلاحیتوں کو بروئے کار لاکر چراغ سے چراغ جلانے کا عمل پو ری آب وتاب سے برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
اس میں دو رائے نہیں ہوسکتیں کہ ”دین قیم“کو تاصبح قیامت اس دھرتی پر قائم ودائم رہناہے۔اس کی نشرواشاعت،حفاظت وصیانت اور موثر دعوت کے لیے ایسے رجال کار کا ہونا ناگزیر وضروری ہے جو معاشرے اور سماج کو شر کے اوہام باطلہ و خیالات فاسدہ کی گلن اور سڑن سے بچاکرخیر کے افکارونظریات صحیحہ کی خوش بواورمٹھاس سے روشناس کراسکیں۔جو باطل کی ملمع سازی کو لباس حق کی شمشیرفاصل سے چاک کرسکیں ۔جن کے کردار میں میانہ روی ،راست بازی اور صداقت شعاری کی شمع فروزاں ہو۔امت کی چودہ سو سالہ نوشتہ تاریخ اس پر شاہد ہے کہ علوم وحی کے ان وارثوں اور جانشینوں نے زمان ومکان اور حالات کی ادلتی بدلتی اورالٹتی پلٹتی ہواؤں کے دوش بہ دوش چلنے کی بجائے ”قبلہ نما“بن کرملت کی گاڑی کو شاہ راہ ہدایت کی جانب گام زن کرنے کافریضہ مکمل استقامت وعزیمت ،تندہی وجان فشانی اور ہمت وشجاعت کے ساتھ سرانجام دیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ جناب نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے قرب قیامت کی جو علامات واخبارات بیان فرمائی ہیں ان میں سے ایک واضح نشانی علم کا اٹھ جانا اور گمراہی کا عام ہوجانا بھی ہے۔
عزیزان من!تھوڑی دیر کے لیے اپنی چشم بیناسے موجودہ زمانے پر نظر عمیق ڈالیے۔دیکھیے،سوچیے اور سمجھیے․․․․․کیا یہ وہی زمانہ اوردورنہیں ؟جس کے بارے میں مخبرصادق صلی اللہ علیہ وسلم نے آ ج سے چودہ صدیاں بیشترخبردی تھی کہ:”بے شک اللہ تعالی علم کو اپنے قبضہ میں ایسے نہیں لیں گے کہ اسے لوگوں کے سینوں سے نکال لیں ،بلکہ علماء کی موت کی صورت میں علم اٹھایا جائے گا۔یہاں تک کہ کوئی ایک عالم باقی نہیں بچے گا۔پھر لوگ ایسے ”سروں “ کو اپنا پیشوا اور مقتدا بنالیں گے جو نرے جاہل ہوں گے،جن سے سوال کیاجائے گا(دین کے بارے میں)تو عدم علم کی بنیاد پر فتوی دیں گے۔پس وہ خود بھی گمراہ ہوں گے اور لوگوں کو بھی گمراہ کریں گے۔“

Flag Counter