Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1430ھ

ہ رسالہ

11 - 18
***
ایک طرز حکومت یہ بھی ہے
مفتی محمد زبیر حق نواز
حضرت عمر رضی الله عنہ نے ایک مرتبہ حضرت عامر بن ربیعہ کو ایک علاقہ کا گورنر بنا کر بھیجا، کچھ عرصہ گزرنے کے بعدان کے نظام او راحوال کی تحقیق کے لیے لوگوں سے معلومات کروائیں۔ عام طور پر ان کی تعریف کی گئی ، مگر ایک شخص نے حضرت عمر رضی الله عنہ سے ان کی تین شکایتیں کیں۔ ایک یہ کہ یہ فجر کی نماز کے بعد اپنے گھر چلے جاتے ہیں اور کچھ دیر کے بعد یہ دربار میں آتے ہیں، جب کہ پچھلا امیر صبح کی نماز کے بعد سیدھا دربار میں آجاتا اور لوگوں کے مسائل سننا شروع کر دیتا۔ دوسری شکایت یہ پیش کی کہ یہ ہر جمعہ کے دن فجر کی نماز کے بعد گھر چلے جاتے ہیں اور کافی دیر گھر میں گزارتے ہیں اور ان کئی گھنٹوں کے دوران اگر کوئی ان کا دروازہ بھی کھٹکھٹائے تو یہ دروازہ نہیں کھولتے اور نہ باہر آتے ہیں ۔ تیسری شکایت یہ کہ یہ ہر دس پندرہ دن کے بعد کسی بیماری یا کسی نامعلوم سبب کی بنا پر بے ہوش ہو جاتے ہیں ۔ ان پر غشی کے دورے پڑتے ہیں اور یہ بے ہوشی بعض اوقات کئی گھنٹوں، بلکہ نصف سے زائد دن تک رہتی ہے ۔ اس دوران میں ظاہر ہے کہ یہ کوئی مسئلہ وغیرہ حل کرنے یا سننے کی پوزیشن میں نہیں ہوتے۔ حضرت عمر نے انہیں طلب فرمایا اور لوگوں کے سامنے ان سے ان باتوں کی وضاحت طلب کی ۔ اس پر انہوں نے عرض کیا : امیر المؤمنین! کچھ معاملات ایسے ہوتے ہیں کہ لوگوں کے سامنے ان کا ذکرکرنا مناسب نہیں ، میں تنہائی میں آپ سے بات کر لوں گا ۔ حضرت عمر رضی الله عنہ نے انکار کیا او رحکم دیا کہ ابھی اسی مجلس میں لوگوں کے سامنے ان امور کی وضاحت پیش کرو۔ چناں چہ حضرت عامر گو یا ہوئے : امیر المؤمنین جہاں تک پہلی شکایت کا تعلق ہے کہ میں صبح کی نماز کے بعد گھر چلا جاتا ہوں اور پچھلے امیر کی طرح برا ہ ِراست دربار میں نہیں آتا، اس کی وجہ یہ ہے کہ میری اہلیہ ایک طویل عرصہ سے اتنی بیمار ہے کہ وہ بستر پر ہی ہوتی ہے ، وہ اٹھنے بیٹھنے کی طاقت نہیں رکھتی ۔ میرے گھر میں کھانے پکانے والا کوئی نہیں ہے ، میں صبح خود بکری کا دودھ دوہتا اوراپنے اور اپنی بیمار بیوی کے لیے کچھ مختصر کھانے کاانتظام کرتا ہوں اور اس سے فارغ ہو کر دربار میں حاضر ہوتا ہوں ۔ دوسری شکایت سے متعلق وضاحت یہ ہے کہ امیر المومنین! میرے پاس پہننے کے لیے کپڑوں کا صرف یہی ایک جوڑا ہے جو اس وقت میں نے پہنا ہوا ہے، میں جمعہ کے دن اسے اتار کر خود دھوتا ہوں اور پھر اس کے سوکھنے کا انتظار کرتاہوں، اس لیے جمعہ کے دن فجر کی نماز کے بعد کپڑوں کے سوکھنے تک گھر میں رہنا پڑتا ہے ، ظاہر ہے جب تک یہ کپڑے خشک نہ ہوں ، باہر آنا ممکن نہیں ۔جہاں تک تیسری شکایت کا تعلق ہے توامیر المومنین کچھ کچھ دن گزرنے کے بعد مجھے ایک واقعہ یاد آجاتا ہے، جس کی وجہ سے مجھ پہ یہ کیفیت طاری ہوتی ہے ۔ وہ واقعہ خبیب رضی الله عنہ کی شہادت کا ہے کہ میں اس وقت کافر تھا ، جب حضرت خبیب رضی الله عنہ کو زنجیروں سے جکڑ کر تختہ دار کی طرف لایا جارہا تھا ، کفار کا ایک بہت بڑا مجمع جمع تھا، جو شادیانے بجارہا تھا اور خوشی سے تالیاں پیٹ رہا تھا ، میں بھی ان کافروں میں شامل تھا، اسی حال میں حضرت خبیب رضی الله عنہ کو لایا گیا، جنہیں دیکھ کر کافروں نے خوشی کا اظہار کیا اور میں بھی اس وقت انہی میں شامل تھا۔ حضرت خبیب کو اسی حالت میں لاکر پھانسی دے دی گئی۔ مجھے جب بھی وہ دردناک قصہ یاد آتا ہے اور اپنا کافروں کے ساتھ مل کر خوش ہونا یاد آتا ہے میرے دل ودماغ کی کیفیت بدل جاتی ہے ، میرے ذہن پر اس کا ایسا شدید قسم کا اثر پڑتا ہے کہ پھر مجھے کچھ ہو جاتا ہے او رمجھے کوئی ہوش نہیں رہتا۔ حضرت عامر یہ وضاحت پیش کرچکے ، مجمع میں کئی لوگوں کی آنکھیں اشک بار تھیں۔ فاروق اعظم رضی الله عنہ اپنے تربیت یافتہ شاگرد کی وضاحتیں سن کر جذباتی ہو گئے ۔ الله کا شکر ادا کیا اور فرمایا جب تک عمر کو ایسے ساتھی میسر ہیں ان شاء الله عمر ناکام نہ ہو گا۔ یہ ایک گورنر کا حال ہے ، جس نے نبوی (صلی الله علیہ وسلم) تعلیمات سے سبق سیکھا تھا ، یہ اس نبی صلی الله علیہ وسلم کے سچے غلام تھے ، جن کے اپنے گھر میں فاقوں کی حکمرانی تھی، جن کے پیٹ پہ دو دو پتھر بندھے رہتے تھے ، اسلام کی تاریخ ان جیسے عالمی حکمرانوں سے بھری پڑی ہے ، جنہوں نے حکمرانی کو گلے کا طوق سمجھا۔ خود فاروق اعظم کو شہادت کے وقت جب اپنی اولاد میں کسی کوجانشین بنانے کا مشورہ دیا گیا تو فرمایا کہ ایک تومیں انہیں اس کااہل نہیں سمجھتا ، دوسرے یہ کہ میں اپنی اولاد کے گلے میں ہمیشہ کے لیے یہ طوق ڈال کر نہیں جانا چاہتا۔خلیفہ اول صدیق اکبر رضی الله عنہ خلیفہ بننے کے بعد حسب معمول کپڑوں کی گٹھڑی اٹھا کر بازار کی طرف چلے تو راستہ میں فاروق اعظم نے انہیں روک لیا کہ آپ اگر یہ کریں گے تو کاروبار سلطنت کون کرے گا؟ جس کے بعد فاروق اعظم کی تجویز پر خلافت راشدہ کی مجلس شوریٰ کا پہلا اجلاس بلایا گیا اور صدیق اکبر کے لیے بقدرِ ضرورت وظیفہ مقرر کیا گیا۔
صلاح الدین ایوبی سے آج کون واقف نہیں؟ جو اپنے عہد کی سب سے بڑی اسلامی حکومت کا فرماں روا رہا ،جس کی حکومت شام کی شمالی حدود سے افریقا کے صحرا تو بہ تک پھیلی ہوئی تھی ، جس نے اپنے زمانہ کی سب سے بڑی فوجی طاقت کو شکست دی ۔ ان کے ذاتی رفیق ابن شداد نے لکھا ہے کہ”وہ دنیا سے اس حال میں رخصت ہوئے کہ ان کی تجہیز وتکفین کا سارا سامان قرض لے کر حاصل کیا گیا، یہاں تک کہ قبر کے لیے گھاس کے پولے بھی قرض سے آئے ، کفن کاانتظام ان کے وزیرو کاتب قاضی فاضل نے کسی جائز وحلال ذریعہ سے کیا۔“ خداکی قسم! اسلام کی نشرواشاعت کسی شاہ وکج کلاہ کی مرہونِ منت نہیں ، وہ ان گدڑی نشینوں کا کارنامہ ہے۔ سچ یہ ہے کہ ہم آج بتوں کے سامنے سجدہ ریزنہیں، یہ صدقہ ہے نبی صلی الله علیہ وسلم کے ان سچے غلاموں کا ! یہ انہیں گڈریوں کی جہانبانی کااعجاز تھا کہ نصف کائنات مسلمانوں کے زیرنگیں ہو گئی۔ کیا ان جیسے واقعات میں ہمارے ان ارباب اقتدار کے لیے کوئی سبق ہے ، جن کے وجود عالیہ پروٹو کول کلچر کے خول میں پیک رہتے ہیں ، جنہیں اپنے شیش محلوں سے باہر جھانکنے کی فرصت نہیں، جو روزانہ اپنے سرکاری وفاتر میں ذمہ داریاں ادا کرنے نہیں بلکہ ” بزنس اورکاروبار“ کرنے جاتے ہیں، جن کے دفتری اوقات ذاتی منفعتوں کے حصول کی نت نئی راہیں تلاش کرنے میں گزرتے ہیں ، جن کی مشاورت اور تدبر وتفکر کی معراج ذاتی منفعتوں کے حصول کے لیے نئے رخ، نئے باب، نئے دروازے واکرنا ہے ، جن کے سامان تعیش، طرز رہائش، رہن سہن کے پر آسائش ماحول کو چھوڑیے، جن کی صرف لگژری گاڑیوں کودیکھ کر خود ان ممالک کا میڈیا ،جن سے امداد کے لیے ہم کشکول لیے پھر رہے ہیں، کا کہنا ہے کہ پارلیمنٹ کے اجلاسوں میں آنے والے ان لیڈروں کو دیکھ کر قطعاً کوئی یہ اندازہ نہیں کرسکتا کہ یہ کسی غریب قوم کے نمائندے ہیں۔ کیا غریب ترین قوم کے ان امیر ترین لیڈروں اور مملکت خداداد کے والیوں کے لیے خلافت راشدہ اور ان کے غلاموں کے مذکورہ طرز حکومت میں کوئی کشش کا سامان ہے؟ انہی کی خدمت میں دست بستہ عرض ہے کہ ذرا توجہ فرمائیے، ایک طرز حکومت یہ بھی ہے!

Flag Counter