Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1430ھ

ہ رسالہ

17 - 18
***
صبر وثبات ۔۔ ایمانی کردار کا خاصہ
مولانا عتیق الرحمن سنبھلی
صبر کا مفہوم اور اس کی اہمیت
صبر کے معنی ثابت قدمی ، مضبوطی، برداشت اور مخالف وناخوشگوار حالات میں جمے رہنے کے ہیں ۔ اور یہ چیز آدمی کی قوت ارادی اور Will Power پر موقوف ہے۔ بلکہ کہیے کہ ول پاور ( قوت ارادی) سے کام لینے ہی کا نام صبر وثبات ہے ۔ اور اس طرح صبر وثبات کو آدمی کا اولین ہتھیار قرار دے کر الله تبارک وتعالیٰ نے انسانی زندگی میں قوت ارادی کی اہمیت پر مہر تصدیق ثبت فرمادی ہے۔ قرآن پاک کی رو سے اس کائنات میں سب سے بڑی کار فرماقوت ارادہ الہٰی ہے ۔ اور اس کے بعد او راس کے نیچے ارادے کی وہ قوت اور طاقت ہے جو الله تبارک وتعالیٰ نے انسان کو بخشی ہے۔ ایک طرف وہ حقیقی معجزے ہیں جو الله تبارک وتعالیٰ کے ارادے اور حکم سے پیغمبروں کے ہاتھوں پر رونما ہوتے رہے ہیں اور دوسری طرف یہ انسانی ارادوں ہی کے ” معجزے“ ہیں جو بعض انسانوں کے محیر العقول (Astonishing) کارناموں کی شکل میں سامنے آتے رہتے ہیں۔ ارادے ہی کی قوت سے دراصل آدمی آدمی ہے۔ ورنہ فقط ایک بُلبُلا ہے پانی کا۔
قرآن پاک میں صبر کا مادہ (Root) مختلف صرفی (Deritive) شکلوں میں غالبا ایک سو ایک مرتبہ استعمال ہوا ہے ۔ ان میں سے صرف 9 یا10 جگہیں ایسی ہیں جہاں اس کا مفہوم کچھ ایسا ہے جیسے مفہوم میں یہ لفظ ہماری زبان اور ہمارے محاورے میں استعمال ہوتا ہے ۔ یعنی کسی زیادتی کے مقابلے میں بالا رادہ یامجبوراً خاموش رہ جانا، اسے سہہ جانا، یا ہر مرض اور قدرتی آفات ومصائب پر جزع فزع نہ کرنا، الله کی مرضی پر راضی رہنا ، باقی تمام مقامات پر کسی نہ کسی شکل میں اس کا مفہوم وہی ہے ،مشکلات ، ناموافق حالات اور مخالف طاقتوں، نیز نفسانی کمزوریوں کے مقابلے میں مضبوطی اور پامردی سے کام لینا اور اس کے بارے میں ایک جگہ تو قرآن پاک میں ہمیں صاف لفظوں میں لکھ کر دے دیا ہے کہ یہ صبر ہی وہ عامل (Factor) ہے جوجنگ کے میدان میں ﴿باذن الله﴾ فتح کی راہ کھولتا ہے ﴿فإن یکن منکم عشرون صابرون یغلبوا مأتین﴾ (الانفال:65)
( پس اگر تم میں بیس صبر کی صفت والے ہوں تو وہ غالب ہوں الله کے حکم سے دو سو پر ) اور ایک جگہ تو اس لفظ کے استعمال کی ایسی بھی آئی ہے کہ وہاں اگر پامردی اور مضبوطی سے بھی آگے بڑھ کر دلیری اور جیوٹ کا لفظ استعمال نہ کریں تو موقع کا حق نہیں ادا ہوتا۔ دوزخ میں لے جانے والے کاموں پر دلیر لوگوں کا ذکر کرتے ہوئے بانداز تعجب فرمایا گیا ہے ۔﴿فما اصبرھم علی النار﴾(البقرہ:175)
(کیسے دلیر ہیں یہ لوگ آگ پر، کیسی جیوٹ ان لوگوں میں رکھی ہوئی ہے آگ کی برداشت پر) اپنے اندر کی ( یعنی نفسانی) کمزوریوں کے مقابلے میں ارادے کی مضبوطی سے کام لینے کے لیے لفظ صبر کا استعمال مثال کے طور پر سورة البقرة ہی کی اس آیت میں ہوا ہے جہاں بنی اسرائیل کو تلقین فرمائی جارہی ہے کہ نفسانی خواہشات کے دباؤسے نکل کر اسلام قبول کریں ۔ فرمایا گیا ہے : ﴿واستعینوا بالصبر والصلوٰة وانھا لکبیرة الا علی الخاشعین﴾․ (البقرة:45)
اور مدد لوصبر سے اور نماز سے۔ اور بے شک یہ بہت بھاری ہے مگر ان پر جو خوف (آخرت) رکھنے والے ہیں۔
یہ بات کہ یہاں صبر سے مراد نفسانی خواہشات کے مقابلے میں ارادے کی قوت اور مضبوطی سے کام لینا ہے ۔ سورہ مریم کی آیت کے ذریعہ گویا منصوص (Manifest) ہو جاتی ہے۔ فرمایا گیا ہے:﴿فخلف من بعدھم خلف اضاعوا الصلوة واتبعوا الشھوات﴾․ (مریم:59) 
پھر ان کے بعد وہ نسل آئی جس نے نماز کو ضائع کیا اور خواہشوں کی پیروی کی۔
اس کا ر راز حیات میں صبر کی صفت بڑی فیصلہ کن قوت ہے۔ اور اس میں کافر و مومن کی کوئی تفریق نہیں۔ البتہ مومن کو چوں کہ الله سے وہ رشتہ نصیب ہوتا ہے جو اس کے یہاں معتبر ہے، اس لیے جب انسان اپنی قوت صبر کے استعمال کے ساتھ الله کی طرف بھی مدد کے لیے دیکھتا اور طلب گار ہوتا ہے تو پھر مومن کے صبر کی طاقت اس ”بیرونی“ امداد کے شامل ہو جانے سے اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ:﴿کم من فئة قلیلة غلبت فئة کثیرة باذن الله﴾․
کتنی ہی چھوٹی جماعتیں ہوا کی ہیں جوغالب آگئیں بڑی جماعتوں پر ، الله کے حکم سے۔
کا منظر سامنے آتا ہے ۔ اور آگے یہی آیت بتا رہی ہے کہ ” الله کا یہ حکم“ صبر کے ساتھ مشروط ہے۔
﴿والله مع الصابرین﴾․ (البقرة:249) اور الله ساتھ میں ہے صبر وثبات والوں کے۔
یعنی اصل کھیل صبر ہی کا ہے ۔ بس ضرورت اس کی ہے کہ مومن اس طاقت سے کام لینے میں بھی اپنے آپ کو الله کی مدد کا محتاج سمجھے اور جب اس کے استعمال کی ضرورت کا موقع آئے تو قرآن ہی کے سکھائے ہوئے الفاظ میں الله سے یوں طلب گار ہو:﴿ربنا أفرغ علینا صبرا وثبت اقدامنا وانصرنا علی القوم الکافرین﴾․ (250)
اے ہمارے رب! انڈیل دے ہم پر صبر اور جما دے ہمارے پاؤں اور غلبہ نصیب کر ہمیں اہل کفر پر۔
اور اس طلب کی بہترین شکل نماز کے ذریعے الله کا در کھٹکھٹانا ہے۔ بس اس لیے ہدایت فرمائی گئی:﴿واستعینوا بالصبر والصلوة﴾ اور یقین دلا گیا کہ﴿ ان الله مع الصابرین﴾۔
آگے فرمایا گیا: ﴿ولا تقولوا لمن یقتل…﴾ ( اور راہ خدا میں کام آجانے والوں کو مردہ نہ کہو ۔ بلکہ وہ زندہ ہیں ۔ البتہ تمہیں اس حقیقت کا شعور نہیں ۔) اس سے پہلی آیت میں ثابت قدمی دکھانے کی بات تھی۔ لیکن جب یہ ثابت قدمی میدان جنگ میں ہو تو جان لیوا بھی ہو سکتی ہے ۔ پس اب بات اس مرحلے کی شروع ہوتی ہے کہ اگر الله کی راہ میں ثابت قدمی اور جواں مردی موت کی منزل سے گزار دے تو یہ موت ” موت “ کہلانے کی مستحق نہیں ہے ۔ ایسے لوگوں کومردہ اور میت(جمع اموات) مت کہو۔ کیوں کہ انہوں نے ظاہر کی موت کے اس پردے میں ایک بڑی شان دار زندگی پالی ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ یہ زندگی تمہارے ادراک (Perception) کے دائرے سے باہر کی چیز ہے ۔ تم اپنے کسی حاسے (Sense) سے اس کا پتہ پا نہیں سکتے۔
اس زندگی کی خصوصیت
اسلامی عقیدے کے رو سے ہر موت کے بعد ایک دوسری زندگی شروع ہو جاتی ہے ۔ جسے برزخی زندگی کہا جاتا ہے ، یہ موت سے قیامت تک کے در کی ایک کیفیت ہے ۔ لیکن وہ عام کیفیت ایسی نہیں ہوتی کہ اسے واقعی ”زندگی“ کہا جاسکے ۔ یہ شہدائے کرام کا اعزاز ہے کہ انہیں اس دور میں بھی زندگی کے بعض خاص آثار وعلامات والی ”زندگی“ نصیب ہوتی ہے ۔ چناں چہ قرآن پاک میں دوسری جگہ جہاں شہداء کی زندگی کا مضمون آتا ہے ۔ وہاں ﴿بل احیاء﴾ ( نہیں ، بلکہ وہ زندہ ہیں ) کے ساتھ﴿عند ربھم یرزقون﴾ (اپنے رب کے پاس رزق وروزی پاتے ہیں) کے الفاظ بھی آئے ہیں۔ جو ان کی برزخی زندگی کا دوسرے لوگوں کی زندگی سے فرق بتاتے ہیں اور یہ صرف رزق وروزی ہی نہیں اور بھی بہت کچھ وہ اس دور زندگی میں پار ہے ہیں۔ اسی موقع پر آگے فرمایا گیا ﴿فرحین بما آتاھم الله من فضلہ﴾ (شاداں وفرحاں ہیں ان نعمتوں پر کہ جو وہ الله کے فضل سے پارہے ہیں۔) ان قرآنی اشاروں کے علاوہ حدیث میں اچھی خاصی تفصیلات بھی ان نعمتوں اور اعزاز واکرام کی آتی ہیں۔ اور اس سب کی روشنی میں یہ کہنا بالکل حق اور بے مبالغہ نظر آتا ہے کہ راہ خدا کے یہ جاں نثار اپنے مالک کے حضور ایک اعلیٰ تر زندگی سے ہم کنار ہیں۔
بلکہ اس آسمانی معاملے کی صداقت کا تو ایسا عکس اس دنیا پر پڑا ہے کہ اسلام کے وہ نام لیوا بھی بے شمار ملیں گے جنہیں قرآن کی کوئی اور بات یاد ہو یانہ ہو ، یہ ضرور دل کی گہرائیوں سے یاد ہے کہ الله کی راہ میں جان دینے والے مردہ نہیں ہوتے۔
ایمانی زندگی اور آزمائشیں
معلوم ہوتا ہے یہ اوپر کی آیتیں تمہید تھیں، آگے آنے والی آیتوں کی، جن میں فرمایا گیا اور آگاہی دی گئی کہ ایمان ہے تو اس کے ساتھ آزمائشیں لگی رہیں گی۔ ( خاص طور سے اس کے ابتدائی دور میں) فرمایا گیا: ﴿ولنبلونکم بشیء من الخوف والجوع… ﴾اور ہم ضرور تمہیں آزمائیں گے کسی قدر بھوک پیاس ، خوف وخطر اور نقصان جان ومال سے ۔ پس ان میں جو ثابت قدم رہیں گے وہ اپنے انجام کے لیے بشارت اور خوش خبری کے حق دار ہیں ۔﴿ فبشر الصابرین﴾․
بشارت کس بات کی؟
وہ کیا چیز ہے جو ان نقصانات او رمصیبتوں پر صبر اور ثابت قدمی کے بدلے میں یہ لوگ پائیں گے : ﴿صلوات من ربھم ورحمة ﴾ (اپنے رب کی عنایتیں اور رحمت اس کے صلے میں ملے گی ﴿اولئک ھم المھتدون﴾ (اوران کا نام ہدایت پا جانے والوں میں درج ہو گا) اور یہی وہ چیز ہے جو قرآن وحدیث کی روشنی میں انسان کی سب سے بڑی سعادت اور کام یابی ہے۔مگر ابھی بات مکمل نہیں ہوئی ہے ۔ صبر واستقامت اور ثابت قدمی جس پر الله کی رحمت وعنایت کا یہ صلہ مرتب ہو گا وہ جب ہو گا جب اس کی روح یہ ہو کہ:﴿ اذا اصابتھم مصیبة قالوا انا لله وانا الیہ راجعون﴾․
جب بھی ان پر ان آزمائشی مصیبتوں میں سے کوئی مصیبت پڑتی ہے تو ان کے دل وزبان سے نکلتا ہے کہ ہم تو الله ہی کے ہیں اور ہمیں اسی کی طرف لوٹ جانا بھی ہے۔
یعنی صرف صبر واستقامت کا خول نہ ہو اس کے اندر للہیت اور بندگی کی روح ہونی چاہیے، ورنہ کتنا بھی مضبوط خول ہو۔ کیسی ہی بہادری اور جواں مردی آدمی دکھائے ۔اس کے حصے میں ہدایت یابی کی کیفیت نہیں آئے گی اور الله کی نظر عنایت ورحمت اس کا نصیب نہیں ۔ ایک غزوہ نبوی صلی الله علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ ”بڑا زبردست رن پڑا اور بالاخر اہل اسلام اور اہل کفر دونوں اپنے اپنے پڑاؤ کی طرف پلٹے۔ مگر مسلم صف کا ایک آدمی پلٹنے کا نام نہیں لے رہا تھا۔ کفار کے منتشر افراد کا پیچھا کرنے میں سر گرم تھا۔ لوگوں نے رسول الله صلی الله علیہ وسلم سے عرض کیا حضور! آج فلاں نے جو جانبازی دکھائی اس کا جواب نہیں۔ آپ نے اس کا نام سن کر فرمایا:﴿ انہ من اھل النار﴾ مگر وہ دوزخی ہے۔ صحابہ چونک پڑے اور عرض گزار ہوئے کہ حضرت! اگر یہ آدمی دوزخی ہے تو پھر جنتی ہم میں سے کون ہو سکے گا؟ ایک صحابی نے خاموشی سے فیصلہ کیا کہ میں پلٹ کر جاؤں اور اس آدمی کا پیچھا کروں۔ شاید کوئی ایسی بات سامنے آجائے جس سے حضور صلی الله علیہ وسلم کے ارشاد کا راز کھلے! یہ پیچھے لگ گئے اور پھر پلٹ کر آئے کہ یا رسول الله! میں شہادت دیتا ہوں کہ آپ الله کے رسول ہیں۔ میں اس شخص کے پیچھے لگا۔ اس کی جرأت کے کارنامے دیکھتا رہا۔ حتی کہ وہ زخمی ہوا تو پھر اس کی ساری جرأت جواب دے گئی ۔ اس نے زخم کی تکلیف سے چھٹکارا پانے کے لیے اپنی تلوار کی نوک اپنے سینے میں اتارلی“۔ ( صحیح بخاری، کتاب المغازی،باب غزوہ خبیر) یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو ، حدیث شریف کے مطابق ، الله کی رضا او رجنت کی طلب میں نہیں بلکہ قومی اور جماعتی غیرت کے جذبے سے یا محض ناموری کے شوق میں جانبازی دکھاتے ہیں۔ ایسے لوگوں کے لیے آں حضرت صلی الله علیہ وسلم کا ارشاد ہے، جو اس واقعے کے بارے میں بخاری ہی کی ایک دوسری روایت میں آیا ہے کہ ( جنت میں تو صرف مومن ومسلم ہی جائے گا مگر)” ان الله لیؤید الدین بالرجل الفاجر“․ (کتاب الجہاد)
الله تعالیٰ اپنے دین کی خدمت فاجروں اور نافرمانوں سے بھی لیتا ہے۔
پس یاد رکھنے کی بات یہ ہے کہ الله نے جس طرح دنیا کی کامیابیوں کا عام قانون عقل کے ساتھ صبر، محنت او راستقامت کو بنایا ہے، بالکل یہی بات دین کی بھی ہے ۔ اس لیے کہ یہ دینِ فطرت ہے ۔ اگر یہ بات نہ ہوتی تو رسول الله صلی الله علیہ وسلم کو تئیس برس مکے کی آزمائشوں اور مدینے کی جانبازیوں میں ہر گز نہ گزارنے پڑتے۔ دین ودنیا کے مسئلے کا فرق صرف یہ ہے کہ دین میں کامیابی کی راہ جب کھلتی ہے جب صبر ومحنت کا نشانہ صرف الله کی رضا اور جنت کی طلب ہو۔ اسی سے ﴿صلوات من ربھم ورحمة﴾ کی منزل ہاتھ آتی ہے اور اسی سے ﴿ہم المھتدون﴾ کا مقام ملتا ہے اور اسی کا نام دین میں کامیابی ہے۔

Flag Counter