Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی رجب المرجب 1430ھ

ہ رسالہ

7 - 18
***
امام احمد بن حنبل ... بہ حیثیت ایک محدث
مولانا عبدالوحید پشاوری
حدیث اور فقہ کے امام، عابد وزاہد، جبل استقامت، حرمت قرآن کے پاسبان۔ یہ ہیں وہ عظیم شخصیت جو دنیا میں امام احمد بن حنبل کے نام سے متعارف ہے، علم حدیث میں ان کابڑا فیضان ہے ، بخاری ومسلم اور ابوداؤد جیسے ائمہ حدیث ان کے شاگرد تھے، یزید بن ہارون جو آپ کے ہم عصر، بڑے پایہ کے عالم تھے ان کی تعظیم کرتے تھے ، امام شافعی اور امام عبدالرزاق ان کے علم وفضل پر تحسین اور ان کے عزم واستقلال پرآفرین کہتے تھے، عباس عنبری نے کہا وہ حجت ہیں ، ابن مدینی نے کہا وہ احفظ ہیں اور قتیبہ نے کہا امام احمد بن حنبل دنیائے علم کے امام ہیں۔
امام صاحب کی ابتدائی تعلیم
امام صاحب کی تعلیم کا سلسلہ بچپن ہی سے شروع ہو گیا تھا ، چار سال کی عمر میں قرآن حفظ کر لیا اور سات سال کی عمر میں حدیث پڑھنا شروع کی اور پندرہ سال کی عمر میں اس کی باقاعدہ طلب وتکمیل میں مصروف ہو گئے ، اس زمانہ میں محدثین کرام عالم اسلام کے گوشہ گوشہ اور چپہ چپہ میں پھیلے ہوئے تھے ، چناں چہ بصرہ اور کوفہ میں بھی محدثین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی اور بغداد جو امام صاحب کا مولد بھی تھا تو خلافت اسلامیہ کا پایہٴ تخت اور مرکز بھی تھا ، یہاں محدثین کا ایک جم غفیر موجود تھا، یہ وہ مبارک زمانہ تھاکہ دیار وامصار میں علمائے حدیث کے گروہ اور طبقات پھیلے ہوئے تھے اور حدیث نبوی صلی الله علیہ وسلم کا نور ہر جگہ اپنی روشنی پہنچا رہا تھا۔
امام صاحب نے آنکھیں کھولتے ہی بغداد کو علماو فضلا کا مرکز اور دینی علوم کا گہواربنا ہوا پایا، اس لیے شروع میں وہ یہاں کے مشائخ واکابر کے دامن فیض سے وابستہ ہو گئے اور علمائے حدیث کے حضور حاضر ہو کر فن حدیث حاصل کرنے لگے، بغداد میں ان کی نظر میں سب سے پہلے مشہور محدث حافظ ہیثم بن بشیر واسطی پر پڑی، جو عبدالله بن عباس رضی الله عنہما اور ابن عمر کی مرویات کے متبحر عالم تھے، چار سال تک اسی خرمن علم کی خوشہ چینی اور اس سے استفادہ کرتے رہے اور اپنی علمی پیاس بجھاتے رہے ، اس دوران ان کا طریقہ اور معمول یہ رہا کہ مختلف فقہی مسائل اور معاملات کے سلسلہ میں فتاویٰ ماثورہ اور صحابہ وتابعین کے فیصلے ازبر کرتے رہے اور جوکچھ سنتے رہے اسے قلم بند بھی کرتے رہے۔
حصول حدیث کے لیے اسفار
بغداد میں جس قدر علم حدیث تھا حضرت امام صاحب نے اس کی تحصیل وتکمیل کی اور یہاں ایک طویل عرصہ تک قیام پذریر رہیپھر آپ باہر کی دنیا کی طرف متوجہ ہو گئے، چناں چہ طلبِ حدیث کے سلسلے میں اپنے علمی اسفار کا آغاز کیا، سب پہلے آپ بصرہ تشریف لے گئے ، وہاں مختلف شیوخ حدیث سے حدیث کا علم حاصل کرتے رہے ، اس کے بعد حجاز مقدس کا سفر اختیار کیا اور پھر مختلف منزلیں طے کرتے ہوئے وہ یمن پہنچے ، کوفہ میں بھی قدم رکھا ، ان کی تمنا تھی کہ ”رے“ بھی تشریف لے جائیں، مگر زاد میسر نہ ہونے کی وجہ سے اس سفر کی نوبت نہیں آئی۔
ایک عرصہ تک امام کے سفر وسیاحت کا سلسلہ جاری رہا، تاکہ وہ ائمہ حدیث کے منھ سے نکلے ہوئے اقوال کو براہ راست سنیں اور ان کو ضبط تحریر میں لائیں ، چناں چہ بصرہ کا سفر آپ نے پانچ مرتبہ فرمایا اور بعض دفعہ تو آپ نے کئی کئی ماہ تک قیام فرمایا، جہاں بعض شیوخ سے کسب فیض کرتے، کبھی کم مدت قیام فرماتے، کبھی زیادہ مدت۔ آپ نے حجاز مقدس کا سفر بھی پانچ مرتبہ فرمایا، پہلے سفر میں امام شافعی سے ملاقات ہوئی اور ان سے فقہ شافعی کے اصول ، حدیث ابن عینیہ کا حصول اوربیان ناسخ ومنسوخ کا حصول کیا ۔
اس کے بعد دوسری ملاقات ان سے بغداد میں ہوئی، جب امام شافعی بغداد تشریف لائے تھے ان کی کشکول میں فقہ اور اصول فقہ کے اور اق موجود تھے، اگرچہ کچھ عرصے بعد مصر میں ان کی فقہ اور اصول فقہ تک تنقیح کے مدارج طے کیے، لیکن امام صاحب اس فن میں پختہ ہو چکے تھے، چناں چہ معرفت حدیث میں امام شافعی ان کی رائے اور فکر کو مدار اعتماد قرار دیتے اور کبھی کبھی فرماتے ”اگر آپ کے پاس کوئی صحیح حدیث پہنچ جایا کرے تو مجھے بھی اس کی خبر کر دیا کیجیے، خواہ وہ کسی حجازی سے سے ہو یا شامی سے کسی عراقی سے یا یمنی سے۔
علم حدیث کے ساتھ شغف
علم حدیث کے ساتھ امام صاحب کا شغف مسلسل رہا، اس مقصد کے پیش نظر انہوں نے ہر جگہ علمائے حدیث کے دروازوں پر دستک دی، جہاں حدیث کا علم ملتا، جاتے اور اسے لے لیتے، حضرت امام صاحب ہی سب سے پہلے محدث ہیں جنہوں نے عالم اسلام کے ایک ایک گوشہ میں جاکر حدیث حاصل کی اور اس کی جمع وترتیب کا فریضہ انجام دیا، ہمارے اس دعوے کی شاہد صادق امام صاحب کی کتاب المسند ہے اس میں تناسب وترتیب کے ساتھ حجازی، شامی، عراقی ، بصری حدیثیں ملیں گی۔
طلب حدیث کے سلسلہ میں امام صاحب نے سارے اسلامی ممالک کا چکر کاٹا، نہ وہ محنت اور تکان سے گھبراتے تھے ، نہ زیادہ سے زیادہ حاصل کرکے بھی سیر ہوتے، کتابوں کا پلندہ ان کی پیٹھ پر ہوتا تھا ، چناں چہ ایک مرتبہ ان کے ایک شناسا نے انہیں حالت سفر میں دیکھا اور احادیث کی حفظ وروایت اور کتابت کی کثرت دیکھ کر اعتراض کرتے ہوئے کہا:
اتنا کچھ حفظ کرلیا، اتنا کچھ روایت بھی۔ حالت یہ ہے کہ آج کوفہ کا سفر پیش ہے تو کل بصرہ کا آخر کب تک اور کہاں تک یہ سلسلہ جاری رہے گا؟“
حدیث کی طلب اور روایت میں امام احمد بن حنبل کی سعی وکوشش کی کوئی انتہا نہ تھی، یہاں تک کہ جب وہ درجہ امامت پر پہنچ گئے تو ان کے ایک ہم عصر نے انہیں اس حال میں دیکھا کہ قلم و دوات ہاتھ میں ہے اور لکھے چلے جارہے ہیں تو وہ کہنے لگے۔
”ابو عبدالله! آپ اس مرتبہ بلند تک پہنچ گئے اور آپ کی حیثیت یہ ہے کہ امام المسلمین مانے جاتے ہیں پھر یہ آپ کیا کرتے ہیں ؟ “
آپ نے جواب میں فرمایا:
”جب تک قبر میں نہ پہنچ جاؤں، قلم ودوات کا ساتھ نہیں چھوٹ سکتا۔“ درحقیقت امام صاحب اس حکمت ماثورہ پر عمل کرتے تھے کہ ” آدمی وہی عالم ہے جو طلب علم میں مصروف رہے، جب وہ یہ خیال کرنے لگے کہ وہ عالم ہو گیا تو وہیں سے اس کا جہل شروع ہو گیا۔“
امام صاحب کے اساتذہ
حافظ ابن حجر نے اپنی کتاب تہذیب التہذیب ج1 ص72 پر امام احمد بن حنبل کے جن اساتذہ کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہیں:
بشر بن مفضل ، اسماعیل بن علیہ ، سفیان بن عیینہ، جریر بن عبدالمجید، یحییٰ بن سعید القطان ، ابو داؤد طیالسی، عبدالله بن نمیر، عبدالرزاق، علی بن عیاض حمصی، امام شافعی، معتمر بن سلیمان۔ اور علامہ ذہبی نے ان کے علاوہ ہیثم، ابراہیم بن سعد ، عبادہ بن عباد اور یحییٰ بن ابی زائدہ کا بھی ذکر کیا ہے۔
امام صاحب کے تلامذہ
حضرت امام احمد بن حنبل کو درس وتدریس میں کئی بار مشکلات اٹھانی پڑیں ، مامون الرشید کے عہدمیں جبراً آپ کو افتاء وتدریس سے روک دیا گیا، لیکن کسی دور میں بھی قید وبند کی صعوبتیں اور جبرواستبداد کی زنجیریں میدان تدریس میں آپ کا راستہ نہ روک سکیں اور علم حدیث میں آپ کا مقام سیل دوران کی مانند بڑھتا چلا گیا۔ حافظ ابن حجر عسقلانی آپ کے تلامذہ کی فہرست میں ان مشہور زمانہ محدثین کا ذکر کرتے ہیں۔
امام بخاری، امام مسلم، امام ابوداؤد، اسود بن عامر، شاذان اور ابن مہدی اور امام صاحب کے اساتذہ میں سے امام شافعی ابو الولید، عبدالرزاق، وکیع، یحییٰ بن آدم اور یزید بن ہارون نے آپ سے سماع کیا اور آپ کے زمانہ کے اکابرین میں سے قتیبہ، داؤد بن عمرو، خالف بن ہشام نے آپ سے سماع کیا ہے اور معاصرین میں سے احمد بن ابی حواری، یحیی بن معین ، علی بن مدینی، حسین بن منصور، زیاد بن منصور، زیاد بن ایوب، رحیم، ابو قدامہ سرخسی، محمد بن رافع اور محمد بن یحییٰ بن ابی سمیہ نے آپ سے سماع حدیث کیا اور عام تلامذہ میں سے آپ کے دو صاحبزادے عبدالله اور صالح اور ان کے علاوہ ابوبکر اثرم، حرب کرمانی، بقی بن مخلد، حنبل بن اسحق، شاہین بن سمیدع میمونی اور ان کے علاوہ بے شمار لوگوں نے سماع کیا۔
فن حدیث میں امام صاحب کا مقام
امام احمد بن حنبل بڑے بلند پایہ محدث اور تمام ان اوصاف وکمالات سے متصف تھے، جوکہ ایک امام حدیث میں ہونے چاہئیں ، ان کی قوت حافظہ بڑے غضب کی تھی، انہوں نے صرف چار سال کی عمر میں قرآن مجید حفظ کر لیا، مؤرخین کا بیان ہے کہ ان کے پاس بہت کتابیں تھیں اور وہ سب ان کو زبانی یاد تھیں ، علی بن مدینی ایک عظیم محدث ہیں فرماتے تھے کہ ان سے بہتر کسی کا حافظہ نہیں تھا، احمد بن سعید دارمی کہتے تھے ” امام احمد کی طرح باوجودیکہ وہ کم سن تھے ، کسی کو حدیثیں یاد نہیں تھیں“ ابوزرعہ فرماتے تھے کہ ہمارے مشائخ میں ان سے بڑا کوئی حافظ الحدیث نہیں تھا ان کو لاکھوں حدثیں یاد تھیں۔
آپ کی توثیق پر ائمہ فن کا اتفاق ہے، علامہ عملی کا بیان ہے کہ وہ حدیث میں ثقہ تھے، ابن سعد لکھتے ہیں کہ وہ ثقہ وثابت وصدوق تھے، امام نسائی ان کو ثقہ ومعتمد قرار دیتے تھے ، حافظ ابن حجر نے ان کومتقن کہا ہے ، ابن حبان نے ان کا ذکرثقات میں کیا ہے ، امام شافعی  فرماتے ہیں کہ بغداد کی عجیب چیزوں میں سے ایک نوجوان بھی تھا کم سنی کی وجہ سے جس کے بال بھی سیاہ نہیں ہوئے تھے، مگر جب وہ حدثنا کہتا تھا تو ہر طرف سے صدوق کی آوازیں سنائی دیتی تھیں۔
وہ حدیثوں کے معتبر ناقل وحافظ ہی نہیں تھے، بلکہ صحیح وغلط روایتوں میں امتیاز کا بھی پورا ملکہ رکھتے تھے ، ابو حاتم فرماتے ہیں کہ امام احمد بن حنبل کو صحیح وسقیم روایتوں کی معرفت میں بڑا کمال اور خالص امتیاز حاصل تھا۔ ابوعبید کا بیان ہے کہ وہ حدیث ورجال میں سب سے بہتر مہارت اور اچھی پرکھ رکھتے تھے ، امام شافعی کو ان کی بصیرت پر اس درجہ اعتماد تھا کہ اکثر فرمایا کرتے تھے کہ جب کوئی روایت تمہارے معیار پر صحیح وثابت اتر جائے تو مجھے بھی بتلا دو، میں اس کو بے تکلف قبول کروں گا ، عمر بن احمد ناقد کابیان ہے کہ حدیث میں احمد کی موافقت کے بعد مجھ کو دوسروں کی مخالفت کی پروا نہیں ہوتی۔
امام احمد بن حنبل چالیس سال کی عمر میں درس وتدریس کی مسند پر رونق افروز ہوئے، آپ کی مجلس درس بڑی باوقار، سنجیدہ اور شائستہ ہوتی تھی، لوگ مزاح ومزاق کا ایک کلمہ بھی زبان پر نہ لاتے۔ ابوعبید فرماتے ہیں کہ میں امام ابویوسف محمد بن حسن شیبانی ، یحییٰ بن سعید اور عبدالرحمن بن مہدی وغیرہ باکمال محدثین وفقہا کے دروس میں شریک رہا ہوں، لیکن امام احمد کی طرح مجھ پر کسی کی ہیبت ودہشت طاری نہیں ہوئی ، ان کی مجلس نہایت بارعب اور پروقار ہوتی تھی ، درس میں حاضرین اور شرکا کا جم غفیر ہوتا تھا، علمائے سیر کا بیان ہے کہ پانچ پانچ ہزار کی تعداد میں لوگ شریک ہوتے تھے۔
مرجعیت ومقبولیت
شہرت وناموری او رامامت وسیادت سے کنارہ کش رہنے کے باوجود عالم اسلام کا کوئی گوشہ بھی آپ کے آوازہٴ شہرت سے خالی نہ تھا، حافظ ابن کثیر لکھتے ہیں کہ عنفوان شباب ہی میں ان کو پوری شہرت حاصل ہو گئی تھی اور بڑھاپے میں تو ہر جگہ ان کا نام روشن ہو گیا تھا، آپ کے دروازے پر طلبہ کا ہجوم رہتا تھا، جب قید کیے گئے تو عالم اسلام میں کہرام مچ گیا ، بیمار ہوئے تو مزاج پرسی کے لیے لوگوں کا ایک جم غفیر ہر وقت موجود رہتا، جنازہ میں شرکت کرنے والے بے شمار تھے ، وہ عوام وخواص ہر طبقہ میں یکساں مقبول اور ہر دل عزیز تھے۔
تصانیف
امام احمد بن حنبل نے اپنے پیچھے بہت ساری کتابیں چھوڑیں جو آپ کے نام کی طرف منسوب ہیں، چند کے نام لکھے جاتے ہیں ۔
المسند کتاب الزھد الناسخ والمنسوخ المسلک الکبیر المسلک الصغیر فضائل الصحابة مناقب الصدیق والحسنین التاریخ کتاب الاشربة ۔اس کے علاوہ آپ نے ایک مسبوط تفسیر بھی مرتب فرمائی۔
اول الذکر کتاب ان تمام کتابوں میں سے زیادہ مشہور او رمستند کتاب ہے اور گویا کہ یہ آپ کے کارناموں میں سے ایک بڑا کارنامہ ہے ۔ اس کتاب ( المسند) کو آپ نے بیاض کی صورت میں جمع فرمایا تھا اور اس کی باقاعدہ ترتیب کے لیے آپ کو مہلت نہ ملی، اس لیے آپ کے بعد آپ کے صاحبزادہ حضرت عبدالله اور اس مسند کے راوی حضرت ابوبکر قطیعی نے اس میں کچھ زیادات کیے، پھر اس کی ترتیب کی خدمت حضرت عبدالله مذکور نے سرانجام دی ۔ یہ مسند 18 مسندوں کا مجموعہ ہے، جس میں کل چالیس ہزار اور بحذف مکرر تیس ہزار احادیث ہیں، جن کو امام صاحب نے ساڑھے سات لاکھ اور بقول حضرت ابوزرعہ کے دس لاکھ احادیث سے منتخب فرمایا، کیوں کہ امام احمد بن حنبل ایک عظیم حافظ الحدیث تھے، جن کو دس لاکھ تک احادیث زبانی یاد تھیں۔ اس مسند کے متعلق خود امام صاحب نے فرمایا ہے کہ ” اس کتاب کومعیار اور مرجع قرار دیا جائے اور جو حدیث اس میں نہ ہو اس کو غیر معتبر سمجھا جائے ۔“ (غیر معتبر احادیث سے وہ مراد ہیں جو شہرت یا متواتر المعنی کے درجہ کو نہ پہنچی ہوں ورنہ ایسی بہت سی احادیث صحیحہ مشہورہ ہیں جو اس مسند میں نہیں ہیں۔
امام احمد بن حنبل کے متعلق اکابرین امت کے اقوال
امام احمد بن حنبل کی شہرت نوجوانی کے زمانہ سے ہی چاردانگ عالم میں پھیلی، چناں چہ نیچے بڑے بڑے اکابرین امت کی آراء ان کے بارے میں پیش کی جاتی ہیں ۔
احمد بن سعید الرازی ان کے بارے میں لکھتے ہیں 
” میں نے کسی نوجوان کو حدیث رسول کا پختہمغز حافظ اور فقہ کا نکتہ رس عالم احمد بن حنبل سے زیادہ نہیں دیکھا۔“
امام مزنی  کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ امام شافعی نے فرمایا:
” دنیا کی عجائبات میں تین چیزیں ہیں:
ایک شخص عربی ہے، لیکن عربی کا ایک کلمہ بھی صحیح نہیں بول سکتا، وہ ہے ابو ثور ۔
دوسرا شخص عجمی ہے لیکن عربی کا ایک جملہ بھی غلط نہیں بول سکتا، وہ ہے حسن زغفرانی ۔
ایک نو عمر ہے ، لیکن جب کوئی بات کہتا ہے تو وقت کے اکابر اس کی تصدیق کرتے ہیں ،وہ ہے احمد بن حنبل  ۔
امام شافعی کے ایک شاگرد حرملہ بن یحییٰ فرماتے ہیں:
” میں بغداد سے رخصت ہوا وہاں میں نے اپنے پیچھے کسی شخص کو بھی احمد بن حنبل سے زیادہ خدا ترس، پارسا اور فقیہ نہیں چھوڑا۔“
امام احمدبن حنبل کے ایک ہم عصر وہم جلیس امام قاسم بن سلام کہتے ہیں۔
”علم چار آدمیوں پر ختم ہو گیا ہے احمد بن حنبل علی بن المدینی یحییٰ بن معین اور ابوبکر بن ابی شیبہ ا ور احمد بن حنبل ان سب سے زیادہ فقہ کے ماہر تھے، میں نے احمد بن حنبل سے زیادہ سنت رسول کا عالم کوئی اور نہیں دیکھا۔“
یحییٰ بن معین آپ کے بارے میں ارشاد فرماتے ہیں:
” خدا کی قسم احمد کی سی طاقت ہم میں کہاں؟ اور اس طریق پر ہم نہیں چل سکتے۔“
عبدالرحمن بن مہدی فرماتے ہیں:
”سفیان ثوری کی مروج حدیثوں کا سب سے بڑا عالم احمد بن حنبل ہے، جب بھی میں احمد ابن حنبل کو دیکھتا ہوں بے ساختہ سفیان ثوری یاد آجاتے ہیں۔“
امام ابوداؤد سجستانی فرماتے ہیں:
” میں نے دو سو ماہرین علم سے استفادہ کیا، لیکن ان میں امام احمد بن حنبل کے مثل کوئی نہ تھا، وہ کبھی عام دنیاوی کلام نہیں کرتے تھے، جب گفتگو کرتے تھے تو موضوع سخن کوئی علمی مسئلہ ہوتا۔“ اس طرح حافظ ابوزر عہ بھی کہتے تھے کہ امام احمد بن حنبل علم وفن میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔
وصال
امام احمد بن حنبل کو آخر زمانہ میں فتنہ خلق قرآن کے سلسلہ میں بڑے مصائب کوجھیلنا پڑے، لیکن الله تعالیٰ کے فضل سے آپ پھر بھی اس کے بعد 21 سال تک زند رہے او رخلق خدا کو حدیث کا فیض پہنچا تے رہے ، کوڑے مارکر جو اذیت وتکلیف آپ کو دی گئی تھی وہ آخر عمر تک باقی رہی، لیکن آپ پھر بھی ، عبادت وریاضت اور حدیث کا فیض لوگوں تک پہنچانے اور اس کے درس وتدریس میں ہمہ تن مصرف رہے، بالآخر 77 سال کی عمر میں واثق بالله کے عہد میں241 ھ میں جان جان آفرین کے حوالہ کر دی۔
انا لله وانا الیہ راجعون

Flag Counter