Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1430ھ

ہ رسالہ

15 - 18
***
خیر خواہی
مولانا کمال الدین المسترشد
عن تمیم الداری أن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: الدین النصیحة ثلاثاً قلنا لمن؟ قال: لله ولکتابہ ولرسولہ ولائمة المسلمین وعامتھم․ ( رواہ مسلم، ص،54، ج1)
حضرت تمیم داری سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے تین بار فرمایا کہ خیر خواہی کرنا دین کا خلاصہ ہے۔ ہم نے عرض کیا کس کی ؟ فرمایا الله کی، اس کی کتاب کی ، اس کے رسول کی ، ائمہ مسلمین کی اور سب مسلمانوں کی۔ ( مسلم شریف ص54 ج1)
ابن ظریف لکھتے ہیں کہنصح قلب الانسان اس وقت بولتے ہیں جب دل میں کوئی کھوٹ باقی نہ رہے۔
اس بنا پر نصیحت لله کے معنی یہ ہیں کہ بندہ اپنے اور خدا کے مابین کوئی کھوٹ کا معاملہ نہ رکھے، یعنی کسی کو اس کا شریک نہ ٹھہرائے۔ اس کی صفات جلال وجمال کا پوریصفائی کے ساتھ اعتراف کرے اور اس کے اوامر ونواہی میں پوری مستعدی کااظہار کرے۔
کتاب الله کی نصیحت کے معنی یہ ہیں کہ پورے آداب کے ساتھ اس کی تلاوت کی جائے ۔ بہ دل وجان اس کیمعانی کی تصدیق کی جائے اس کے علوم کی نشرواشاعت کی جائے، اس کی پیروی کی تمام عالم کو دعوت دی جائے اور اس کے ہر ہر امر ونہی کے سامنے اعتراف وتسلیم کا سرخم کر دیا جائے۔
رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی نصیحت یہ ہے کہ آپ کی رسالت کی تصدیق کی جائے، جو دین وہ لے کر آئے ہیں اس کا ایک ایک حرف مانا جائے، ہر موقع پر اس کی نصرت کے لیے سربکف حاضر رہے اور آپ کے اہل بیت اور اصحاب کی محبت اور ان کا ادب پورے طور پر ملحوظ رہے۔
ائمہ مسلمین کی نصیحت یہ ہے کہ ہر حق معاملے میں ان کی اعانت کی جائے، ان کے ساتھ جہاد میں شرکت کی جائے او ربلاوجہ ان کی مخالفت سے گریز کیا جائے ۔
عام مسلمانوں کی نصیحت یہ ہے کہ دنیوی اور اخروی سب راہیں ان کو بتا دی جائیں ان کو ایذانہ دی جائے ان کے عیوب کی پردہ پوشی کی جائے اور خیر خواہی میں ان کو اپنے نفس کے برابر سمجھاجائے ۔ 
مطلب یہ ہے کہ بادشاہ سے لے کر رعایا تک فریضہ خیر خواہی میں سب شریک ہوں۔
اگر رعایا میں کوئی شخص اس میں غفلت اختیار کرتا ہے تو وہ قصور وار ہے او راگر حاکم وقت اس میں غفلت کرتا ہے تو وہ قصور وار ہے ۔ مگر افسوس کہ جس مذہب میں باہم خیر خواہی کرنااتنا اہم فرض ہے ، آج وہی قوم خیر خواہی سے اتنی خالی ہے کہ کوئی کسی کا خیر خواہ نظر نہیں آتا ہے ۔ اکثریت کے سینے کینہ، بغض اور حسد سے لبریز ہیں ۔ خود غرضی کی بیماری اور محبت دنیا کے ناسور نے آپس کی محبتیں نفرتوں میں بدل دی ہیں ۔
آج حکمرانوں کا حال یہ ہے کہ اگر ان کے دلوں میں کوئی خیر خواہی کا جذبہ ہے بھی تو وہ بھی صرف اپنی خوراک، پوشاک اور تعمیرات اور آلات تعیش تک محدود ہے، صدر اور وزیراعظم سے لے کر ایک ادنی سپاہی تک حکومت کا پورا ڈھانچہ بیمار ہے، جس کے علاج ومعالجہ کی نہ کسی کو فکر ہے اور نہ امید کی جاسکتی ہے کہ کوئی صحت مند حاکمیت قائم کی جاسکے گی ۔ تقریباً ہر لیڈر نے اپنے لیے مسلمانوں کے بدخواہ غیر مسلم معاشرے کے کسی فرد کو آقا بنا رکھا ہے ۔ جس کے اشارے کے بغیر اس کو چلنا گوارا نہیں، رعایا کا دینی اور دنیوی فائدہ کچھ بھی ہو، مگر وہ کرے گا وہی جس کا حکم اس کے آقا نے دیا ہو۔ یہ بیماری بالاستیعاب تمام حکمرانوں میں ہے، چاہے وہ کسی بھی رنگ ونسل او رملک والے ہوں، الا ما شاء الله وقلیل ماہم۔ جب کہ رعایا کا حال بھی ان سے کم نہیں، آج حسدوکینہ اوربغض نے ہمارے دلوں پر ایسا قبضہ جما رکھا ہے کہ اب ان کے تسلط سے دل کا آزاد ہونا اگر ناممکن نہیں تو مشکل ضرور ہے، کیوں کہ یہ بیماریاں اب مزاج انسانی کا حصہ بن چکی ہیں، حالاں کہ دل جب تک ان موذی او رمہلک امراض کی زد میں رہتا ہے تب تک قلب اپنا صحیح کردارادا کرنے سے قاصر رہتا ہے، پھر نہ کوئی پندونصیحت کار گر ثابت ہو سکتی ہے اور نہ کسی کی موت وتکلیف سے دل نرم ہوتا ہے، بلکہ حسد وکینہ کی بنا پر مسلمان بھائی کی مصیبت پر خوشی کا برملااظہار کیا جاتا ہے او ریہی وجہ ہے کہ آج کثرت مواعظ کے باوجود دل سیاہ سے سیاہ تر ہوتے چلے جارہے ہیں جس کی دلیل اعمال کی بدلتی ہوئی صورت حال ہے کہ ابتدا ء ًہر برے عمل کی کچھ نہ کچھ تاویل کرکے فساق لوگ اسے جائز کرنے کی کوشش کرتے ہیں او رجب وہ عام ہو جائے تو پھر اسے گناہ کہنا جرم شمار کیا جاتا ہے۔
آج احکام الہٰی اور سنت نبوی صلی الله علیہ وسلم اور حقوق المسلمین کی دلوں میں کتنی قدر او رکتنی خیر خواہی ہے یہ سوال اگر انہیں پامال کرنے والوں سے پوچھا جائے تو بلا جھجھک یہی جواب دیں گے کہ ہمارا دل صاف ہے۔ یا کوئی تاویل کرکے اپنے لیے راستہ نکال لیں گے، گویا ان کو اپنے دل کی بیماری کا علم تک نہیں، اس کا ازالہ تو درکنار۔
یہ امر طے شدہ ہے کہ جیسا بیج ہوتا ہے ویسا ہی پھل ہوتا ہے، اگر دل صاف ہے اور الله اور رسول الله صلی الله علیہ وسلم اور عامة المسلمین کی خیرخواہی دل میں ہے تو پھر اعمال کیوں سیاہ ہیں؟
مندرجہ ذیل ارشادات میں حضور اقدس صلی الله علیہ وسلم نے خیر خواہی کو ایمان اور اسلام کا جز قرار دیا ہے، لہٰذا جس میں خیر خواہی نہ ہو اس کا ایمان ناقص ہے، اسے چاہیے کہ اپنے ایمان کی تکمیل اس عنصر سے ضرور کرے۔
چناں چہ ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے:
”من لایھتم بأمر المسلمین فلیس منھم، ومن لم یمس ویصبح ناصحاً لله ولرسولہ ولکتابہ ولإمامہ ولعامة المسلمین فلیس منھم“ ․ ( اخرجہ الطبرانی)
”جو شخص مسلمانوں کے معاملات کی کوئی پروا نہیں کرتا، اس کا مسلمانوں سے کوئی تعلق نہیں اور جس شخص نے صبح سے شام یا شام سے صبح تک خدائے تعالیٰ، اس کے رسول صلی الله علیہ وسلم اور اس کی کتاب اور عام مسلمانوں کی خیرخواہی سے غفلت اختیار کی اس کا بھی مسلمانوں سے کوئی رشتہ نہیں ۔“ (طبرانی)
اور ارشاد ہے:”ما من عبد یسترعیہ الله رعیتہ ثم لم یحطھا بنصیحة إلا لم یدخل الجنة“․ (متفق علیہ)
”کوئی بندہ ایسا نہیں جس کے ذمہ الله تعالیٰ نے کسی قسم کی نگرانی سپرد کی ہو پھر وہ اس میں پوری پوری خیر خواہی کا لحاظ نہ رکھے، مگر یہ کہ الله تعالیٰ اس کو جنت میں داخل نہیں کرے گا۔“ ( صحیح مسلم وبخاری ص:1058 ج2)
عن أبی ھریرة رضی الله تعالیٰ عنہ عن النبی صلی الله علیہ وسلم قال: ”لا یؤمن أحدکم حتی یحب لأخیہ ما یحب لنفسہ․“ ( رواہ الخمسة إلا أبوداود، بخاری ص،6، ج1)
حضرت ابوہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا” تم میں کوئی شخص اس وقت تک پورا پورا مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اپنے مسلمان بھائی کے لیے وہی بات پسند نہ کرنے لگے جو اپنے نفس کے لیے پسند کرتا ہے ۔ “
عن أبی ھریرة رضی الله تعالیٰ عنہ قال: قال رسول الله صلی الله علیہ وسلم : من یأخذ عنی ھؤلاء الکلمات فیعمل بھن أو یعلم من یعمل بھن؟ قلت: أنا یا رسول الله، فأخذ بیدی فعد خمساً فقال: ”اتق المحارم تکن أعبد الناس، وارض بما قسم الله لک تکن أغنی الناس، وأحسن إلی جارک تکن مؤمنا، وأحب للناس ما تحب لنفسک تکن مسلماً، ولا تکثر الضحک، فإن کثرة الضحک تمیت القلب․“ ( رواہ احمد والترمذی وقال ھذا حدیث غریب ص56، ج2)
حضرت ابوھریرہ سے روایت ہے کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”کوئی ہے ایسا شخص جو ان باتوں پر خود عمل کرے یا کم از کم ان لوگوں ہی کو بتا دے جو ان پر عمل کریں ؟میں بولا، یا رسول الله! میں حاضر ہوں آپ صلی الله علیہ وسلم نے میرا ہاتھ پکڑا اور یہ پانچ باتیں شمار کرائیں۔
فرمایا۔ حرام باتوں سے دور رہنا بڑے عبادت گزار بندے شمار ہو گے ۔ الله تعالیٰ جو تمہاری تقدیر میں لکھ چکا ہے اس پر راضی رہنا بڑے بے نیاز بندوں میں ہو جاؤ گے۔ اپنے پڑوسی سے اچھا سلوک کرتے رہنا مومن بن جاؤ گے اور جو بات اپنے لیے چاہتے ہو وہی دوسروں کے لیے پسند کرنا کامل مسلمان بن جاؤ گے اور بہت قہقہے نہ لگانا، کیوں کہ یہ دل کو مردہ بنا دیتا ہے ۔“ (مسند احمد وترمذی ص،56، ج2)
اور حضرت یزید بن اسید کہتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ سلم نے مجھ سے پوچھا تم کو جنت پسند ہے؟ میں نے عرض کیا جی ہاں! فرمایا اچھا جو بات اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی اپنے مسلمان بھائی کے لیے پسند کیا کرو۔ (مسند احمد وتاریخ کبیر بخاری وسنن اربع)
او رحضرت علی  روایت کرتے ہیں کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا ”( اسلامی آئین میں) ایک مسلمان کے ذمہ دوسرے مسلمان کے چھ حقوق ہیں جب ملاقات ہو اس کو سلا م کرنا، جب بلائے اس کے یہاں چلے جانا، جب چھینکے اور الحمدلله کہے اس کے جواب پر یرحمک الله کہنا، جب بیمار پڑے تو اس کی عیادت کرنا، جب مر جائے تو اس کے جنازہ کے ساتھ ساتھ جانا او رجو بات اپنے لیے پسند کرتا ہے وہی اپنے بھائی کے لیے پسند کرنا۔ (ترمذی، دارمی، ترجمان السنہ ص195، ص202، ج2)
تواضع
انسان اگر خدا کی معرفت ورضایا مخلوق پر رحم وکرم کی خاطر اپنے اصل درجہ اور مرتبہ سے کم پر راضی ہو جائے یا خود کو پست کر دے اس فضیلت کا نام تواضع ہے اور تواضع سے ادنی اور نیچے ذلت ہے تاہم تواضع اور ذلت میں بڑا فرق ہے، ماہیت وحقیقت کے اعتبار سے بھی اور حکم کے اعتبار سے بھی، ذلت ایسی کیفیت کا نام ہے جس میں انسان اپنے حظ نفس کی خاطر اپنی رسوائی اور نفس کی اہانت پر آمادہ ہو جاتا ہے۔
جس طرح اول الذکر ایک فضیلت ہے اسی طرح ثانی الذکر بہت بڑا رذیلہ ہے ۔یہ بات ذہن میں رہنی چاہیے کہ تواضع میں صرف اپنے نفس کا برا جاننا کافی نہیں، کیوں کہ بعض اوقات آدمی اپنے نفس کو برا تو جانتا ہے مگر دوسروں کو اپنے آپ سے بھی زیادہ کمتر سمجھتا ہے اور نہ ہی دوسرے کو افضل جاننا تواضع ہے ۔ کیوں کہ بسا اوقات آدمی خود کو اس سے اولیٰ اور بہتر سمجھتا ہے۔
بلکہ تواضع یہ ہے کہ آدمی اپنا مرتبہ سمجھے اور غیر کا مرتبہ بھی جانے اور پھر اپنا مرتبہ غیر کے مرتبہ سے حقیر سمجھے۔
حضرت حسن رحمة الله علیہ نے فرمایا کہ تواضع یہ ہے کہ آدمی جب گھر سے نکلے تو جو مسلمان راستے میں ملے اس کو یہ سمجھے کہ مجھ سے افضل ہے ۔
شیخ الحدیث مولانا زکریا صاحب رحمة الله علیہ نے تواضع کی تعریف یوں کی ہے ۔
”تواضع کی حقیقت یہ ہے کہ اپنی پستی اور خواری اپنی نظر میں اس درجہ ہو کہ اپنی رفعت شان یا کسی منصب وجاہ کا وسوسہ تک بھی نہ ہو، سر سے پاتک اپنے آپ کو خوار وذلیل سمجھے اور جس کا یہ حال ہو گا وہ کبھی دعوی کسی چیز کا نہ کرے گا، نہ تواضع کا اور نہ کسی صفت محمود کا ،اس لیے کہ دعوی جب کبھی ہوتا ہے وہ اپنی رفعت کے مشاہدہ سے ہوتا ہے ۔
حقیقت میں تواضع وہ نہیں ہے کہ جب کوئی تواضع کا کام کرے تو اپنے آپ کو بلند وبالا سمجھے، بلکہ متواضع وہ ہے، کہ جب تواضع کرے تو اپنے آپ کو اس سے کمتر اور پست خیال کرے۔ عام لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ جو شخص عجز وانکساری او رتواضع کا کام کرے وہ متواضع ہے جیسے کوئی امیر آدمی اپنے ہاتھ سے کسی غریب کی خدمت کرے تو اس کو کہتے ہیں بیچارے بڑے منکسر مزاج ہیں ۔ حالاں کہ بعض مرتبہ اس شخص کے اندر تواضع شمہ برابر بھی نہیں ہوتی۔
اکمال الشیم ص95 میں لکھا ہے جس نے اپنے لیے تواضع کو ثابت کیا وہ بے شک متکبر ہے، کیوں کہ تواضع کا دعوی تو اپنی رفعت قدر کے مشاہدہ کے بعد ہو گا، پھر جب تواضع کا اپنے لیے دعوی کیا گیا تو گویا اپنے مرتبہ کی بلندی کا مشاہدہ کیاتو متکبر ہوا۔
لہٰدا متواضع درحقیقت وہ نہیں ہے کہ جب وہ کوئی تواضع کا کام کرے تو اپنے آپ کویہ سمجھے کہ میں اس کام سے بلند وبالاتر ہوں، مثلاً کرسی چھوڑ کر فرش پر بیٹھ گیا تو فرش پر بیٹھنے کو اپنی قدرومنزلت سے پست سمجھے اور اپنے مرتبہ کو بلند جانے اور یہ خیال کرے کہ میں لائق تو اسی کا تھا کہ کرسی پر بیٹھوں لیکن میں نے تواضع اختیار کی ہے اور بہت اچھا کام کیا تو یہ شخص متکبر ہے کہ اس کے دل میں اپنی قدر ومنزلت ہے بلکہ متواضع وہ ہے کہ وہ تواضع کا کام کرکے اس کام سے اپنے آپ کو پست اور ذلیل جانے مثلاً فرش پر بیٹھے اور یہ جانے کہ میں تو ایسا خوار ہوں کہ اس فرش پر بیٹھنے کی بھی لیاقت نہیں رکھتا، خالی زمیں پر بیٹھنے کے لائق ہوں۔ یا کسی غریب کی خدمت کی اور قلب کی یہ کیفیت ہو کہ اس غریب کی خدمت قبول کر لینے کو اپنا فخر سمجھے اور اپنے آپ کو اس کا اہل نہ جانے۔“ (انتھی شریعت وطریقت کا تلازم ص223)
تاہم بتکلف تواضع کرنا اگر اس نیت سے ہو کہ تواضع کی عادت پڑ جائے اور تواضع مزاج کا حصہ بنے اور طبیعت منکسر ہو جائے تو ایسا کرنا اگرچہ تواضع نہیں، مگر اچھا ہے او راگر یہ نیت نہ ہو تو ریا، ذلت یا تکبر ہے جس سے اجتناب ضروری ہے۔
تواضع کی فضیلت
آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
”وما تواضع أحد لله إلا رفعہ الله․“ ( مسلم ص321، ج2)
”اور تواضع نہیں کی کسی نے الله ( کی رضا) کے لیے، مگر اونچا کیا اس کو الله نے۔“ (ترمذی ص23 ج2 ومسلم ص321 ج2)
اور ارشاد نبوی صلی الله علیہ وسلم ہے کہ جس کے قلب میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر ہو گا وہ جنت میں نہ جائے گا۔( مسلم وابن ماجہ ص7) جو لوگ باوجود صاحب عزت اور مال ہونے کے تواضع کرتے ہیں اور عاجزی وانکساری کے ساتھ لوگوں سے ملتے ہیں ان کو مبارک ہو کہ ان کے بڑے درجے ہیں ان کی دنیا میں بھی عزت بڑھتی ہے اور آخرت میں بھی۔
تواضع انبیاء علیہم السلام کے اخلاق میں سے ہے اور کامیابی کا اصل اصول بھی یہی ہے۔ آپ صلی الله علیہ وسلم باوجود سید المرسلین وافضل المخلوقات ہونے کے کتنے متواضع تھے اس کا اندازہ حضرت انس کی اس روایت سے ہوتا ہے کہ مدینہ کی کوئی لونڈی آتی اور محمد صلی الله علیہ وسلم کا دست مبارک پکڑ کر جہاں چاہتی لے جاتی ۔ (بخاری)
اور حضرت اسود بن یزید سے روایت ہے کہ میں نے حضرت عائشہ سے پوچھا کہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم گھر میں کیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا گھر والوں کی خدمت میں لگے رہتے تھے او رجب نماز کا وقت آتا تو تشریف لے جاتے تھے۔ (بخاری)
اور حضرت تمیم بن اسید سے روایت ہے کہ میں نبی صلی الله علیہ وسلم کی خدمت میں پہنچا، آپ صلی الله علیہ وسلم خطبہ دے رہے تھے؟ میں نے عرض کیا یا رسول الله! میں ایک مسافر آدمی ہوں دین کے متعلق کچھ سوال کرنے آیا ہوں اور میں دین کے متعلق کچھ نہیں جانتا۔ پس آپ صلی الله علیہ وسلم نے خطبہ چھوڑ دیا اور میرے پاس تشریف لے آئے، آپ کے لیے ایک کرسی لائی گئی آپ اس پر تشریف فرما ہوئے اور مجھے وہی سکھلانے لگے جو ان کو الله نے سکھلایا تھا، پھر خطبہ کی طرف متوجہ ہوئے اور اس کو پورا کیا۔ (مسلم)
آثار
حضرت عائشہ نے فرمایا کہ تم افضل عبادت سے غافل ہو، وہ تواضع ہے۔ اور یوسف بن اسباط رحمة الله علیہ کاقول ہے کہ بہت سے عمل سے تھورا”ورع“ کافی ہے اور بہت سی کوشش اور مجاہدہ سے تھوڑی سی فروتنی کافی ہے۔
اور حضرت کعب کا قول ہے کہ الله تعالیٰ بندے کو جو نعمت دنیا میں دیتا ہے اور وہ اس کا شکر گزار ہوتا ہے او رخدا کے واسطے اس نعمت سے فروتنی کرتا ہے تو الله اس کا نفع اس کو دنیا میں بھی عنایت فرماتا ہے اور آخرت میں اس کا رتبہ بلند کرتا ہے۔ عبدالله بن مروان سے کسی نے پوچھا کہ مردوں میں بہتر کون ہے؟ انہوں نے فرمایا کہ جو شخص باوجود قدرت کے تواضع کرے اور باوجودرغبت کے زہد کرے اور قابو پاکر انتقام نہ لے۔
اور ابن سماک ہارون الرشید کی خدمت میں حاضر ہو کر کہنے لگے کہ اس بزرگی اور شرف کے ساتھ آپ کا تواضع کرنا آپ کے خود شرف سے بہتر ہے۔ ہارون الرشید نے کہا کیا خوب آپ نے فرمایا! پھر انہوں نے کہا کہ اے امیر المؤمنین! اگر خدائے تعالیٰ کسی کوجمال او رشرافت ، حسب اور مال عنایت کرے اور وہ اپنے جمال میں عفیف رہے اور مال سے لوگوں کے ساتھ سلوک کر ے اور حسب میں تواضع کرے تو الله کے دفتر میں ولی الله کے نام سے لکھا جائے گا۔ ہارون الرشید نے کاغذ دوات وقلم منگا کر اپنے ہاتھ سے ان کا قول لکھ دیا۔
حضرت سلیمان بن داؤد علیہما السلام کا دستور تھا کہ جب صبح ہوتی تو رئیس تو انگروں اور شریفوں کو دیکھا کرتے، یہاں تک کہ ان سے فارغ ہو کر مساکین میں آتے اور ان کے پاس بیٹھ جاتے او رفرماتے کہ مسکین کا گزر مسکینوں ہی میں ہے ۔
حضرت مجاہدرحمة الله علیہ کا قول ہے کہ جب نوح علیہ السلام کی قوم کو غرق کیا گیا تو ہر پہاڑ آپس میں ایک دوسرے سے بڑا اونچا ہونے لگا اور جودی نے فروتنی کی ،الله تعالیٰ نے اس کو بلند مرتبہ دیا کہ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی اس پر ٹھہری۔
عروہ بن الورد فرماتے ہیں کہ تواضع حصول شرف کا ایک جال ہے اور آدمی کی سوائے تواضع کے سب نعمتوں پر حسد کیا جاتا ہے۔
یحییٰ بن خالد کا قول ہے کہ شریف جب عابد ہوتا ہے تو تواضع کرنے لگتا ہے اور احمق عابد ہوتا ہے تو اپنے آپ کو بزرگ سمجھنے لگتا ہے۔
حضرت ابوبکر صدیق فرماتے ہیں کہ ہم نے کرم کو تقوی میں پایا اور غنا کو یقین میں اور شرف کو تواضع میں ۔ ( احیاء العلوم)
ذلت سے بچنا ضروری ہے۔
الله کے نزدیک درجہٴ اوسط ہر چیز کا محبوب ہوتا ہے لہٰذا تواضع بھی ایک درجہ اوسط کانام ہے، یعنی تکبر او رذلت کے درمیان۔ پس جس طرح تکبر قبیح ہے اسی طرح ذلت بھی مذموم ہے، مثلاً ایک شخص اپنے آپ کو اپنے ہمسروں سے بڑا اور بہتر جانے تو وہ متکبر ہو گا او راگر ان سے خود کو چھوٹا او رکمتر سمجھے تو وہ متواضع ہے، اگرچہ درحقیقت وہ ان سے افضل ہو، کیوں کہ تواضع وضع سے مشق ہے جس کے معنی رکھنے کے ہیں ۔
لہٰذا متواضع وہ ہو ا جو اپنی قدر واجبی سے کسی قدر رکھ دینے والا ہو اوراگر وہ اپنی قدر بالکل ختم کر دے تو یہ ذلت کہلائے گی، مثلاً ایک عالم اگر کسی موچی کے واسطے اپنی جگہ چھوڑ دے اور پھر اٹھتے وقت اس کی جو تیاں سیدھی کرے اور دروازہ تک پہنچانے جائے او راس عمل کی کوئی وجہ معقول نہ ہو، مثلاً مہمان نوازی وغیرہ تو یہ کام ذلت ہے اور اسی طرح کسی مال دار اور غنی شخص کے لیے جھکنا اس کی ہر بات پر لبیک کہنا عالم اور علم کی شان کے خلاف ہونے کی بنا پر تواضع نہیں ،بلکہ ذلت او رحقارت ہے۔
چناں چہ حضرت یحییٰ بن معاذ رحمة الله علیہ فرماتے ہیں کہ جو شخص اپنے مال سے تجھ پر تکبر کرے اس پرتیرا تکبر کرنا ہی تواضع ہے۔
او ربشر حافی رحمة الله علیہ کہتے ہیں کہ دنیاداروں کے لیے یہی سلام ہے کہ ان کو سلام نہ کرو۔
”من تواضع لغنی لأجل غناہ ذھب ثلثا دینہ․“ ( الحدیث رواہ البیھقی فی الشعب)
جس نے کسی غنی کی بوجہ مال داری تواضع کی تو اس کا دو تہائی دین چلا گیا۔ ( بیہقی)
”ومن دخل علی غنی فتضعضع لہ ذھب ثلثا دینہ“ وقال فی کل منھما: إسناد ضعیف، ثم روی سندہ عن وھب بن منبہ، قال: وقرأت فی التوراہ فذکر نحوہ․ (الدرر المنتثرة، ص157)
وروی عن ابن عمر رضی الله عنہما عن رسول الله صلی الله علیہ وسلم أنہ قال: ”إذا رأیتم المتواضعین فتواضعوا لھم، وإذا رأیتم المتکبرین فتکبروا علیھم فان ذلک لھم صغار ومذلة ولکم بذلک صدقة․“ ( تنبیہ الغافلین ص69)
حضرت ابن عمر سے روایت ہے، رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب تم تواضع کرنے والوں کو دیکھو تو ان کے سامنے تواضع کر واور جب تکبر کرنے والوں کو دیکھو تو ان پر تکبر کرو کہ اس میں ان کی رسوائی اور ذلت او رتمہارے لیے صدقہ ہے۔
تاہم جہاں عاجزی کرنے والا کسی کی نگاہ میں ذلیل نہ بنے۔ یابدون تخصیص امیر کے سب کے سامنے برابر کی تواضع اختیار کرے ۔ یا تواضع مال کی وجہ سے نہ ہو، بلکہ کسی دینی شرف، مثلاً علم ، تقوی وغیرہ کی بنا پر ہو یا اپنے تکبر کو ختم کرنا مقصود ہو یا اس عمل سے اس شخص کے تکبر میں واقع ہونے کا خطرہ نہ ہو یا کسی اور مصلحت کی بنیاد پر ہو تو یہ صورتیں تواضع کی ہیں ۔ گویا تواضع اور ذلت امور اضافیہ اور نسبیہ میں سے ہیں ، ہر ایک کو قرینہمقام سے پہچانا جاسکتا ہے کہ کوئی ایسی حد دونوں کے لیے مقرر نہیں جس کے اندر دونوں کومحدود کیا جاسکے، لہٰذا یہ ممکن ہے کہ ایک کام بنسبت ایک شخص اور مقام کے ذلت ہو اور دوسرے شخص او رمقام کے اعتبار سے تواضع ہو۔
متواضع کی مثال بیج کی سی ہے کہ جب تک یہ عاجزی وفروتنی کو اختیار نہ کرے تو گل گلزار نہیں بن سکتا ہے۔
حضرت زیادنمیری رحمة الله علیہ کا قول ہے کہ جس زاہد میں تواضع نہ ہو وہ درخت بے پھل ہے۔
حکایت
یہ 1939ء کی بات ہے کہ حضرت امیر شریعت سید عطا ء الله شاہ بخاری رحمة الله علیہ لاہورمجلس احرار الاسلام کے دفتر میں تشریف لائے، جب وہ نیچے سے اوپر آنے لگے تو بھنگی اوپر سے گندگی لے کر نیچے آرہا تھا۔
سیڑھیوں کے درمیان دونوں میں مڈبھیڑ ہو گئی ، بھنگی سمٹ کر دیوار کے ساتھ لگ گیا کہ شاہ جی آسانی سے گزر سکیں ۔ جب الله کے ولی کی نظر بھنگی پر پڑی تو اس سے کہا ” یہ ٹوکری نیچے رکھ کر اوپر آجاؤ اور میری ایک بات سن جاؤ“ بھنگی ٹوکری نیچے رکھ کر اوپر چلا آیا اور شاہ جی سے کہا میرے لیے کیا حکم ہے ؟ شاہ جی نے فرمایا، یہ صابن لو اور منھ ہاتھ دھوکر میرے پاس آجاؤ ۔اس نے ایسے ہی کیا شاہ جی نے اسے اپنے پاس بٹھا لیا۔ کھانا منگوایا اور لقمہ توڑ کر سالن میں ڈبودیا اور اس کے منھ میں ڈال دیا اور پھر اس سے کہا میاں! ایک لقمہ تم توڑ کر سالن میں لگاؤ اور میرے منھ میں ڈال دو ۔وہ بھنگی بڑی حیرانگی سے شاہ جی طرف دیکھنے لگا۔
شاہ جی نے اس سے کہا ” بھائی! انسان ہونے کے ناطے آپ میں او رمجھ میں کیا فرق ہے ۔ گندگی اٹھانا تمہارا کام ہے، تم اس مکان کی گندگی صاف کر رہے ہو، جب کہ میں پوری قوم کی گندگی صاف کر رہا ہوں ۔“ اس نے لقمہ اٹھایا او رشاہ جی کے منھ میں ڈال دیا اور کہا ” شاہ جی! یہیں بیٹھے رہیں“ وہ گھر گیا اور بیوی بچوں کو ساتھ لے کر آیا اور کہنے لگا” یہی اسلام ہے تو پھر ہم سب کو مسلمان کر دو۔“ شاہ جی نے سب کو کلمہ پڑھایا اور مسلمان کیا ۔ جب یہ مرا تو اس کا جنازہ بھی دفتر سے اٹھایاگیا، اخلاق حقیقتاً اتنا بڑا ہتھیار ہے کہ جس کو چاہیں اپنا لیں۔ ( تحریک کشمیر سے تحریک ختم نبوت تک ،ص43)
حکمت
عقل کو حکم شرع کے ساتھ قید کرنے اور تابع شرع بنانے کا نام ہے حکمت اور قوت عاقلہ کے اعتدال سے بھی یہی معنی مراد ہے۔
کیوں کہ اگر عقل کو بالکل آوارہ اور بے لگام چھوڑا جائے تو اس کا نتیجہ گمراہی کے سوا کچھ نہیں نکلے گا۔
اس کا بیان یہ ہے کہ اسباب علم تین ہیں حو اس سلیمہ، عقل اور سچی خبر ۔یعنی رسول الله صلی الله علیہ وسلم کی خبر۔
ان میں سے اول الذکر دونوں سببوں کا دائرہ نہایت محدود ہے، مثلاً آنکھ کا کام صرف دیکھنا ہے، کان کا سننا ہے وغیرہ۔ ان میں سے اگر کوئی حس دوسری حس کا عمل سر انجام دینا چاہے تو اس کو اس مقصد میں ہر گز کامیابی نصیب نہ ہو گی اور یہ کوشش ناکامی کے علاوہ ایک عظیم غلطی بھی ہو گی ۔ عقل کا دائرہ حواس سے کچھ وسیع تر ہے کہ بہت ساری چیزیں جن کا ادارک ہم حواس کے ذریعے نہیں کرسکتے ہیں، عقل سے ان کو پہچانا جاسکتا ہے ۔
مثلا انسانی بدن میں روح کا وجود حواس کے ادراک سے بالاتر ہے، مگر عقل اس کا انکار نہیں کرسکتی ہے ۔
تاہم عقل کا دائرہ علم بھی محدود او رمتعین ہے پس اگر اس کو ان اشیاء کے ادراک کی اجازت مل جائے جواس کے دائرہ علم میں نہیں آتیں تو اس کو اس سمت پر کبھی بھی صحیح نتیجہ نہیں ملے گا، چناں چہ رسول الله صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔
”یأتی الشیطان أحدکم فیقول: من خلق کذا، من خلق کذا؟ حتی یقول: من خلق ربک؟ فاذا بلغہ فلیستعذ بالله ولینتہ“․ (متفق علیہ)
یعنی شیطان آدمی کو ایسی باتوں کی سوچ میں مبتلا کرنا چاہتا ہے جہاں تک عقل کی رسائی ممکن نہ ہو،تاکہ اس کو گمراہ کر دے لہٰذا اس سے کہتا ہے کہ اس کو کس نے پیدا کیا، اس کو کس نے پیدا کیا؟ جب انسان سب کا درست جواب دیتا ہے اور ان کو الله کی طر ف منسوب کرتا ہے تو پھر کہتا ہے الله کو کس نے پیدا کیا؟ اب چوں کہ یہ سوال محاط عقل نہیں لہٰذا عقل کو واپس ہونا چاہیے، اسی طرح انسان کو تقدیر میں بحث ومباحثہ سے روکا گیا کہ یہ سب امور امور شرع سے متعلق ہیں نہ کہ عقل سے اور یہی وجہ ہے کہ جن لوگوں نے شرعی مسائل کے لیے عقل کو معیار بنایا ہے وہ گمراہی سے اپنا دامن نہ بچاسکے۔
شرع کا احاطہ حواس اور عقل دونوں سے بالاتر ہے، منتہائے عقل سے شرع کی ابتدا ہے، جیساکہ منتہائے حس سے عقل کی ابتدا ہوتی ہے لہٰذا شرع کو عقل سے جانچنا اور عقل کادائرہ شرع میں مداخلت کرنا ایک عظیم غلطی ہے، اس کی تحقیق یہ ہے کہ الله تبارک وتعالیٰ نے انسان کے بدن میں دو قسم کی روحیں پیدا کی ہیں ایک روح حیوانی ،دوم روح انسانی۔
روح حیوانی کی مناسبت نفس سے ہے جب کہ روح انسانی کا تعلق عقل سے ہے اور یہ امر طے شدہ ہے کہ شے کا میلان اپنے مثل کی طرف ہوتا ہے ۔
لہٰذا حواس کا زیادہ تر میلان نفس کی طرف ہے، بعنوان دیگر حواس اور نفس میں باہمی امتزاج کی بنا پر گہرا تعلق پایا جاتا ہے، مگر چوں کہ دونوں کا دائرہ علم نہایت محدود اور دائرہ کار لا محدود ہے، اس لیے عقل حواس کو نفس کے تسلط سے بچانا چاہتی ہے، تاکہ عاقبت نااندیشی کی وجہ سے انجام بد سے بچا جاسکے۔
مگر چوں کہ حواس کا جھکاؤ زیادہ تر نفس کی طرف ہے، اس لیے عقل بجائے اس کے کہ حواس کو نفس کی حاکمیت سے آزادی دلائے اکثر خود نفس کے قبضے میں آجاتی ہے اسی طرح عقل اور نفس دونوں مل کو خواہشات کی تکمیل میں سرگرم عمل ہوجاتے ہیں، جس کے نتیجے میں میں تباہی سے بچنے کی امید ختم ہو جاتی ہے، اس لیے الله تعالیٰ نے شریعت نازل فرمائی، تا کہ عقل کو گمراہی سے بچا کر صحیح سمت پر ڈالاجائے اور جن باتوں میں توہمات نفسانی اس کو دھوکا دے سکتے ہیں ان کا سد باب کیا جائے ، لہٰذا عقل جب تک شرع کے تسلط میں رہ کر نفس کے دھوکے سے خود کو بچائے گی تو یہ اس کا کمال ہو گا اورصحیح رخ پر منزل مقصود کی طرف گامزن رہے گی ۔ (جاری)

Flag Counter