Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی شعبان المعظم 1431ھ

ہ رسالہ

3 - 14
***
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام؟
مسجد میں داخل ہونے اور نکلنے کا مسنون طریقہ
سوال… مسجد میں جانے اور نکلنے کا مسنون طریقہ وضاحت سے بیان کرنے کی درخواست ہے، مسجد اور چپل اتارنے کی جگہ کے درمیان والی جگہ مسجد میں شمار ہو گی یا باہر۔ یعنی عرض یہ ہے کہ اگر مسجد اور چپل اتارنے کی جگہ کے درمیان کوئی جگہ ہو ، تو مسجد سے نکلنے کے دوران پہلے بایاں پاؤں کواس جگہپر رکھ کر اور پھر دایاں پاؤں نکال کر جوتے میں ڈال دیں، تو یہ طریقہ سنت کے مطابق ہے یا نہیں؟
جواب…مسجد میں داخل ہونے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ آدمی پہلے دایاں پاؤں مسجد میں داخل کرے اور یہ درود پڑھے: ”بسم الله والصلاة والسلام علی رسول الله“ پھر یہ دعا پڑھے:”رب اغفرلی ذنوبی وافتح لی ابواب رحمتک“ اور جب مسجد سے نکلے، تو پہلے بایاں پاؤں مسجد سے نکالے اور یہ درود پڑھے: ”بسم الله والصلاة والسلام علی رسول الله“ پھر یہ دعا پڑھے: ”اللھم إنی أسئلک من فضلک“․
نیز جوتا پہننے کا سنت طریقہ یہ ہے کہ پہلے دائیں پاؤں میں جوتا پہنے او رجب اتارے تو پہلے بایاں پاؤں چپل سے نکالے۔
لہٰذا دونوں سنتوں پر اس طرح عمل ہو سکتا ہے کہ جب مسجد میں داخل ہونے لگے، تو پہلے بایاں پاؤں جوتے سے نکال کر جوتے پر رکھے اور دایاں پاؤں جوتے سے نکال کر مسجد میں رکھے اور مذکورہ بالا درود ودعا پڑھے اور جب مسجد سے نکلے تو پہلے بایاں پاؤں مسجد سے نکال کر جوتے پر رکھے اور دایاں پاؤں مسجد سے نکال کر جوتے میں داخل کرے اور مذکورہ بالا درود ودعا پڑھے۔ اس طرح دونوں سنتوں پر عمل ہو جائے گا۔
جو جگہ نماز کے لیے مختص کر دی گئی ہے وہ شرعی مسجد کہلائے گی اور اس پر مسجد کے احکام جاری ہوں گے، لہٰذا سوال میں ذکر کردہ جگہ سے متعلق مسجد کے منتظمین سے معلوم کر لیا جائے ، اگر وہ مسجد میں میں داخل ہے تو دعا بھی ادھر ہی سے پڑھی جائے اور اگر داخل نہیں ہے ، تو مسجد سے نکلتے وقت پہلے بایاں پاؤں اس جگہ پر رکھ کر دعا بھی وہیں پڑھی جائے۔
زیارت قبور کا طریقہ
کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بابت کہ زیارت قبور کا شرعی طریقہ کیا ہے ؟ اسی طرح ہمارے علاقے میں لوگ مزار کے متعلق مندرجہ ذیل عقائد رکھتے ہیں:۔
بعض لوگ مزار پر جاکرپتھر اٹھاتے ہیں برکت کے لیے
بعض لوگ اس قبر پر پڑھاہوا نمک چکھتے ہیں او ربعد میں نمک کو بدن پر ملتے ہیں۔
بعض لوگوں کا عقیدہ ہے کہ فلاں مزار فلاں بیماری کے لیے مفید ہے، اوپر کے ذکر کردہ امور شرعاً جائز ہے یا نہیں؟ عوام کا اس قسم کا عقیدہ رکھنا کیسا ہے ؟ 
چوں کہ ان مسائل میں اکثر عام وخاص مبتلا ہیں لہٰذا جواب کو کثرت دلائل کے ساتھ مزین کرکے عند الله ماجور ہو۔
جواب… زیارت قبور کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ آدمی قبرستان میں داخل ہو کر سلام کہے ”السلام علیکم دار قوم مؤمنین وإنا إن شاء الله بکم لاحقون، ونسأل الله لناولکم العافیة“ اور اپنے دل میں موت کا، موت کے بعد آنی والی منازل کا اور قیامت میں دوبارہ زندہ ہو کر الله کی بارگاہ میں حاضر ہونے کا استحضار کرے اور پھر قبلہ کی طرف پشت کرکے قبر کی طرف رخ کرکے میت کے پیر کی جانب کھڑا ہو کر جس قدر میسر ہو تلاوت کرکے بالخصوص سورة بقرہ کا اول مفلحون تک آیة الکرسی، سورة بقرة کا آخر رکوع، سورة یسٰین، سورة ملک، سورة تکاثر اور سورة اخلاص بارہ یاگیارہ یا سات یا تین بار پڑھ کر اپنا رخ قبلہ کی طرف کرکے میت کے ایصال ثواب اور مغفرت کی دعا کرے۔
بہتر یہ ہے کہ ہر ہفتہ میں کم از کم ایک بار قبر ستان جائے اور زیادہ بہتر یہ ہے کہ وہ جمعہ کا دن ہو۔
واضح رہے کہ زیارت قبور کے وقت قبر پر چادر چڑھانا، چراغ جلانا، چڑھاوا چڑھانا، نوحہ وماتم کرنا، قبر کو چومنا، طواف کرنا، اس کو سجدہ کرنا،عرس کرنا، قوالی کرنا یہ سب امور خلاف شرع ہیں ، ایسے افعال ممنوعہ اور بدعات منکرہ سے مکمل احتراز واجب اور لازم ہے۔
2۔4 ۔ اصل شفاء دینے والے، رزق دینے والے اور حاجات پوری کرنے والے الله تعالیٰ ہیں ، لہٰذا ان پتھروں یا نمک یا مزارات سے یہ عقیدہ متعلق کرنا کہ ان کے ذریعہ ہماری مطلب برآری ہو گی ، ہمیں شفا ملے گی قطعا ناجائز اور حرام ہے ، اس طرح کے عقائد سے توبہ کرنا انتہائی ضروری اور لازم ہے۔ الله تعالیٰ ہمیں راہ راست پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے اور بدعات وخرافات سے بچائے۔ آمین
امتحانات میں نقل کرنااور اس سے حاصل ہونے والی ملازمت کا حکم
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلہ کے بارے میں !
ایک آدمی میٹرک وغیرہ کا امتحان نقل کرکے پاس کرتا ہے جب کہ دوسرا آدمی امتحانات اپنی محنت سے پاس کرتا ہے ۔ لیکن نقل نہ کرنے کی وجہ سے اس آدمی کے نمبر کم آتے ہیں پہلے والے آدمی کے نمبرات زیادہ ہوتے ہیں ، اب کوئی سرکاری ملازمت آتی ہے تو وہ ملازمت نقل والا لے لیتا ہے ، اب سوال یہ ہے کہ کیا نقل کرنا جائز ہے ؟ اور اس دوسرے آدمی کو اس ملازمت میں جو تنخواہ ملتی ہے اس کا کیا حکم ہے؟ اور اس آدمی نے دوسرے آدمی کا حق چھینا ہے اس حق عبد کی ادائیگی کیسے ہو گی ؟ 
جواب… امتحانات میں نقل کرنا، ممتحن اور ادارے کے ساتھ خیانت اور دھوکہ دہی کی بنا پر جائز نہیں او راگر نقل کرنے والا شخص، نقل کے نیتجے میں ملنے والی ملازمت کا واقعةً اہل ہے تو اُس کے لیے اس ملازمت سے حاصل ہونے والی تنخواہ کا استعمال کرنا جائز ہے او راگر وہ شخص اس ملازمت کا اہل نہیں تو حاصل شدہ تنخواہ کا استعمال اس کے لیے جائز نہیں اور چوں کہ جس شخص کا حق چھینا گیا ہے اس کے معلوم نہ ہونے کی وجہ سے اس تک اس کا حق پہنچانا ممکن نہیں، لہٰذا نقل کرنے والے شخص کے ذمے لازم ہے کہ وہ اپنے اس فعل پر توبہ واستغفار کرنے کے ساتھ ساتھ، اس شخص کے لیے دعا بھی کرتا رہے جس کا حق چھینا گیا ہے۔
کون سے پرندے حلال ہیں کون سے حرام؟
سوال… کیا فرماتے ہیں مفتیان کرام اس مسئلے کے بارے میں؟حلال اور حرام کے درمیان فرق کس طرح معلوم کریں گے؟اگر اس قاعدہ قانون کو مدنظر رکھیں کہ حلال وحرام پرندوں او رحرام وحلال جانور کے درمیان فرق اس طرح سے ہے کہ جانوروں میں سے جو جانور اپنے شکار کو چیر پھاڑ کر کھاتے ہیں وہ حرام ہیں او رپرندوں میں سے وہ پرندے جو اپنے شکار کو پنجوں سے پکڑتے ہیں یعنی شکار کرتے ہیں تو وہ حرام ہیں ، سوائے کوّے کہ وہ صرف اور صرف مردار کو کھاتا ہے اور گدھا چوں کہ چیر پھاڑ کر نہیں کھاتا تو پھر کس طرح وہ حرام ہوا؟ اور اسی طرح (کچھوا) یہ بھی تو چیر پھاڑ کر نہیں کھاتا تو اس کو کیوں حرام کہا گیا ہے؟ اسی طرح پرندوں میں کوئل، مور وغیرہ یہ بھی تو پنجوں سے شکار نہیں کرتے ہیں اور ان کو حرام پرندوں میں شمار کیا جاتا ہے اس کی کیا وجہ ہے …؟
برائے کرام ان تمام مسئلوں کا تسلی بخش جواب دیں ، عین نوازش ہو گی۔
جواب… حلال اور حرام جانوروں میں سے بعض کا حکم حدیث میں صراحتاً بیان کر دیا گیا ہے کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام اور جن کے بارے میں صراحتاً حکم نہیں ، ان کے بارے میں حدیث میں ایک ضابطہ بیان کیا گیا ہے ”عن ابن عباس رضی الله عنہ قال : نھی رسول الله صلی الله علیہ وسلم عن کل ذي ناب من السباع وکل ذي مخلب من الطیر “․ (رواہ مسلم،147/2، ط: سعید) یعنی حضرت ابن عباس رضی الله عنہما کی روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے وحشی جانوروں میں سے کچلی دانت والے جانور اور پرندوں میں سے پنجوں سے شکار کرنے والے جانور کے گوشت استعمال کرنے سے منع فرمایا ہے۔
کوے کی کئی قسمیں ہیں غراب الزرع کھیتی کا ایک کوا ہے جو صرف دانہ کھاتا ہے وہ بالاتفاق حلال ہے، دوسرا وہ کوا جو صرف مردار اور نجاست کھاتا ہے وہ بالاتفاق حرام ہے ، تیسرا وہ کوا جو بستی میں آتا ہے یہ نجاست بھی کھاتا ہے اور دانہ روٹی بھی کھاتا ہے یہ مفتی بہ قول کے مطابق مرغی کی طرح حلال ہے۔
گدھا چیر پھاڑ کر اگرچہ نہیں کھاتا، لیکن اس کی حرمت حدیث میں صراحتاً وارد ہوئی ہے، کچھوا بھی اگرچہ چیر پھاڑ کر نہیں کھاتا، لیکن یہ چوں کہ خبائث میں داخل ہے اس وجہ سے اس کا کھانا حرام ہے۔
مور کا کھانا حلال ہے، کوئل نہ تو پنجوں سے شکار کرتی ہے اور نہ نجس چیزوں کو کھاتی ہے، لہٰذا اس کا کھانا بھی حلال ہو گا۔

Flag Counter