Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانی 1430ھ

ہ رسالہ

9 - 14
***
اسلام میں قیدیوں کے حقوق
محترم محمد جعفر ملی رحمانی
اسلام نے آج سے تقریباً ساڑھے چودہ سو سال قبل زیر حراست قیدیوں کو اذیت رسانی سے منع کیا ہے۔
لیکن محض اس لیے کہ یہ قانون اسلامی قانون ہے ، اس کے ساتھ لفظِ اسلام جڑا ہوا ہے ، اربابِ حل وعقد ، اصحابِ اقتدار واختیار اس کو نظر انداز کرتے رہے ، لیکن حق بات یہی ہے کہ اسلامی قوانین خواہ معاشرت ومعاملات کے متعلق ہوں یا نکاح وطلاق کی بابت، ان کا تعلق جرم وسزا سے ہو، یا وراثت وجائیداد کی تقسیم سے، عین فطرتِ انسانی کے مطابق ہیں۔
مگر وہ لوگ جن کے ہاتھوں میں زمامِ کار ہے ہمیشہ ان قوانین کو اپنے ملکوں میں نافذ کرنے سے گریزاں رہے، کیوں کہ یہ قوانین یا تو ان کے اپنے مخصوص افکار ونظریاتِ باطلہ سے متصادم ہیں، یا ان کو نافذ کرنے سے ان کے اپنے ذاتی مفادات ، اختیارات، عیش وعشرت اور بے لگام آزادی وبے راہ روی پر زد پڑتی ہے۔
مگرمشہورمثل ہے:”جادو وہ جو سر چڑھ کر بولے“ حق حق ہوتا ہے۔ اس پر جھوٹ اور غلط بیانی کی خواہ کتنی ہی دبیز اورموٹی چادریں ڈال دی جائیں وہ ایک نہ ایک دن ظاہر ہوکر اپنے فطری وطبعی حسن کا اپنے دشمنوں کو بھی قائل کرواتا ہے ، اسی کا مصداق ”قیدیوں کے حقوق سے متعلق اسلامی قانون“ ہے،جسے ہم دفعہ وار ذیل کی سطور میں لکھ رہے ہیں۔
دفعہ نمبر1:۔معاشرہ میں بعض لوگ اپنے جرائم وبد کاری کی پاداش میں عقوبت کے مستحق ہوتے ہیں اور قید کرنا عقوبت کی صلاحیت رکھتاہے اس لیے جرائم پیشہ افراد کو قید کرنے کی مشروعیت کتا ب اللہ، سنتِ رسول اللہ اور اجماع سے ثابت ہے اور عقل بھی اس کی متقاضی ہے ۔ ارشادِ خداوندی ہے:﴿أو ینفوا من الأرض﴾
ترجمہ: یا وہ ملک سے نکال دیے جائیں۔(مائدہ:33)۔
(قرآن کریم،تفسیر قرطبی، الموسوعة الفقہیة،سنن ترمذي،تبیین الحقائق، فتح القدیر)
دفعہ نمبر 2:۔ قیدیوں کے ساتھ حسنِ معاملہ ہو۔ جیسا کہ قرآن کریم میں اللہ تعالی کا ارشاد ہے :﴿یایہا النبي قل لمن فی أیدیکم من الأسری إن یعلم اللہ فی قلوبکم خیرا یوٴتکم خیرامما أخذ منکم ویغفرلکم واللہ غفوررحیم ﴾․
ترجمہ : اے نبی !ان قیدیوں سے کہہ دیجیے جو آپ کے ہاتھ میں ہیں کہ اگر اللہ کو تمہارے قلب میں نیکی کا علم ہوگا تو جوکچھ تم سے (فدیہ میں ) لیا گیا ہے اس سے بہتر تمہیں دے گاا ور تمہیں بخش دے گا او راللہ بڑ امغفرت والا ہے بڑا رحمت والا ہے ۔(أنفال:70)
دفعہ نمبر3:۔ قیدیوں کو کھانا کھلانا ، انہیں بھوکا نہ رکھنا،قیدیوں کا کھانا عام لوگوں کے کھانے سے جودت (QUALITY)اورکمیت (QUANTITY)میں کم نہ ہو ،بلکہ اس سے افضل ہو ۔جیسا کہ قرآن کریم کی اس آیت سے واضح ہوتاہے:﴿ ویطعمون الطعام علی حبہ مسکینا ویتیما وأسیرا﴾ ۔
ترجمہ : اور کھانا کھلاتے رہتے ہیں مسکینوں اور یتیموں او رغریبوں کو اللہ کی محبت سے ۔ (الدھر:8)
بقولِ محققین یہ آیت مخلوق کے ساتھ حسنِ سلوک کی تما م صورتوں کو شامل ہے،جس کی ایک اہم صورت کھانا کھلانا بھی ہے ۔ (تفسیر رازي، روح المعانی، تفسیرماجدي، معجم طبرانی)
دفعہ نمبر 4:۔قیدیوں کے ساتھ توہین وتذلیل کا معاملہ نہ ہو۔کیونکہ باری تعالی کا فرمان ہے:﴿والذین یؤذون الموٴمنین والموٴمنات بغیر ما اکتسبوا…﴾۔
ترجمہ: اور جو لوگ ایذا پہنچا تے رہتے ہیں ایمان والوں کو اور ایمان والیوں کو بدون اس کے کہ انہوں نے کچھ کیا ہو ، تو وہ لوگ بہتان اور صریح گنا ہ کا با ر اپنے اوپر لیتے ہیں۔(أحزاب:58)
(قرطبي،سنن ترمذي،مشکوة)
دفعہ نمبر5:۔قیدیوں کو ایسے کپڑے مہیا کیے جائیں جو موسم کے مناسب ہوں۔(تفسیرمظہري،صحیح بخاري)
دفعہ نمبر 6:۔قیدیوں کو زمانہ ٴ قید میں اپنے دین ومذہب کے شعائر پر عمل پیراہونے کی اجازت ہو ۔
دفعہ نمبر7:بعض دفعہ کسی شخص کو محض تہمت کی بنا پر گرفتار کیا جاتا ہے اور ثبوت جرم بھی فراہم نہیں ہوتا ہے،تو اگر اس شخص کاصلاح وتقوی معلوم ہو تو اس کو محض تہمت کی بنا پر گرفتار کرنا جائز نہیں ۔اوراگرگرفتار کیا جانے والا شخص ایسا ہے کہ اس کا فسق و فجور معلوم ہوتو اسے گرفتار کرناجائز ہی نہیں بلکہ اولیٰ ہے۔
دفعہ نمبر8: اگرتہمت کی بنا پر گرفتار کیا جانے والا شخص ایسا ہے کہ اس کا صلاح وتقوی اور فسق وفجور معلوم ومشہور نہ ہوتو اسے انکشافِ حال تک قید میں رکھا جاسکتا ہے۔(الموسوعة الفقہیة ،کتاب الخراج لأبی یوسف)
دفعہ نمبر9: اگر کسی شخص کوتہمت کی بنا پر گرفتار کیا گیا اور اس کے حالات (فسق وفجور ، صلا ح وتقوی)بھی معلوم نہ ہوں تو اس کوحالا ت کے ظاہر ہونے تک قید میں رکھاجا سکتا ہے،جس کی مدت بعض فقہائے کرام کے نزدیک ایک دن ،یا دو یا تین دن، بلکہ بعض نے تو ایک مہینہ کی بھی اجازت دی ہے ۔(الموسوعة الفقہیة)
دفعہ نمبر10:اگر کسی شخص کو شک وشبہ کی بنا پر قید کیا گیا او راس کا فسق وفجور لوگو ں میں مشہور ومعروف ہوتو اس کو اس کی حالت ظاہر ہونے او ر تحقیق طلب امور مکمل ہونے تک قید میں رکھا جائے گا، خواہ قید کی حالت ہی میں اس کی موت واقع ہو۔
دفعہ نمبر11:مذہبی امور ، مثلاً عبادت کرنا ، مذہبی کتابوں کا مطالعہ ، قیدیوں کے درمیان دعوتِ دین،اس کی مذہبی تعلیمات کے مطابق اس کے لیے غذافراہم کرنا،وہ جس مذہب پر عقیدہ رکھتا ہے اس مذہب کی مقد س شخصیتوں اورکتابوں کی بے حرمتی سے گریز کرنا،یہ تمام امور قیدیوں کے حقوق میں داخل ہیں ۔(قرآن کریم، تفسیر منیر، أحکام القرآن للجصاص،صحیح مسلم، الموسوعة الفقہیة، المقاصد الشرعیة، موسوعة القواعد الفقہیة)
دفعہ نمبر12:قیدی کے لیے مناسب غذا ، صاف پانی، موسم کے مناسب کپڑے،علاج معالجہ ،بیوی سے ازدواجی تعلق، جب کہ اسے اس کی حاجت ہو اور قید خانہ میں اس کے لیے مناسب جگہ کا انتظام ہو، اسی طرح حفظانِ صحت کے لیے ورزش وتفریح قیدی کے بنیادی حقوق میں داخل ہیں۔ (قرآن کریم، تفسیر رازي، الموسوعة الفقہیة، فتح القدیر، فتاوی ہندیہ، سنن بیہقي، شامي)
دفعہ نمبر13:اخبارات پڑھنا ، ریڈیوسننا ،فون پراحباب واقارب سے گفتگوکرنا،دوسرے قیدیوں سے ملاقات کرنا، تعلیم وہنر سیکھنے اور ان جیسے دیگر امور، قیدیوں کی اصلاح وفلاح اور معاشرہ میں شریفانہ زندگی گذارنے کا اہل بنانے کے وسیع مقاصد کو سامنے رکھتے ہوئے عالمی معیار نے یہ طے کردیا ہے کہ پوری دنیا سے ان کے ربط کو ختم نہیں کرنا چاہیے ، اس لیے قیدیوں کو یہ عام سماجی حقوق حاصل ہوں گے اور انہیں ان حقوق کا حاصل ہونا،قیدیوں کے سلسلے میں نظریہٴ شرعِ اسلامی کے خلاف بھی نہیں ہیں ، کیوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :((استوصوا بہم خیرا))۔ جس سے مفہوم ہوتاہے کہ قیدی ہر طرح کی خیر کے مستحق ہیں۔ (قرآن کریم ، تفسیر رازي، معجم طبرانی، فتاوی ہندیہ ،بدائع الصنائع)
دفعہ نمبر14:مردوں اور عورتوں کے لیے، اسی طرح بالغوں اور نابالغوں کے لیے الگ الگ قیدخانے ہونا نہ صرف قیدیوں کے حقوق میں داخل ہے، بلکہ ریاست پر اس کا انتظام لازم وضروری ہے،کیوں کہ ان سب کو ایک جگہ رکھنا مفاسد اور خرابیوں کا سبب ہے ۔ (قرآن کریم، مقاصد الشرعیة ، الموسوعة الفقہیة، محیط برہانی)
دفعہ نمبر15: قیدیوں سے سچی بات اگلوانے کے لیے سخت ٹھنڈک میں برف کی سلوں پر ڈال دینا،ان کو بے لباس کر دینا، انہیں مسلسل جاگتے رہنے پر مجبور کرنا، مارپیٹ کرنا ، بجلی کے جھٹکے دینا،ان پر کتے چھوڑنا،یہ سب افعال غیر انسانی ،غیر اخلاقی اور ظلم وزیادتی پر مبنی ہو نے کی وجہ سے غیر شرعی اور حرام ہیں۔اگرقیدی اس طرح کی سزاوٴں کے نتیجے میں اقبالِ جرم کریں تو شرعاً وہ معتبر نہیں ہوگااور نہ اسے بنیاد بنا کر سزاوٴں کا فیصلہ کرنا صحیح ہوگا۔(قرآن کریم، تفسیر منیر، البحر المحیط، معجم طبرانی، سنن ترمذی،رد المحتار، درمختار، بحر الرائق،کتاب الخراج، سیر کبیر)
دفعہ نمبر16:عام حالات میں قیدیوں کو زنجیروں میں جکڑنا ، ہتھکڑی پہنانا اور بیڑی ڈالنا جائزنہیں ہوگا،لیکن جب اس کے فرار ہونے کا اندیشہ ہو تو شرعاً اس کی اجازت ہوگی۔(بحر الرائق، مبسوط سرخسی، تنویر الأبصار، فتاوی ہندیہ،مصنف عبد الرزاق، تفسیرات احمدیہ)
دفعہ نمبر17:کسی مجر م کواس کے خصوصی جرم کے پس منظر میں اس طرح قید کرنا کہ پوری دنیاسے اس کے ربط وتعلق کے مواقع ختم ہوں شرعاً جائز ہونا چاہیے۔(قرآن کریم ، قرطبی ، بحر الرائق، رد المحتار،الموسوعة الفقہیة)
دفعہ نمبر18:جیل میں قیدیوں سے جبراً کام لینا شرعاً جائزنہیں ہے اور اگر لیا گیا تو وہ اس کام کی اجر ت کے مستحق نہیں ہوں گے، کیوں کہ اگر انہیں مستحقِ اجرت قرار دیا جائے تواس صورت میں جبراً عقدِ اجارہ کی صحت کا قائل ہونا لاز م آتا ہے ، جبکہ عقدِ اجارہ کی صحت کے لیے طرفین کی رضامندی شرط ہے اور یہاں یہ شرط مفقود ہے ، توجوکام قیدیوں سے جبراً لیے گئے اسے استہلاکِ منافع کہا جائے گا اور استہلاکِ منافع مضمون بالقیمت نہیں ہوتے ، اس لیے اس صورت میں قیدی اجرت کے مستحق نہیں ہوں گے۔(مبسوط سرخسی، تنویر، موسوعہ، نورالأنوار)
دفعہ نمبر19:جن قیدیوں کا مقدمہ ابھی زیرِ سماعت ہے اورجن کے بارے میں سزائے قید کا فیصلہ ہوچکا ہے ، قید خانوں میں باعتبارِ سلوک ان دونوں میں فرق کیا جانا جائز ہی نہیں بلکہ لازم ہے۔کیوں کہ ثبوتِ جرم کے فراہم ہوئے بغیر اس کے ساتھ وہ سلوک روا رکھنا جو ان مجرموں کے ساتھ کیا جاتا ہے جن کی سزا کا حکم صادر ہوچکا ، سراسر ظلم وزیادتی اور نا انصافی ہے، جو شرعاً ناجائز وحرام ہے۔(قرآن کریم، صحیح بخاری،صحیح مسلم، سنن ترمذی، کتاب الخراج)
دفعہ نمبر20:جس شخص کو تہمت کی بنا پر گرفتار کیا گیا اور اس کا فسق وفجور معلوم ومشہور ہویا وہ مجہول الحال ہو ،توظہورِ حال اور تحقیق طلب امورکی تکمیل تک اسے قیدخانہ میں رکھ سکتے ہیں،خواہ یہ زمانہٴ قید اس مدت سے زائد ہو، جواس کے اوپر عائد فردِ جرم کی اصل سزاہے۔(سنن ترمذی، موسوعہ)
دفعہ نمبر21:اگر قیدی معروف بالصلاح والتقوی ہے تو اسے محض تہمت کی وجہ سے قید خانہ میں رکھ کر ذہنی اذیت دینا یہ اعتدا اور ظلم ہے اور ظلم وزیادتی کی صورت میں ہرجانہ طلب کرنااس وقت درست ہوتاہے جب کہ اعتدا اورظلم کا تعلق عین سے ہو،جب کہ ذہنی اذیت کا تعلق عین سے نہیں، اس لیے مالی ہرجانہ طلب کرنا صحیح نہیں ہونا چاہیے۔(قرآن کریم، تفسیر منیر،موسوعہ،رد المحتار ،درر الحکام شرح مجلة الأحکام،کشف الأسرار)
دفعہ نمبر22:زیرِ سماعت قیدیوں کو قانونی صلاح ومشورہ کا حق حاصل ہے ، جو قیدی وکیلوں کے اخراجات برداشت کرسکتے ہیں انہیں اپنے وکیلوں تک حقِ رسائی ملنا چاہیے اور جو ایسا نہیں کرسکتے ان کے لیے قانونی نمائندگی کا بندوبست ریاست پر لازم ہوناچاہیے، کیوں کہ جو قیدی ثبوتِ جرم فراہم ہوئے بغیر قید خانہ میں رکھے گئے ہیں وہ مظلوم ہیں اوردفعِ ظلم ہر ایک کا اپنا حق ہے ، اگر وہ قانونی چارہ جوئی کے ذریعے اپنے اس حق کو حاصل کرنا چاہے تو انہیں اس کا حق حاصل ہوگا اور جو اس حق کو حاصل کرنے سے عاجزہیں انہیں ان کا حق دلانا ریاست کا فرض ہے ۔(قرآن کریم، تفسیرمنیر، صحیح بخاري، صحیح مسلم ،رد المحتار،موسوعہ )
دفعہ نمبر23:خواتین قیدیوں کو اپنے شیرخوار بچو ں کو جیل میں رکھنے کاحق حاصل ہے ، کیوں کہ ماں اور بچہ کو جدا کرنے سے بچہ کے ہلا ک ہونے کااندیشہ ہے ،نیز شریعت نے ما ں اوربچہ کو جداکرنے سے منع فرمایا ہے، لہذا حکومت کو زمانہٴ حبس میں شیر خوار بچے کو اپنی ماں سے جداکرنے کاحق حاصل نہیں ہونا چاہیے۔(سنن ترمذی، مستدرک حاکم، موسوعہ، دررالحکام، النظریات الفقہیة)
ضروری انتباہ
آج دنیا میں جرائم کی بھرمار ہے اور امن عامہ کو برقرار رکھنے والے ادارے اور ایجنسیاں انتہائی جدید ترین اسلحوں اور آلات سے مالا مال ہونے کے باوجودجرائم پیشہ افراد ، جرائم کی واردات کرنے میں کامیاب ہورہے ہیں، اخبارات میں صفحہ جرائم پڑھنے اور الکٹرانک میڈیاپر واردات جرائم دیکھنے پر انسانیت کا سر مارے شرم کے جھک جاتا ہے اور ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ ”کیا ان جرائم کو انجام دینے والے انسان ہیں؟“تو ان کی شکلوں اور صورتوں کو دیکھ کر خودہی جواب مل جاتا ہے کہ ہاں! یہ انسان ہی ہیں، تو پھر دوسرا سوال یہ کھڑا ہوتا ہے کہ جب یہ انسان ہیں تو انہوں نے ایسی انسانیت سوز حرکتیں کیوں کیں؟ اس کا جواب فوراً نہیں ملتا، بلکہ وہ غور وفکر کا متقاضی ہے، بعد از غور وفکر اس کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے :
ان جرائم پیشہ افراد کو جو تعلیم دی جارہی ہے اور جس ماحول میں وہ پرورش پارہے ہیں اس میں اخلاقیات نام کی کوئی کتاب ان کو نہیں پڑھائی جاتی اور نہ جس ماحول میں وہ تربیت پارہے ہیں اس میں انسانیت نام کا کوئی درس ان کو دیا جاتا ہے، بلکہ تعلیم وتربیت دونوں میں پورا پورا زور صرف اور صرف مادیت (Materiality) پر ہے، کہ کس طرح انسان کم وقت میں زیادہ سے زیادہ منافع کماکر اپنی اس دنیا کو اپنے لیے عیش کدہ بناسکتا ہے اور کس طرح وہ چاند پر آثار حیات تلاش کرکے انسانی آبادی کو وہاں قائم کرسکتا ہے (یہ سب ترقیات مبارک ہوں)،مگر کبھی ہم نے اس نکتہ پر بھی غور کیا کہ انسان خواہ کتنی بھی ترقی کرلیں، زمین کو چھوڑ کر چاندپر رہنا بھی شروع کردیں تو کیا وہ بنا اخلاقیات وانسانیت کے سکون و چین کی زندگی گزارسکتا ہے ؟ نہیں، ہر گز نہیں؛چین وسکون کی زندگی کے لیے انسان کو درسِ انسانیت دینا ضروری ہے ، اس کے بغیر نہ تو وہ خود سکون سے رہ سکے گا اور نہ دوسروں کو سکون سے رہنے دے گا۔
اس لیے جدید تعلیم سے کہیں زیادہ ایسی اخلاقی تعلیم کی ضرورت ہے جو انسانیت نوازی ، ایک دوسرے کے احترام اور خیر خواہی وہمدردی کے جذبات پیدا کرے ، نہ کہ ایسی تعلیم جو قبل از وقت ہی اس کو ماں باپ بنادے ، اور ہماری قدیم تہذیب وثقافت سے وہ ہاتھ دھو بیٹھے۔
امید ہے کہ دانشورانِ ملک وملت اور رہبرانِ قوم اس جانب ضرور بالضرور توجہ دیں گے۔

Flag Counter