Deobandi Books

ماہنامہ الفاروق کراچی جمادی الثانی 1430ھ

ہ رسالہ

7 - 14
***
حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر
ادارہ
حضرت مولانا محمد سرفراز خان صفدر کا نام علمائے دیوبند سے محبت کرنے اور ان سے تعلق رکھنے والوں کے لیے ہر گز اجنبی نہیں۔ 5مئی2009ء کو حضرت مولانا انتقال فرماگئے۔ آپ کی شہرت جہاں آپ کی عظیم دینی، تبلیغی اور تصنیفی خدمات ہیں وہیں گوجرانوالہ کا مدرسہ نصرة العلوم بھی آپ کی عظیم الشان خدمت کا شاہکار ہے، جہاں ایک دنیا دینی علوم سے فیض یاب ہونے کے لیے رابطہ کرتی ہے اور سینکڑوں طلبہ حصولِ علم دین کرتے ہیں۔
حضرت مولانا سرفراز خان صفدر 1914ء میں ضلع ہزارہ تحصیل مانسہرہ (موجودہ ضلع مانسہرہ) کی ایک غیر معروف بستی ڈھکی چیڑاں داخلی ”کڑمنگ بالا“ کے ایک متوسط گھرانے میں پیدا ہوئے۔
بچپن ہی میں والدین کا انتقال ہوگیا۔ اس لیے تعلیم حاصل کرنا بہت مشکل ہوگیا ۔ تاہم کسی بزرگ نے انھیں اور ان کے چھوٹے بھائی حضرت مولانا صوفی عبدالحمید خان سواتی کو دینی تعلیم حاصل کرنے کے لیے مدرسے جانے کا مشورہ دیا۔ چنانچہ دونوں بھائی اپنے آبائی گاؤں کے قریب قصبہ بفہ میں حضرت مولانا غلام غوث ہزاروی کے مدرسے چلے گئے۔ یہاں کچھ عرصے تعلیم حاصل کرنے کے بعد سیالکوٹ، ملتان، کوئٹہ وغیرہ کے مدارس میں درسِ نظامی کی ابتدائی کتب کی تعلیم حاصل کی۔ پھر مزید تعلیم کے لیے گوجرانوالہ کی قدیم دینی درس گاہ مدرسہ انوارالعلوم، جامع مسجد شیرانوالہ باغ، گوجرانوالہ میں داخلہ لیا اور حضرت مولانا عبدالقدیر سے مزید تعلیم حاصل کی۔
آپ  کے چھوٹے بھائی مولانا صوفی عبدالحمید سواتی جنھوں نے گوجرانوالہ میں مدرسہ نصرت العلوم کی بنیاد رکھی، آپ ہی کے ساتھ گوجرانوالہ میں زیر تعلیم تھے، اگرچہ تعلیمی لحاظ سے دو سال پیچھے تھے۔ مولانا صفدر کا ارادہ تھاکہ مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے دارالعلوم دیوبند جائیں، لیکن اپنے بھائی کی وجہ سے ارادہ دو سال کے لیے منسوخ کردیا کہ دونوں بھائی ایک ساتھ دیوبند جاکر تعلیم حاصل کریں تو بہتر ہوگا۔ چناں چہ اس دوران حضرت مولانا صفدر مدرسہ انوارالعلوم میں تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔
دونوں بھائی 1940ء میں تکمیل تعلیم کے لیے دیوبند تشریف لے گئے، جہاں آپ نے شیخ العرب والعجمحضرت مولانا سید حسین احمد مدنی نوراللہ مرقدہ اوردیگر اکابرامت سے فیض حاصل کیا۔
دارالعلوم دیوبند سے فراغت پر مولانا سرفراز خان صفدر گوجرانوالہ واپس آگئے اور استادِ محترم کے حکم سے تدریس شروع کردی۔ آپ کی شہرت جب گکھڑ منڈی تک پہنچی تو وہاں کے چند دین دار حضرات مولانا کی خدمت میں آئے اور انھیں گکھڑ منڈی میں دین کی خدمت کی دعوت دی۔ چنانچہ وہاں باقاعدہ جامع مسجد بوہڑ والی میں خطابت و امامت کے فرائض انجام دینے لگے۔
گکھڑ منڈی کی فضا اس وقت شرک و بدعت کی آلودگیوں سے پُر تھی اور یہ حالت انتہائی تکلیف دہ تھی۔ مولانا صفدر نے ان حالات میں لوگوں کی مخالفت کی پروا کیے بغیر اصلاح عقائد واعمال کا کام شروع کردیا۔
روحانی سلسلہ
پاکستان تشریف لانے کے بعد دینی تعلیم کے فروغ میں مصروف ہوگئے۔ پنجاب میں ان دنوں حضرت مولانا حسین علی کے دورئہ قرآن کا شہرہ تھا۔ اس دورہ میں شرکت کے لیے حضرت مولانا حسین علی کی خدمت میں حاضر ہوئے اور پھر انھی سے نقشبندی سلسلے میں بیعت ہوکر روحانی سلسلے میں شامل ہوگئے۔
معمولات میں باقاعدگی
جب تک صحت نے اجازت دی، اپنی تدریس کی ذمے داری بحسن و خوبی ادا کرتے رہے۔ ناغے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا، کوششفرماتے کہ جہاں جانا ہے، وعدے کے مطابق وقت پر پہنچیں۔ ایک دفعہ ضلع گوجرانوالہ میں منڈیالہ تیگہ اور فیوز والا سے آگے کوٹلی ناگرہ نامی ایک بستی میں تبلیغی جلسہ تھا۔ مولانا صفدر نے اس جلسے میں تشریف لانا تھا۔ اتفاق ایسا ہوا کہ نماز عصر سے قبل تیز بارش شروع ہوگئی۔ بارش کی وجہ سے کوٹلی ناگرہ دوسری بستیوں سے تقریباً کٹ جاتی تھی۔ ا ب تو کسی حد تک کچا راستہ موجود ہے، پہلے یہ بھی نہ تھا۔ مغرب کے بعد قریبی بستیوں سے حضرت کے عقیدت مند موسم کی خرابی کے باوجود طے شدہ مقام پر جمع ہونا شروع ہوگئے۔ بارش اگرچہ مغرب سے پہلے ختم ہوچکی تھی، لیکن راستہ انتہائی خراب ہونے کی وجہ سے حضرت مولانا صفدر کی آمدکی امید بالکل نہ تھی۔ جو مہمان دوسرے دیہاتوں سے آئے ہوئے تھے، انھیں کھانا کھلایا گیا۔ کھانے سے فارغ ہوئے تو اچانک دیکھا کہ مولانا شلوار گھٹنوں تک اٹھائے کیچڑ میں بھرے ہوئے مسجد کے دروازے سے اندر داخل ہورہے ہیں۔ سب کو بڑی حیرت ہوئی کہ وہ کیسے یہاں تک پہنچ گئے۔ استفسار پر بتانے لگے کہ منڈیالہ تیگہ سے پیدل چل کر آیا ہوں۔ منڈیالہ تیگہ سے کوٹلی ناگرہ کا فاصلہ تین میل ہے۔
سیاست کے میدان میں
مولانا سرفراز خان صفدر کا مزاج سیاسی نہ تھا، بلکہ علمی و تبلیغی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کو ترجیح دیتے تھے، البتہ بعض مواقع پر سیاست میں عملی طور پر حصہ لیا، تاہم فراغت کے بعد عملی سیاست سے دور ہی رہے۔ 1940ء میں جب آپ دارالعلوم دیوبند میں زیر تعلیم تھے تو فرنگی دور تھا اور تحریک آزادی عروج پر تھی۔ جب انگریزی حکومت نے حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی کو گرفتار کیا تو مولانا مدنی کی رہائی کے لیے دارالعلوم دیوبند کے طلبہ نے جو پہلا احتجاجی جلوس نکالا، اس کی قیادت حضرت مولانا صفدر نے کی۔
پاکستان بننے کے بعد تحریک ختم نبوت یا پاکستان قومی اتحاد کے لیے کام کیا اور اس دوران جیل بھی گئے۔
گھریلو زندگی
حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نے دو شادیاں کیں۔ دونوں بیویاں آپ کی حیات ہی میں فوت ہوچکی تھیں۔ دونوں بیویوں سے آپ کے 9 بیٹے اور 3 بیٹیاں ہیں ۔ تین بیٹے بچپن ہی میں وفات پاگئے۔ تمام بیٹوں اور بیٹیوں نے حفظ قرآن کیا اور سبھی دین کی خدمت میں مصروف ہیں۔
فتویٰ نویسی
فتویٰ نویسی ایک دشوار کام ہے، لیکن دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا صفدر نے فتویٰ نویسی کے کام میں بھی مہارت حاصل کی اور اپنے اکابر و اسلاف کے نقش قدم پر چلتے ہوئے کبھی راہِ اعتدال سے نہ ہٹے۔ مدرسہ نصرت العلوم میں صدر مفتی بھی رہے۔ ملک بھر کے علمی و تحقیقی حلقوں میں آپ کے فتاویٰ قدر و منزلت کی نگاہ سے دیکھے جاتے ہیں۔
تصانیف
حضرت مولانا سرفراز خان صفدر نے دین حق کی سربلندی کے لیے کتابیں بھی تصنیف فرمائیں۔ آپ کی کل کتابوں کی تعداد 60 بنتی ہے۔ چند مشہور کتابیں یہ ہیں:
راہِ سنت، احسن الکلام، گلدستہٴ توحید، تبریدالنواظر، باب جنت، حکم الذکر بالجہر، چالیس دعائیں، طائفہ منصورہ، تسکین الصدور، سماع موتیٰ، مقام ابی حنیفہ، تنقید متین، ختم نبوت قرآن و سنت کی روشنی میں، عمدة الاثاث، تفریح الخواطر، ارشاد الشیعہ، ازالة الریب، اظہار العیب، اتمام البرہان فی رد توضیح البیان (چار حصے)، ملا علی قاری اور مسئلہ علم غیب و حاضر و ناظر، الشہاب المبین، المسلک المنصور، عبارات اکابر، بانی دارالعلوم، ضوء السراج، عیسائیت کا پس منظر، الکلام المفید، مسئلہ قربانی، آئینہ محمدی، تبلیغ اسلام، اخفا ء الذکر، راہِ ہدایت، حلیة المسلمین، دل کا سرور، شوقِ حدیث، صرف ایک اسلام، انکارِ حدیث کے نتائج، ینابیع ترجمہ رسالہ تراویح، درود شریف پڑھنے کا شرعی طریقہ۔
حضرت مولانا سرفراز خان صفدر کا انتقال 5مئی کی صبح دو بجے ہوا۔ آپ کی عمر اس وقت 95 برس تھی۔ الله تعالیٰ آپ کی کامل مغفرت فرمائے، درجات بلند فرمائے او رجنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین۔

Flag Counter