Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1431ھ

ہ رسالہ

11 - 14
***
حضرت عبدالله بن مسعود
قاضی سراج نعمانی، نوشہرہ
تقربیاً بیس سال کی عمر تھی کہ ابن مسعود  مسلمان ہوئے۔ ان سے پہلے صرف پانچ افراد مسلمان ہوئے تھے۔حضرت عبدالله اپنے اسلام لانے کا واقعہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
میں عقبہ بن ابی معیط کی بکریاں چرایا کرتا تھا۔ ایک روز حضور صلی الله علیہ وسلم میرے ریوڑ کے قریب سے گزرے، ان کے ہمراہ حضرت ابوبکر بھی تھے،آپ صلی الله علیہ وسلم نے مجھ سے دریافت فرمایا۔ کیا تمہارے پاس دودھ ہے ؟ میں نے کہا، میں امین ( امانت دار اور چوکیدار) ہوں۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا۔ بغیر دودھ والی کوئی بکری ہو تو وہ لاؤ۔ میں نے ایک بغیر دودھ والی بکری پیش کی۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے اس کے تھنوں پر اپنا دستِ مبارک رکھا اور دودھ دوہا۔ پھر پہلے ابوبکر کو اور پھر مجھے دودھ پلایا۔ جس سے ہم دونوں سیراب ہو گئے، اس کے بعد تھن کو مخاطب ہو کر فرمایا۔ اقلص رک جا۔ یہ فرماتے ہی بکری پھر سے بے دودھ کی ہو کر رہ گئی۔ یہ معجزہ دیکھ کر میں مسلمان ہو گیا اور آپ صلی الله علیہ وسلم سے عرض کی علمنی یا رسول الله اے الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم مجھے تعلیم دیجیے۔ حضور صلی الله علیہ وسلم نے اپنا دستِ شفقت میرے سر پر پھیرا اور فرمایا: ”بارک الله فیک فانک معلَّم“ الله تعالیٰ تجھے برکت دے، تجھے الله تعالیٰ نے تعلیم دی ہے۔ (ملخص از سیرت المصطفیٰ ج1 ص:159)
چناں چہ مسلمان ہوتے ہی انہیں قرآن مجید کا معلم مقرر کر دیا گیا۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی خانہ کعبہ میں کفار قریش کو سورة الرحمن سنائی، جس کے جواب میں کفار کی طرف سے سخت اذیت دی گئی ۔ انہوں نے حضور صلی الله علیہ وسلم سے بلاواسطہ قرآن مجید کی ستر سورتیں حفظ کی تھیں، حضور صلی الله علیہ وسلم ان سے قرآن مجید پڑھوا کر سنا کرتے تھے۔ حیات اقدس کے آخری سال میں جب حضرت جبرئیل علیہ السلام نے رمضان المبارک میں حضور صلی الله علیہ وسلم کو دو مرتبہ قرآن مجید سنایا تو حضرت ابن مسعود بھی اس وقت وہاں موجود تھے۔ اس طرح ناسخ، منسوخ اور تبدیلی وغیرہ سے مکمل آگاہ رہے۔ حضرت عبدالله بن مسعود کا دعویٰ تھا کہ قرآن مجید میں کوئی ایسی آیت نہیں جس کے بارے میں میں یہ نہ جانتا ہوں کہ یہ کس بات میں اتری ہے۔
حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا۔جس کو یہ بات پسند ہو کہ قرآن مجید اسی تازگی سے پڑھے جیسا کہ وہ نازل ہوا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ ابن ام عبد کی قرأت سے پڑھے۔ دوسرے موقع پر حضور صلی الله علیہ وسلم نے چار صحابہ کرام سے قرآن مجید سیکھنے کا حکم دیا۔(چار اماموں کی تقلید پر اعتراض کرنے والے اس نکتہ پر غور کریں ) ان میں پہلا نام حضرت ابن مسعود کا ہے حضور صلی الله علیہ وسلم نے یہ بھی فرمایا تمسکو بعہد ابن ام عبد حضرت ابن مسعود کی ہدایت وحکم کو مضبوطی سے پکڑو۔
حضرت حذیفہ فرماتے ہیں کہ ہم نبی کریم صلی الله علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا میں نہیں جانتا کہ میں تم لوگوں میں کب تک باقی ہوں ، تمہیں ان لوگوں کی پیروی کرنی ہو گی جو میرے بعد ہیں۔ یہ فرماکر حضرت ابوبکر اور حضرت عمر کی طرف اشارہ فرمایا۔ پھر فرمایا حضرت عمار کے طریقہ پر چلو اور جو کچھ عبدالله بن مسعود تمہارے سامنے بیان کریں اس کی تصدیق کرو ۔ ( ترمذی، حاکم)
حضور صلی الله علیہ وسلم نے ابتدا سے ہی انہیں اپنی خدمت کے لیے مخصوص کر لیا تھا، یہ حضور صلی الله علیہ وسلم کو باہر جاتے وقت نعلین مبارک پہناتے، عصا مبارک لے کر دائیں جانب آگے چلتے، وضو کے وقت، مسواک پیش کرتے، سفر وحضر میں حضور صلی الله علیہ وسلم کی خدمت کا پورا اہتمام کرتے۔ اسی وجہ سے صحابہ کرام میں ان کا لقب صاحب النعلین والسواک والسواد تھا۔ حضرت ابو موسیٰ اشعری جب یمن سے آئے تو حضرت عبدالله بن مسعود اور ان کی والدہ کی کثرت باریابی کو دیکھ کر انہیں او ران کی والدہ کو اہل بیت سمجھا۔ بہت کمزور بدن تھے، کسی موقعہ پر اسی وجہ سے صحابہ ہنس پڑے تو حضور صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا۔ قیامت کے دن عبدالله میزان میں احد پہاڑ سے بھی زیادہ بھاری ہوں گے۔ دوسری روایت میں ہے کہ عبدالله کا ایک پاؤں اُحد سے زیادہ بھاری ہو گا۔
حضرت عبدالرحمن بن یزید سے روایت ہے کہ ہم نے حضرت حذیفہ سے پوچھا۔ کہ ہمیں ایسا شخص بتائیے جو اپنے رہن سہن میں حضور صلی الله علیہ وسلم کے زیادہ مشابہ ہو، تاکہ ہم ان سے استفادہ کریں اور حضور صلی الله علیہ وسلم کی حدیثیں سنیں۔ انہوں نے فرمایا، ہدایت اور سیرت میں حضرت ابن مسعود حضور صلی الله علیہ وسلم سے زیادہ مشابہ ہیں، کیوں کہ وہ حضور صلی الله علیہ وسلم کے گھر آزادانہ آتے جاتے تھے او رحضور صلی الله علیہ وسلم کے صحابہ جانتے ہیں کہ ابن ام عبد ان لوگوں میں سے ہیں ۔ جو مرتبے کے لحاظ سے الله تعالیٰ کے زیادہ قریب ہیں ۔( ترمذی)
32ھ میں تقریباً ساٹھ سال کی عمر میں وفات پائی، حضرت عثمان رضی الله عنہ نے جنازہ پڑھایا اور جنت البقیع میں دفن کیے گئے۔ رضی الله عنہ

Flag Counter