Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1430ھ

ہ رسالہ

8 - 18
***
مجددملت کے آثارِ علمیہ
مولاناسید سلیمان ندوی
حضرت حکیم الامت مولانا اشرف علی رحمة الله علیہ کے علمی ودینی فیوض وبرکات اس قدر مختلف الانواع ہیں کہ ان کا احاطہ ایک مختصر سے مضمون میں نہیں ہو سکتا اور یہی ان کی جامعیت ہے، جوان کے اوصاف ومحامد میں سب سے اول نظر آتی ہے۔ وہ قرآن پاک کے مترجم ہیں ، مجدد ہیں ، مفسر ہیں ، اس کے علوم وحکم کے شارح ہیں۔ اس کے شکوک وشبہات کے جواب دینے والے ہیں ۔وہ محدث ہیں ، احادیث کے اسرار ونکات کے ظاہر کرنے والے ہیں ۔ وہ فقیہ ہیں ۔ ہزاروں فقہی مسائل کے جواب لکھے ہیں ۔ نئے سوالوں کو حل کیا ہے۔ شریعت وطریقت پر ایک مدت احتیاطوں کے ساتھ فتوے دیے ہیں ۔ وہ خطیب تھے ، تصوف کے اسراروغوامض کو فاش کیا ہے، شریعت وطریقت کی ایک مدت کی جنگ کا خاتمہ کرکے دونوں کو ایک دوسرے سے ہم آغوش کیا ہے ، ان کی مجلسوں میں علم ومعرفت اور دین وحکمت کے موتی بکھیرے جاتے تھے اور یہ موتی جن گنجینوں میں محفوظ ہیں وہ ملفوظات ہیں جن کی تعداد بیسیوں تک پہنچتی ہے ۔ وہ ایک مرشد کامل تھے ۔ ہزاروں مسترشدین ومستندین ان کے سامنے اپنے احوال واردات پیش کرتے تھے اور وہ ان کے تسکین بخش جوابات دیتے تھے اور ہدایات بتاتے تھے ۔ جن کا مجموعہ تربیة السالک ہے۔ انہوں نے بزرگوں کے احوال وکمالات کو یکجا کیا او راس ذخیرہ سے سب کو آشنا کیا۔ ان کی متعدد کتابیں اس مضمون پر ہیں۔ انہوں نے حضرات چشت کے احوال واقوال میں سے بظاہر اعتراض کے قابل باتوں کی حقیقت ظاہر کی او ران کی تاویلات کیں۔ ان کی کتابوں کے خلاصے، اقتباسات اور تسہیلات ان سے الگ ہیں۔ جن کی ترتیب ان کے مسترشدین نے کی ہے ۔ وہ مصلح امت تھے۔ امت کے سینکڑوں معایب کی اصلاح کی۔ رسوم وبدعات کی تردید، اصلاح ورسوم اور انقلاب حال پر متعدد کتابیں تصنیف کیں، وہ حکیم الامت تھے، مسلمانوں کے علاج ونشاة احیا پر حیات المسلمین اور صیانت المسلمین وغیرہ رسائل تالیف فرمائے ۔ غرض ان کی زندگی میں مسلمانوں کی کم ہی کوئی مذہبی ضرورت ہو گی جس کی مدد اس حکیم الامت نے اپنی زبان اور قلم سے نہیں فرمائی۔ جس کی وسعت کا اندازہ تحقیق اور مطالعہ کے بعد ہی نظر میں آسکتا ہے۔
ان کی تصنیفات ہندوستان کے پورے طول وعرض میں پھیلیں اور ہزاروں مسلمانوں کی صلاح وفلاح کا باعث ہوئیں ، اردو اور عربی کے علاوہ مسلمانوں نے اپنے ذوق سے ان کی متعدد تصانیف کا ترجمہ غیر زبانوں میں بھی کیا ہے ۔ چناں چہ ان کی کتابوں کے ترجمے انگریزی ، بنگالی، گجراتی اور سندھی میں شائع ہوئے۔
ان کی تصانیف کی تعداد، جن میں چھوٹے بڑے رسائل ، ضخیم تصانیف سب داخل ہیں ، آٹھ سو کے قریب ہے۔1254ھ میں ان کے ایک خادم مولوی عبدالحق صاحب فتح پوری نے ان کی تصانیف کی ایک فہرست شائع کی تھی ، جو بڑی تقطیع کے پورے(86) صفحوں کو محیط ہے۔ اس کے بعد کے نو برسوں میں جو رسائل یا تصانیف ترتیب پائیں وہ انکے علاوہ ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ ہر صدی کا مجدد اپنی صدی کے کمالات کا اعلیٰ نمونہ ہوتا ہے۔ اگر یہ سچ ہے تو جو صدی مطبوعات ومنشورات کے کمالات سے مملوء ہے او رجس کا اہم کارنامہ خواہ حق کے اثبات اظہار میں ہو یا باطل کے نشر واشاعت میں پریس اور مطبع ہی کے برکات ہیں ۔ زبان وقلم اس صدی کے مبلغ اور وسائل ہیں او ررسائل منشورات کے صحیفے ہیں۔ اس بنا پر مناسب تھا کہ اس صدی کے مجدد کی کرامت بھی ان ہی کمالات میں جلوہ گر ہو۔
علمائے اسلام میں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں جن کی تصانیف کے اوراق اگر ان کی زندگی کے ایام پر بانٹ دیے جائیں تو اوراق کی تعداد زندگی کے ایام پر فوقیت لے جائے ، امام ابن جریرطبری ، حافظ خطیب بغدادی، امام فخرالدین رازی، حافظ ابن جوزی، حافظ جلال الدین سیوطی وغیرہ متعدد نام اس سلسلے میں لیے جاسکتے ہیں ۔ ہندوستان میں اس سلسلہ کا آخری نام حضرت مولانا تھانوی علیہ الرحمہ کا ہے۔
مولانا کی تصانیف کے انواع
مولانا کے رسائل اور تصانیف کی تعداد تو آٹھ سو کے قریب ہے، مگر ان میں چھوٹے چھوٹے رسالے بھی، جن کو نئی اصطلاح میں مضامین ومقالات کہتے ہیں ، داخل ہیں ۔ ان میں بعض اتنے مختصر ہیں کہ صرف صفحے دو صفحے ہیں، بعض ایسے ضخیم ہیں کہ کئی کئی جلدوں میں ہیں۔
زبان
بیشتر تصانیف نثر اور اردو زبان میں ہیں ۔ البتہ تیرہ چودہ رسائل وکتب عربی زبان میں ہیں ۔ جن کے نام یہ ہیں ۔ سبق الغایات فی نسق الآیات، انوار الوجود ، التجلی العظیم، حواشی تفسیر بیان القرآن، تصویر المقطعات، التلخیصات العشر، مأتہ دروس الخطب الماثور، وجوہ المثانی ، سبع سیارہ۔ زیادات، جامع الآثار، تائید الحقیقة، خطبات الاحکام۔ اور تین فارسی میں ہیں ، مثنوی زیر وبم، تعلقات فارسی، عقائد بانی کا لج۔
نظم ونثر
نظم میں مولانا کی تصنیف صرف یہی ایک مثنوی زیر وبم ہے اور یہ طالب علمی کے بعد ہی لکھی ہے ،بظاہر اس میں ایک بیوقوف عاشق اور چالاک معشوق کا قصہ ہے ۔ مگر درحقیقت یہ نفس انسانی کی بصیرت افروز کہانی ہے ، ایک اور نظم ” اور ادرحمانی“ کے اخر میں ہے ، ایک تجوید کا منظوم رسالہ ہے۔
مولانا کو فارسی کے بے شمار اشعاریاد تھے۔ حافظ اور مولانا رومی کے اشعار بیشتر نوک زبان تھے اور نظم کاملکہ اور سلیقہ بھی تھا، مگر کبھی اس سے کام نہیں لیا۔
تصانیف کا بیشتر حصہ اصلاحی اور فقہی ہے اور کم ترکتب درس کے متعلق۔ تاہم دو چار درسی کتابوں پر بھی رسائل ہیں ، مذہبی تصانیف میں علوم القرآن علوم الحدیث ، کلام وعقائد، فقہ وفتاویٰ وسلوک وتصوف اورمواعظ اکثر ہیں۔
قرآن پاک کی خدمت
اسلام میں علم کا سب سے پہلا سفینہ خود اسلام کا صحیفہ ہے، یعنی قرآن پاک۔ مولانا نے اس کی خدمت کی سعادت جس جس نوع سے حاصل فرمائی۔ وہ بجائے خود ان کی ایک علمی کرامت ہے ۔ کانپور کے زمانہ قیام میں مطبع انتظامی میں تشریف رکھتے تھے ۔ وہاں سب سے پہلے مفسر قرآن حضرت ابن عباس  کو خواب میں دیکھا ، جن کو آں حضرت صلی الله علیہ وسلم نے ”اللھم علمہ الکتاب“ کی دعا دی تھی ۔ اور بشارت سنائی تھی ۔ مولانا فرماتے تھے کہ اس خواب کے بعد سے میری مناسبت قرآنی بہت بڑھ گئی تھی اور رویا اسی کی طرف اشارہ تھا ۔ قرآن پاک کی یہ سعادت نہ صرف معنوی حیثیت سے حاصل فرمائی بلکہ لفظ ومعنی دونوں حیثیتوں سے۔ وہ حافظ تھے او بڑے جید حافظ، وہ قاری تھے اور فنون تجوید وقرأت کے بڑے ماہر ، اخیر زمانہ میں پانی پت کے قاری عبدالرحمن صاحب پانی پتی کی برکت سے قرأت سے ایک خاص مناسبت حاصل ہو گئی تھی۔ مولانا ایک دفعہ جب پانی پت گئے تو لوگوں نے ان کو بالقصد جہری نماز میں امام بنا دیا ، مولانا نے بے تکلف کسی تصنع کے بغیر قرأت فرمائی، مگر قاریوں نے تعریف کی کہ صحت مخارج کے ساتھ، تکلف کے بغیر، اس قدر مؤثر قرأت نہیں سنی۔ ایک اور مقام پر صبح کی نماز پڑھائی تو ایک صاحب نے کہا کہ موسیقی کے قاعدہ سے آپ کو قرأت میں بھر دیں کی کیفیت تھی جو صبح کی ایک سہانی راگنی کا نام ہے۔
مولانا کی قرأت کی خصوصیت یہ تھی کہ اس میں مخارج کی پوری صحت ہوتی تھی، لیکن لہجہ میں عام طور قاریوں کی طرح بناوٹ نہ تھی اور نہ تحسین آواز کے لیے بہ تکلف اتارچڑھاؤ ہوتا تھا۔ بلکہ فطری آواز بلاتکلف حسب موقع گھٹتی بڑھتی رہتی تھی اور تاثیر میں ڈوب کر نکلتی تھی۔ کہ ہر چہ ازدل خیز دبردل ریزد۔
تجوید وقرأت ومتعلقات قرآنی
علوم القرآن میں یہ پہلا فن ہے ، مولانا نے اس پر حسب ذیل کتابیں تصنیف فرمائیں۔
جمال القرآن: یہ فن تجوید کا رسالہ ہے، جس میں قرآن مجید کو ترتیل او رتجوید سے پڑھنے کے مسائل ہیں۔ مخارج اور صفات حروف، اظہار واخفاء، ابدال وادغام،تفخیم وترقیق، وقف ووصل کے مسائل درج فرمائے ہیں۔
تجوید القرآن: اس مختصر منظوم رسالہ میں بچوں کی یاد کے لیے تجوید کے عام مسائل لکھے ہیں۔
رفع الخلاف فی حکم الاوقاف: اوقاف قرآن کے بارے میں قاریوں میں جو اختلاف ہے اس رسالہ میں اس کی توجیہ وتطبیق کی صورت بیان کی گئی ہے ۔
وجوہ المثانی: اس میں قرآن شریف کی مشہور قراء توں کے اختلاف کو قرآن پاک کی سورتوں کی ترتیب سے سلیس عربی میں جمع فرمایا ہے او راخیر میں تجوید وقرأت کے کچھ قواعد تحریر فرمائے ہیں۔
تنشیط الطبع فی اجراء السبع: قرأت سبع او راس فن کے رواة کی تفصیل درج کی گئی ہے ۔
زیادات علی کتب الروایات: اس میں قرأت کی غیر مشہور روایتوں کی سندیں ہیں ۔ یہ ” وجوہ المثانی“ کے اخیر میں بطور ضمیمہ ہے۔
ذنابات لما فی الروایات: یہ اگلے رسالہ کا ضمیمہ ہے۔
یادگارحق القرآن: اس میں قرآن مجید کے آداب اور تجوید کے مسائل کا مختصر بیان ہے۔ یہ تجوید القرآن کا اختصار اور ضمیمہ ہے۔
متشابہات القرآن لتراویح رمضان: قرآن پاک کے حفاظ کو تراویح میں قرآن سنانے میں بعض مشہور مقامات پر جو متشابہات لگتے ہیں ۔ ان سے بچنے کے لیے اس میں چند قواعد کلیہ یعنی خاص کر بعض روایات کے ضبط فرما دیے گئے ہیں ۔
آداب القرآن: قرآن پاک کی تلاوت کے آداب اور تلاوت کرنے والوں کی کوتاہیوں کی اصلاح کے لیے ہدایات وتنبیہات ہیں۔
ترجمہ وتفسیر ودیگر قرآن: قرآن پاک کا سلیس وبامحاورہ ترجمہ جس میں زبان کی سلاست کے ساتھ بیان کی صحت کی احتیاط ایسی کی گئی ہے، جس سے بڑے بڑے تراجم خالی ہیں ۔ قرآن پاک کا سب سے صحیح اردو ترجمہ حضرت شاہ رفیع الدین دہلوی کا ترجمہ ہے ۔ لیکن وہ بہت ہی لفظی ہے ۔ اس لیے عام اردو خوانوں کے فہم سے باہر ہے ۔ مولانا تھانوی  کے اس ترجمہ میں دونوں خوبیاں یکجا ہیں۔ یعنی صحیح اور زبان فصیح ہے۔ اس ترجمہ میں ایک خاص بات اور ملحوظ رکھی گئی ہے کہ اس زمانہ میں کم فہمی یا ترجموں کی عدم احتیاط کی وجہ سے جو شکوک قرآن پاک کے لفظوں سے عدول نہ ہونے پائے اس لیے کہیں کہیں مزید تفہیم کی غرض سے قوسین میں ضروری تفسیری الفاظ بھی بڑھائے گئے ہیں۔ یہ مولانا کی عظیم الشان خدمت ہے۔
تفسیر بیان القرآن: یہ بارہ جلدوں میں قرآن پاک کی پوری تفسیر ہے۔ جسکو ڈھائی سال کی مدت میں مولانا نے تمام فرمایا ہے۔ اس تفسیر کی حسب ذیل خصوصیتیں ہیں۔ سلیس وبامحاورہ اورحتی الوسع تحت الالفاظ ترجمہ، نیچے”ف“ کے اشارہ فائدہ سے آیت کی تفسیر میں روایات صحیحہ اور اقوال سلف صالحین کا التزام کیا گیا ہے ۔ فقہی اور کلامی مسائل کی توضیح کی گئی ہے ۔ لغات اور نحوی ترکیبوں کی تحقیق فرمائی گئی ہے۔ شبہات اور شکوک کا ازالہ کیا گیا ہے ۔ صوفیانہ اور ذوقی معارف بھی درج کیے گئے ہیں ۔ تمام کتب تفسیر کو سامنے رکھ کر ان میں سے کسی قول کو دلائل سے ترجیح دی گئی ہے ۔ ذیل میں اہل علم کے لیے عربی لغات اور نحوی تراکیب کے مشکلات حل کیے گئے ہیں ۔ ماخذوں میں غالباً سب سے زیادہ علامہ آلوسی بغدادی کی تفسیر، روح المعانی پر اعتماد فرمایا گیا ہے ۔ یہ تفسیر اس لحاظ سے حقیقتاً مفید ہے کہ تیرھویں صدی کے وسط میں لکھی گئی ہے۔ اس لیے تمام قدماء کی تصانیف کا خلاصہ ہے ۔ اور مختلف ومنتشر تحقیقات اس میں یکجا مل جاتی ہیں۔
عام طور سے سمجھا جاتا ہے کہ اردو تفسیریں صرف اردو خوانوں کے لیے علماء لکھتے ہیں۔ یہی خیال مولانا کی تفسیر کے متعلق بھی علماء کو تھا۔ لیکن ایک دفعہ اتفاق سے مولانا کی یہ تفسیر مولانا انورشاہ کشمیری صاحب نے اٹھا کر دیکھی تو فرمایا کہ ” میں سمجھتا تھا کہ یہ تفسیر عوام کے لیے ہو گی، مگر یہ تو علماء کے دیکھنے کے قابل ہے ” قدیم کتب تفسیر میں راجح ترین قول مولانا کے پیش نظر رہا ہے۔ ساتھ ہی ربط آیات وسور کا ذوق مولانا کو ہمیشہ رہا ہے اور اس کا لحاظ اس تفسیر میں بھی کیا گیا ہے، مگر چوں کہ ربط آیات کے اصول سب کے سامنے یکساں نہیں اس لیے وجوہ ربط میں قیاس اور ذوق سے چارہ نہیں۔ اس لیے ہر مستند ذوق والے کے لیے اس میں اختلاف کی گنجائش ہے۔ اسی طرح مفسرین کے مختلف اقوال میں سے کسی قول کی ترجیح میں زمانہ کی خصوصیت اور ذوق وجدان کااختلاف بھی امر طبعی ہے۔ اس لیے اگر کلام سلف کے اصول متفقہ سے دور نہ ہو تو تنگی نہ کی جائے۔ 
اصلاح ترجمہ دھلویہ: چوں کہ مسلمانوں پر شفقت اور ان کی اصلاح کی فکر مولانا پر بہت غالب تھی اس لیے وہ ہمیشہ ان کو گمراہیوں سے بچانے میں بہ جان ودل ساعی رہتے تھے۔ اردو میں حضرت شاہ عبدالقادر صاحب اور حضرت شاہ رفیع الدین صاحب  کے ترجمے شائع ہوئے تھے، وہ بالکل کافی تھے۔ مگر نئے زمانہ میں پہلے سرسید نے بضمن تفسیر اور پھر شمس العلماء ڈپٹی نذیر احمد صاحب نے اپنے نئے اردو ترجمے شائع کیے۔ تو انہوں نے پہلی دفعہ کوشش کی کہ اپنے جدید عقائد کو پیش نظر رکھ کر ترجمے کریں۔اولین توجہ زبان کی طرف رکھیں اور اقوال سلف کی پروا نہ کریں ۔ اس طرز عمل نے علماء کو مضطرب کر دیا اور ان کو ضرورت محسوس ہوئی کہ اس کی اصلاح کی جائے ۔ مولانا نے اپنا ترجمہ اسی ضرورت سے مجبور ہو کر کیا۔ مگر اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ مولوی نذیر احمد صاحب مرحوم کے ترجمہ کو بغور پڑھا اور اس کے اغلاط نشان زد کرکے یہ رسالہ اس ترجمہ کی اصلاح پر لکھا۔ (جاری)

Flag Counter